• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر بالرائے

تفسیر کی یہ دوسری قسم اجتہادی تفسیر کہلاتی ہے ۔یااسے تفسیر درایت یا تفسیرمعقول بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد قرآن کی تفسیر، احادیث اور اقوال صحابہؓ و تابعین ؒ کی بجائے زیادہ تر اپنے اجتہاد اور رائے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ رائے دو قسم کی ہوسکتی ہے۔

i) رائے محمود

اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن وسنت سے مستمد ہو۔ یعنی جس میں مفسر ، اپنی رائے کا اظہار کرنے سے قبل تفسیر بالماثور کی طرف رجوع کرچکا ہو اس نے کوشش کی ہو کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن میں ڈھونڈے ، وہاں نہ ملے تو اسے احادیث صحیحہ میں تلاش کرے۔ پھر بھی تفسیر نہ ملے تو یکے بعد دیگرے اقوال صحابہ ؓ اور اقوال تابعین کی طرف رجوع کرے۔ جہاں کوئی ایسا صحیح قول مل گیا جو اس آیت کی تفسیرمیں ہو،اسے لے لے۔ جب کہیں بھی اس آیت کی تفسیر نہ ملے تو پھرقرآن وسنت کے مطالب، مفاہیم اور مقاصد کی روشنی میں آیات کی تفسیرکرے اور اپنی عقل ورائے سے کام لے کر تفسیر کرڈالے۔ یہ تفسیرمحمود یعنی پسندیدہ کہلائے گی اس لئے کہ مقصد قرآن کو وہ پورا کررہی ہوتی ہے۔اسے تفسیر بالدرایہ بھی کہتے ہیں۔علماء ایسی تفسیر کو جائز سمجھتے ہیں جن کے یہ دلائل ہیں:

٭…اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالہا}
کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔

یہ غور وفکر اور تدبر بغیر اسلامی مفاہیم کے نہ ہو اور نہ ہی مقاصد شریعت سے ہٹا ہوا ہو۔ایسی صورت میں یہ محمود رائے ہوگی۔

٭…آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی:
اللّہمّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وعَلِّمْہُ التَّأوِیلَ ۔
اللہ! انہیں دین کی سمجھ اور قرآن کا معنی سکھا دے۔یہ بھی محمود رائے کی طرف اشارہ ہے۔

٭…صحابہ رسول بھی تفسیر میں مختلف وجود میں اختلاف رکھتے تھے۔اس کی وجہ ان کا معنی ومفہوم سمجھنے میں اپنا اپنا اجتہاد تھا۔

ii) رائے مذموم

جو مفسر ، تفسیر کے لئے نہ قرآن سے رجوع کرے ، نہ حدیث سے اور نہ اقوال صحابہ ؓ اور تابعین ؒ سے،تو پھر اس کے ذہن میں کیا ہوسکتا ہے؟ یا تو وہ خود پسندی، خواہش نفس، بدعت وخرافات اور تعلی کا شکار ہے یا پھر جاہل وعدم صلاحیت کا مالک ہے۔ایسے افراد کا عقیدہ غلط اوربلاسند ہوتا ہے ۔ اپنا مخصوص ذہن لے کر ، مخصوص آیات کا انتخاب کرکے اپنی دل پسند تفسیر کرتے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کو سند شرعی مل سکے۔ یہ تفسیر ، تفسیر مذموم اور حرام ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے:
فأمَّا تفسیرُ القرآنِ بِمُجَرّدِ الرَّأْیِ فَحَرَامّ۔
تفسیر قرآن محض رائے سے کرنا حرام ہے۔
شریعت کا کوئی صحیح عالم اسے پسند نہیں کرسکتا۔کیونکہ یہ اللہ تعالی پر ایسی بات کہنا ہے جو اس نے نہیں کہی۔اور جس کا اس مفسر کو علم ہی نہیں۔آپ ﷺ نے بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے: جو قرآن پاک میں بغیر علم کے کوئی بات کہتا ہے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔(سنن ترمذی) اور یہ حدیث بھی: جس نے قرآن میں اپنی طرف سے کوئی رائے دی وہ صحیح بھی ہو اس نے خطا کی۔(سنن ترمذی)۔تاج الدین شہرستانی (م: ۵۴۸ھ)نے کوشش کی کہ تفسیر قرآن میں فلسفہ اور حکمت کو بھی جمع کردیں ۔ چنانچہ جب وہ آیات کی تفسیر کو فلسفہ اور حکمت کے قوانین کے مطابق کرنے لگے تو ظہیر الدین بیہقی نے انہیں کہا:
ہَذَا عَدُوْلٌ عَنِ الصَّوَابِ، وَالْقُرْآنُ لاَ یُفَسِّرُ ِإلاَّ بِتَأوِیْلِ السَّلَفِ وَالتَّابِعِیْنَ، وَالْحِکْمَۃُ بِمَعْزِلٍ عَنْ تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ، خُصُوصاً مَا کُنْتَ تُؤَوِّلُہُ، وَلاَ تُجْمَعُ بَیْنَ الشَّرِیْعَۃِ وَالْحِکْمَۃِ أَحْسَنَ مِمَّا جَمَعَہُ الْغَزَالِیُّ، فَامْتَلأ غَضَباً۔یہ راستی سے ہٹا ہوا انداز ہے۔ قرآن کی تفسیر وہی ہونی چاہئے جو سلف اور تابعین میں رہی۔حکمت کا تفسیر قرآن سے کیا تعلق؟ بالخصوص جو آپ معنی لے رہے ہیں۔ آپ غزالی سے بہتر طریقہ نہیں اپنا سکتے جنہوں نے شریعت اور حکمت کو باحسن یکجا کردیا ہے۔شہرستانی یہ بات سن کر غصے سے بھڑک اٹھے۔

