• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قبر نبوی صل الله علیہ و آ له وسلم سے اذان کی آواز


امام ابن سعد رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
"أخبرنا محمد بن عمر، قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعید، عن أبیه، قال: کان سعید بن المسیب أیام الحرة في المسجد، ۔۔۔۔، قال: فکنت أذا حانت الصلاة أسمع أذانا یخرج من قبل القبر، حتّٰی أمن الناس"


امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ سانحہ حرہ کے دنوں میں مسجد نبوی ہی میں مقیم تھے۔۔۔۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی اذان کا وقت ہوتا، میں قبر نبوی سے اذان کی آواز سنتا۔ جب تک امن نہ ہوگیا، یہ معاملہ جاری رہا (الطبقات الکبریٰ: ۱۳۲/۵)

موضوع (من گھڑت) :یہ من گھڑٹ قصہ ہے

دلیل :
محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک "ضعیف" اور "متروک" ہے۔ دوسرا راوی طلحہ بن محمد بن سعید "مجہول" ہے۔اس کے بارے میں امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "میں اسے نہیں جانتا۔" (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: ۴۸۶/۴) تیسرے راوی محمد بن سعید بن مسیب کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "مقبول" (مجہول الحال) قرار دیا ہے۔ (تقریب التھذیب: 5913) تنبیہ: امام ابن حبان رحمہ اللہ نےاسے اپنی کتاب "الثقات" (۴۲۱/۷) میں ذکر کیا ہے، کسی معتبر امام نے اس کی توثیق نہیں کی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

بھائی یہاں شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کی السلسلة الاحاديث الضعيفة والموضوعة کی احادیث شیر کی جائیں تو بہتر ہے، دوسری ضعیف اور موضوع احادیث فورم کے دوسرے سکشنس میں بھی ڈالی جا سکتی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عدي: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يزيد العسكري بدمشق، حَدَّثَنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنا خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، حَدَّثَنا أَبُو رَوْقٍ الْحَمْدَانِيُّ عَنِ الضَّحَّاكِ، عنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال رَسُول اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ «لِلْمَرْأَةِ سِتْرَانِ: الْقَبْرُ وَالزَّوْجُ، قِيلَ: فَأَيُّهُمَا أَفْضَلُ قَالَ: الْقَبْرُ»

المعجم الكبير للطبراني(12657) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ المعجم الصغير للطبراني (1078)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ (ومن طريق ابن عدي، ابن عساكر
في "تاريخ دمشق" وكذا ابن الجوزي في " الموضوعات "؛ الضعيفة (1396)
(موضوع)

(اس حدیث کا راوی خالد ابن يزيد "متهم بالكذب" ہے۔ اور ضحاک بن مزاحم اور ابن عباس رضی ﷲ عنہ کے درمیان کا انقطاع ہے)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابو حاتم الرازي رحمہ اللّٰہ (المتوفى: ٢٧٧هـ) کہتے ہیں کہ خالد ابن يزيد " ليس بالقوي " ( زیادہ قوی نہیں ہے) عقيلی رحمہ اللّٰہ (المتوفى: ٣٢٢هـ) کہتے ہیں کہ خالد ابن يزيد کی احادیث کی متابعت نہیں کی جاتی۔ طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف خالد ابن يزيد ہی نے روایت کیا ہے۔ ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ خالد ابن يزيد کی تمام احادیث کی نہ تو متنًا متابعت کی جاتی ہے اور نہ سندًا۔ ابن الجوزي رحمہ اللّٰہ (المتوفى: ٥٩٧هـ) کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اس کا راوی خالد ابن يزيد "متهم بالكذب" ہے۔
اس حدیث کی دوسری علت ضحاک بن مزاحم اور ابن عباس رضی ﷲ عنہ کے درمیان کا انقطاع ہے اس لیے کہ ضحاک کی ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے]۔

