HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
علی رضی اللہ کسی بھی طرح " خلیفہ بلا فصل " ثابت نہیں ہوتے۔شیعہ حضرات سورۃ مائدہ اس آیت کا حوالہ دے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں۔
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾ ﴿005:055﴾
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
( جس کے اثبات کے لئے مختلف تفاسیرو روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے غلط نظریات کو صحیح ثابت کرنے میں ناکام رہیں ہیں )
اور ہم انشا اللہ ان تمام رویات کو غلط ثابت کر کے رہیں گے۔ہم ان سے کچھ سوالات ضرور کریں گے تا کہ ان کی غلط توجیہات کو بھی منظر عام پر لا سکیں ۔ثابت کیا جائے کہ ولی کے معنوں میں ایک معنیٰ " بلا فصل خلیفہ " بھی ھےعربی لغط سے جواب درکار ہےجب ولایت کے مستحقین کے لئے لفظ مومنین لایا گیا ھے تو اس کی تخصیص صرف علی رضی اللہ کے ساتھ کیوں کی گئی؟
کیا حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا قرآن و سنت سے جائز ہے یا زکوٰ ۃ صرف حالت رکوع میں دینے کا حکم ہے؟
اگر یہ فعل آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا یہ بدعت نہیں کہلوائی جائے گی ؟کیا شیعہ حضرات حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں۔
اگر کوئی شخص حالت رکوع میں ادائے زکوٰۃ کرے تو کیا وہ بھی خلیفہ بلا فصل ہی کہلوایا جائے گا کیونکہ آپ اسے بہت بڑی نیکی اور ولایت کے استحقاق کے لئے ضروری سمجھتے ہیں
کیا حضرت علی رضی اللہ کے پاس اتنا سونا موجود تھا کہ جس پر زکوٰۃ واجب تھی اگر نہیں تھا تو زکوٰہ دینے کا کیا مقصد؟
کیا آپ رضی اللہ بھی اس دور میں سرمایہ دار تھے یا کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح فقیرانہ زندگی ہی گزارتے رہے
کیا نماز میں یہ فعل ادا کرنا نماز کو خراب کرنے اور فعل کثیرہ کا باعث تو نہیں
" من کنت مولا فعلی مولا " سے خلیفہ بلا فصل کیسے ثابت ہوتا ہے کہیں مزکور ہو تو دکھائیں جیسا کے آپ ولی کے معنیی سردار کے لیتے ہیں تواگر مولا کے معنی سردارہی کے لئے جائیں تو علی رضی اللہ تو تمام انبیاء کو بھی سردار ثابت ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار ہیں
اور کیا اس سے علی رضی اللہ کا مرتبہ آپ صلیی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہ ہو گیا اور زمانہ نبوت میں دو افراد ایک ہی عہدہ پر فائز ثابت نہیں نہ ہوں گے۔اگر مولا کے معنیٰ محبوب اور دوست کے سمجھے جائیں تو کیا حرج ہے
اس آیت سے قبل والی آیت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾
﴿005:054﴾
ترجمہ :اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔
آپ کی پیش کردہ ما قبل آیت میں جس محبت وموءدت کا ذکر فرمایا گیا ہے ہم سیاق و سباق کے حولے سے یہ مطلب کیوں نہیں لے سکتے ، اور جن تفاسیر کا آپ لوگ سہارا لیتے ہیں وہ تمام موضوعی اورضعیف ہیں جن کے راوی بھی مجہول مزکور ہیں
" انما ولیکم " میں "ولی " کی اضافت "کم " کی طرف ہے اللہ پاک کی طرف نہیں اس لئے اس آیت سے آپ کس طرح " علی ولی اللہ " ثابت کر رہے ہیں ، کیا جواب ہے آپ کے پاس، اگر بفرض محال آپ کی اس غلط بات کو مان بھی لیا جائے تو تمام بارہ اماموں کی خلافت اس آیت سے کیسے ثابت کریں گے؟
اس سے ماقبل آیت 50 میں لفظ ولی کا بھی استعمال دیکھ لیں
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾ ﴿005:051﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
یہاں آپ دوست مراد کیوں لیتے ہیں سردار کیوں نہیں ،امید ہے آپ جواب دینے سے معزور ہی رہیں گے