سیدنا عمرؒ بن عبد العزیز نے ایک شخص کو یہ جواب دیا جس نے خواہشات یاجو من کہے اس کا سوال کیا تھا:
عَلَیْکَ بِدِین الصَّبِی الذی فی الکُتّاب والأَعرابِ، والْہَ عما سِواہُما۔
تم بچے کا طریقہ ہی اپناؤ جس کا ہر لمحہ کتابت سیکھنے میں اور بدوؤں میں گذرتا ہے اور باقی تمام اشغال سے بے پروا ہوجاؤ۔ یعنی اسے ذہنی طور پر انہوں نے نابالغ کہا۔

امام مالکؒ فرماتے ہیں:
مَا قَلَّتِ الآثَارُ فِی قَوْمٍ إِلا ظَہَرَتْ فِیْہِمُ الأَہْوَائُ، وَلاَ قَلَّتِ الْعُلَمَائُ إِلا ظَہَرَ فِی النَّاسِ الْجَفَائُ۔
جب کبھی بھی آثار واحادیث کسی قوم میں کم ہوئیں وہاں اہواء خواہشات نفس ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور جب کہیں علماء کی کمی ہوئی وہاں لوگوں کے مزاج میں ظلم رچ بس جاتا ہے۔

قاضی ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ طَلَبَ الدِّیْنَ بِالْکَلامِ تَزَنْدَقَ۔
جس نے دین کو علم کلام کے ذریعے سمجھنا چاہا وہ زندیق بنا۔

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَکْثَرُ النَّاسِ شَکًّا بِالْمَوتِ أَہْلُ الْکَلاَمِ۔
موت کے بارے میں شاکی افراد میں زیادہ تر یہی فلسفی اور کلامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔

امام خطابی ؒنے علم الکلام کے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا ہے:
حِجَجٌ تَہَافَتُ کَالزُّجَاجِ تَخَالُہَا حقاً، وکلٌ کاسرٌ مکسورٗ
بکھری حجتیں ہیں شیشے کی مانند جنہیں تم حق سمجھتے ہو مگر درحقیقت یہ سب ٹوٹی پھوٹی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیراشاری یا باطنی

