• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مشہور تقسیم کے مطابق بھی تفسیر کی تین اقسام ہیں۔

تفسیر بالماثور:
ماثور کا لفظ اثر سے ماخوذہے جس کا مطلب اسلاف کا وہ تفسیری منہج ہے جو آثار یعنی آیات، احادیث اوراقوال صحابہ سے لیا گیا ہو۔اسے تفسیربالروایہ یا تفسیر منقول بھی کہتے ہیں۔اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ تفسیر جس میں صحت اور قبولیت کے بکثرت دلائل ہوں۔
۲۔ وہ تفسیر جس میں صحت اور قبولیت کے دلائل بکثرت نہ ہوں۔ اس کاسبب مذاہب باطلہ کا وضعی اور انحرافی کردار، نیز اصحاب رسول کے اقوال کا بلاسند روایت ہونا جس سے روایت خلط ملط ہوگئی اور صحیح وغیر صحیح میں تمیز کرنا مفسر کے لئے مشکل ہوگیا۔اس لئے ایسی تفسیر کو قبول نہیں کیا جاتا۔ اور نہ ہی کوئی پایہ کا مفسر اسے سوائے تحقیق کرنے یا اس کی ضلالت سے آگاہ کرنے کے بیان کرے گا ۔
اس تفسیر بالمأثورکے بنیادی مصادر یہ رہے ہیں:

تفسیرقرآن ازقرآن

قرآن کی تفسیر قرآن سے ۔اس لئے کہ قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے۔ القرآن یفسر بعضہ بعضاً یعنی قرآن کا ایک حصہ اگر مجمل ہے تو دوسرا حصہ اس کی تفسیر کرتا ہے۔جہاں اختصار ہے تو دوسرا مقام اس کی تفصیل بیان کرتاہے۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ مؤثر اوربہترین ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے وہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی مراد کیا ہے اگر وہ اس مراد کو قرآن مجید میں ہی دوسرے مقام پر واضح فرما دے تو پھر کیوں نہ اسے ترجیح دی جائے۔ قرآن مجید میں پیش کی گئی یہ تفسیر پانچ انداز کی ہے۔
ا) اجمال کی تفسیر :
اس سے مراد ہے کہ قرآن مجید میں ایک جگہ ایک بات کو مختصرا ً بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ اس کی تفصیل بتا دی جاتی ہے۔ مثلاً{۔۔ أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَۃُ الأَنْعَام۔۔} (المائدہ:۱) تمہارے لئے چوپائے مویشی حلال کردئے گئے ہیں۔یہ ایک مجمل آیت ہے جس میں حرام کئے ہوئے جانوروں کی تفصیل نہیں ملتی۔ اس آیت کی تفسیر ایک اور آیت یوں پیش کرتی ہے۔
{حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَکَّیْْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالأَزْلاَمِ ذَلِکُمْ فِسْقٌ۔۔۔} (المائدہ: ۳)تم پر مردار ، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پرغیر اللہ کانام لیا گیا ہو حرام کردیا گیا ہے۔،گلا گھٹ کر مرنے والی، چوٹ کھا کر مرنے والی، بلندی سے گر کر مرنے والی، ٹکر کھا کر مرنے والی اور جسے کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو،سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کر لیا ہو اور جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ،سب حرام کردئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ تم پانسوں کے ذریعے قسمت معلوم کرو،یہ سب گناہ ہیں۔
اسی طرح یہ آیت: {أَلا إِنَّ أَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ} (یونس:۶۲)سنو! اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
یہ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کی تفسیر اللہ تعالی نے اگلی آیت میں فرمادی : {الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ} (یونس:۶۳) وہ جو صاحب ایمان ہوں اور اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔
ب) الفاظ کی تفسیر :
اس سے مراد ہے کہ قرآن میں پائے جانے والے مفرد الفاظ کی تفسیر چند دوسری آیات سے ہو۔ مثلاً:
{اہدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ}
اسی طرح آیت: {وَمَا أَدْرَاکَ مَا الطَّارِقُ }(الطارق:۲) میں والطارق کی تفسیر دوسری آیت میں کردی گئی{النَّجْمُ الثَّاقِبُ} (الطارق:۳)
ایک اور مثال : {فَتَلَقّیٰ آدَمُ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٍ} (البقرہ:۳۷)میں لفظ کلمات سے کیا مراد ہے؟ اس کی تفسیر ایک دوسری آیت میں یوں ملتی ہے۔ {قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ} (الاعراف:۲۳)دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ج) مطلق کی مقید سے تفسیر :
اس سے مراد قرآن کی وہ آیات یا کلمات ہیں جن میں ایک حکم عام دیا گیا مگر دوسری آیت اس حکم کو مقید کردیتی ہے۔ مثلاً:
{حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْر۔}
تم پر حرام کر دیا گیا مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت۔

