• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حضرت عیسٰی علیہ السلام ۔ آیت 253 ب

حضرت عیسٰی علیہ السلام

وَآتَيْنَا ۔۔۔ عِيسَى ۔۔۔ ابْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ مَرْيَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْبَيِّنَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَأَيَّدْنَاهُ
اور دی ہم نے ۔۔۔ عیسی ۔۔ بیٹے ۔۔ مریم ۔۔ کھلی نشانیاں ۔۔ اور تائید کی ہم نے اس کی
بِرُوحِ ۔۔۔ الْقُدُسِ ۔۔۔ وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ مَا اقْتَتَلَ
ساتھ روح ۔۔۔ مقدس ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ لڑتے
الَّذِينَ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدِهِم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جَاءَتْهُمُ
وہ لوگ ۔۔ سے ۔۔ ان کے بعد ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ بعد ۔۔ جو ۔۔۔ آچکا ان کے پاس
الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔ وَلَكِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخْتَلَفُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمِنْهُم ۔۔۔ مَّنْ
صاف حکم ۔۔ اور لیکن ۔۔ اختلاف کیا انہوں نے ۔۔ پس ان میں ۔۔ جو
آمَنَ ۔۔۔ وَمِنْهُم ۔۔۔ مَّن ۔۔۔۔۔۔۔ كَفَرَ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔ مَا
ایمان لایا ۔۔ اور ان میں ۔۔ جو ۔۔ کفر کیا ۔۔ اور اگر ۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔ نہ
اقْتَتَلُوا ۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ يَفْعَلُ ۔۔۔۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُرِيدُ 2️⃣5️⃣3️⃣
وہ آپس میں لڑتے ۔۔۔ اور لیکن ۔۔ الله ۔۔ وہ کرتا ہے ۔۔ جو ۔۔ وہ چاہتا ہے

وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ. 2️⃣5️⃣3️⃣

اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسی کو کھلے معجزے دئیے اور اس کو روح القدس یعنی جبرائیل سے قوت دی اور اگر الله تعالی چاہتا تو جو لوگ ان پیغمبروں کے بعد ہوئے آپس میں نہ لڑتے اس کے بعد کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچے لیکن ان میں اختلاف پڑ گیا اور پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله تعالی چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن الله تعالی جو چاہے وہ کرتا ہے ۔

اِبْنِ مَرْیَم ( مریم کا بیٹا ) ۔
اس لفظ سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں عیسائی خدا یا خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں ۔ حقیقت میں مریم علیھا السلام کے بیٹے ہیں ۔ خدا یا خدا کے بیٹے نہیں ہیں ۔ وہ شکل و صورت میں ایسے ہی انسان ہیں جیسا کہ دوسرے اور ضروریاتِ انسانی میں بھی دوسرے انسانوں جیسے ہیں ۔
اَلْبَیّنات ( کھلے معجزے ) ۔
ان سے مراد وہ تمام کُھلی ہوئی نشانیاں اور معجزے ہیں جو عیسٰی علیہ السلام کو دئیے گئے تھے ۔ جنہیں دیکھ کر ہر عقلمند اور انصاف پسند آدمی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نبی مان لینے پر مجبور ہوا ۔
رُوْحُ الْقُدُسِ ( روح القدس ) ۔
قرآن مجید کی اصطلاح میں اس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ وہ اگرچہ بہت مقرب فرشتہ ہیں ۔ تاہم الله تعالی کی مخلوق ہیں اور عیسائی جو انہیں تین خداؤں میں سے ایک خدا سمجھتے ہیں غلطی پر ہیں ۔ فرشتہ بھلا خدا کیسے ہو سکتا ہے ۔
اَیَّدْنَاہ ( اور اس کو ہم نے قوت دی ) ۔
اگرچہ عیسٰی علیہ السلام بڑے کمال اور فضل کے مالک تھے ۔ پھر بھی آپ انسان ہی تھے ۔ اور انسانوں کی طرح وہ بھی نقصان سے بچاؤ اور نفع حاصل کرنے کے لئے الله تعالی کے محتاج تھے ۔
آخر میں یہ بتا دیا کہ اگر الله تعالی چاہتا تو وہ لوگ جنہوں نے ان تمام پیغمبروں کی اور سب کے بعد حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی روشن نشانیاں دیکھ لیں آپس میں نہ لڑتے ۔ یہ لوگ یہودی ، عیسائی اور مشرکین ہیں ان میں سے بعض تو ایمان لائے اور جزاء کے مستحق ہوئے اور بعض نے کفر و انکار کیا اور سزاء کے مستحق ہوئے ۔

درس قرآن۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
الله کی راہ میں خرچ کرنا ۔ آیت ۔ 254

الله کی راہ میں خرچ کرنا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔ أَنفِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَزَقْنَاكُم
اے لوگو ۔۔ ایمان لائے ۔۔ خرچ کرو ۔۔ اس سے جو ۔۔ دیا ہم نے تم کو
مِّن ۔۔ قَبْلِ ۔۔۔ أَن يَأْتِيَ ۔۔۔ يَوْمٌ ۔۔۔۔۔۔ لَّا بَيْعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِيهِ
سے ۔۔۔ پہلے ۔۔ کہ آئے ۔۔ دن ۔۔ نہ تجارت ۔۔ اس میں
وَلَا خُلَّةٌ ۔۔۔ وَلَا شَفَاعَةٌ ۔۔۔ وَالْكَافِرُونَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔ الظَّالِمُونَ 2️⃣5️⃣4️⃣
اور نہ دوستی ۔۔ اور نہ سفارش ۔۔ اور کافر ۔۔ وہ ۔۔ ظالم

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ. 2️⃣5️⃣4️⃣

اے ایمان والو اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا اس دن کے آنے سے پہلے کہ جس دن نہ خرید و فروخت ہے نہ آشنائی اور نہ سفارش اور جو کافر ہیں وہی ظالم ہیں ۔

رَزَقْنٰکُمْ ( ہم نے تمہیں عطا کیا ) ۔
یہاں جمع متکلم کا صیغہ لا کر الله تعالی نے یہ واضح کردیا کہ مال و دولت رزق و خوشحالی جو کچھ بھی لوگوں کے پاس ہے وہ سب ہمارا ہی دیا ہوا ہے ۔ اور اصل میں ہمیں ہی حق حاصل ہے کہ جن کاموں میں چاہیں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم دیں ۔
یَوْمٌ ( دن ) ۔
دن سے مراد روزِ قیامت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ نیک کاموں میں مال خرچ کرنے کا اور نیکیاں جمع کرنے کا موقع اس دنیا میں ہے ۔ اس کے بعد جب روزِ قیامت آ پہنچے گا تو پھر کسی عمل کا موقع نہیں مل سکے گا ۔