شیعہ حضرات کے خود ساختہ دین میں ان کا کلمہ بھی مسلمانوں کے کلمے سے مختلف ہے ۔۔۔ ایسا کلمہ جو نہ تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے پڑھا نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑھایا اور نہ ہی علی رضی اللہ نے کسی کو پڑھایا ۔۔۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کلمہ بظاہر علی رضی اللہ کی شان بیان کرنے کیلئے اور اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے استعمال کیا جا تا یے لیکن کیا کریں ہر وہ عمل یا نظریہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی یا فعلی ثابت نہ ہو اپنے اندر خامی ہی رکھتا ہے جس کی مثال ان کے کلمے کا یہ جزو یعنی " علی ولی اللہ " کہنا ۔۔۔
ہم آپ کے سامنے سورۃ النساء کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ولی کون ہیں اور ان کا کیا مقام ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں گے ۔۔۔
انشا اللہ
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ﴿004:069﴾ ترجمہ: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انیباء اور صدیق اور شہدا اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے لوگوں کے سامنے اپنے نیک بندوں کے چار درجات بیان فرمائے ہین جن کی صحبت قیامت کے دن مومنوں کو مل سکتی ہے جن میں پہلے دو درجات تو رہتی دنیا میں نصیب نہین ہو سکتے لیکن بقیہ دو درجات انسان اپنی سعی سے اس دنیا میں حاصل کر سکتا ہے
یعنی نبوت کا اختتام ہو چکا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہی صحابیت کا در بھی بند ہو چکا اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی صحابی ( صدیقین )بن سکتا ہے
اگر کسی کو لفظ صدیق اور صحابی میں فرق نظر آئے تو یہ آیت پڑہ لے
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ﴿057:019﴾ اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان (کے اعمال) کا صلہ ہوگا اور ان (کے ایمان) کی روشنی اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں مندرجہ بالا آیت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کیلئے ہی اتری تھی
بقیہ دو مقامات انسان اپنی کوشش سے حاصل کر سکتا ہے اگر اللہ پاک قبول و منظور فرمائیں اور وہ دو مقام شہید اورصالحین کے ہیں
قیامت تک کوئی بھی شخص خود کو اللہ پاک کے رستے میں کٹوا ڈالے یا نیک اعمال بھی ساتھ کرتا رہے تووہ شہید اور صالح ( ولی ) بن سکتا ہے جبکہ یہ مقامات صحابہ رضی اللہ حاصل کر چکے جن میں شہدا بھی تھے اور صالحین بھی تھے۔اب دیکھنے کا مقام یہ ہے کہ کیا علی رضی اللہ کو صرف لقب ولی سے پکارنا کیا ان کی شان کم کرنے کے مترادف ہے یا نہیں جبکہ اللہ پاک نے انہیں صدیق اور صحابی پکارا ۔قرآن پاک میں لفظ ولی دو طرح استعمال کیا گیا ہے
1- اللہ پاک کیلئے
2- نیک لوگوں کیلئے
اللہ تعالیٰ کی کتاب نے اٹھاسی (۸۸) مقامات پر ”ولی“ ” اولیا “اور ”ولایت “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں - اسی طرح اولیا ءکرام کے لئے (12) مقامات پرا اللہ کی کتاب نے ” لاَخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَخزَنُونَ “ کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے
پہلے ہم دیکھیں گے کہ اللہ پاک کیلئے کیسے استعمال ہوا اس کیلئے ہم نے تین آیات کا انتخاب کیا ہے
وَ مَا لَکُم مِن دُون ِاللہِ مِن وَّ لِیٍ وَلاَ نَصِیرٍ
ترجمہ: اور اللہ کے علاوہ تمہارے لئے نہ کوئی ولی ہے اور نہ کوئی مدد گار - ( البقرہ : 107) قارئین کرام ! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے اور اللہ نے اس بات کو واضح کردیا تو اب دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہورہے ہیں :
اَنتَ وَلِیُّنَا فَا غفِر لَنَا وَ ار حَمنَا و اَنتَ خَیرُ الغَافِرِین
ترجمہ: ( اے اللہ) تو ہی ہمارا ولی ہے - لہٰذا ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے-( الاعراف:155)
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں :
فَا طِرَ السَّمٰوٰ تِ وَ الاَ ر ضِ اَ نتَ وَلِیِّ فِی الدُّ نیَا وَ الآ خِرَ ةِ تَوَ فَّنِی مُسلَِماً وَّ اَلحِقنِی بِا الصَّالِحِینَ