عورت کے لیے دو پردے ہیں ایک قبر اور دوسرا شوہر، پوچھا گیا کہ ان دونوں میں کونسا افضل اور بہتر ہے تو نبی ﷺ نے فرمایا: قبر۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ الدَّيلميّ: أَنْبَأَنَا أبي أَنْبَأَنَا عَلِيّ بْن الْحُسَيْن أَنْبَأَنَا أَبُو الْقَاسِم عَبْد الرَّحْمَن بْن أَبِي الْقَاسِم الْكَاتِب حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن أَحْمَد بْن عَبْدَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن يَحْيَى بْن مُسْلِم حَدَّثَنَا جَعْفَر بْن مُحَمَّد بْن جَعْفَر الْحَسَن حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن أَحْمَد الحَسَنيّ حَدَّثَنَا الْحُسَيْن بْن مُحَمَّد الْأَشْقَر [عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّد بْن عَبْد الله عْن عَبْد الله بْن مُحَمَّد عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْن الْحُسَيْن بْن عَلِيّ بْن الْحَسَن عَنْ عَلِيٍّ مَرْفُوعًا

«لِلنِّسَاءِ عَشْرُ عَوْرَاتٍ فَإِذَا زُوِّجَتِ الْمَرْأَةُ سَتَرَ الزَّوْجُ عَوْرَةً وَإِذَا مَاتَتِ الْمَرْأَةُ سَتَرَ الْقَبْرُ تِسْعَ عَوْرَاتٍ» .

تخريج: الفردوس بمأثور الخطاب للديلميّ (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الضعيفة (1397)؛(منكر)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند مظلم ہے محمد اشقر سے نیچے والے تمام راویوں کو میں نہیں جانتا اور ان کے شیخ اگر عبد الله بن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب أبو محمد العلوي ہیں ( ظاہر یہی ہے) تو وہ متابعت کے لیے مقبول ہیں ایسے تو وہ لین الحدیث ہیں۔ اور ان کے اوپر والے اہل بیت میں سے سچائی کے لیے معروف لوگ ہیں]

عورت کے دس ستر (اعضاء جن کو شرم سے چھپایا جاتا ہے) ہیں جب اس کی شادی کی جاتی ہے تو شوہر ایک ستر چھپاتا ہے اور جب عورت مر جاتی ہے تو قبر نو(9) ستر چھپاتی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال عبد بن حميد: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَحَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، ثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَانَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ»

۩تخريج: المنتخب من مسند عبد الحميد بن حميد (رقم: 362) (المتوفى: ٢٤٩هـ)؛التاريخ الكبير للبخاري (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ سنن الترمذي (1952)(المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ أحاديث مسلم بن إبراهيم الفراهيدي للضريس البجلي الرازي (المتوفى: ٢٩٤هـ)؛ الضعفاء الكبير للعقيلي مرسلًا و عن ابي هريرة مرفوعًا (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني عن ابن عمر مرفوعا(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (7679)(المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ مسند الشهاب للقضاعي (1295) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ موضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (1121)؛ ( ضعيف)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: تمام محدثین نے عامر بن صالح الخزاز سے روایت کی ہے اور عامر بن صالح حافظہ کے کمزور ہیں، ''موسی بن عمرو'' مجہول الحال ہے، امام بخاری اور ترمذی دونوں نے اس حدیث کو مرسل کہا ہے کیونکہ أيوب بن موسى کے دادا کا سماع نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے]
[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث طبرانی رحمہ اللّٰہ کی " المعجم الکبیر" میں ابن عمر رضی ﷲ عنہ سے اور عقیلی کی "الضعفاء الكبير" میں ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے بھی مروی ہے لیکن دونوں کی سند واھی (بہت زیادہ ضعیف) ہے۔ " المعجم الکبیر" کی سند میں "محمد بن موسى" منكر الحديث ہے اور "عمرو بن دينار الأعور البصري قهرمان آل الزبير" بھی ضعيف ہے (یہ عمرو بن دينار مکی نہیں ہے جو کہ ثقہ راوی ہیں)۔ "الضعفاء الكبير" کی سند کے ایک راوی" مهدي بن هلال" کو يحيى بن سعيد اور ابن معين رحمہما ﷲ نے کذاب کہا ہے] ۔