اس سورۃ میں الله سبحانہ و تعالی نے عبادات و معاملات کے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ ان تمام نیک کاموں میں سب سے زیادہ دشوار کام جان اور مال کی قربانی ہے ۔اس لئے بار بار ان کا حکم آتا ہے ۔ ان کی محبت ہی انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔
حضرت طالوت اور ان کے دشمن جالوت کا قصہ بیان کرکے الله تعالی نے جہاد کی اہمیت جتا دی اور لوگوں کو حکم دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق الله کی راہ میں اپنی جانیں قربان کریں ۔ سامانِ جنگ خریدنے کے لئے مال و زر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے جہاد کے حکم کے ساتھ ہی مال خرچ کرنے کی بھی تاکید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کر دی کہ اے ایمان والو ! تمہیں دینے والے ہم ہیں ۔ تمہیں اس چیز کا خوف نہیں ہونا چاہئیے کہ نیک کاموں پر مال خرچ کرنے سے تم غریب ہو جاؤ گے ۔ یا آئندہ کے لئے تم بچا نہیں سکو گے ۔ بلکہ اس چیز پر نظر رکھو کہ تمہارا اپنا کچھ نہیں ۔ یہ صرف ہماری دین ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم مال و زر کی محبت میں پڑ کر اسے جمع کرتے رہو اور مہلت کا وقت ختم ہو جائے ۔
کیونکہ اس وقت نہ تو کہیں سے اس مال کے بدلے میں نیکی خریدی جا سکے گی ۔ اور نہ بدی کی سزا سے نجات مل سکے گی ۔ نہ وہاں سفارش چلے گی ۔ نہ کسی کی دوستی اور آشنائی کام آئے گی ۔ دنیا میں انسان کچھ لے دے کر یا دوستی آشنائی سے یا سفارش سے کام نکال لیتا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن صرف عمل کام آئیں گے ۔

درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آیة الکرسی ۔ آیت -255

آیت الکرسی

اللَّهُ ۔۔ لَا ۔۔ إِلَهَ ۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔ هُوَ ۔۔۔۔۔۔ الْحَيُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْقَيُّومُ
الله ۔۔۔ نہیں ۔۔ معبود ۔۔ مگر ۔۔ وہ ۔۔ زندہ ۔۔ ہمیشہ قائم رہنے والا
لَا تَأْخُذُهُ ۔۔ سِنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا نَوْمٌ ۔۔۔ لَّهُ ۔۔ مَا ۔۔ فِي ۔۔۔ السَّمَاوَاتِ
نہیں پکڑ سکتی اس کو ۔۔ اونگھ ۔۔ اور نہ نیند ۔۔ اس کے لئے ۔۔ جو ۔۔ آسمانوں
وَمَا ۔۔ فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ ۔۔۔ مَن ۔۔ ذَا الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَشْفَعُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عِندَهُ
اور جو ۔۔ میں ۔۔ زمین ۔۔ کون ۔۔ وہ جو ۔۔ سفارش کرے ۔۔ اس کے پاس
إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔ بِإِذْنِهِ ۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمُ ۔۔۔۔۔۔ مَا ۔۔ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَلْفَهُمْ
مگر ۔۔ اس کے حکم سے ۔۔ وہ جانتا ہے ۔۔ جو ۔۔ ان کے سامنے ۔۔ اور جو ۔۔ ان کے پیچھے
وَلَا يُحِيطُونَ ۔۔۔ بِشَيْءٍ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عِلْمِهِ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ شَاءَ
اور نہیں وہ احاطہ کرتے ۔۔ کوئی چیز ۔۔ سے ۔۔ اس کا علم ۔۔ مگر ۔۔ جو ۔۔ وہ چاہے
وَسِعَ ۔۔۔ كُرْسِيُّهُ ۔۔۔۔۔۔ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔ وَالْأَرْضَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا يَئُودُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حِفْظُهُمَا
چھا گیا ۔۔ اس کی کرسی ۔۔ آسمانوں ۔۔ اور زمین ۔۔ اور تھکا سکتی اس کو ۔۔ حفاظت ان دونوں کی
وَهُوَ ۔۔۔ الْعَلِيُّ ۔۔۔۔الْعَظِيمُ
اور وہ ۔۔ برتر ۔۔ عظمت والا 2️⃣5️⃣5️⃣

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ. 2️⃣5️⃣5️⃣

الله کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ۔ کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے اس کی اجازت کے بغیر جانتا ہے جو کچھ ان کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا کہ وہ چاہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو گنجائش ہے اور ان کا تھامنا اس کو گراں نہیں اور وہی سب سے برتر عظمت والا ہے ۔

اَلْحَیُّ ( زندہ ) ۔
مراد ہے کہ الله تعالی ازل سے ابد تک ہے ۔ زندگی کی صفت اس کی ذاتی صفت ہے ۔ نہ کبھی پہلے اس پر موت طاری ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہو گی ۔
اَلْقَیُّومُ ( تھامنے والا ) ۔
یعنی ایسی ہستی جو نہ صرف اپنی ذات سے قائم ہے بلکہ دوسروں کے قیام اور بقا کا سبب بھی ہے ۔ اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے ۔
کُرْسِیُّ ( کرسی ) ۔
اس سے یہ مراد نہ لینا چاہئیے کہ نعوذ بالله الله تعالی کوئی جسم رکھتا ہے ۔ اور وہ کرسی نشین ہے ۔ کرسی کے معنیٰ علم کے لیے گئے ہیں ۔ اور قدرت اور طاقت کے بھی ۔ یعنی الله تعالی کا علم اور قدرت ساری کائنات پر غالب ہے ۔
یَشْفَعُ عِنْدَہُ ( اس کے پاس سفارش کرے ) ۔
شفاعت کے معنیٰ سفارش کے ہیں ۔ اور شافع سفارش کرنے والے والے کو کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں کئی بار اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ الله تعالی کے حضور کسی کو اس کی اجازت کے بغیر سفارش کی ہمت نہ ہو گی ۔ اور جو شفارش کرے گا بھی وہ حق وصداقت کے خلاف نہ کرے گا ۔ اس ایک جملہ نے سابقہ امتوں کے غلط عقیدے کی تردید کردی ہے ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آیة الکرسی ۔ متعلق آیة 257 سورة بقرہ