ترجمہ : آسمانوں اور زمین کے پید ا کرنے والے ! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے - مجھے مسلمان کی حیثیت سے فوت کرنا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا ۔( یوسف : ۱۰۱)
اب اللہ کے آخری رسول کا انداز بھی ملاحظہ کیجئے- آپ مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے - ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے کرتے انہیں آگا ہ کرتے ہیں:
اِ نَّ وَلِیَّ اللَّہُ الَّذِ ی نَزَّ لَ الکِتَا بَ وَ ھُوَ یتَولَّی الصَّالِحِینَ
ترجمہ : بلا شبہ میرا ولی تو وہ اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہی نیک لوگوں کا والی ہے - ( الاعراف : 196)
آگاہ رہیے! جن معنوں میں اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی ولی نہیں ہے -ان معنوں اور مفہوم میں اگر کوئی شخص کسی بندے کو ”ولی “ بنادے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہوگا۔اب آتے ہیں دوسرے مفہوم یعنی نیک لوگوں ( صالحین و ولی ) کیلئے کیسے استعمال ہوا
وَالمُومِنُونَ وَالمُومِنَاتُ بَعضُھُم اَولِیَائُ بَعضٍ یَا مُرُ و نَ بِالمَعرُوفِ ِوَ یَنھَون َ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقِیمُو نََ الصَّّلٰو ةَ وَ یُ تُو ن َ الزَّ کا ة َ وَ یُطِیعُون َ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ اُ ولٰٓئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللَّہُ اِ نَّ اللَّہََ عَزِیز حَکِیم
ترجمہ : مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں- وہ نیکی کاحکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں - ان لوگوں پر اللہ ہرصورت رحم فرمائے گا- بلاشبہ اللہ غالب حکمت والاہے -
( التوبہ : 81)
اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو
( 1) نیکی کی تلقین کرے
(2) برائی سے روکے
(3) نماز قائم کرے
(4) زکوٰة اداکرے
(5) اللہ کی اطاعت کرے
(6) رسول کی اطاعت بجالائے
یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جا ئیں وہ ولی ہیں اور مومنین جو ان خصوصیات کے حامل ہیں - ولی ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے
اب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اہل تشیع علی رضی اللہ کو " علی ولی اللہ " کہہ کر ان کو ان کے اصلی مقام صحابیت سے گرا رہے ہیں
یہ ناہنجار طبقہ علی رضی اللہ کو " رب " بھی کہتا ہے تو ہم نے شروع ہی میں تیں آیات پیش کر کے نہ صرف ان کی نفی کر دی بلکہ ان کے کفر و شرک کو بھی واضح کردیا ہے
آیت کی ٍغلط تفسیر کا رد:
اس کی سند میں ایک راوی خالد بن یزید العمری کذاب (جھوٹا) اور متروک ہے۔ اسے حافظ ابن حجر نے (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لابن حجر 649/1 ، المائدہ:55) متروک ،
یحیٰ بن معین نے (کتاب الجرح و التعدیل 360/3 ، و سندہ صحیح) میں کذاب (جھوٹا) ،
امام ابو حاتم الرازی نے(کتاب الجرح و التعدیل 360 رقم : 1630) میں کذاب کہا ہے. اس کے علاوہ حافظ ہیثمی اور حافظ ابن حبان نے بھی اس پر شدید جرح کی ہیں۔
جبکہ اس کا دوسرا راوی اسحاق بن عبد اللہ بن محمد بن علی بن حسین نامعلوم ہے۔ حافظ ہیثمی نے کہا: "اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے راوی ہیں جنیں میں نہیں جانتا۔" (مجمع الزوائد 17/7 ، سورۃ المائدۃ)
حافظ ابن کثیر نے اس روایت اور دوسری روایات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "ان (روایات) میں سے سرے سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے ، سندوں کے ضعیف اور راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے۔" (تفسیر ابن کثیر : 567/2 ، المائدہ :55)
اس روایت کو علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے۔ (ج 10 ص 582 ح 4921)
نوٹ: یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر تمام روایات ضعیف یا باطل و مردود ہیں۔
