• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مصادر سیرت امام ترمذی:
۱-الإرشاد إلی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی (ت: ۴۴۶ھ) (۳/۴۰۹)
۲-الأنساب للسمعانی (ت: ۵۶۲ھ)
۳-البدایۃ والنہایۃ: تالیف الحافظ ابن کثیر (ت: ۷۷۴ھ) (۱۱/ ۶۶)
۴- بستان المحدثین تالیف : شاہ عبدالعزیز دہلوی (ت: ۱۲۳۹ھ)
۵-تاریخ التراث العربی : تالیف فؤاد سزکین ۔
۶-تذکرۃ الحفاظ : تالیف الذھبی( ت: ۷۴۸ھ) (۲؍۶۳۳)
۷-تقریب التہذیب لابن حجر (ت: ۸۵۲ھ)
۸-التقییدلمعرفۃ الرواۃ والسنن والمسانید لابن نقطہ ( ت: ۶۲۹ھ) (۱/۹۲-۹۳)
۹-تہذیب التہذیب: تالیف ا بن حجر العسقلانی (ت: ۸۵۲ھ) (۹/۳۸۷)
۱۰-تہذیب الکمال: تالیف المزی ( ت: ۷۴۲ھ) (۲۶؍ ۲۵۰)
۱۱-الثقات لابن حبان (ت: ۳۵۴ھ) (۹/۱۵۳)
۱۲-جامع الأصول لابن الأثیر الجزری (ت: ۶۰۶ھ)
۱۳-حجۃ اللہ البالغہ : تالیف : شاہ ولی اللہ دہلوی (ت: ۱۱۷۶ھ)
۱۴-الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ: تالیف نواب صدیق حسن القنوجی (ت: ۱۳۰۷ھ) (۳۷۰)
۱۵-الخلاصہ للخزرجی (ت : ) (۳۵۵)
۱۶-سیر اعلام النبلاء: تالیف الذھبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۱۳؍۲۰۳-۲۲۱)
۱۷- سیرۃ البخاری :تالیف: علامہ عبدالسلام مبارکپوری (ت: ۱۳۴۲ھ)
۱۸-شذرات الذہب لابن العماد الحنبلی (ت: ۱۰۸۹ھ) (۲/۱۷۴)
۱۹-شروط الأئمہ الستۃ لمحمدبن طاہر المقدسی (ت: ۵۰۷ھ)
۲۰-شروط الأئمہ لابن مندۃ (ت: ۳۹۵ھ) تحقیق ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی
۲۱-شروط الأئمۃ الخمسۃ لأبی بکر محمد بن موسیٰ الحازمی (ت: ۵۸۴ھ)
۲۲-طبقات الحفاظ: للسیوطی (ت: ۹۱۱ھ) (۲۷۸)
۲۳-العبرللذہبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۱/۴۰۲)
۲۴-فوائد فی علوم الحدیث وکتبہ وأہلہ : تالیف : علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (اختیار وتعلیق : ڈاکٹر عبدالعلیم بن عبدالعظیم بستوی ) ط۔ مکتبہ دار المنہاج ، ریاض ۔
۲۵-الکاشف للذہبی( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۷۷)
۲۶-الکتب الستۃ وما لحقہا من أعمال ، تالیف: ڈاکٹر یحییٰ بن عبداللہ الثمالی، طائف، سعودی عرب ۔
۲۷-کشف الظنون: تالیف حاجی خلیفہ ملا کاتب چلپی (ت: ۱۰۶۷ھ)۔
۲۸-معجم البلدان للحموی
۲۹- مقدمہ تحفۃ الأحوذی :تالیف: علامہ عبدالرحمن مبارکپوری (ت: ۱۳۵۳ھ)
۳۰-مقدمہ جامع الترمذی للعلامہ احمد شاکر
۳۱-مقدمۃ سنن ترمذی : (اردو) : مترجم مولانا وحید الزماں حیدرآبادی۔
۳۲-مناہج المحدثین ، تالیف: ڈاکٹر عبدالعزیز شائع ، استاذ حدیث ، جامعۃ الإمام ، سعودی عرب۔
۳۳-میزان الاعتدال للذہبی ( ت: ۷۴۸ھ) (۳/۶۷۸)
۳۴-النجوم الزاہرۃ لابن تغری بردی ( ۸۷۴ھ) (۳/۸۱)
۳۵-نکت الہمیان فی نُکت العمیان للصفدی (ت: ۷۶۴ھ) (ص: ۲۶۴)
۳۶-الوافی بالوفیات للصفدی (ت: ۷۶۴ھ)
۳۷-وفیات الا ٔعیان : تالیف ابن خلکان (ت: ۶۸۱ھ) ، (۴؍۲۷۸)
۳۸-ہدیۃ العارفین :تالیف اسماعیل پاشا۔
(مرتبہ: ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبارالفریوائی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سنن ترمذی کے حواشی میں استعمال ہونے والے رموز وعلامات