آیة الکرسی

الله سبحانہ و تعالی نے اپنے کلام میں تین قسم کے مضامین کو بار بار ذکر فرمایا ہے ۔
1. علم توحید و صفات
2. علم احکام
3. علم قصص و حکایات
اور یہ تمام مضامین ایک دوسرے سے اس طرح باہم مربوط اور جُڑے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی تائید ، وضاحت و ثبات کی وجہ ہیں ۔ الله سبحانہ و تعالی کی صفات احکام شریعت کے لئے اصل اور بنیاد ہیں تو احکام علم صفات و توحید ہی کا ثمرہ اور شاخ ہیں ۔ اسی طرح علم قصص اور علم احکام سے علم توحید و صفات کو ثبات اور قوت میسر ہوتی ہے تو علم توحید و صفات سے علم احکام اور قصص کا مقصد ، وضاحت اور صداقت ظاہر ہوتی ہے ۔ غرض یہ کہ یہ تینوں مضامین ایک دوسرے کے لیے علّت و علامت اور لازم و ملزوم ہیں ۔
ان تینوں مضامین سے حقیقت ، مقصد و منشاء اور نتائج و فوائد سب کا علم ہو جاتا ہے ۔ ان مضامین کو سمجھنا آسان اور پُر شوق ہوجاتا ہے ۔ عمل کرنے میں لطف ، رغبت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔
قرآن مجید میں ان تینوں مضامین کا بیان بکثرت اور ایک دوسرے سے متصل ہوا ہے ۔ سورۃ بقرہ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے احکام کو خوب واضح اور کھول کر بیان کیا گیا ۔ پھر ضرورت کے مطابق قصص بیان کیے گئے جس سے ان احکام کے فائدے اور نتائج ہماری نگاہوں کے سامنے آگئے ۔ پھر آیت الکرسی جو توحید وصفات کے لحاظ سے قرآن مجید کی سب سے عظیم آیت ہے کو بیان فرمایا ۔ تاکہ تمام احکام کی جڑ ہمارے دلوں میں ایسی مضبوطی سے جم جائے کہ کفر و شرک کی آندھیاں بھی اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہ پائیں ۔
آیت الکرسی میں الله تعالی کی وحدانیت ، قدرت اور عظمت کا بیان ہے کہ الله تعالی ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا ۔ اسے کبھی فنا نہیں ۔ صرف وہی ہے جو عبادت کے لائق ہے ۔ وہ ایسی صفتوں کا مالک ہے کہ اس کے علاوہ کسی کو وہ صفات میسر نہیں ۔ وہ تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ، سب کا پالنے والا اور تمام کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے ۔ اور ان تمام کاموں کے کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسے کسی مددگار کی ضرورت نہیں ۔ وہ اکیلا ہی یہ سارے کام انجام دیتا ہے ۔ اور وہ ان پر پوری طرح حاوی ہے ۔ کوئی بھی چیز اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں ۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ اس کی ذات سے ہی سب زندہ ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور دوسروں کے قائم رہنے کا سبب ہے ۔ اسے کبھی تھکان نہیں ہوتی ۔ ساری کائنات کے اس قدر وسیع انتظام کے باوجود بھی اسے نہ آرام کی ضرورت پڑتی ہے نہ اسے کبھی اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ وہ ہمہ وقت بیدار اور ہوشیار ہے ۔
اس کا حلقۂ اختیار تنگ یا محدود نہیں بلکہ ساری کائنات اور زمین و آسمان پر محیط ہے ۔ سب کچھ اسی کے لیے ہے ۔ اور اسے ہر چیز پر غلبہ اور اختیار حاصل ہے ۔ تمام چیزیں اس کے حکم سے بندھی ہوئی ہیں ۔ اور وہ جس طرح چاہے ان سے کام لیتا ہے ۔
اس قدر علم و قدرت اور عظمت کا مالک ہونے کی حیثیت سے الله تعالی کے پاس کسی کو سفارش کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ درویش ہو یا دنیا دار ، امیر ہو یا غریب ، بڑا ہو یا چھوٹا اپنے کیے کا پھل خود حاصل کرے گا ۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں بانٹ سکے گا ۔ البتہ الله تعالی کسی کو اجازت دے تو وہ اس کے دربار میں کچھ عرض کر سکتا ہے ۔
وہ ہر شخص کے دل کی باتیں جانتا ہے ۔ وہ ہر کسی کے ارادوں اور نیتوں سے واقف ہے ۔ وہ ہر مخلوق کی نیکی اور بدی کا حساب رکھتا ہے ۔ اور یہ اس کے لیے بالکل آسان ہے ۔
کسی کو اتنی طاقت نہیں۔ کہ وہ اس کے علم کا کچھ حصہ اس کی اجازت کے بغیر پا سکے ۔ بلکہ جس قدر بھی علم کسی کو حاصل ہے وہ الله تعالی کے رحم و کرم کا نتیجہ ہے ۔ اس کی کرسی علم اور کرسی حکومت کل کائنات کا احاطہ کئے ہوے ہے ۔ بڑی چھوٹی ، اچھی بُری ظاہر پوشیدہ ہر چیز اس پر روشن ہے ۔ وہ اتنے وسیع سلسلہ کی نگرانی کرنے سے تھک نہیں جاتا ۔ اس کے لیے یہ سب انتظام آسان ہے ۔ وہ ہر عیب سے پاک ہے ۔ تمام صفتوں اور خوبیوں کا مالک ہے ۔ اس کے مرتبہ کی کوئی انتہا نہیں ۔
مختصر یہ کہ آیت الکرسی میں الله تعالی کی مندرجہ ذیل صفات بیان کی گئی ہیں ۔
1. وہ الحی ( زندہ ) ہے ۔
2. القیوم ( خود قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے اور کائنات کو تھامنے والا ہے )
3. اسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ
4. زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے اور اسی کے لئے ہے ۔
5. اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے سفارش نہیں کرسکتا
6. وہ ہر کسی کے تمام حالات سے باخبر ہے ۔
7. کوئی اس کے علم و اقتدار میں سے کچھ چھین نہیں سکتا ۔
8. زمین و آسمان۔ اور ساری کائنات کی حفاظت اس کے لیے آسان ہے ۔
9. بلندی اور عظمت اسی کے لیے ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
دین میں جبر نہیں ۔ آیة 256 (ا)

دین میں جبر نہیں

لَا إِكْرَاهَ ۔۔ فِي ۔۔ الدِّينِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَد تَّبَيَّنَ ۔۔۔ الرُّشْدُ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْغَيِّ
نہیں جبر ۔۔ میں ۔۔ دین ۔۔ بے شک واضح ہو چکی ۔۔ ھدایت ۔۔ سے ۔۔ گمراہی