امام ابو جعفر الباقر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔۔۔ اور علی ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے ہیں (تفسیر ابن جریر 594/4 ح 12225)
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾ ﴿005:055﴾
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں
( جس کے اثبات کے لئے مختلف تفاسیرو روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے غلط نظریات کو صحیح ثابت کرنے میں ناکام رہیں ہیں )
اور ہم انشا اللہ ان تمام رویات کو غلط ثابت کر کے رہیں گے۔ہم ان سے کچھ سوالات ضرور کریں گے تا کہ ان کی غلط توجیہات کو بھی منظر عام پر لا سکیں ۔ثابت کیا جائے کہ ولی کے معنوں میں ایک معنیٰ " بلا فصل خلیفہ " بھی ھےعربی لغط سے جواب درکار ہےجب ولایت کے مستحقین کے لئے لفظ مومنین لایا گیا ھے تو اس کی تخصیص صرف علی رضی اللہ کے ساتھ کیوں کی گئی؟
کیا حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا قرآن و سنت سے جائز ہے یا زکوٰ ۃ صرف حالت رکوع میں دینے کا حکم ہے؟
اگر یہ فعل آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا یہ بدعت نہیں کہلوائی جائے گی ؟کیا شیعہ حضرات حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں۔
اگر کوئی شخص حالت رکوع میں ادائے زکوٰۃ کرے تو کیا وہ بھی خلیفہ بلا فصل ہی کہلوایا جائے گا کیونکہ آپ اسے بہت بڑی نیکی اور ولایت کے استحقاق کے لئے ضروری سمجھتے ہیں
کیا حضرت علی رضی اللہ کے پاس اتنا سونا موجود تھا کہ جس پر زکوٰۃ واجب تھی اگر نہیں تھا تو زکوٰہ دینے کا کیا مقصد؟
کیا آپ رضی اللہ بھی اس دور میں سرمایہ دار تھے یا کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح فقیرانہ زندگی ہی گزارتے رہے
کیا نماز میں یہ فعل ادا کرنا نماز کو خراب کرنے اور فعل کثیرہ کا باعث تو نہیں
" من کنت مولا فعلی مولا " سے خلیفہ بلا فصل کیسے ثابت ہوتا ہے کہیں مزکور ہو تو دکھائیں جیسا کے آپ ولی کے معنیی سردار کے لیتے ہیں تواگر مولا کے معنی سردارہی کے لئے جائیں تو علی رضی اللہ تو تمام انبیاء کو بھی سردار ثابت ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار ہیں
اور کیا اس سے علی رضی اللہ کا مرتبہ آپ صلیی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہ ہو گیا اور زمانہ نبوت میں دو افراد ایک ہی عہدہ پر فائز ثابت نہیں نہ ہوں گے۔اگر مولا کے معنیٰ محبوب اور دوست کے سمجھے جائیں تو کیا حرج ہے
اس آیت سے قبل والی آیت
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾
﴿005:054﴾
ترجمہ :اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔
آپ کی پیش کردہ ما قبل آیت میں جس محبت وموءدت کا ذکر فرمایا گیا ہے ہم سیاق و سباق کے حولے سے یہ مطلب کیوں نہیں لے سکتے ، اور جن تفاسیر کا آپ لوگ سہارا لیتے ہیں وہ تمام موضوعی اورضعیف ہیں جن کے راوی بھی مجہول مزکور ہیں
" انما ولیکم " میں "ولی " کی اضافت "کم " کی طرف ہے اللہ پاک کی طرف نہیں اس لئے اس آیت سے آپ کس طرح " علی ولی اللہ " ثابت کر رہے ہیں ، کیا جواب ہے آپ کے پاس، اگر بفرض محال آپ کی اس غلط بات کو مان بھی لیا جائے تو تمام بارہ اماموں کی خلافت اس آیت سے کیسے ثابت کریں گے؟
اس سے ماقبل آیت 50 میں لفظ ولی کا بھی استعمال دیکھ لیں
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾ ﴿005:051﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
یہاں آپ دوست مراد کیوں لیتے ہیں سردار کیوں نہیں ،امید ہے آپ جواب دینے سے معزور ہی رہیں گے
شیعہ حضرات کے خود ساختہ دین میں ان کا کلمہ بھی مسلمانوں کے کلمے سے مختلف ہے ۔۔۔ ایسا کلمہ جو نہ تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے پڑھا نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑھایا اور نہ ہی علی رضی اللہ نے کسی کو پڑھایا ۔۔۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کلمہ بظاہر علی رضی اللہ کی شان بیان کرنے کیلئے اور اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے استعمال کیا جا تا یے لیکن کیا کریں ہر وہ عمل یا نظریہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی یا فعلی ثابت نہ ہو اپنے اندر خامی ہی رکھتا ہے جس کی مثال ان کے کلمے کا یہ جزو یعنی " علی ولی اللہ " کہنا ۔۔۔