اس آیت سے یہ حکم عام ملتاہے کہ ہر طرح کا خون حرام ہے۔ لیکن دوسری آیت اس خون کو مقید کرتی ہے۔
{قُل لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً عَلَی طَاعِمٍ یَطْعَمُہُ إِلاَّ أَن یَکُونَ مَیْْتَۃً أَوْ دَماً مَّسْفُوحاً } (الأنعام: ۱۴۵) کہہ دیجئے! جو مجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے میں کھانے والے پر ان چیزوں کو حرام پاتا ہوں کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو۔
دم مسفوح سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کا خون نہیں بلکہ’’ بہایا ہوا خون ‘‘ حرام ہے۔

د) عام کی خاص سے تفسیر :
اس سے مراد قرآن میں پایا جانے والا حکم عام ، جسے مخصوص حالات کے پیش نظر خاص کردیا جائے۔ مثلاً: {وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْء ٍ۔۔} (البقرۃ:۲۲۸) اور طلاق یافتہ اپنا انتظار کریں تین حیض تک۔
اس آیت میں تمام مطلقہ عورتوں پر ایک ہی عدت فرض کی گئی ہے جو کہ تین قروء ہے۔ لیکن ایک اور آیت میں اس حکم کو مخصوص حالات کے تحت خاص کر دیا گیا ہے:
{ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا۔۔۔}
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر لو۔ پھر انہیں طلاق دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھوؤ۔ تو تمہارے لئے ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں۔

اس آیت نے پہلے حکم عام کو چند مخصوص حالات کے پیش نظر خاص کر دیا اور بتایا کہ وہ عورتیں جن کو ہاتھ لگانے سے پہلے ان کے شوہر طلاق دے دیں تو ان کے ذمہ کوئی عدت نہیں ہے۔

ر) ان آیات کو جمع کر کے تفسیر کرنا جن میں اختلاف کا وہم ہو:
قرآن پاک کی چند آیات ایسی ہیں کہ ان کو اگر الگ الگ پڑھا جائے تو ان میں اختلاف محسوس ہوتا ہے لیکن اگر ان آیات کو جمع کر کے پڑھاجائے تو وہ اختلاف ختم ہو جائے گا۔ مثلاً:
{إِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِندَ اللّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَہُ کُن فَیَکُونَ}
بیشک عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ تعالی کے ہاں ایسی ہے جیسے آدم علیہ السلام کی ہے ۔ انہیں اللہ نے مٹی سے پیدا فرمایا پھر حکم دیا کہ ہوجا پس وہ ہوگیا۔
{وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ} (الحجر:۲۸)
جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکتی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔
{ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ} (الرحمن:۱۴)
انسان کو کھنکتی مٹی سے پیدا کیا جو ٹھیکری کی طرح تھی۔

ان آیات میں بظاہریہ لگتا ہے کہ کہیں انسان کی تخلیق تراب سے بتائی ، کہیں طین کا ذکر ہے، کہیں {صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُون} (الحجر:۳۳) کا اور کہیں {۔۔۔صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ}۔ لیکن اگر ان آیات کو جمع کر کے غور کیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ تخلیق آدم کے یہ مختلف مراحل ہیں جسے اللہ تعالی نے {وَقَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَاراً } (نوح:۱۴) سے ذکر فرمایا۔ اس لئے ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیرقرآن، سنت سے

اگر قرآن میں سے تفسیر نہ ملے تو پھر تفسیر بالماثور کا دوسرا مصدر یامرحلہ احادیث نبویہ ﷺ سے قرآن کی تفسیر کرنا ہے کیونکہ یہ احادیث قرآن کی شارح اور اس کی وضاحت کرنے والی ہیں۔کوئی لغت یا عقل اس سے بہتر تفسیر نہیں کر سکتی۔ امام شافعیؒ فرمایا کرتے:
کُلُّ مَا حَکَمَ بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَہُوَ مِمَّا فَہِمَہُ مِنَ الْقُرْآنِ قال اللہ تعالی: {إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ وَلاَ تَکُن لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْماً}(النساء: ۱۰۵) وقال: {۔۔۔ وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ} (النحل:۴۴) وقال تعالی: {وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَہُدًی وَرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ} (النحل:۶۴) ولِہٰذا قال رسولُ اللہِ ﷺأَلاَ إِنَّما أُوْتِیْتُ الْقُرآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ(سنن ابی داؤد:۴۶۰۴، ومسند احمد ۴/۱۳۱) یعنی السنۃ۔آپ ﷺ نے جو بھی فیصلے یا حکم دئے وہ قرآن مجید سے ہی سمجھ کردئے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: بلاشبہ ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان ایسے فیصلے کریں جو اللہ تعالی آپ کو سجھائے اور خائنوں کی طرف سے جھگڑالو نہیں بننا۔ یہ ارشاد: ا ور یہ قرآن ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کو کھول کھول کربیان کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے شاید کہ لوگ سوچیں۔اور یہ ارشاد: ہم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی کہ آپ انہیں جس اختلاف میں وہ پڑتے ہیں کھول کھول کر بیان کردیں: یہ ہدایت ہے اور جو ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے باعث رحمت بھی۔ اسی لئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا: بے شک میں کتاب اور اس جیسی اس کے ساتھ اور چیز بھی دیا گیا ہوں۔ یعنی سنت۔(الفتاوی الکبری:۷/۱۹۵)