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ
دین میں کوئی جبر نہیں بے شک ھدایت گمراہی سے جدا ہو چکی ہے

لَا اِکْرَاہَ ( کرہٌ سے یہ لفظ بنا ہے ۔
کراہیت بھی اسی سے ہے ۔ ایسا کام جو اپنی مرضی سے نہ کیا جائے بلکہ اس میں زبردستی اور جبر کو دخل ہو ۔ اسے جبر و کراہ کہا جاتا ہے ۔
اَلدّین ۔ ( مذھب ) ۔
لفظ دین دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے
۱-جزا و سزا یعنی بدلہ
۲- طریق فکر و عمل ( یعنی طریقِ زندگی )
یہاں انہی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
اَلرّشد ( ھدایت ) راشد اس کا اسم فاعل ہے ۔
جس کے معنی ھدایت یافتہ کے ہیں ۔ یہاں لفظ رشد سے ھدایت کے عام معنوں کے علاوہ خود اسلام کے معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں ۔
اَلْغَیّ ( گمراہی ) ۔ غ ۔ و ۔ ی ۔ اس کا مادہ ہے ۔
جس کے معنی بہکانے اور گمراہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ یہاں " الغی " سے کفر و شرک کی گمراہی مراد ہے ۔ اغوا ۔ بہکانا " اسی سے بنا ہے ۔
اس آیت سے اسلام کی مذہبی آزادی واضح ہوتی ہے ۔ اسلام ہر شخص کو مذہب کے بارے میں اختیار عطا کرتا ہے ۔ اسلام قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا ۔ اپنے ماننے والوں پر تبلیغ کو فرض قرار دیتا ہے ۔ لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کریں اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں ۔
اسلام کی مکمل تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنے ہمسائیوں بلکہ محکوم رعایا کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان و پاکستان میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ مندر بھی موجود نہ ہوتے ۔ مسلمانوں کے دارالخلافوں میں شاہی قلعوں کے ساتھ مندر ، گوردوارے اور غیر مسلموں کے عبادت خانے نہ ہوتے ۔
ایک بات خوب سمجھ لینی چاہیے ۔ کہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے بعد آزاد ہے کہ اسلام کی جس بات کو چاہے مانے اور جس کو نہ چاہے نہ مانے ۔
جب ایک بار مذہب اسلام قبول کر لیا تو اس کے سب احکام کو ماننا ہوگا ۔ اب آزادی اور اختیار کا سوال نہیں رہتا ۔ آزادی صرف مذھب کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں ہے عمل میں نہیں ۔
اگر خدانخواستہ ایسا ہوجائے تو مذھب کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔
جب دلائل توحید خوب کھول کر اور واضح کرکے بتا دئیے جس سے کافر کا کفر پر قائم رہنے کا کوئی عذر باقی نہیں رہا تو اب زبردستی مسلمان بنانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ عقل والوں کو خود سمجھ لینا چاہیے ۔ اور نہ ہی شریعت کا حکم ہے کہ لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جائے ۔ مسلمان ریاست میں جو جزیہ کو قبول کرے گا اُس کا جان ومال محفوظ ہو جائیگا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
ھدایت اور گمراہی ۔ آیة 256-257 سورة بقرہ

ھدایت اور گمراہی

فَمَن ۔۔۔ يَكْفُرْ ۔۔۔۔۔۔ بِالطَّاغُوتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيُؤْمِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِاللَّهِ
پس جو ۔۔ انکار کرتا ہے ۔۔ طاغوت کا ۔۔۔ اور ایمان رکھتا ہے ۔۔۔ الله تعالی پر
فَقَدِ اسْتَمْسَكَ ۔۔۔۔ بِالْعُرْوَةِ ۔۔۔ الْوُثْقَى ۔۔۔ لَا انفِصَامَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَهَا
پس تحقیق پکڑ لیا اس نے۔۔۔ حلقہ ۔۔۔ مضبوط ۔۔۔ نہیں ٹوٹنا ۔۔۔ اس کا
وَاللَّهُ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔۔عَلِيمٌ 2️⃣5️⃣6️⃣
اور الله ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا

اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلِيُّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُخْرِجُهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِّنَ ۔۔ الظُّلُمَاتِ
الله ۔۔۔ دوست ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔۔ وہ نکالتا ہے ان کو ۔۔ سے ۔۔ اندھیرے
إِلَى ۔۔۔ النُّورِ ۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ كَفَرُوا ۔۔۔ أَوْلِيَاؤُهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الطَّاغُوتُ
طرف ۔۔۔ نور ۔۔ اور وہ لوگ ۔۔ کفر کیا ۔۔ دوست ہیں ان کے ۔۔۔ طاغوت
يُخْرِجُونَهُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ النُّورِ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الظُّلُمَاتِ ۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔ أَصْحَابُ۔۔۔ النَّارِ
وہ نکالتے ہیں ان کو ۔۔۔ سے ۔۔ نور ۔۔ طرف ۔۔ اندھیرے ۔۔۔۔۔۔ یہی ۔۔۔ صاحب ۔۔ آگ
هُمْ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔ خَالِدُونَ 2️⃣5️⃣7️⃣
وہ ۔۔ اس میں ۔۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 2️⃣5️⃣6️⃣
جو گمراہ کرنے والوں کو نہ مانے اور الله تعالی پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اور الله سب سنتا اور جانتا ہے

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ 2️⃣5️⃣7️⃣
الله سبحانہ و تعالی ایمان والوں کا مدد گار ہے انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور جو لوگ کافر ہوئے ان کے رفیق شیطان ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔

اَلطّاغُوت ( سرکش ، گمراہ کرنے والا ) ۔
طغٰی اس کا مادہ ہے ۔ طاغی اور طغیان بھی اسی سے نکلے ہیں ۔ الطاغوت سے مراد وہ ہستی ہے جو باختیار ہو ۔ خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا سبب ہو ۔
وَلِیّ ( مددگار ، دوست ) ۔ اس کی جمع اولیاء ہے ۔
یہ لفظ رفیق ، سرپرست ، کارساز اور دوست کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے ۔
اَلظُّلُمٰت ( اندھیرے ) ۔ اس کا واحد ظلمت ہے ۔
روشنی اور نور ایک ہی ہو سکتا ہے ۔ لیکن تاریکیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں ۔ یہاں کفر ، شرک ، بے ایمانی اور گمراہی کی تاریکیاں مراد ہیں ۔