اس تفسیر کا دارومدار روایت ، رائے یا علم و اجتہاد پرنہیں بلکہ الفاظ قرآنی کا جو ظاہری معنی ومفہوم مراد ہے اس سے ہٹ کر یا ترک کرکے اپنے خیال یا فکر کے مطابق جو پوشیدہ معنی مفسر لے اسے تفسیر اشاری یا باطنی کہتے ہیں۔ ایسے معانی روافض اورصوفیا کرام کے ہاں عام رائج ہیں۔ بظاہر اس تفسیرکا تعلق انسان کی عملی زندگی سے کم اور انہونی چیزوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے۔عام عقائد واعمال میں بھی یہی اشارے ان کے ہاں چلتے ہیں جو ان روافض وصوفیاء کو سوجھتے یا خواب میں بتائے جاتے ہیں۔ مثلاً ألا إن َّأوْلِیَاء اللّٰہُ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ َیحْزَنُوْنَ۔سنو! اللہ کے اولیاء کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ اس آیت میں ولی کا اشاری معنی جو زبان زد صوفیاء ہے وہ انسان ہے جوبہت پہنچا ہوا ہو اور جس سے خوارق عادت کرامات ظاہر ہوتی ہوں، جو انہونی کو ہونی کردے۔ اس لئے ایسے اولیاء کے دس طبقات بنارکھے ہیں جو غوث، ولی، قطب، ابدال، دستگیر، مشکل کشا، داتا، امام غائب جیسے مناصب کے ذریعے نظام دنیا سنبھالے ہوئے ہیں۔مگر یہ سب مناصب ، عطا کنندہ سمیت ایک اہم راز ہیں جن کی حقیقت سوائے صدری نسخوں کے اور کوئی نہیں ۔ اس لئے مسئلہ ولایت دونوں کے ہاں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔دونوں کے ہاں ولی کی افضلیت یا ولایت کا عموماً اشاری یا باطنی معنی یہ لیا جاتا ہے کہ ولایت ایک طویل مگر مسلسل مشقت کی عبادت وریاضت کا نام ہے جو ولی کو مدتوں بعد نصیب ہوتاہے جبکہ نبوت ایک وہبی چیز ہے جو ولایت جیسی قربانیاں نہیں چاہتی۔وہ تواس کے برعکس محض بیٹھے بٹھائے سکون سے نصیب ہوجاتی ہے۔ اس لئے ولایت ، نبوت سے افضل ہے۔امامت بالاتر است از رتبہ پیغمبری۔ (حیات القلوب ۳؍۱۰از علامہ باقر مجلسی)اسی تعریف کے عملی مظاہرے خانقاہوں، مزاروں، درگاہوں،عرسوں اور چہلموں پر ہی ہوتے ہیں۔ جس نے رسول کے ساتھ عشق کے اضافے کے بعد اس کی اطاعت کی اہمیت ہر اعتبار سے کم کردی ہے۔ اور بقول سیدنا علی رضی اللہ عنہ أتباع کل ناعق ہر زور سے بولنے والے کے پیچھے لگ جانے والے ۔ ولی کی اس تعریف کا یہ تکلف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اگر قرآن مجید میں اسی آیت کو ذرا مزید لیا جاتا جہاں اللہ تعالی نے ولی کی تعریف فرمادی ہے۔ ارشاد ہے:
{ أَلا إِنَّ أَوْلِیَاء اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ } (یونس:۶۲،۶۳)
سنو! اللہ کے اولیاء کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔

جن افراد میں یہی دو نشانیاں ایمان اورتقوی ہوں گے وہی صحیح معنوں میں اولیاء اللہ ہیں۔

اشاری اور باطنی تفسیر کے چند نمونے:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے فتاوی (۷/۱۲۷)میں یہ نمونے موجود ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

صلاۃ سے مراد وہ نماز نہیں جو پڑھی جاتی ہے یا یہ وہ نماز ہے جو عوام کے لئے ہے مگر خواص کے لئے صلاۃ سے مراد۔ہمارے اسرار کو جاننا ، صیام سے مراد ہمارے اسرار کو چھپانا اور حج کرنے سے مراد ہمارے مقدس مشائخ کی زیارت کرنا ہے۔