کیونکہ اپنی زبان میں بھی لکھی ہوئی کتب اہل زبان کو سمجھ نہیں آتیں ۔ محض صرف زبان کی معرفت کا نام فہم نہیں ہوتا بلکہ الفاظ کے معانی کی بحث وتدقیق بھی ضروری ہوتی ہے اور یہ ایسی وہبی شے ہے جو اللہ تعالی کتاب کے درجہ اور قوت تالیف کے مطابق ہی افراد کو عطا کرتا ہے۔ورنہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بھی اہل زبان تھے۔ حسانؒ بن عطیہ فرماتے ہیں:
رسول اکرم ﷺ پر قرآن کریم کی وحی نازل ہوتی پھرجبریل امین قرآن کی تفسیر کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں سنت لے کرحاضر ہوتے۔(تفسیر قرطبی ۱/۳۷)

نبی اکرمﷺ کو مبعوث فرمانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ قرآن کی تشریح و تفسیر بیان کریں۔تفسیر وتشریح کا یہ طریقہ بتانا بھی اللہ تعالی نے ذمہ لیا تھا {ثم إن علینا بیانہ} یہی بیان ۔۔تفسیر وتشریح یا سنت وحدیث کی صورت میں آپ ﷺ پر نازل ہوتا تھاجیسے قرآن نازل ہوتا، فرق اتنا تھا کہ قرآن تلاوت ہوتا ہے اور سنت تلاوت نہیں ہوتی۔اس لئے قرآن کریم میں اگر تفسیر نہ ملے تو سنت سے ہی تفسیر کو لینا چاہئے۔ صحابہ کرام نے بھی یہی سمجھا۔ آپ ﷺ نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے دریافت فرمایا: آپ کیسے فیصلے کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا: کتاب اللہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو؟ پھر میں سنت رسول اللہ ﷺ سے فیصلے کروں گا۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا: اگر سنت میں نہ پاؤ تو؟ پھر عرض کی: میں اجتہاد کروں گا۔ آپ ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا: اللہ تعالی کا شکر جس نے رسول کے قاصد کو وہ فہم وتوفیق بخشی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو۔(مسانیدو سنن، سند جید)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ¢} (الجمعہ:۲) وہی تو ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ لوگ اس سے قبل کھلی گمراہی میں تھے۔

یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جوتلاوت کتاب، تعلیم کتاب، تعلیم سنت، تزکیہ نفس کی صورت میں آپﷺ کی تھیں جنہیں آپﷺ نے احسن طریقے سے نبھایا ۔بالخصوص تعلیم قرآن کی بھاری ذمہ داری کوآپ ﷺ نے خوب ادا کیا۔ مثلاً:
{لِّلَّذِیْنَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ ۔۔۔} (یونس:۲۶)جنہوں نے نیکی کی ان کے لئے حسنی ہے اور زیادہ بھی۔بروایت ابو موسیؓ اور ابی بن کعبؓ، رسول اکرم ﷺ نے زِیَادَۃٌ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اللہ تعالی کے چہرے کی طرف دیکھنا ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم ۶/۱۹۴۵، حدیث :۱۰۳۴۱)، (تفسیر ابن جریر الطبری ۱۵/۶۹، حدیث:۱۷۶۳۳) صحیح مسلم (۴۴۹،۱۸۱) میں صہیب بن سنانؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر حجاب کھول دیا جائے گا اوراہل جنت اپنے رب کی طرف نظر اٹھا کر جو لذت وخوشی محسوس کریں گے اس سے بڑھ کر انہیں کوئی شے محبوب نہ ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
اسی طرح یہ ارشاد:
{وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ }(الأنفال:۶۰) اس آیت کی تفسیر میں آپ ﷺ نے فرمایا: قوۃ سے مراد رمی تیر اندازی ، میزائل سازی، یا کوئی بھی ایسی چیز جو دشمن کو نشانہ بناسکے )ہے۔(صحیح مسلم:۴۹۴۶)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن پاک میں بیشتراحکام اجمالاً بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً: روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔ جبکہ احادیث میں ان کی وضاحت کی گئی ۔ مثلاً: {وَأَقِیْمُواْ الصَّلاَۃَ وَآتُواْ الزَّکَاۃَ۔۔۔ } (البقرۃ:۴۳)آپ ﷺنے نماز کے بارے میں ارشاد فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِي أُصَلِّیْ۔ نماز اس طرح پڑھو جیسا مجھے پڑھتا دیکھو۔یہی حال صوم، اور حج وغیرہ کی تفصیلات کا ہے۔ان توضیحات کو لیتے وقت یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ صرف صحیح وحسن احادیث کو لیا جائے اور ضعیف احادیث کو شامل نہ کیا جائے جن میں مراسیل اور منقطع بھی داخل ہیں۔ صحابہ رسول نے آپ سے اسی طرح تفسیرسیکھی کہ دس آیات کا علم وعمل سیکھنے کے بعد اگلی آیات شروع کرتے۔ یا ابن عمر ؓجیسے سورہ بقرہ کو آٹھ سال میں سیکھتے اور یاد کرتے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ علم طب، حساب اور انجینئرنگ میں جب تک کتب کو اچھی طرح نہ کھنگال لیں وہ آگے نہیں بڑھ پاتے مگر قرآن کریم کے بارے میں یہ سوچنا کہ صحابہ نے آپ ﷺ سے اسے معمولی سا سیکھا ہے جس کی دلیل یہ ہو کہ آپ ﷺ سے بہت کم تفسیر منقول ہے؟ یاد رکھئے! احکام شرعیہ، ایمانیات اور اخلاقیات کی نبوی تفاسیر کو قبول کرنا فرض ہے جو ہر تفسیر پر مقدم ہے۔امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَلسُّنَّۃُ تُفَسِّرُ الْقُرْآنَ وَتُبَیِّنُہُ۔ سنت(حدیث) قرآن کی تفسیر وتشریح کرتی ہے۔
جیسے {غیر المغضوب علیہم } سے مراد یہودی لیا اور {ولا الضالین}سے نصاری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقوال صحابہؓ سے تفسیر
اگر قرآن کریم سے یا سنت رسول سے تفسیر نہ ملے تو پھر صحابہ کرام کے اقوال بھی تفسیر کے لئے لئے جاسکتے ہیں۔بالخصوص ان صحابہ کے جو صاحب علم اور متخصص فی التفسیر تھے جیسے خلفاء راشدین اور دیگرعلماء صحابہ۔اس لئے کہ قرآن کریم ان کی زبان ، زمانہ اورانہی کے مخصوص حالات میں نازل ہوا۔ انبیاء کے بعد طلب حق میں ان سے سچی اور مخلص جماعت کوئی نہیں۔نیز خواہشات نفس سے محفوظ اور ایسی مخالفت سے ان کے دل پاک تھے جو انسان میں حق وباطل کے درمیان تمیز کو چھین لیتے ہیں۔ امام ابو عبد الرحمن سلمیؒ فرماتے ہیں:

"صحابہ ؓ میں سے جو حضرات قرآن کی تعلیم دیاکرتے تھے مثلاًسیدنا عثمانؓ، سیدناعبد اللہ بن مسعود ؓ، وغیرہ۔ انہوں نے ہمیں احادیث کے ذریعے بتایا کہ جب وہ آپ ﷺسے دس آیات سیکھتے تو ان سے اس وقت تک آگے نہ پڑھتے جب تک کہ ان آیات کی تمام علمی وعملی باتوں کا علم حاصل نہ کر لیں"۔

صحابہ کرام ؓ سے جو تفسیری اقوال ملتے ہیں ان کے چند نمونے یہ ہیں:
l …{ إِنَّہُ کَانَ حُوباً کَبِیْرًا¢} (النساء: ۲) سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ نے اس آیت میں موجود الفاظ " حوبا کبیرا"کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: "حوبا کبیرا یعني إِثْمًا عَظِیْمًا"۔

l… ذَلِکَ أَدْنَی أَلاَّ تَعُولُوْا¢} (النساء:۳)) سیدنا ا بن عباس ؓ نے "ألا تعولوا"کی تفسیر "ألا تمیلوا"بیان کی ۔

اس ضمن میں جن دس صحابہ کرام ؓ کو خاص شہرت ملی ان میں خلفاء اربعہ۔۔ابو بکرؓ،عمرؓ،عثمان ؓ،علیؓ، عبادلہ ثلاثہ عبداللہ بن عباسؓ،عبداللہ بن مسعودؓ،عبداللہ بن عمرؓ ، ابی بن کعب ،ؓ زید بن ثابتؓ اور ابو موسیٰ الاشعریؓ شامل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر صحابہ کو قبول کرنے کے اصول:
تفسیر صحابہ قبول کرنے کے لئے چند اصول پیش نظر رہنے چاہئیں :