الله تعالی نے واضح لفظوں میں فرما دیا کہ جو کوئی ھدایت اختیار کرے گا وہ گویا نور میں پہنچ جائے گا ۔ الله اس کا رفیق و کارساز ہو گا ۔
جو کوئی کفر اور سرکشی اختیار کرے گا گویا وہ اندھیروں اور تاریکیوں میں گرفتار ہو جائے گا ۔ سرکش اور گمراہ اس کے ساتھی ہوں گے اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہو گا ۔
جب ھدایت اور گمراہی میں تمیز ہو گئی تو اب جو کوئی گمراہی کو چھوڑ کر ھدایت کو منظور کرے گا تو اس نے ایسی مضبوط چیز کو پکڑ لیا جس کے ٹوٹنے اور چھوٹ جانے کا کوئی ڈر نہیں ہے ۔ الله تعالی انسان کی باتوں کو خوب سنتا ہے ۔ اس کے دل کے حال اور نیت سے بھی خوب واقف ہے ۔ اس سے کسی کی خیانت اور برا ارادہ چھپا نہیں رہ سکتا ۔ یعنی وہ انسان کے ظاہر و باطن سے خوب آگاہی رکھتا ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمردو ۔ آیہ 258 سورة بقرہ

حضرت ابراھیم اور نمرود

أَلَمْ تَرَ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔ حَاجَّ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبِّهِ
کیا تو نے نہ دیکھا ۔۔ طرف ۔۔ وہ ۔۔ جھگڑا کیا ۔۔ ابراھیم ۔۔ میں ۔۔۔ اس کا رب
أَنْ ۔۔۔۔۔۔ آتَاهُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ الْمُلْكَ ۔۔۔ إِذْ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ
یہ ۔۔۔ اس نے دی اسے ۔۔۔ بادشاہی ۔۔ جب ۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم
رَبِّيَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُحْيِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَيُمِيتُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أُحْيِي
میرا رب ۔۔ وہ ۔۔ وہ زندہ کرتا ہے ۔۔۔ اور وہ مارتا ہے ۔۔ کہا ۔۔ میں ۔۔ زندہ کرتا ہوں
وَأُمِيتُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔ يَأْتِي ۔۔۔ بِالشَّمْسِ
اور میں مارتا ہوں ۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم ۔۔ پس بے شک ۔۔ الله ۔۔ وہ لاتا ہے ۔۔ سورج کو
مِنَ ۔۔۔ الْمَشْرِقِ ۔۔۔ فَأْتِ ۔۔۔۔۔۔۔ بِهَا ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْمَغْرِبِ
سے ۔۔ مشرق ۔۔ پس تو لا ۔۔۔ اس کو ۔۔ سے ۔۔ مغرب
فَبُهِتَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَفَرَ
حیران رہ گیا ۔۔ وہ ۔۔ جس نے کفر کیا
وَاللَّهُ ۔۔۔ لَا يَهْدِي ۔۔۔ الْقَوْمَ ۔۔۔ الظَّالِمِينَ 2️⃣5️⃣8️⃣
اور الله ۔۔ نہیں ھدایت دیتا ۔۔ قوم ۔۔ بے انصاف

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ. 2️⃣5️⃣8️⃣

کیا تو نے اس شخص کو نہ دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس وجہ سے کہ الله تعالی نے اسے سلطنت دی تھی جب ابراھیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ بولا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ابراھیم نے کہا بے شک الله تعالی سورج کو مشرق سے لاتا ہے اب تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا اور الله بے انصافوں کو راہ نہیں دکھاتا ۔

اَلّذی حَاجَّ ( جس نے جھگڑا کیا )
حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بحث کرنے والا شخص آپ کے زمانے کا بادشاہ تھا ۔ مفسروں نے نمرود کا نام لیا ہے ۔ اس سے پہلی آیت میں ایمانداروں اور کافروں کا ذکر تھا اور نور کی روشنی اور کفر کی تاریکی کا بیان تھا اب اس آیت کی تائید میں چند مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔
پہلی مثال میں نمرود بادشاہ کا ذکر ہے وہ سلطنت کے غرور سے اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اس کے سامنے آئے تو اسے سجدہ نہ کیا ۔ نمرود نے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا ۔
اس نے کہا ربّ تو میں ہوں ۔
حضرت ابراھیم نے جواب دیا ۔۔ رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ۔
حضرت ابراھیم کی اس دلیل کے جواب میں نمرود نے دو قیدی منگوائے ۔ ان میں سے جو بے قصور تھا اسے مار ڈالا اور قصور وار کو چھوڑ دیا ۔ اور کہا آپ نے دیکھا میں جس کو چاہوں مارتا ہوں اور جسے چاہوں موت سے بچاتا ہوں ۔
اگرچہ نمرود بادشاہ حضرت ابراھیم کے چیلنج کا صحیح جواب نہ دے سکا تھا ۔ آپ نے سوچا نمرود میری دلیل کو نہیں سمجھا ۔ اس لیے آپ نے سورج کی دلیل پیش کی اور فرمایا میرا رب سورج کو مشرق سے چڑھاتا ہے تو مغرب سے چڑھا کر دکھا ۔اس پر وہ مغرور اور احمق لاجواب ہوگیا ۔ اور اس سے کچھ بن نہ پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود نمرود ایمان نہ لایا ۔ واقعی بے انصافوں کو ھدایت کی راہ نہیں ملتی ۔
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
اجڑی بستی کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة . 259