جنت دراصل دنیا میں خواص کا لذتوں سے متمتع ہونے کا نام ہے اور نار سے مراد اپنے آپ کو شریعت کا پابند کرنا اور اس کے بوجھوں تلے لانا ہے۔ جن انبیاء کرام کو آپ ﷺ نے شب معراج دیکھا وہ آسمان کے ستارے ہیں۔ جس آدم کو آپ ﷺملے وہ چاند ہے، یوسف زہرہ ستارہ ہے اور ادریس سورج ۔سیدنا علیؓ باطنی علم کے شہوار تھے۔ ابوبکرؓ ظاہری علم کے۔ جب کہ اہل السنۃ کا اتفاق ہے کہ سیدنا ابوبکر شریعت کے تمام باطنی وظاہری علوم کے گل سرسبد تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
{۔۔۔ وَکُلَّ شَیْْء ٍ أحْصَیْْنَاہُ فِیْ إِمَامٍ مُبِیْنٍ } (یس:۱۲)
امام سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔۔
{ تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَہَبٍ وَتَبّ} (المسد:۱)
دونوں ہاتھوں سے مراد(نعوذ باللہ) سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما ہیں۔
{۔۔۔ فَقَاتِلُواْ أَئِمَّۃَالْکُفْرِ ۔۔۔}(التوبۃ: ۱۲)
سے مراد طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما ہیں۔
{۔۔۔وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ۔۔۔} (الإسراء:۶۰)
سے مراد خاندان بنو امیہ ہے۔(نعوذباللہ)
{ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ}
میں کفار سے مراد۔ انسان کا اپنا نفس ہے۔
باطنی صوفیاء کے ہاں
{اذْہَبْ إِلَی فِرْعَوْنَ۔۔۔ } (النازعات:۱۷)
میں فرعون سے مراد انسان کا اپنا نفس ہے۔ اور
{۔۔۔ إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَۃً ۔۔۔} (البقرۃ:۶۷)
سے مراد نفس ہے۔یہ بقرہ سے مراد(نعوذ باللہ) سیدہ عائشہ ؓ کو بھی لیتے ہیں۔۔
{۔۔۔فَاخْلَعْ نَعْلَیْْکَ۔۔۔} (طہ:۱۲)
سے مراد دنیا وآخرت کا ترک کرنا ہے۔
{ وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ } (طہ:۴۱)
میں تم ہوجاؤں اور تم میں ہوجاؤ۔
{۔۔۔ وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ } (العنکبوت: ۶۹) )
اللہ تعالی نیک لوگوں میں چمکتا ہے۔

معنویت سے عاری یہ تفسیراکثر اوقات قرآن کے مقاصد سے ہٹی ہوئی اور صوفیانہ موشگافیوں سے پر ہوتی ہے جسے وہی جان سکتا ہے جو باطنی مزاج کے ساتھ تصوف ورفض پر دسترس رکھتا ہو۔واضح سی بات ہے کہ ایسا باطنی یا اشاری علم اگر شریعت کے ظاہری علم کے خلاف ہے تو پھر یہ یا تو جہالت وگمراہی ہے یا پھر زندیقیت والحاد۔قرآن تو پھر کھیل تماشا بن گیا۔ایسے معانی کے بعد کون قرآن کے شرعی احکام سمجھے گا؟ اور کیا یہ تفسیرمسلمانوں کو باہم مل بیٹھنے دے گی؟۔شرعاً کوئی مسلمان باطنی علم پر ایمان لانے کا مکلف نہیں ہاں اسے علم غیب پر ایمان لانے کا ضرور کہا گیاہے۔اس لئے قرآن وحدیث کی تفسیرصحابہ وتابعین کے ظاہری علم سے ہٹ کرکرنا گویا اللہ تعالی پر افترء باندھنا ، کلام اللہ میں تحریف کا ارتکاب کرنا اور الحاد کو دعوت دیناہے۔سنن الترمذی ( ۲۹۵۰) میں یہ ارشاد رسول ﷺ ہے:
مَنْ قَالَ فِی الْقُرآنِ بِغَیرِ عِلْمٍ، فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔
جس نے قرآن مجید میں بغیر علم کے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالے ۔

خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِی وَأَیُّ سَمَائٍ تُظِلُّنِی إِذَا قُلْتُ فِی کِتَابِ اللّٰہِ مَا لَمْ أَعْلَمْ۔ (الفتاوی الکبری ۷/۱۹۹)
کونسی زمین میرا بوجھ اٹھائے گی اور کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا جب میں کتاب اللہ کے بارے میں ایسی بات کہہ دوں جو میں نہیں جانتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتب تفسیر اشاری وباطنی

ان کتب میں بعض مؤلفین نے قدیم وجدیدباطنی تفاسیرکی طرح تفسیر کا تودعوی کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کفریہ عقائد لئے پھر تی ہیں۔بعض اشاری تفاسیر ایسی ہیں جن میں لفظ کے ظاہری معنی سے ہٹ کر دوسرے معانی لئے گئے ہیں ان میں کچھ تو صحیح ہوتے ہیں اور کچھ خطأ سے پر۔ایسی کتب درج ذیل ہیں:

تفسیر نیسابوری:
یہ دراصل امام رازی کی تفسیر کا اختصار ہے جس میں صوفی تفسیر اور ان کی وجدانیات کو نمایاں کیا گیا ہے۔مؤلف تفسیر آیت کے بعد واضح عبارت میں یہ تک نہیں بتاتے کہ یہ اشارہ کس کا ہے بس اشاری معنی بتا دیتے ہیں جیسے {إن اللہ یأمرکم أن تذبحوا بقرۃ} وہ لکھتے ہیں: تأویل: گائے ذبح کرنا یہ اشارہ ہے کہ نفس بہیمی کو ذبح کیا جائے کیونکہ اس کے ذبح میں ہی قلب روحانی کی حیات ہے۔اور یہی جہاد اکبر ہے کہ موتوا قبل أن تموتوا۔مرجاؤ اس سے پہلے کہ تم مرو۔

تفسیر تستری:
یہ محمد بن سہل التستری (م: ۳۸۳ھ) کی تفسیر ہے ۔یہ گو مکمل تفسیر نہیں مگر اس میں صوفی وجدانیات اور اشارات و خیالات ہیں۔ بسم اللہ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں: بسملہ میں باء سے مرادبہاء اللہ ہے اور سین سے سناء اللہ، میم سے مجد اللہ، اور اللہ اسم اعظم ہے جس نے تمام اسماء کو گھیر رکھا ہے ۔ اس میں الف لام کو بھی بیان کیا اور بتایا کہ لفظ اللہ: حر ف مکنی ہے جو غیب سے غیب کی طرف جارہا ہے اور ایک راز سے راز کی طرف۔ جوایک حقیقت کی حقیقت ہے اور حقیقت کی طرف ہے۔ یہ نمونہ تفسیر ہے۔

تفسیر الفتوحات المکیہ:
از ابن عربی: محی الدین ابن عربی (م: ۶۳۸ھ) صوفی، المعروف بشیخ الاکبر کی یہ تالیف ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر کا آغاز ہی رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب اس موضوع حدیث سے کیاہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا مِنَ الْقُرآنِ آیَۃٌ إِلا وَلہَا ظَہْرٌ وَبَطْنٌ، وَلِکُلِّ حَرْفٍ حَدٌّ، وَلِکُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ۔
قرآن کی کوئی آیت نہیں مگر اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر حرف کی ایک حد ہے اور ہر حد کا ایک مطلع ہے۔
پھر لکھتے ہیں: میں اس حدیث سے یہ سمجھا کہ ظاہر سے مراد اس کی تفسیر ہے اور باطن سے مراد اس کی تاویل، اور حد وہ ہے جہاں کلام کے معنی سے ماخوذ علم جا کر ختم ہوجائے اور مطلع وہ جس کی طرف اس لفظ کے ذریعے سے بلندی پر چڑھا جائے تاکہ ملک ِعلام کے شہود یعنی حاضری پر وہ مطلع ہو۔ان کی تفسیر کا ایک نمونہ یہ ہے:
{ولسلیمن الریح۔۔} یعنی ہم نے سلیمان علیہ السلام کے لئے عملی عقل کو مسخر کردیا۔ جو سینے میں نفس کے عرش پر متمکن ہوگئے۔ خواہشات کی ہوا اپنی رفتار میں عاصفہ ہوتی ہے وہ پھر اس کے حکم سے اس بدن کے طرف چلتی ہے جو اطاعت اور ادب کا تربیت یافتہ ہوتا ہے۔

تفسیر آلوسی:
علامہ محمد آلوسی(م: ۱۲۷۰ھ) کی روح المعانی کے نام سے یہ تفسیر تیس جلدوں میں ہے ۔ یہ تفسیر ماثور، معقول اور اشاری کا مجموعہ ہے۔

تفاسیر اشاری کے یہ نمونے، ظاہر ہے مرا دالٰہی نہیں ہیں بلکہ دلی رجحانات ہیں ان کا مطالعہ قاری کو یہی باور کرواتا ہے کہ کتاب وسنت یا دین اسلام محض سوانح اور واردات قلبیہ کا نام ہے نیز دینی معاملات محض تخیلات ہیں۔اس لئے اسلامی تعلیمات کا یاعربی لغت کا پابندہونا ضروری نہیں۔ مزید برآں ریاضتوں کے ذریعے وصل خدا پالینے والے شرعی پابندی کے مکلف نہیں۔ بتائیے! ایسی طریقت ، شریعت کا تحفظ کہاں کرسکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر ازلغت عرب