ہم آپ کے سامنے سورۃ النساء کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ولی کون ہیں اور ان کا کیا مقام ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں گے ۔۔۔
انشا اللہ
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ﴿004:069﴾ ترجمہ: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انیباء اور صدیق اور شہدا اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے لوگوں کے سامنے اپنے نیک بندوں کے چار درجات بیان فرمائے ہین جن کی صحبت قیامت کے دن مومنوں کو مل سکتی ہے جن میں پہلے دو درجات تو رہتی دنیا میں نصیب نہین ہو سکتے لیکن بقیہ دو درجات انسان اپنی سعی سے اس دنیا میں حاصل کر سکتا ہے
یعنی نبوت کا اختتام ہو چکا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہی صحابیت کا در بھی بند ہو چکا اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی صحابی ( صدیقین )بن سکتا ہے
اگر کسی کو لفظ صدیق اور صحابی میں فرق نظر آئے تو یہ آیت پڑہ لے
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾ ﴿057:019﴾ اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان (کے اعمال) کا صلہ ہوگا اور ان (کے ایمان) کی روشنی اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں مندرجہ بالا آیت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کیلئے ہی اتری تھی
بقیہ دو مقامات انسان اپنی کوشش سے حاصل کر سکتا ہے اگر اللہ پاک قبول و منظور فرمائیں اور وہ دو مقام شہید اورصالحین کے ہیں
قیامت تک کوئی بھی شخص خود کو اللہ پاک کے رستے میں کٹوا ڈالے یا نیک اعمال بھی ساتھ کرتا رہے تووہ شہید اور صالح ( ولی ) بن سکتا ہے جبکہ یہ مقامات صحابہ رضی اللہ حاصل کر چکے جن میں شہدا بھی تھے اور صالحین بھی تھے۔اب دیکھنے کا مقام یہ ہے کہ کیا علی رضی اللہ کو صرف لقب ولی سے پکارنا کیا ان کی شان کم کرنے کے مترادف ہے یا نہیں جبکہ اللہ پاک نے انہیں صدیق اور صحابی پکارا ۔قرآن پاک میں لفظ ولی دو طرح استعمال کیا گیا ہے
1- اللہ پاک کیلئے
2- نیک لوگوں کیلئے
اللہ تعالیٰ کی کتاب نے اٹھاسی (۸۸) مقامات پر ”ولی“ ” اولیا “اور ”ولایت “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں - اسی طرح اولیا ءکرام کے لئے (12) مقامات پرا اللہ کی کتاب نے ” لاَخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَخزَنُونَ “ کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے
پہلے ہم دیکھیں گے کہ اللہ پاک کیلئے کیسے استعمال ہوا اس کیلئے ہم نے تین آیات کا انتخاب کیا ہے
وَ مَا لَکُم مِن دُون ِاللہِ مِن وَّ لِیٍ وَلاَ نَصِیرٍ
ترجمہ: اور اللہ کے علاوہ تمہارے لئے نہ کوئی ولی ہے اور نہ کوئی مدد گار - ( البقرہ : 107) قارئین کرام ! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے اور اللہ نے اس بات کو واضح کردیا تو اب دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہورہے ہیں :
اَنتَ وَلِیُّنَا فَا غفِر لَنَا وَ ار حَمنَا و اَنتَ خَیرُ الغَافِرِین
ترجمہ: ( اے اللہ) تو ہی ہمارا ولی ہے - لہٰذا ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے-( الاعراف:155)
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں :
فَا طِرَ السَّمٰوٰ تِ وَ الاَ ر ضِ اَ نتَ وَلِیِّ فِی الدُّ نیَا وَ الآ خِرَ ةِ تَوَ فَّنِی مُسلَِماً وَّ اَلحِقنِی بِا الصَّالِحِینَ
ترجمہ : آسمانوں اور زمین کے پید ا کرنے والے ! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے - مجھے مسلمان کی حیثیت سے فوت کرنا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا ۔( یوسف : ۱۰۱)