۱۔ صحابہ کرام ؓ جس تفسیر پر اتفاق کر لیں تو وہ صحیح تفسیر ہے۔
۲۔ قرآن کے بارے میں ان کا فہم مضمون اور دلالت دوسروں کی نسبت زیادہ کامل ہے۔ خاص طور پر خلفاء اربعہ اورحضرات ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ، ابوہریرہؓ، اورسیدہ عائشہ ؓو ام سلمہ ؓ کا۔ لیکن اگر بالفرض صحابہ ؓ کا کوئی قول یا تفسیر ، قرآن یا سنت ثابتہ کے خلاف ہو تو ترجیح ہر صورت میں قرآن و سنت ہی کو ہو گی۔
۳۔ اگر کسی آیت کی تفسیر میں اختلاف کریں(جو شاذونادر ہے)۔ تو جس صحابیؓ کی رائے مصالح شرعیہ اور عامۃ المسلمین کے حق میں زیادہ مفید ہو اسے قبول کرلیا جائے۔

ان کے اقوال حجت کیوں؟ اقوال صحابہ ؓکی حجیت کا یہی مطلب ہے کہ صحابہؓ عام معاملات میں حتی الامکان کتاب و سنت سے الگ نہیں ہوتے بلکہ اکثر وبیشتر نصوص نبویہ یعنی احادیث کو ہی تلاش کرتے اور ان پر عمل کی کوشش کرتے تھے۔ سیدنا عمر ؓ نقل روایات میں متشدد تھے اس لئے کہ جو چیز شرعاً حجت ہو اس کے متعلق ایسا تثبت اور شدت یقینا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ صحابہ کرام ؓ تو رسول اکرم ﷺ کی عملی اور اخلاقی زندگی کا نمونہ تھے اور تفسیر ، عقائد ،اخلاق اور فقہیات میں آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے ہی پابند تھے۔ اس لئے صحابہ کرام ؓ کو اسی نگاہ ہی سے دیکھنا چاہئے کیونکہ انہوں نے قرآن اور نزول قرآن کے ماحول کامشاہدہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقوال تابعینؒ سے تفسیر قرآن
تابعین ،جنہوں نے صحابہ کرام ؓ سے علم حاصل کیا۔ ان کے اقوال تفسیر قرآن میں تیسرے درجے کے حامل اورخاصی اہمیت رکھتے ہیں۔یہ عہد نبوی کے قریب کے لوگ تھے ۔ان کے زمانے میں ابھی عربی زبان اتنی متاثر نہیں ہوئی تھی۔اس لئے یہ اپنے بعد والوں کی نسبت فہم قرآن میں زیادہ صائب تھے۔ قرآن کی تفسیر میں اقوال تابعین کاحجت ہونے یا نہ ہونے پر علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس اختلاف کا جواب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے یہ دیا ہے:

تابعین کے اقوال فقہ کی فروع میں جب حجت نہیں تو تفسیر میں کیسے حجت ہو نگے لیکن اگر وہ کسی بات پر اجماع کرلیں تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اختلاف کی صورت میں ان کے اقوال ایک دوسرے پر ترجیح نہیں پاسکتے اور نہ ہی بعد والوں پر۔ ایسی صورت میں قرآن وسنت کی لغت یا عام لغت عرب یا اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

یہ بھی فرماتے ہیں: جو بھی صحابہ وتابعین کے تفسیری منہج سے ہٹ کر ان سے الگ موقف اختیار کرتا ہے وہ اپنی اس کوشش میں خطا کار اور بدعتی ہوگا ۔ ہاں اگر وہ اپنی اس تفسیر میں مجتہد ہو تو پھر اس کی خطا معاف ہوسکتی ہے ۔باقی ان کے قول کی مخالفت کرکے جو اپنی تفسیر ان کے برعکس کرتا ہے تو اس نے دلیل اور مدلول دونوں میں ٹھوکر کھائی۔(مجموعۃالفتاوی)

تابعین میں سے جو افراد تفسیر قرآن کے حوالے سے مشہور ہوئے انکے نام یہ ہیں:مجاہدؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، عکرمہؒ اور سعید بن جبیرؒ۔

نوٹ: یہ یاد رہے کہ تفسیر بالماثور ایک مسلمہ فن ہے جو اکیلا ناکافی ہے۔یعنی احادیث، اقوال صحابہ اور تابعین کے اقوال کی روایات کے باوجود مفسر کو ضرور دوسرے علوم وفنون سے مستفید ہوکر انتہائی غور وتدبرسے قرآن مجید کی تفسیر کرنا پڑتی ہے۔ ایسی تفسیر کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ تفسیر بالماثور سے ٹکراتی نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیر ماثور میں اختلاف کے اسباب:
تفسیر ماثور میں بھی اختلاف دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسی صورت میں کیا اصول وضوابط ہوں گے جن کی روشنی میں اس پیدا شدہ اختلاف کا حل مل سکے؟۔ علماء نے ایسے اختلاف کی تین اقسام اور ان کا حل یہ بتایا ہے:

قسم اول:
ایسی روایات اس تفسیر میں ملتی ہیں جن کا اپنا فائدہ ہے مگر اس اختلاف سے آیت کے معنی ومفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا جیسے: اللہ تعالی کا یہ ارشاد
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُ( الإسراء: ۲۳)
سیدنا ابنؓ عباس فرماتے ہیں: قضی بمعنی أمر کے ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ بمعنی وصی کے ہے اور ربیع بن انس فرماتے ہیں : قَضٰی بمعنی أَوْجَبَ کے ہے۔

قسم دوم:
آیت کے ایک لفظ میں دو معنوں کا احتمال ہو تو پھر تفسیر کے لئے آیت کے دونوں معنی ہی لے لئے جاتے ہیں کیونکہ الفاظ قرآن میں معنوی لچک اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے ۔یہی اقوال کے مابین جمع کی صورت ہے کہ دونوں معنی لے کر ان کی مثالیں دے دی جائیں تاکہ آیت کی مرادکے ساتھ معنوی نوع بھی نمایاں ہو۔ مثلاً:
{ وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَo وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ}(الأعراف: ۱۷۵، ۱۷۶) ان پر اس شخص کی خبر پڑھئے جسے ہم نے اپنی آیات کا علم دے رکھا تھا مگر وہ اس سے نکل بھاگا پھر وہ شیطان کی پیروی میں لگ گیا اور بہکے ہوؤوں میں سے ہوگیا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے سے بلند مرتبہ عطا کرتے مگر وہ زمین ہی کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔
ابنؓ مسعود فرماتے ہیں:
یہ آدمی بنو اسرائیل کا کوئی فرد ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: وہ کوئی یمنی ہے ایک اور قول یہ بھی ہے کہ و ہ بلقاء کا رہنے والا تھا۔ ان تمام اقوال میں موافقت یوں پیدا ہوسکتی ہے اگر آیت کا یہی احتمال ہم لے لیں۔ کیونکہ اس میں کوئی تضاد نہیں اور ہر ایک کا قول بطور مثال بھی قبول کیا جاسکتا ہے۔
ایک اور مثال: {وکأْساً دِہَاقاً} (النبأ:۳۴) ابن عباسؓ فرماتے ہیں : دہاق سے مراد بھرا ہوا ہے۔ مجاہد ؒپے در پے کے معنی کرتے ہیں اور عکرمہؒ صاف وشفاف کا معنی۔ یہ اقوال ایک دوسرے کی نفی نہیں کررہے اور تمام معنی مراد لئے جاسکتے ہیں یوں ہر قول معنی کی ایک نوع بھی ہوسکتا ہے۔

قسم ثالث:
لفظ ومعنی کا اختلاف: مثلاً ایک آیت بیک وقت دو متضاد معنوں کی محتمل نہیں ہوسکتی ۔ایسی صورت میں سیاق کو دیکھ کر آیت کا ترجیحی معنی لیا جائے گا۔مثلاً: اللہ تعالی کا یہ ارشاد:
{إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْْرِ اللّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ } (البقرۃ:۱۷۳
بے شک تم پر مردار ، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ پر جو بھی پکارا جائے حرام ہیں۔ تو جو بھی مجبور کردیا گیا بشرطیکہ وہ چاہنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو تو اللہ تعالی غفور رحیم ہیں۔

ابن عباسؓ فرماتے ہیں :
یعنی مردارکے کھانے کا شوقین نہ ہو اور نہ ہی اس کے کھانے میں وہ حد سے زیادہ بڑھے۔دوسرا متضاد معنی یہ بھی لیا گیا ہے کہ امام کے خلاف خروج کرنے والا نہ ہو اور نہ ہی اس کے ساتھ سفر میں اس کا نافرمان ہو۔ ان دونوں معنوں میں ظاہر ہے پہلا معنی ہی ترجیح پائے گا کیونکہ دوسرے معنی کی آیت میں کوئی دلیل نہیں۔

دوسری مثال: {۔۔۔أَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِِ۔۔۔} (البقرۃ:۲۳۷) یا معاف کردے وہ جس کے ہاتھ میں نکاح کی گانٹھ ہے۔سیدنا علیؓ بن ابی طالب فرماتے ہیں: اس سے مراد خاوند ہے ۔ اور سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد ولی ہے ۔ ترجیحی معنی پہلا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے بھی یہی معنی وارد ہوا ہے۔