خ
صحیح البخاری
م
صحیح مسلم
ت
سنن الترمذی
ن
سنن النسائی
ق
سنن ابن ماجہ
حم
مسند احمد
ط
موطا امام مالک
دی
سنن الدارمی
الصحیحۃ
سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، للالبانی
الضعیفۃ
سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، للالبانی
تفرد بہ الترمذی
یعنی یہ حدیث صرف سنن الترمذی میں ہے اور صحاح ستہ کے بقیہ مؤلفین کے یہاں نہیں ہے
انظر ما قبلہ
اس سے پہلے کی حدیث ملاحظہ ہو
انظر حدیث رقم (۔۔۔۔)
حدیث نمبر (۔۔۔۔) ملاحظہ ہو
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)
(خ) سے مراد صحیح البخاری، (الاعتکاف) یعنی صحیح البخاری کی کتاب الاعتکاف، (۵) یعنی باب نمبر، (۲۰۳۲) یعنی حدیث نمبر
* * * * *​
* * *​
*​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

1- كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱-کتاب: طہارت کے احکام ومسائل ۱؎


1- بَاب مَا جَاءَ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ
۱-باب: وضو( طہارت) کے بغیر صلاۃ مقبول نہ ہونے کابیان​


1- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ح و حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلاَ صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ" قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ: "إِلاَّ بِطُهُورٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ - اسْمُهُ عَامِرٌ، وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ -۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۲ (۲۲۴) ق/الطہارۃ ۲ (۲۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۷۴۵۷) حم (۲۰۲،۳۹، ۵۱، ۵۷، ۷۳) (صحیح)
۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : '' صلاۃبغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیاجاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اورحسن ہے۳؎ ۔
۲- اس باب میں ابو الملیح کے والد اُسامہ ،ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : طہارت کالفظ عام ہے وضواورغسل دونوں کو شامل ہے، یعنی صلاۃکے لیے حدث اکبر اوراصغردونوں سے پاکی ضروری ہے، نیزیہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدَثوں سے پاکی (معنوی پاکی)کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی(مکان، بدن اورکپڑاکی پاکی)بھی ضروری ہے،نیزدیگرشرائط صلاۃبھی ،جیسے روبقبلہ ہونا، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغرواکبرسے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیرصلاۃہوجائیگی۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صلاۃ کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یافرض ، یاصلاۃجنازہ۔
وضاحت ۳؎ : ''یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورحسن ہے ''اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانامقصودنہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہترہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جوصحیحین میں ہے (بخاری: الوضوء باب ۲، (۱۳۵)ومسلم : الطہارۃ ۲(۲۷۵)اورمولف کے یہاں بھی آرہی ہے (رقم۷۶)نیزیہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول ''اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے'' کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ اُن صحابہ سے بھی روایت ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون ومعنی کی حدیث فی الجملہ اُن صحابہ سے بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الطُّهُورِ
۲-باب: طہارت کی فضیلت کابیان​


2- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَ نْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوْ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ الذُّنُوبِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ - هُوَ أَبُوصَالِحٍ السَّمَّانُ - وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ، وَقَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، وَهَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَهُوَ الأَصَحُّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَثَوْبَانَ، وَالصُّنَابِحِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَاسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، وَقَدْ رَوَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ. وَالصُّنَابِحُ بْنُ الاَعْسَرِ الأحْمَسِيُّ صَا حِبُ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهُ الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأمَمَ فَلاَ تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي "۔
* تخريج: م/الطہارۃ ۱۱(۲۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۴۲) ط/الطہارۃ ۶(۳۱) (صحیح)
۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جب مسلمان یامومن بندہ وضوکرتا اوراپنا چہرہ دھوتا ہے توپانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں ۱؎ ، جو اس کی آنکھوں نے کئے تھے یااسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھرجب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکرنکلتاہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۳؎ ، ۲- اس باب میں عثمان بن عفان ، ثوبان، صنابحی ، عمروبن عبسہ،سلمان اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،ان کا سماع رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمن بن عسیلہ، اورکنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس سفرکیا ،راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہﷺ کا انتقال ہوگیا ،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں ۔
اورصنابح بن اعسراحمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہاجاتاہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : ''میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پرفخرکروں گا تومیرے بعدتم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا''۔
وضاحت ۱؎ : گناہ جھڑجاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیو نکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیرمعاف نہیں ہوتے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ وضوجسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔
وضاحت ۳؎ : بظاہریہ ایک مشکل عبارت ہے کیو نکہ اصطلاحی طورپرحسن کامرتبہ صحیح سے کم ہے، تو اس فرق کے باوجودان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جاسکتاہے؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجرنے کی ہے (الف)اگرحدیث کی دویادوسے زائد سندیں ہوں تومطلب یہ ہوگاکہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اوردوسری سندکے لحاظ سے صحیح ہے، اوراگرحدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اوردوسرے کے یہاں صحیح ہے، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہارکیاگیا ہے کہ یہ حسن ہے یاصحیح ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مِفْتَاحَ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ
۳-باب: وضو صلاۃ کی کنجی ہے​


3- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ هُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَالْحُمَيْدِيُّ يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهُوَ مُقَارَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ۔
* تخريج: د/الطہارۃ۳۱ (۶۱) ق/الطہارۃ۳ (۲۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۵) حم (۱/۱۲۳،۱۲۹) دی الطہارۃ ۲۲ (۷۱۴) (حسن صحیح)
۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے ۱ ؎ اورصلاۃ میں جوچیز یں حرام تھیں وہ ''السلام علیکم ورحمۃ اللہ'' کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے، ۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں۳؎ ، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمدبن حنبل ،اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اورحمیدی: عبداللہ بن محمدبن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ اکبرہی کہہ کرصلاۃ میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے صلاۃ میں حرام کیا ہے، ''اللہ اکبر''کہہ کرصلاۃ میں داخل ہونا نبی اکرمﷺ کا دائمی عمل تھا، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے صلاۃ کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی صرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ ہی کے ذریعہ صلاۃ سے نکلا جاسکتا ہے ۔دوسرے کسی اورلفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔
وضاحت ۳؎ : یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اورجمہورکے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پردلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیںہوتا ،امام بخا ری جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جوتعدیل کا تیسرامرتبہ ہے ۔
وضاحت۴؎ : مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے، لفظ مقارب دوطرح پڑھاجاتا ہے: راء پرزبرکے ساتھ، اورراء کے زیرکے ساتھ، زبرکے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے، اور زیرکے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگرثقہ راویوں کی حدیث سے قریب ترہے، یعنی اس میں کوئی شاذیا منکرروایت نہیں ہے، امام ترمذی نے یہ صیغہ ولیدبن رباح اورعبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔


4- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوُا: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلاَةُ، وَمِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الْوُضُوءُ"۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۶) وانظر حم (۳/۳۳۰) (ضعیف)
(سندمیں سلیمان بن قرم اورأبویحیی القتات دونوں ضعیف ہیں، مگرآخری ٹکڑا'' مفتاح الصلاة الوضوء ''پچھلی حدیث کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے)
۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' صلاۃ جنت کی کنجی ہے، اور صلاۃ کی کنجی وضو ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا يَقُولُ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ
۴-باب: بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا​


5- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ - قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى: أَعُوذُ بِاللّهِ - مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَجَابِرٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَحَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ: رَوَى هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، فَقَالَ سَعِيدٌ: عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وقَالَ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ: عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ وَمَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، فَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ قَتَادَةُ رَوَى عَنْهُمَا جَمِيعًا۔
* تخريج: خ/الوضوء ۹(۱۴۲) والدعوات ۱۵ (۶۳۲۲) م/الحیض ۳۲ (۳۷۵) د/الطہارۃ ۳ (۴) ن/الطہارۃ ۱۸(۱۹) ق/الطہارۃ ۹(۲۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲) حم (۳/۱۰۱/۲۸۲) دی/الطہارۃ۹(۶۹۶) (صحیح)
۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺجب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تویہ دعاء پڑھتے:''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ'' (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اورناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اورناپاک جنیوں سے) '' ۱؎ ۔
شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیزنے دوسری بار''اللهم إني أعوذبك'' کے بجائے ''أعوذ بالله'' کہا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی ، زیدبن ارقم، جابراورابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورعمدہ ہے ،۳- زیدبن ارقم کی سند میں اضطراب ہے ، امام بخاری کہتے ہیں: کہ ہوسکتا ہے قتادہ نے اسے (زیدبن ارقم سے اورنضربن انس عن أبیہ ) دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔
وضاحت ۱؎ : مذکورہ دعاپاخانہ میں داخل ہو نے سے پہلے پڑھنی چاہئے، اور اگر کوئی کھلی فضامیں قضائے حاجت کرنے جارہا ہوتو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑااٹھانے سے پہلے یہ دعاپڑھے۔


6- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱) (صحیح)
۶- انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے:''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ'' (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : گندی جگہوں میں گندگی سے انس رکھنے والے جن بسیراکرتے ہیں، اسی لیے نبیﷺ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنیوں سے پناہ مانگتے تھے، انسان کی مقعدبھی قضاء حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے اس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کواذیت پہنچاتے ہیں، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعاپڑھی جاتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاءِ
۵-باب: بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے وقت کی دعا​


7- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ قَالَ: "غُفْرَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى - اسْمُهُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الأشْعَرِيُّ -. وَلاَ نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلاَّ حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۷(۳۰) ق/الطہارۃ۱۰(۳۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴) دي/الطہارۃ ۱۷(۷۰۷) (صحیح)
۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعدجب پاخانہ سے نکلتے توکہتے: ''غفرانك'' (یعنی اے اللہ : میں تیری بخشش کا طلب گارہوں ۱؎ )۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایسے موقع پراستغفارطلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ''کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہاانعامات میں سے ہیں جن کا شکریہ اداکرنے سے انسان قاصرہے ،اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کااعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا(سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیزکودورکردیااورمجھے عافیت دی)کے معنی سے اس معنی کی تائیدہوتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث حسن غریب ہے ، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیو نکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سندبھی ہوسکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت وتائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دوطرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک '' لانعرفه إلامن هذا الوجه '' ہے، اور دوسرا '' وإسناده ليس بمتصل'' پہلے جملہ سے یہ بتانامقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے واردہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہرکرنا ہے اور '' إسناده ليس بمتصل'' کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سندمیں انقطاع ہے یعنی اس کاضعف خفیف ہے ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی اس باب میں اگرچہ اوربھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سندسے ثابت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ
۶-باب: پیشاب یاپاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت​


8- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءَ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا أَتَيْتُمْ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا" قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: فَقَدِمْنَا الشَّامَ، فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ مُسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةِ، فَنَنْحَرِفُ عَنْهَا وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَيْدِيِّ، وَمَعْقِلِ بْنِ أَبِي الْهَيْثَمِ، (وَيُقَالُ مَعْقِلُ بْنُ أَبِي مَعْقِلٍ)، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَأَبُو أَيُّوبَ - اسْمُهُ خَالِدُ بْنُ زَيْدٍ - وَالزُّهْرِيُّ - اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ - وَكُنْيَتُهُ أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "لاَتَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بِبَوْلٍ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا" إِنَّمَا هَذَا فِي الْفَيَافِي، وَأَمَّا فِي الْكُنُفِ الْمَبْنِيَّةِ لَهُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُهَا، كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ.
* تخريج: خ الوضوء ۱۱(۱۴۴) والصلاۃ ۲۹(۳۹۴) م/الطہارۃ ۱۷ (۲۶۴) د/الطہارۃ ۴(۹) ن/الطہارۃ ۱۹،۲۰،۲۱(۲۰،۲۱،۲۲) ق/الطہارۃ ۱۷(۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۸) ط/القبلۃ ۱ (۱) حم (۵/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۲۱) دی/ الطہارۃ۶(۶۹۲) (صحیح)
۸- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤتوپاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو'' ۱؎ ۔
ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھاکہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں توقبلہ کی سمت سے ترچھے مڑجاتے اورہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی ، معقل بن ابی ہیشم ( معقل بن ابی معقل ) ابوامامہ ، ابوہریرہ اورسہل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورسب سے صحیح ہے،۳- ابوالولیدمکی کہتے ہیں:ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی کاکہناہے کہ نبی اکرمﷺ نے جویہ فرمایاہے کہ پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ، اس سے مرادصرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے، رہے بنے بنائے پاخانہ گھر توان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائزہے، اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے، احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے، رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائزنہیں،گویاکہ (امام احمد) قبلہ کی طرف منہ کرنے کونہ صحراء میں جائزقراردیتے ہیں اورنہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں(البتہ پیٹھ کرنے کوبیت الخلاء میں جائزسمجھتے ہیں)۔
وضاحت ۱؎ : یہ خطاب اہل مدینہ سے اوران لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اوربیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے، اوراسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق (پورب) یامغرب (پچھم) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یاجنوب کی طرف منہ یاپیٹھ کرکے بیٹھیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۷-باب: قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت​


9- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ، فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَعَائِشَةَ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الطہارۃ (۱۳) ق/الطہارۃ ۱۸ (۳۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۲۵۷۴) (صحیح)
(سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے )
۹- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاکہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں ،پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوقتادہ ، عائشہ ، اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


10- وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ يَبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ.
وَحَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۱) (ضعیف الإسناد)
۱۰- عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺکو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
جابر رضی اللہ عنہ کی نبی اکرمﷺسے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث(جس میں جابرکے بعد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبارسے تضعیف کی ہے ۔


11- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَقِيتُ يَوْمًا عَلَى بَيْتِ حَفْصَةَ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَى حَاجَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ، مُسْتَدْبِرَ الْكَعْبَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۱۲(۱۴۵) م/الطہارۃ ۱۷(۶۱۱) د/الطہارۃ ۵ (۱۲) ن/الطہارۃ ۲۲ (۲۳) ق/الطہارۃ ۱۸ (۳۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۲) ط/القبلۃ ۲ (۳) حم (۲/۱۲،۱۳) دي/الطہارۃ ۸(۶۹۴) (صحیح)
۱۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک روزمیں (اپنی بہن) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھاکہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے قضائے حاجت فرمارہے ہیں ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : احتمال یہ ہے کہ نبی اکرمﷺکا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بناپرتھا اوراُمّت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے ، اورپھریہ کہ آپ اوٹ تھے۔(تحفۃ الأحوذی: ۱/۲۲، ونیل الأوطارللشوکانی)
 
Top