اب اللہ کے آخری رسول کا انداز بھی ملاحظہ کیجئے- آپ مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے - ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے کرتے انہیں آگا ہ کرتے ہیں:
اِ نَّ وَلِیَّ اللَّہُ الَّذِ ی نَزَّ لَ الکِتَا بَ وَ ھُوَ یتَولَّی الصَّالِحِینَ
ترجمہ : بلا شبہ میرا ولی تو وہ اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہی نیک لوگوں کا والی ہے - ( الاعراف : 196)
آگاہ رہیے! جن معنوں میں اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی ولی نہیں ہے -ان معنوں اور مفہوم میں اگر کوئی شخص کسی بندے کو ”ولی “ بنادے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہوگا۔اب آتے ہیں دوسرے مفہوم یعنی نیک لوگوں ( صالحین و ولی ) کیلئے کیسے استعمال ہوا
وَالمُومِنُونَ وَالمُومِنَاتُ بَعضُھُم اَولِیَائُ بَعضٍ یَا مُرُ و نَ بِالمَعرُوفِ ِوَ یَنھَون َ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقِیمُو نََ الصَّّلٰو ةَ وَ یُ تُو ن َ الزَّ کا ة َ وَ یُطِیعُون َ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ اُ ولٰٓئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللَّہُ اِ نَّ اللَّہََ عَزِیز حَکِیم
ترجمہ : مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں- وہ نیکی کاحکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں - ان لوگوں پر اللہ ہرصورت رحم فرمائے گا- بلاشبہ اللہ غالب حکمت والاہے -
( التوبہ : 81)
اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو
( 1) نیکی کی تلقین کرے
(2) برائی سے روکے
(3) نماز قائم کرے
(4) زکوٰة اداکرے
(5) اللہ کی اطاعت کرے
(6) رسول کی اطاعت بجالائے
یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جا ئیں وہ ولی ہیں اور مومنین جو ان خصوصیات کے حامل ہیں - ولی ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے
اب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اہل تشیع علی رضی اللہ کو " علی ولی اللہ " کہہ کر ان کو ان کے اصلی مقام صحابیت سے گرا رہے ہیں
یہ ناہنجار طبقہ علی رضی اللہ کو " رب " بھی کہتا ہے تو ہم نے شروع ہی میں تیں آیات پیش کر کے نہ صرف ان کی نفی کر دی بلکہ ان کے کفر و شرک کو بھی واضح کردیا ہے
آیت کی ٍغلط تفسیر کا رد:
اس کی سند میں ایک راوی خالد بن یزید العمری کذاب (جھوٹا) اور متروک ہے۔ اسے حافظ ابن حجر نے (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لابن حجر 649/1 ، المائدہ:55) متروک ،
یحیٰ بن معین نے (کتاب الجرح و التعدیل 360/3 ، و سندہ صحیح) میں کذاب (جھوٹا) ،
امام ابو حاتم الرازی نے(کتاب الجرح و التعدیل 360 رقم : 1630) میں کذاب کہا ہے. اس کے علاوہ حافظ ہیثمی اور حافظ ابن حبان نے بھی اس پر شدید جرح کی ہیں۔
جبکہ اس کا دوسرا راوی اسحاق بن عبد اللہ بن محمد بن علی بن حسین نامعلوم ہے۔ حافظ ہیثمی نے کہا: "اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے راوی ہیں جنیں میں نہیں جانتا۔" (مجمع الزوائد 17/7 ، سورۃ المائدۃ)
حافظ ابن کثیر نے اس روایت اور دوسری روایات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "ان (روایات) میں سے سرے سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے ، سندوں کے ضعیف اور راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے۔" (تفسیر ابن کثیر : 567/2 ، المائدہ :55)
اس روایت کو علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے۔ (ج 10 ص 582 ح 4921)
نوٹ: یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر تمام روایات ضعیف یا باطل و مردود ہیں۔
امام ابو جعفر الباقر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔۔۔ اور علی ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے ہیں (تفسیر ابن جریر 594/4 ح 12225)