ترجمہ: عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حسن ادب سے بہتر کسی با پ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا''۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ، ثنا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ، ثنا مُعَلَّى الْجُعْفِيُّ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: شَكا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العُزُوْبَةَ فَقَالَ: أَلَا أَخْتَصِي؟ فَقَالَ:

«لَا، لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَصَى أَوِ اخْتَصَى، وَلَكِنْ صُمْ وَ وَفِّرْ شَعَرَ جَسَدِكَ»

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (رقم: 11304)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (1314)؛ (موضوع)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا راوی "معلى بن هلال الحضرمي (الجعفي الطحان الكوفي) "كذاب وضاع " ( جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔ یہ بات حدیث کے ائمہ جیسے سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابن مبارک، علی بن مدینی وغیرہم نے کہی ہے۔ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تقریب التھذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث کے نقاد معلى بن هلال کے کذاب ہونے پر متفق ہیں۔ اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اس کو متروک الحدیث کہا ہے] ۔

ترجمہ: ابن عباس رضی ﷲ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اپنے مجرد ( غیر شادی شدہ) ہونے کی شکایت کی اور کہا کہ کیا میں خصی کروا لوں؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو خصی کرے یا کرائے ، بلکہ تم روزہ رکھو اور اپنے جسم کے بال زیادہ کرو(بڑھاؤ)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الحاكم: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثنا هِشَامُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ،

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَبَعَثَ امْرَأَةً لِتَنْظُرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: «شُمِّي عَوَارِضَهَا، وَانْظُرِي إِلَى عُرْقُوبَيْهَا» قَالَ: فَجَاءَتْ إِلَيْهِمْ فَقَالُوا: أَلَا نُغَدِّيكِ يَا أُمَّ فُلَانٍ؟ فَقَالَتْ: لَا آكُلُ إِلَّا مِنْ طَعَامٍ جَاءَتْ بِهِ فُلَانَةٌ قَالَ: فَصَعِدْتُ فِي رَفٍّ لَهُمْ فَنَظَرَتْ إِلَى عُرْقُوبَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: أَفْلِينِي يَا بُنَيَّةُ، قَالَ: فَجَعَلَتْ تُفْلِيهَا وَهِيَ تَشُمُّ عَوَارِضَهَا، قَالَ: فَجَاءَتْ فَأَخْبَرَتْ.

تخريج: مسند الإمام أحمد( 13424)(المتوفى: ٢٤١هـ)؛ عبد بن حميد (١٣٨٨)(المتوفي: ٢٤٩ھ)؛ المراسيل لأبي داود السَِّجِسْتاني (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛المستدرك على الصحيحين للحاكم (2699) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (13501) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة (1273)؛ (منكر)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: حاکم کی سند کے روای ھشام بن علی کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا۔ ھشام نے اس حدیث کو موصولًا روایت کیا ہے اور ان کی مخالفت امام ابو داود نے "مراسیل " میں اس حدیث کو مرسلًا روایت کر کے کی ہے اور اس کی تائید محمد بن فضل ابو نعمان (جو ثقہ راوی ہیں) کی مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے۔ اور ھشام بن محمد کی موصول روایت کی تائید محمد ابن كثير الصنعاني اور عمارة بن زاذان کی روایت سے نہیں ہوتی کیونکہ یہ دونوں بھی ضعیف ہیں۔