بعض مفسرین میں لغت عرب سے تفاسیر کرنے کا رحجان بھی غالب نظر آتاہے۔ یہ تفسیر اس وقت تو قبول کی جا سکتی ہے جب قرآن و حدیث یا اقوال صحابہ ؓ میں اس آیت کی تفسیر موجود نہ ہو۔ اور معروف ومتداول ، رائج اور شائع معنوں کے مطابق ہو۔لیکن یہ ظلم ہو گا کہ ان تمام ذرائع کو ترک کر کے صرف لغت عرب کا سہارا لیا جائے۔ یہی وجہ ہے تفسیر بالرائے شاذ ہونے کی وجہ سے مردود قرار پاتی ہے اور عام عرب کے فہم سے بھی باہر ہوتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً تو عربی زبان میں وسعت ہے۔ اس میں حقیقت ، مجاز، استعارہ اور کنایہ کے پائے جانے کی وجہ سے کسی بھی لفظ کے لئے یہ قطعی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لفظ سے جو معنی ہم مراد لے رہے ہیں کیا واقعی متکلم کا مقصود بھی یہی ہے۔ پھر ائمہ لغت تو عادۃً یہ کرتے ہیں کہ وہ تمام مستعمل معانی کو جمع کر دیتے ہیں اور حقیقی و غیر حقیقی معنی میں امتیاز تک نہیں کرتے۔ غرضیکہ لغت کا یہ پورا کارخانہ اول تا آخر ظنی ہی ظنی ہے۔

لغت کے تغیرات میں محاورات کی صبح وشام تبدیلی نے دال اور مدلول یعنی لفظ اور اس کے معنی میں شکوک و اوہام کی اور بھی کئی راہیں کھول دی ہیں۔ اس لئے لغت کو کتاب وسنت کی صف میں کھڑا کرنامشکل ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ اگر ائمہ لغت کی تصریحات ، شرعی منقولات سے متعارض ہوں تو ترجیح، منقولات شرعیہ کو ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مزید یہ کہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ ؓ کبار، لغت عربی کو آج کے متجددین و محتہدین سے بہتر سمجھتے تھے۔ اس لئے بلحاظ لغت انہی کو ہی فوقیت حاصل ہو گی ۔ اسی طرح ائمہ لغت کو تقوی و خیر میں وہ مقام حاصل نہیں جو فقہاء و محدثین کو حاصل ہے۔ ان کے استشہادات جس قسم کے اشعار اور استعارات سے پر ہیں، حقیقت یہ ہے کہ علم دین کی مجالس میں ان کی حیثیت دو کوڑی کے برابر بھی نہیں۔چاہے وہ زمخشری اور جاحظ جیسے لغت و ادب کے امام ہی کیوں نہ ہوں۔

پھر ائمہ لغت نے جو معانی بیان کیے ہیں ان کی کوئی سند نہیں۔ اصمعی، ابن الانباری، مبرد، جاحظ و زمخشری لفظ کے معنی کا اپنا اپنا سماع تو ذکر کر دیتے ہیں مگر اس کی سند کیا ہے اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ جس پر کم ازکم بوقت ضرورت تنقید تو کی جا سکے اور غلط اور صحیح میں امتیاز کیا جا سکے۔ کیا ائمہ لغت کا یہ سماع تواتر کامقام رکھے اور ائمہ حدیث کی اسانید کمزور اورناقابل اعتبار ٹھہریں۔ ایں چہ بوالعجبی است۔

