• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
" کیا بتاؤں کسی بڑے امام کی تقلید چھوڑنے پرہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی تقلید کرنی پڑ رہی تھی اس لئے میں نے یہ سوچا کہ جب تقلید ہی کرنی تو کسی بڑے امام کی تقلید کیوں نہ کی جائے اس لئے میں دوبارہ امام ابو حنیفہ کا مقلد ہوگیا "
بلکہ :
’’مسئلہ تو مسجد کے امام سے ہی پوچھنا ہے ، کسی امام کی رائے پوچھنے کی بجائے حضور کا فرمان پوچھ لینا ہی بہتر ہے ‘‘
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
اسلام ۔ سمع اور طاعت۔کانام ہے خواہ عقل میں آے یا نہ آے ۔جب کسی کے پاس اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہونچے تو اسے فورا ۔آمنا و صدقنا۔کہنا چاہئے ۔توحید باری تعالی کے دلائل تو عقل میں آسکتے ہیں لیکن دیگر احکام کا عقل کی کسوٹی پر اترنا کوئی ضروری نہیں ہے اسی لئے علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ۔۔ اگر دین عقل کے مطابق ہوتا تا موزے پر مسح اوپر کی بجاے نیچے ہوتا کیونکہ عقل کہتی ہے کہ چلتے وقت گردوغبار نیچے لگتا ہے نہ کہ اوپر لہذا مسح بھی نیچے ہونا چاہئے لیکن اسلام نے اوپر مسح کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ نیچے ۔اسلئے کوئی ضروری نہیں کہ اسلام کے سارے احکام عقلی کسوٹی پر اترے اسلئے اسلام میں سمع و طاعت ہے ۔اللہ اوراسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنا اب اس پر ایمان لانا اور اسپر عمل کرناہے ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
بہرام صاحب اگر آپکو کسی بڑے امام کی بات لینا تھی تو ایسے بڑے امام کی بات لیتے جسکو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بنایاتھا یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ یا چاروں خلفاء میں سے کوئی ایک ۔جنکی بات ماننے کی دلیل بھی ہے لیکن انکو چھوڑ کر ایک ایسے امام کی تقلید کرتے ہیں جسکی بات ماننے کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور جسکی بیشتر مسائل میں مخالفت خود انکے شاگردوں نے کی ہے جیسے امام ابو یوسف اور امام محمد وغیرھما۔۔۔ دنیا تو گئی چاند ستاروں سے بھی آگے اور ہم اسی تقلید کے چکر میں پڑے ہیں ۔اللہ ہم سب کو توحید اوراتباع نبی کی توفیق دے۔آمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہرام صاحب اگر آپکو کسی بڑے امام کی بات لینا تھی تو ایسے بڑے امام کی بات لیتے جسکو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بنایاتھا یعنی ابوبکررضی اللہ عنہ یا چاروں خلفاء میں سے کوئی ایک ۔جنکی بات ماننے کی دلیل بھی ہے لیکن انکو چھوڑ کر ایک ایسے امام کی تقلید کرتے ہیں جسکی بات ماننے کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور جسکی بیشتر مسائل میں مخالفت خود انکے شاگردوں نے کی ہے جیسے امام ابو یوسف اور امام محمد وغیرھما۔۔۔ دنیا تو گئی چاند ستاروں سے بھی آگے اور ہم اسی تقلید کے چکر میں پڑے ہیں ۔اللہ ہم سب کو توحید اوراتباع نبی کی توفیق دے۔آمین
جوش بھائی ! آپ غلط سمجھ رہے ہیں !!
یہ صاحب، کوفہ کے امام کی تقلید نہیں کرتے! ان کو خود نہیں معلوم کے ان کے امام زمانہ کہاں ہیں؟ اسی لئے وہ امام غائب کہلاتے ہیں، اور یہ ہنوز امام منتظر کے منتظر ہیں!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

فی الحال مان لیتا ہوں !! چہ معنی دارد؟؟ اگر کوئی نقد ہے تو پیش کرو!!