(یہ حدیث مسند احمد اور مسند عبد بن حميد میں عُمَارَةُ بن زاذان (ضعیف) کی روایت سے موصولا، مستدرک حاکم اور سنن کبری بیہقی میں ھشام بن علی (شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کا حال نہیں معلوم ہو سکا) کی روایت سے موصولًا روایت ہےامام بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الصَّنْعَانِي (ضعیف راوی) نے بھی موصولًا روایت کیا ہے اور امام ابو داود نے مراسیل میں مرسلًا روایت کیا ہے، امام ابو داود کی تائید محمد بن فضل ابو نعمان (جو ثقہ راوی ہیں) کی مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے۔ ضعیف راویوں نے موصول روایت کر کے مرسل روایت کرنے والے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے اور یہ مخالفت حدیث کو شاذ بلکہ منکر بناتی ہے] ۔

ترجمہ: انس رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا تو ایک عورت کو بھیجا (مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ام سُلیم کو بھیجا) تاکہ وہ اس عورت کو دیکھیں اور فرمایا کہ "اس کے جسم کی خوشبو کو سونگھ کر دیکھنا اور اس کی دونوں ایڑیوں کے اوپر کے پٹھوں پر غور کرنا " انس رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ام سُلیم لڑکی والوں کے پاس گئی تو ان لوگوں نے کہا کہ اے ام فلاں کیا ہم تجھے ناشتہ نہ کرائیں ( صبح کا کھانا نہ کھلائیں)؟ تو ام سُلیم نے کہا کہ نہیں بلکہ میں فلانہ عورت کا لایا ہوا کھانا ہی کھاتی ہوں۔ انس رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ام سُلیم ان کی اَلگنی ( سیڑھی یا گھر کے کسی اوپری حصے) پر چڑھی اور اس عورت کی ایڑیوں کے اوپر کے پٹھوں کو دیکھا پھر اس عورت سے کہا کہ اے بیٹی میرے پاس آؤ جب وہ ام سُلیم کے قریب آئی تو اُم سُلیم نے اس کے جسم کی خوشبو سونگھی اور آ کر نبی ﷺ کو خبر دی۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
آداب الجماع

1) قال الخطيب في التاريخ: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ اللَّحَافِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَكَرِيَّا النَّسَوِيُّ، بِدِمَشْقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَيَّامُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ شَاذَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ الْحُسَيْنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَتَكِيِّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:

«نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُوَاقَعَةِ قَبْلَ الْمُلَاعَبَةِ (المُدَاعَبَةِ)»

ترجمہ: نبی ﷺ نے عورت کے ساتھ کھیلنے سے پہلے جماع کرنے سے روکا ہے۔

۩تخريج: تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ وعنه ابن عساكر في تاريخ دمشق؛ وأبو عثمان النجيرمي في " الفوائد المخرجة من أصول مسموعاته "؛ الضعيفة (432)؛(موضوع)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: سند میں ایک راوی "خلف بن محمد الخیام" بہت زیادہ ضعیف ہے اور ابو زبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے] ۔

2) قال ابو حاتم: سمعتُ أَبِي رَوَى عَنْ هِشَامِ ابن خالد الأزرق؛ قال: حدَّثنا بَقِيَّة بْنُ الْوَلِيدِ؛ قَالَ:ابْنُ جُرَيج، عَنْ عَطاء، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِذَا جَامَعَ أَحَدُكُمْ زَوْجَتَهُ، أَوْ جَارِيَتَهُ، فَلاَ يَنْظُرْ إِلَى فَرْجِهَا؛ فَإِنَّ ذَلِكَ يُورِثُ العَمَى»

ترجمہ: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی یا لونڈی سے جماع کرے تو اس کی شرمگاہ کو نہ دیکھے اس لیے کہ ایسا کرنا اندھا کر دیتا ہے۔

تخريج: العلل لابن أبي حاتم (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي الجرجاني (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (13541،13540) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛الضعيفة (195). (موضوع).