ان اقسام کے علاوہ ایک آیت کی ایک سے زیادہ قراءتوں کی وجہ سے اختلاف جیسے {سُکِّرَت أَبْصَارُنا} کوامام قتادہ نے شد کے ساتھ پڑھا ہے جو بمعنی سُدَّتْ کے ہوگا اور کسی نے اسے {سکِرَت} بغیر شد کے تو پھر اس کا معنی سُحِرَت ہوگا۔یا
جن میں قرآن کے کسی لفظ کے معانی ایک سے زائد ہوں۔جیسے اشتراک لغوی میں ہوتا ہے۔ کیونکہ لغت میں کچھ کلمات کے ایک سے زائد معانی ہوا کرتے ہیں۔جیسے لفظ قسورۃ ہے۔ یہ تیرانداز کو بھی کہتے ہیں اور شیر کو بھی۔ یا لفظ نکاح ہے اس سے مراد عقد بھی ہے اور وطی بھی۔اسے طرح لفظ قروء ہے لغت میں یہ بمعنی حیض کے بھی ہے اور طہر کے بھی۔ علماء اسے فطری اختلاف کہتے ہیں۔ یا

اعراب کا اختلاف کیونکہ اعراب کا اثر بھی قرآن کی تفسیر پر پڑتا ہے جیسے: {وما یعلم تأویلہ إلا اللہ والراسخون فی العلم} میں الراسخون پر اختلاف ہوا۔ اگر اس کا عطف لفظ جلالت پر کرتے ہیں تو معنی یہ ہوگا کہ راسخ فی العلم بھی اس کا معنی جانتے ہیں اور اگر اسے مبتدا اور {یقولون آمنا بہ} کو اس کی خبر بناتے ہیں تو پھر یہ معنی ہوگا کہ راسخ فی العلم نہیں جانتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتب تفسیر میں اختلاف

کتب تفسیر میں عموماً اختلاف دو قسم کا ہے:

۱۔اختلاف تنوع:
ایسا اختلاف جس میں کوئی تناقض یا تضاد نہیں بلکہ نئے انداز فکر کا ہے ۔یہ ایسا اختلاف ہے جیسے اللہ تعالی اپنی یا رسول کی یا کتاب کی مختلف صفات بیان کردے جس میں ہر اسم اپنی صفت کی خبر دے دے۔یہ بھی امکان ہے کہ اس تفسیر میں ہر مفسر حق پر ہو۔ایسا اختلاف مفسرین صحابہ وتابعین اور دیگر ائمہ میں بھی عام تھا۔ مثلاً بعض مفسرین نے: اہدنا الصراط المستقیم کا مطلب کتاب اللہ یا کتاب اللہ کی اتباع کا لیاہے اور کچھ دین اسلام لیتے ہیں اور بعض اہل السنۃ والجماعۃ لیتے ہیں اور کچھ عبادت کے طریقے یا خوف ورجاء اور اللہ تعالی سے محبت کے طریقے اور اس کے احکام کو ماننے اور نواہی سے بچنے ، کتاب وسنت کی پیروی کرنے یا اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کوکہتے ہیں۔سب جانتے ہیں جس کا نام رکھا جاتا ہے وہ ایک ہوتا ہے مگر اس کی صفات وغیرہ متنوع ہوسکتی ہیں۔ جیسے محمد کہا جائے تو وہی احمد بھی ہیں، حاشر ، وماحی بھی اور عاقب وخاتم المرسلین بھی۔ وہی نبی رحمت بھی ہیں اور نبی ملحمہ بھی۔اسی طرح قرآن کہا جائے تو وہ فرقان بھی ہے اور نور، شفاء، ذکر، حکیم اور الکتاب بھی۔اسی طرح اللہ تعالی کے اسماء حسنی کو لے لیجئے۔بہت سے تراجم وتفاسیر ایسے ہی ہیں۔

۲۔ مفسر کسی بھی لفظ کا متعین یا تمثیلاً ایسا معنی پیش کرے جو تعریفی یا حصری (restricted)ہو مثلاً ایک عجمی یہ پوچھے کہ ما الخبز؟ تو ایک رغیف(bread) کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیا جائے یہ ہے جس سے مقصود وہی روٹی نہیں ہوتی بلکہ اس روٹی کے وجود کو متعین کرنا ہے۔مفسر جب یہ بتائے کہ فمنہم ظالم لنفسہ یا صالحین اور ظالمین سے مراد کیا ہے تو وہ حسب حاجت ہی بتائے گا کہ ظالم اسے کہتے ہیں جس کی نماز رہ جائے جو وضوء اچھی طرح نہیں کرتایا جو ارکان کو پورا نہ کرے۔اور مقتصدوہ ہے جو وقت پراور حکم کے مطابق ہی نماز پڑھے۔وغیرہ ۔سیدنا ابن عباسؓ فرمایا کرتے: تفسیر قرآن کی چار صورتیں ہیں:
ایک وہ جسے عرب اپنے کلام سے جانتے ہیں۔ دوسری وہ جو جاہل بھی سمجھتا ہے اور ایک وہ جسے علماء ہی جانتے ہیں اور چوتھی تفسیر وہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اس کے علم کا اگرکوئی دعوی کرتا ہے تو وہ جھوٹا انسان ہے۔