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَکے عموم میں داخل ہے، یہ بھی تقلید سے خارج ہے!!
اور اگر آپ پھر بھی اسے تقلید شمار کرنے پر بضد ہیں، تو اپنے تمام اساتذہ کے بھی مقلد قرار پاتے ہو، پھر آپ امام صاحب کے مقلد نہیں بلکہ اپنے اساتذہ کے مقلد ٹھہرتے ہو!! کیونکہ امام صاحب کی قبر پر جا کر تو آپ نے کوئی سبق ان سے نہ پڑھا ہوگا، اور نہ انہوں نے آپ کو کوئی تفسیر پڑھائی ہو گی ، نہ کو ئی حدیث اور اس کی شرح، نہ کوئی فقہی قاعدہ!!
ہاں اگر آپ حنفیوں کے ایک شیخ الاسلام کی طرح امام صاحب سے 15 سال تک عالم رویا میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہو تو الگ بات ہے!!
غصہ میں معلوم ہوتے ہیں۔ بری بات ہے غصہ نہیں کیجیے۔
آپ فرماتے ہیں یہ تقلید میں داخل نہیں ہے۔ اچھا
اب میں نے عربی کا ترجمہ تو بغیر دلیل و علم کے ایک عالم سے پوچھ لیا۔ اب مجھے اس حدیث کی استنادی حیثیت کا علم نہیں ہے۔ میں کسی عالم سے پوچھتا ہوں اور وہ مجھے بتاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اب مجھے تو علم نہیں کہ صحیح کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ میں نے بغیر علم اور بغیر دلیل کے اس کی بات مان لی۔ کیا یہ تقلید ہے یا یہ بھی نہیں ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکارتہ!
غصہ میں معلوم ہوتے ہیں۔ بری بات ہے غصہ نہیں کیجیے۔
جزاک اللہ خیر!! اشماریہ بھائی! کبھی مزاج میں سختی اور غصہ تو آجاتا ہے، ویسے یقین جانئے، میں جلد مان بھی جاتا ہوں!!
آپ فرماتے ہیں یہ تقلید میں داخل نہیں ہے۔ اچھا
اب میں نے عربی کا ترجمہ تو بغیر دلیل و علم کے ایک عالم سے پوچھ لیا۔ اب مجھے اس حدیث کی استنادی حیثیت کا علم نہیں ہے۔ میں کسی عالم سے پوچھتا ہوں اور وہ مجھے بتاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اب مجھے تو علم نہیں کہ صحیح کیا ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ میں نے بغیر علم اور بغیر دلیل کے اس کی بات مان لی۔ کیا یہ تقلید ہے یا یہ بھی نہیں ہے؟
مندرجہ ذيل تھریڈ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے:
کیا یہ بھی تقلید ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکارتہ!

جزاک اللہ خیر!! اشماریہ بھائی! کبھی مزاج میں سختی اور غصہ تو آجاتا ہے، ویسے یقین جانئے، میں جلد مان بھی جاتا ہوں!!

مندرجہ ذيل تھریڈ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے:
کیا یہ بھی تقلید ہے؟
آپ نے اس تھریڈ میں تحریر فرمایا:
نہیں یہ تقلید نہیں !! کیونکہ کسی حدیث کی صحت پر حکم لگاتے ہوئے ، محدث کی حثیت ایک قاضی کی سی ہے، کہ وہ دلائل و قرائین کی روشنی میں اس کی صحت پر حکم لگاتا ہے!! اور اسے تسلیم کرنا تقلید نہیں!!
اب تین سوالات پیدا ہو گئے۔
قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟

اور ایک چوتھا سوال یہ کہ میں تو ایک عام عالم سے پوچھ رہا ہوں۔ امام بخاری سے نہیں تو میں نے اس کی تقلید کی یا نہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تین سوالات پیدا ہو گئے۔
ان تین سوالات کے جواب سے آپ مزید 30 سوالات بھی کشید کر سکتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں ؛
حکمت چین اور حجت بنگال!!
قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!
دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
بھائی جان ! آپ سے کئی بار گذارش کی ہے، تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
اور ایک چوتھا سوال یہ کہ میں تو ایک عام عالم سے پوچھ رہا ہوں۔ امام بخاری سے نہیں تو میں نے اس کی تقلید کی یا نہیں؟
نہیں ! اس صورت میں نہ آپ نے عام عالم کی تقلید کی نہ امام بخاری کی!!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ان تین سوالات کے جواب سے آپ مزید 30 سوالات بھی کشید کر سکتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں ؛
حکمت چین اور حجت بنگال!!


حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!

معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!

قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
بھائی جان ! آپ سے کئی بار گذارش کی ہے، تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!

نہیں ! اس صورت میں نہ آپ نے عام عالم کی تقلید کی نہ امام بخاری کی!!
میرے کسی بھی سوال کا واضح جواب نہیں ملا۔

حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!
شریعت کی شہادت کا قانون معلوم بھی ہے؟ گواہ گواہی دیتا ہے یا گواہ کا گواہ۔ اور اگر کتابت قاضی ہو تو ختم قاضی بمع گواہ ہوتے ہیں۔
میں محدث ہوں اگر اور یحیی بن معین کے قول کے مطابق حدیث پر فیصلہ کروں تو یہ سب چیزیں کہاں ہیں؟؟

باپ اور رشتہ داروں کا فیصلہ بطور ثالث ہوتا ہے بطور قاضی نہیں۔ اس لیے نفاذ بھی اس طرح نہیں ہوتا۔
کس حدیث میں ہے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کو صحیح کہے تو اس پر عمل کرو؟ یا آیت کونسی ہے؟
اور اگر یہ حدیث یا آیت میں موجود نہیں ہے تو آپ نے یہ استدلال کہاں سے کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ جہاں سے آپ نے محدث کی اس شاندار حیثیت پر استدلال کیا ہے وہاں سے مجتہد پر نہیں ہو سکتا؟؟

معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں اسے ثابت کیجیے۔
آپ کی مثال کو میں موقع سے غیر متعلق جان کر کچھ نہیں کہتا۔

قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟

نہیں ! اس صورت میں نہ آپ نے عام عالم کی تقلید کی نہ امام بخاری کی!!
اس نے تو مجھے مندرجہ بالا دلائل بتائے ہی نہیں۔ اس نے تو یہ کہا ہے کہ یہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ میں ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے کسی بھی سوال کا واضح جواب نہیں ملا۔
باقی کا جواب تو بعد میں تحریر کرتا ہوں ۔ مگر ابھی اتنا کہتا چلوں کہ:
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
 
Top