امام ابو حاتم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اسی سند سے اور تین منکر احادیث روایت کی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بَقِيَّة اور ابن جُرَيج کے بیچ میں بعض مجہول یا ضعیف رواۃ ہیں اس لیے کہ بَقِيَّة اپنے اور ابن جُرَيج کے درمیان اکثر بعض مجہول یا ضعیف رواۃ کو داخل کرتے تھے الا یہ کہ ابن جُرَيج سے سماعت کی تصریح کی ہو۔

امام ابن حبان کہتے ہیں کہ بَقِيَّة کذاب اور ثقہ دونوں طرح کے رواۃ سے روایت کرتے تھے اور تدلیس کرتے تھے اور بَقِيَّة کے بعض ساتھی بَقِيَّة کی روایات سے ضعیف رواۃ کو نکال کر سند کو صحیح کرتے تھے اور یہ حدیث بھی ایسی ہی معلوم ہوتی ہے کہ بَقِيَّة نے ضعیف رواۃ سے سن کر تدلیس کی ہوگی۔ اور یہ حدیث موضوع ہے۔

ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ابن جوزی نے ابن صلاح کی مخالفت کی ہے اس لیے کہ ابن صلاح نے اس حديث کو جیدالاسناد کہا ہے جبکہ ابن جوزی نے موضوع کہا ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث بیہقی رحمہ اللّٰہ نے دو سندوں سے روایت کی ہے ایک میں بقية نے عنعنہ کیا ہے اور ایک سند میں سماعت کی صراحت موجود ہے لیکن ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بقية کی ابن جریج سے سماع کی تصریح ان سے روایت کرنے والے راوی ھشام کی ہے۔ پھر ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ یہ احادیث موضوع ہیں ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اور بقية تدلیس کرتے تھے لیکن ان سے روایت کرنے والوں نے سمجھا کہ بقية ہر حدیث میں " حدثنا" کہتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ابن صلاح کا اس حدیث کو جیدالاسناد کہنا صحیح نہیں ہے اور ان کو بقية کی سماع کی تصریح سے دھوکہ ہوا تھا ان کو یہ اندرونی علت نہیں معلوم تھی جس کی خبر امام ابو حاتم رحمہ اللّٰہ نے دی، ﷲ ان کو اس کا اچھا بدلہ دے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
3) قال الخليلي: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ السَّرِيِّ بْنِ سَهْلٍ الْفَقِيهُ الْهَمْدَانِيُّ بِقَزْوِينَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَحْيَدَ الْبَلْخِيُّ الْفَقِيهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْقَطَّانُ التَّنُوخِيُّ، بِدِمَشْقَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، [ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُشَيْرِيُّ، ثنا مِسْعَرٌ، ثنا سَعِيدُ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِذَا جَامَعَ أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلَا يَنْظُرْ إِلَى الْفَرْجِ؛ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْعَمَى، وَإِذَا جَامَعَ أَحَدُكُمْ فَلَا يُكْثِرِ الْكَلَامَ فَإِنَّهُ يُورِثُ الْخَرَسَ»

ترجمہ: تم میں سے جب کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے اس لیے کہ ایسا کرنا اندھا کر دیتا ہے۔ اور جب تم میں سے کوئی جماع کرے تو زیادہ بات نہ کرے کیونکہ یہ گونگا کر دیتا ہے۔

۩تخريج: فوائد أبي يعلى الخليلي (رقم: 4)(المتوفى: ٤٤٦هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (196)؛ (موضوع)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابی یعلی خلیلی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف "محمد بن عبد الرحمن القشيري الشامی" نے ہی روایت کیا ہے اور وہ منکر احادیث روایت کرتا ہے۔ امام ذہبی کہتے ہیں کہ وہ متہم بالوضع ہے۔ أبو الفتح ازدی کہتے ہیں کہ کذاب، متروک الحدیث ہے۔ دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے بھی متروک الحدیث کہا ہے۔ عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ محمد بن عبدالرحمن کی احادیث منکر ہوتی ہیں اس کی کوئی سند نہیں ہوتی اور نہ اس کی کوئی متابعت کرتا ہے] ۔


5 )قال الطبراني: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سَهْلٍ قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الصَّلْتِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ وَطِئَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ، فَأَصَابَهُ جُذَامٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ»