اُجڑی بستی کی مثال

أَوْ ۔۔ كَالَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔ مَرَّ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ قَرْيَةٍ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَهِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَاوِيَةٌ
یا ۔۔۔ مانند اس شخص کی ۔۔ گزرا ۔۔ پر ۔۔ بستی ۔۔ اور وہ ۔۔ گری ہوئی تھی
عَلَى ۔۔۔ عُرُوشِهَا ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَنَّى ۔۔۔ يُحْيِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ هَذِهِ ۔۔۔ اللَّهُ
پر ۔۔ اس کی چھتیں ۔۔۔کہا ۔۔ کیونکر ۔۔ زندہ کرے گا ۔۔ اس کو ۔۔ الله
بَعْدَ ۔۔۔ مَوْتِهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَأَمَاتَهُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ مِائَةَ ۔۔۔ عَامٍ ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَعَثَهُ
بعد ۔۔ اس کی موت ۔۔ پھر موت دی اس کو ۔۔ الله ۔۔ سو ۔۔ سال ۔۔ پھر ۔۔ اٹھایا اس کو
قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَمْ لَبِثْتَ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ لَبِثْتُ ۔۔۔ يَوْمًا ۔۔۔ أَوْ بَعْضَ ۔۔ يَوْمٍ
فرمایا ۔۔ کتنی دیر تو یہاں رہا ۔۔ کہا ۔۔ رہا میں ۔۔ ایک دن ۔۔ یا بعض ۔۔ دن
قَالَ ۔۔۔ بَل ۔۔ لَّبِثْتَ ۔۔۔ مِائَةَ ۔۔۔ عَامٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ طَعَامِكَ
کہا ۔۔ بلکہ ۔۔ تو رہا ۔۔ سو ۔۔ سال ۔۔ پس دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ کھانا تیرا
وَشَرَابِكَ ۔۔۔ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۔۔۔ وَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔۔۔ حِمَارِكَ
اور پینا تیرا ۔۔ نہیں وہ سڑا ۔۔ اور دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ گدھا تیرا
وَلِنَجْعَلَكَ ۔۔۔ آيَةً ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّلنَّاسِ ۔۔۔ وَانظُرْ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْعِظَامِ
اور تاکہ ہم بنائیں تجھ کو ۔۔ نشانی ۔۔ لوگوں کے لیے ۔۔ اور دیکھ ۔۔ طرف ۔۔ ہڈیاں
كَيْفَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نُنشِزُهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ نَكْسُوهَا ۔۔۔ لَحْمًا ۔۔۔ فَلَمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تَبَيَّنَ
کیسے ۔۔ ابھار کر جوڑ دیتے ہیں ان کو ۔۔ پھر ہم ان پر پہناتے ہیں ۔۔ گوشت ۔۔ پس جب ۔۔ ظاہر ہوا
لَهُ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَعْلَمُ ۔۔۔ أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔۔ قَدِيرٌ 2️⃣5️⃣9️⃣
اس پر ۔۔ کہا ۔۔ مجھے معلوم ہے ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ پر ۔۔ ہر ۔۔ چیز ۔۔ قادر

آوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 2️⃣5️⃣9️⃣

یا تو نے دیکھا اس شخص کو کہ وہ ایک شہر سے گزرا اور وہ شہر اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا بولا الله اسے کیونکر زندہ کرے گا اس کے مرنے کے بعد پھر الله نے اسے سو سال تک مردہ رکھا پھر اسے اٹھایا پوچھا تو یہاں کتنی دیر تک رہا بولا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ کہا نہیں بلکہ تو سو برس تک رہا اب دیکھ اپنا کھانا اور پینا سڑ نہیں گیا اور دیکھ اپنے گدھے کو اور ہم نے تجھے نمونہ بنانا چاہا لوگوں کے لیے اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں پھر جب اس پر حال ظاہر ہوا تو وہ کہہ اٹھا کہ مجھے معلوم ہے بے شک الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔

اَلّذِی مَرَّ ( جو شخص گزرا )
اس شخص کے بارے میں مختلف قول ہیں ۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ عزیر علیہ السلام تھے جو اسرائیلی سلسلے کے ایک مشہور پیغمبر گزرے ہیں ۔ ان کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا تھا ۔ ۴۵۰ ق م میں ڈیڑھ ہزار یہودیوں کو ان کی قید اور جلا وطنی سے چھڑا کرفلسطین لائے تھے ۔ بعض کا خیال ہے کہ اس شخص سے مراد یرمیاہ نبی ہیں ۔ یہ بھی اسرائیلی سلسلہ کے پیغمبر تھے ۔ اور ساتویں صدی قبل مسیح میں تھے ۔
سورۃ بقرہ کی اس آیت میں جس اجڑی ہوئی بستی کا ذکر ہے اس کے بارے میں مورخین کے مختلف اقوال ہیں ۔ البتہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ اس میں بیت المقدس کی طرف اشارہ ہے ۔جسے بخت نصر ( شاہ بابل ) نے بری طرح برباد کر دیا تھا ۔
الله تعالی کی قدرت و عظمت کی نشانی دکھانے کے لیے یہ مثال بیان کی گئی ہے ۔ بخت نصر نے بیت المقدس پر چڑھائی کرکے اس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں کو قید کرکے لے گیا ۔
حضرت عزیر علیہ السلام قید سے چھوٹ کر آئے تو راستے میں آپ نے ویران شہر دیکھا ۔جس کی عمارتیں تہ و بالا ہو چکی تھیں۔ یہ دیکھ کر آپ نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں کے رہنے والے سب مر چکے ہیں اب الله تعالی ان کو کیونکر زندہ کرے گا ۔ الله تعالی کے حکم سے اسی وقت حضرت عزیر علیہ السلام پر موت طاری ہوگئی ۔ اور سواری کا گدھا بھی مر گیا ۔ آپ سو برس تک اسی حال میں رہے ۔ اور کسی نے نہ ان کو وہاں آ کر دیکھا اور نہ اس علاقے کی خبر باہر پھیلی ۔ اس دوران بخت نصر بھی مر گیا اور کسی دوسرے بادشاہ نے بیت المقدس کو آباد کیا ۔
سوسال کے بعد الله تعالی کے حکم سے حضرت عزیر زندہ ہوئے ۔ ان کا کھانا اسی طرح پاس رکھا ہوا تھا ۔ ان کا گدھا جو مرچکا تھا اور جس کی ہڈیاں گل چکی تھیں آپ کے سامنے زندہ ہوگیا ۔ اس سوسال کے عرصے میں بنی اسرائیل قید سے آزاد ہوکر شہر میں آباد بھی ہو چکے تھے ۔
حضرت عزیر علیہ السلام جب فوت ہوئے اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب زندہ ہوئے تو ابھی شام نہ ہوئی تھی ۔ اس لیے جب الله تعالی نے ان سے پوچھا کہ یہاں کتنی دیر ٹہرے تو سوچ کر کہنے لگے یا تو ایک دن ہوا ہے یا اس سے بھی کم ۔
حضرت عزیر علیہ السلام کے سامنے گدھے کی تمام ہڈیاں صحیح ترکیب کے ساتھ اس کے بدن میں جمع ہو گئیں ۔ پھر ان پر گوشت چڑھ گیا اور کھال بھی درست ہوگئی ۔ پھر الله سبحانہ و تعالی کے حکم سے اس میں جان آگئی اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا ۔
حضرت عزیر علیہ السلام نے اس کیفیت کو دیکھنے کے بعد کہا مجھے یقین ہوگیا کہ الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگرچہ میں پہلے بھی جانتا تھا کہ مردے کو زندہ کرنا الله جل جلالہ کے لیے بالکل آسان ہے ۔ اب اپنی آنکھ سے دیکھ لیا ہے ۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے یقین میں پہلے کچھ کمی تھی ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ انہیں پہلے مشاہدہ نہیں ہوا تھا ۔ اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام یہاں سے بیت المقدس پہنچے تو انہیں کسی نے نہ پہچانا ۔ کیونکہ خود تو یہ جوان رہے اور ان کے سامنے کے بچے بوڑھے ہو گئے ۔
جب انہوں نے زبانی توریت سنائی تو لوگوں کو ان کا یقین ہوگیا ۔ اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنا الله تعالی کی قدرت سے بعید نہیں بلکہ یہ کام اس کے لیے بہت ہی آسان ہے ۔ قیامت کا آنا یقینی ہے ۔ جبکہ تمام مردے الله تعالی کے حکم سے دم کے دم میں پھر سے زندہ ہو جائیں گے ۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہمیں شہر کے نام سے کوئی غرض نہیں جس کام پر کلام الله میں بحث ضروری نہیں سمجھی ہمیں بھی اس پر جگر خراشی کی ضرورت نہیں ۔ نہ قرآن مجید کا مقصد تاریخی واقعات کو بطور تاریخ بیان کرنا ہے نہ ہم الله کی کتاب کو تاریخ کے طور پر پڑھتے ہیں ۔ اصل مقصد نصیحت و وصیت ہے ۔ اسے ہر دم پیشِ نظر رکھنا چاہیے ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
مُردوں کو زندہ کرنا ۔ سورة بقرہ ۔ آیة 260