پھر یہ کہ اس اختلاف کی نوعیت و حقیقت سوائے راجح، مرجوع یامباح اور مستحب کے اور کچھ نہیں۔جیسے دیگر مسائل فقہیہ میں ائمہ اربعہ احترام باہمی کے ساتھ مختلف فیہ ہوتے ہیں۔

صحابہ کرام ؓ کی تفسیر کا بھی یہی حال ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ تفسیر میں مختلف اقوال صحابہ ہوتے ہیں جوآیت کے مختلف احتمالات کی وجہ سے تنوع پیدا کردیتے ہیں جسے عام آدمی اختلاف سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ ان کا فائدہ یہ ہے کہ استخراج مسائل میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور فکر و نظر کی مزید راہیں کھلتی ہیں جس سے جمود ٹوٹتا ہے۔

تفسیر بالماثور کی یہ چاروں اقسام محدثانہ تفاسیر کہلاتی ہیں۔ گو یہ بدعات اور غلو سے خالی ہیں مگر قصص کے بیان میں صحت اسانید کا خیال نہیں رکھاگیااور آثار بھی اسرائیلیات کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں نسبتأً کافی محتاط رہے مگر پھر بھی ان کی تفسیر میں ایسے آثار آ گئے جو مناسب تھا کہ نہ آتے۔ اس تفسیر کی تخریج احادیث وآثار نے اسے اب نکھار دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تفسیرکلمات میں اختلاف کا اصولی حل:

ایسے قرآنی کلمات جو ایک سے زائد معنی کے محتمل ہوں تو؟ ان کے صحیح معنوی انتخاب کے لئے ذیلی اصول پیش نظر رکھ کر ان شاء اللہ تفسیر ی کج روی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے:
٭… قرآن مجید میں وارد الفاظ وکلمات اپنے سیاق وسباق کے مطابق جن شرعی یا لغوی مفاہیم کا تقاضا کرتے ہوں ان سے قرآن کی تفسیر کی جائے۔ یہی حکم الٰہی ہے:{ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط }(النساء:۱۰۵) ہم نے آپ کی طرف کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کریں جو اللہ تعالی آپ کو سجھائے۔ اسی طرح یہ ارشاد{ اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ} (الزخرف:۳) ہم نے اسے عربی قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔ اور یہ ارشاد{ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ } (إبراہیم:۴) ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں بیان کرے۔

٭…اگر شرعی ولغوی معنی میں اختلاف ہو تو قاعدہ یہ ہے کہ وہ معنی لیا جائے گا جس کا شریعت تقاضا کرتی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید شریعت کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوا ہے نہ کہ لغت کو بیان کرنے کے لئے الا یہ کہ وہاں کوئی دلیل ہو تو پھر لغوی معنی کو ترجیح دی جاسکتی ہے اور اسے ہی لیا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال اللہ تعالی کا منافقین کے بارے میں یہ ارشاد{ وَلاَ تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًااً} (التوبۃ:۸۴) صلاۃ : لغت میں دعاکو کہتے ہیں ۔شرع میں یہاں اس کا معنی میت کے لئے مخصوص حالت میں برائے دعا کھڑا ہونا ہے ۔ تو یہاں شرعی معنی مقدم ہوگا کیونکہ یہی متکلم کا مقصود ہے اور مخاطب کو بھی اسی کی تنبیہ کی جارہی ہے باقی ان کے لئے دعا کر نے سے منع فرمانا تو وہ دوسری دلیل سے ہوسکتا ہے نہ کہ اس آیت سے۔

٭…ایک اور مثال جس میں دو مختلف معنی ہیں مگر لغوی معنی مقدم کیا گیا ہے۔ جیسے: {خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ }(التوبۃ:۱۰۳) صلاۃ سے مراد یہاں دعاء ہے ۔ جس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث(۲۴۹۲) ہے۔ ابن ابی اوفیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس جب کسی کے صدقہ کا مال لایا جاتا تو آپ انہیں دعا دیتے۔ آپ ﷺ کے پاس میرے والد بھی اپنا صدقہ لے کر گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ أَبِیْ أَوْفٰی۔

٭…رہی وہ مثالیں جن میں شرعی اور معنوی معنی دونوں پائے جاتے ہوں تو وہ بکثرت ہیں جیسے: سماء ، أرض، صدق وکذب، حجر وانسان۔وغیرہ۔
 
Top