السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تین سوالات پیدا ہو گئے۔
ان تین سوالات کے جواب سے آپ مزید 30 سوالات بھی کشید کر سکتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں ؛
حکمت چین اور حجت بنگال!!
قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!
دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
بھائی جان ! آپ سے کئی بار گذارش کی ہے، تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
اور ایک چوتھا سوال یہ کہ میں تو ایک عام عالم سے پوچھ رہا ہوں۔ امام بخاری سے نہیں تو میں نے اس کی تقلید کی یا نہیں؟
نہیں ! اس صورت میں نہ آپ نے عام عالم کی تقلید کی نہ امام بخاری کی!!