مُردوں کو زندہ کرنا

وَإِذْ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔۔ رَبِّ ۔۔۔ أَرِنِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ كَيْفَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُحْيِي
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم ۔۔ رب ۔۔ دکھا مجھ کو ۔۔ کیسے ۔۔ تو زندہ کرتا ہے
الْمَوْتَى ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بَلَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّيَطْمَئِنَّ
مردے ۔۔۔ کہا ۔۔ کیا نہیں تجھے یقین ۔۔ کہا ۔۔ کیوں نہیں ۔۔ اور لیکن ۔۔ تاکہ اطمینان پکڑے
قَلْبِي ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔ فَخُذْ ۔۔۔ أَرْبَعَةً ۔۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الطَّيْرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَصُرْهُنَّ
میرا دل ۔۔ کہا ۔۔ پس پکڑ ۔۔ چار ۔۔ سے ۔۔ پرندے ۔۔۔ پھر مانوس کر ان کو
إِلَيْكَ ۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔ اجْعَلْ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ جَبَلٍ ۔۔۔ مِّنْهُنَّ ۔۔۔ جُزْءًا
طرف اپنی ۔۔ پھر ۔۔۔ رکھ ۔۔ پر ۔۔ ہر ۔۔ پہاڑ ۔۔ ان کے ۔۔۔ ٹکڑے
ثُمَّ ۔۔۔ ادْعُهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْتِينَكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سَعْيًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاعْلَمْ
پھر ۔۔۔ تو بلا ان کو ۔۔ وہ آئیں گے تیرے پاس ۔۔ دوڑتے ۔۔ اور جان رکھ
أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ 2️⃣6️⃣0️⃣
بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ غالب ۔۔۔ حکمت والا

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ 2️⃣6️⃣0️⃣

اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے رب مجھے دکھا کہ تو مُردے کیسے زندہ کرے گا فرمایا کیا تو نے یقین نہیں کیا کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کی تسکین ہوجائے فرمایا تو اڑنے والے چار جانور پکڑ لے پھر انہیں اپنے ساتھ ہلا لے پھر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر انہیں بلا تیرے پاس دوڑتے آئیں گے اور جان لے الله تعالی زبردست حکمت والا ہے ۔

کَیْفَ ( کیونکر) ۔
یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے مُردوں کے زندہ ہونے پر کوئی شک ظاہر نہیں کیا بلکہ صرف یہ پوچھا کہ وہ کس خاص کیفیت کے ساتھ زندہ کیے جائیں گے ۔ ان کو دوبارہ زندگی بخشنے کا خاص طریقہ کیا ہو گا ؟
مِنْھُنّ جُزْاً ( ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا ) ۔
یعنی ان چاروں جانوروں کے ملے جلے ہوئے گوشت کا ایک ایک حصہ ۔