ترجمہ: اگر کوئی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے اور ان کو اولاد دی جائے اور وہ جذام میں مبتلاء ہو جائے تو وہ اپنے علاوہ کسی اور کو ملامت نہ کرے۔

۩تخريج: رواه أبو العباس الأصم في " حديثه "؛ المعجم الأوسط للطبراني (3300)؛ الضعيفة (757).(ضعيف)

[بکر بن سھل ضعیف ہے، محمد بن أبي السري العسقلاني "صدوق له أوهام كثيرة"؛ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ حسن بن صلت کا ترجمہ (تعارف) نہیں مل سکا ] ۔


5 )قال الطبراني: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سَهْلٍ قَالَ: نَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الصَّلْتِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ وَطِئَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ، فَأَصَابَهُ جُذَامٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ»

ترجمہ: اگر کوئی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے اور ان کو اولاد دی جائے اور وہ جذام میں مبتلاء ہو جائے تو وہ اپنے علاوہ کسی اور کو ملامت نہ کرے۔

۩تخريج: رواه أبو العباس الأصم في " حديثه "؛ المعجم الأوسط للطبراني (3300)؛ الضعيفة (757).(ضعيف)

[بکر بن سھل ضعیف ہے، محمد بن أبي السري العسقلاني "صدوق له أوهام كثيرة"؛ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ حسن بن صلت کا ترجمہ (تعارف) نہیں مل سکا ] ۔


4 )قَالَ ابْن عَسَاكِر في التاريخ: أَنْبَأَنَا أَبُو الْقَاسِم إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد الفضلي الْحَافِظ أَنْبَأَنَا أَبُو إِبْرَاهِيم أسعد بْن مَسْعُود بْن عَلِيّ العُتْبِي بنَيْسابور أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْر أَحْمَد بْن الْحَسَن الجبري حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاس مُحَمَّد بْن يَعْقُوب الْأَصَم حَدَّثَنَا أَبُو الدَّرْدَاء هَاشم بْن مُحَمَّد بْن صَالح الْأَنْصَارِيّ حَدَّثَنَا عَبْد الْعَزِيز بْن عَبْد اللَّه بْن عَامر الأوسي حَدَّثَنَا خيران بن الْعَلَاء الركيساني ثُمّ الدِّمَشْقِي عَنْ زُهَيْر بْن مُحَمَّد عَنِ ابْن شهَاب عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ أَنّ رَسُولَ الله قَالَ

«لَا تُكْثِرُوا الْكَلامَ عِنْدَ مُجَامَعَةِ النِّسَاءِ فَإِنَّ مِنْهُ يَكُونُ الْخَرَسُ وَالْفَأْفَأَةُ» .

ترجمہ: عورتوں سے جماع کرتے وقت زیادہ بات مت کرو اس لیے کہ ایسا کرنے سے گونگا پن اور ہکلاہٹ پیدا ہوتی ہے۔
[الْخَرَسُ:گونگا ہونا؛ الْفَأْفَأَةُ : حرف فا اکثر بولنا]

۩تخريج:تاريخ دمشق لابن عساكر؛ الضعيفة (197) (ضعيف جدا)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی چار علتیں ہیں۔
1)ارسال: اس لیے کہ قبيصة تابعی ہیں۔
2)زهير بن محمد تميمي "مختلف فيه" راوی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اہل شام کی زھیر سے روایت ٹھیک نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے امام بخاری سے اس زھیر کی حدیث کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ میری رائے میں اس زھیر کی احادیث موضوع ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اہل شام کا زھیر سے روایت کرنا حدیث کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

3)خيران بن العلاء مشہور راوی نہیں ہے اور ابن حبان کے علاوہ اس کی کسی نے توثیق نہیں کی ہے۔

4)أبو الدرداء هاشم بن محمد بن صالح الأنصاري کے متعلق مجھے نہیں معلوم ہوسکا۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے اور حجت کے قابل نہیں ہے اور یہ حدیث منکر ہے۔
 
Top