آیت الکرسی میں الله تعالی نے اپنی قدرت و عظمت بیان کرکے بتایا تھا کہ ھدایت اور گمراہی کی راہیں صاف صاف واضح ہو چکی ہیں ۔ اس لیے اب ہر عقلِ سلیم والے شخص کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ اختیار کرے ۔
اس کے بعد قرآن مجید میں مختلف واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ نیکی اور بدی کی راہوں کے صاف صاف کُھل جانے کے باوجود بعض لوگوں کو ھدایت کی توفیق نہیں ہوتی ۔ اس سلسلے میں حضرت ابراھیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ بیان کیا گیا ۔ پھر مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت و اختیار کو بیان کرنے کے لیے الله تعالی نے حضرت عزیر علیہ السلام کا قصہ بیان کیا ۔ اور اس کی مزید تاکید کے لیے ان آیات میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ۔
جس کی تفصیل یہ ہے ۔
توحید اور عقیدہ آخرت دو ایسی حقیقتیں ہیں جن پر مذھب اسلام کی بنیاد قائم کی گئی ہے ۔ الله تعالی کی واحدانیت کو ماننے والا شخص کبھی بے راہ رو نہیں ہو سکتا ۔ اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھنے والا اپنے اعمال پر ہمیشہ کڑی نظر رکھتا ہے ۔ برائی سے پوری طرح احتیاط اور پرھیز کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں تو قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ہر مؤمن کو کلی طور پر یقین ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بھی کامل یقین تھا ۔ تاہم آپ نے مشاہدہ کی خاطر الله تعالی سے یہ سوال کیا کہ تو موت کے بعد کیونکر زندگی بخشتا ہے ۔
الله تعالی نے پوچھا ! کیا تجھے اس پر یقین نہیں ؟
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ ایمان کے درجے تک تو یقین اب بھی حاصل ہے ۔ البتہ صرف یہ چاہتا ہوں کہ مشاھدہ کے بعد دل کو اور زیادہ اطمینان حاصل ہو جائے ۔
الله تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو فرمایا کہ وہ چار جانور لائیں ۔ اور ان چاروں کو اپنے ساتھ خوب مانوس کر لیں ۔ تاکہ پہچان رہے ۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت مِلا جُلا دیں۔ پھر وہ گوشت مختلف پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا کرکے رکھ دیں ۔ اور درمیان میں کھڑے ہو کر ان کا نام لے لے کر بلائیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام الله کے حکم کے موافق چار جانور لائے ۔ ایک مور ، ایک مرغ ، ایک کوا اور ایک کبوتر ۔ ان چاروں کو اپنے ساتھ مانوس کیا ۔ پھر چاروں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت خوب ملانے جلانے کے بعد الگ الگ پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا رکھ دیا ۔
جب انہوں نے ایک جانور کا نام لے کر پکارا تو اس جانور کے جسم کے ٹکڑے تمام پہاڑوں سے اکٹھے ہو کر آپس میں ملے اور زندہ جانور کی شکل بن کر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے پاس پہنچے ۔ اسی طرح چاروں جانور زندہ ہو کر ان کے پاس آگئے ۔
اس سبق سے بعض بہت پُر حکمت باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ جنہیں ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں ۔
1. الله کے مقبول بندوں کو جو مشاھدے ہوتے ہیں ان سے ان کے ایمان اور یقین میں ترقی ہوتی ہے ۔
2. جس قسم کا سوال حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کیا ۔ اس قسم کے سوال صرف بے اعتقادی سے ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کی تہہ میں۔ نیکی اور تحقیق کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے ۔
3. ایمان کے بڑھنے سے اطمینانِ قلب پیدا ہوتا ہے ۔
4. پرندوں کے زندہ ہونے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی آواز سے دوڑے چلے آنے کو انہونی بات نہ سمجھنا چاہیے ۔ اس کے لیے ہم ایک ادنٰی سی مثال دیتے ہیں
فرض کریں کہ لوہا ، تانبا ، پیتل اور سونے کے باریک باریک ٹکڑے آپس میں ملا کر ان کی چار ڈھیریاں الگ الگ رکھ دی جائیں ۔ اور پھر درمیان میں ایک مقناطیس لا رکھیں تو لوہے کے ٹکڑے چاروں ڈھیروں سے الگ ہوکر مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے ۔
اسی طرح ابراھیم علیہ السلام کی آواز میں مقناطیسی قوت موجود تھی ۔ انہوں نے جس جانور کو بلایا وہی ان کے پاس چلا آیا ۔ اس مثال سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے معجزات الله تعالی کی قدرت سے بعید نہیں ہیں ۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ اس کے ہر حکم میں اس قدر حکمتیں ہوتی ہیں کہ جن کا ادراک اور احاطہ اگر ہمیں نہ ہو تو یہ ہمارے علم کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے ۔
5۔ الله تعالی ہر شے پر قادر ہے ۔ اس کے نزدیک کوئی چیز ناممکن نہیں ۔
6۔ اس کا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس کے ہر حکم اور ہر فعل میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے ۔
مختصر یہ کہ " آیت الکرسی " سے جو مضمون شروع ہوا تھا ۔ وہ اس آیت پر آکر ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دوسرے مسائل کا ذکر شروع ہوگا ۔ اور درمیان میں عقائد کا ذکر بدستور آتا رہے گا

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
الله کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال ۔ سورة بقرہ آیة 261-262

الله کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال

مَّثَلُ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔ أَمْوَالَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ
مثال ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله
كَمَثَلِ ۔۔۔ حَبَّةٍ ۔۔۔ أَنبَتَتْ ۔۔ سَبْعَ ۔۔۔ سَنَابِلَ
جیسی مثال ۔۔ دانہ ۔۔ اگیں ۔۔۔ سات ۔۔ بالیں
فِي۔۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ سُنبُلَةٍ ۔۔۔ مِّائَةُ ۔۔۔ حَبَّةٍ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ يُضَاعِفُ
میں ۔۔ ہر ۔۔۔ بال ۔۔ سو ۔۔ دانے ۔۔ اور الله ۔۔۔ وہ بڑھاتا ہے
لِمَن ۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ وَاسِعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣6️⃣1️⃣
کے لیے ۔۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ اور الله ۔۔ وسعت والا ۔۔ جاننے والا

الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔ أَمْوَالَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ۔۔۔۔ اللَّهِ
جو لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ الله
ثُمَّ ۔۔۔ لَا يُتْبِعُونَ ۔۔۔ مَا أَنفَقُوا ۔۔۔ مَنًّا
پھر ۔۔ وہ پیچھے لگاتے ۔۔۔ جو خرچ کیا ۔۔ احسان
وَلَا أَذًى ۔۔۔ لَّهُمْ ۔۔۔ أَجْرُهُمْ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ رَبِّهِمْ
اور نہ تکلیف ۔۔۔ ان کے لیے ۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کا رب
وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔ هُمْ ۔۔۔ يَحْزَنُونَ 2️⃣6️⃣2️⃣
اور نہ کوئی خوف ۔۔ ان پر ۔۔ اور نہ ۔۔ وہ ۔۔ غمگین

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 2️⃣6️⃣1️⃣

ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو اس سے سات بالیں اگیں ہر بال میں سوسو دانے ہوں اور الله سبحانہ و تعالی جس کے لیے چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور الله تعالی وسعت والا جاننے والا ہے

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. 2️⃣6️⃣2️⃣

جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنا مال الله کی راہ میں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں انہی کے لیے ان کا ثواب اپنے رب کے ہیاں ہے نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

آیت الکرسی میں الله تعالی نے اپنے علم و قدرت کا بیان فرمایا ۔ اس کے بعد تین قصے بیان کیے اور بتایا کہ ھدایت اور گمراہی نیز زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہے ۔
اب جہاد اور الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت اور اس سے متعلق ضروری شرائط کا بیان ہے ۔
الله تعالی نے ایک مثال دے کر فرمایا کہ جو لوگ اس کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں انہیں کئی گنا ثواب ہوگا ۔ جس طرح الله اس کا فضل ہم اس دنیا میں زمین کی پیداوار دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے نیک اعمال کے اجر میں بھی وہ اپنے فضل سے کام لے گا ۔ ہم اگر ایک دانہ بوئیں تو الله کے فضل و رحمت سے اس دانے سے سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح الله تعالی چاہے تو اس سے بھی بڑھا کر سات ہزار اور اس سے بھی زیادہ کر دیتا ہے ۔
وہ خرچ کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے ۔ اس کے خرچ کی مقدار سے خوب واقف ہے اور جومال نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کیا جائے گا وہ اس کا کئی گنا اجر دے گا ۔
اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ الله کی راہ میں ضرورتمندوں پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان پر کوئی احسان نہیں جتاتے ۔ انہیں طعنے دے کر نہیں ستاتے ان سے کسی قسم کی خدمت نہیں لیتے اور ان کی تحقیر نہیں کرتے ۔ انہیں پورا پورا ثواب ملے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ ماضی کا کوئی غم ہوگا اور نہ ہی مستقبل کا کوئی خوف ہو گا ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 
Top