لغت عرب، سنت کی مقابل نہیں: علوم لغت کو ان کی انتہا ئی اہمیت کے باوجود علوم سنت کا مدمقابل نہیں گردانا جا سکتا۔جس لغت پر احوال و حوادث کا اثر ہو، جس کی نقل غیر موثوق ذرائع سے ہو، وہ یقینا کسی طرح بھی سنت رسولؐ اور آثار سلف کی حریف بننے کی اہل نہیں۔یہ دعویٰ آج کے علمی انحطاط کے دور میں کیا گیا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ زمحشری، جاحظ اور دیگر ائمہ معتزلہ نے بعض احادیث پر اپنے اپنے ادوار میں تنقید کی جرأت تو کی مگر انکار حدیث کا حوصلہ ان حضرات کوکبھی نہیں ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کتب لغت بہرحال کتب لغت ہیں۔ ان سے الفاظ کا معنوی حل تو مل سکتا ہے مگر وہ قرآنی تصورات کی وضاحت سے بہر صورت قاصر ہیں۔ جن لوگوں نے محض لغت کے سہارے پر تفسیر کی ہے انہوں نے قرآن کا مفہوم متعین کرنے میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔ زمخشری کا اعتزال، علم سے متصف تھا جب کہ آج کا اعتزال ،علم سے عاری اور تلبیس ابلیس میں شاطر نظر آتا ہے۔جس طرح پہلے دور میں قرآن کو اسرائیلیات کے لئے تختہ مشق بنانے کی کوشش کی گئی اسی طرح آج کے دور میں لغت کے ذریعے لادینی افکار ونظریات کو اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تفسیر القرآن سرسید کی ہو یا بیان القرآن پرویز کی ان دونوں کی اساس بھی اس قسم کے نظریات پر رکھی گئی ہے۔ علامہ طبریؒ لکھتے ہیں:

مفردات قرآن کے معانی معلوم کرنے کے لئے لغت کی طرف تو رجوع کیا جاسکتا ہے مگر کسی آیت کے مفہوم کو متعین کرنے کے لئے بہرحال وحی الٰہی اور سنت کی طرف رجوع کئے بغیر چارہ نہیں۔(مقدمہ تفسیر طبری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر اور اسرائیلی روایات

اسرائیلیات سے مراد وہ اخبار وواقعات ہیں جو اہل کتاب یعنی یہودیوں سے( زیادہ ) اور عیسائیوں سے ہم تک پہنچے ہیں۔ان واقعات کی تین قسمیں ہیں:

 پہلی قسم:
وہ جنہیں اسلام نے برقرار رکھا اور گواہی دی کہ یہ سچی خبر ہے۔ جیسے صحیح بخاری (۴۸۱۱) میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی حبر(عالم) رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! ہم اپنے ہاں پاتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر، تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی وپانی کے نیچے ثری کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک اور انگلی پر کرلے گا۔ اور پھر فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ۔حبر کی اس بات کو سن کر رسول اکرم ﷺ اس قدر مسکرائے کہ آپ ﷺ کی ڈاڑھیں نظر آنے لگیں کیونکہ وہ تصدیق تھی۔پھر رسول اکرم ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
{وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالْأَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ} (الزمر: ۶۷)
ا نہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کا حق تھا۔ جبکہ ساری زمین روز قیامت اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، اللہ تعالی پاک ہے اوربلندتر ہے ان سے جنہیں وہ اس کا شریک بناتے ہیں۔

وہ اسرائیلی روایات بھی سچی ہیں جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہیں مثلاً: غرقابی فرعون یا سیدنا موسیٰ ؑ کا طور پرتشریف لانا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسری قسم:
ایسی اسرائیلی روایات جن کو اسلام نے ناپسند کیا اور ان کے باطل ہونے کی شہادت دی ۔ مثلاً اہل کتاب کا یہ کہنا : سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جادو کا علم خود سیکھا اور کفر کیا تھا۔ قرآن کہتاہے:
{وَمَا کَفَرَ سُلَیْْمَانُ وَلَـکِنَّ الشَّیْْاطِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔۔}(البقرۃ:۱۰۲)
سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ شیطان صفت لوگ خود اس کے مرتکب ہوئے۔
یا یہ روایت کہ سیدنا داؤد علیہ السلام نے اپنے سپہ سالار اور یاکی بیوی سے زنا کیا۔ یا اسے مختلف طریقوں سے مروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لیا۔ جب کہ قرآن انبیاء کرام علیہم السلام کو معصوم گرادانتا ہے۔یا وہ حدیث جسے امام بخاری نے اپنی صحیح (۱۴۳۵) میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے یہود کہا کرتے اگر آدمی اپنی بیوی سے پیچھے کی جانب سے جماع کرے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے تو یہ آیت اتری
نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ ۔۔۔(البقرۃ:۲۲۳)
حرث کیا ہے ؟ اور انسانیت کیا ہے؟ اس آیت نے واضح کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تیسری قسم:
وہ اسرائیلی روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت بالکل خاموش ہیں۔ جیسے کہ تورات وغیرہ کے احکام۔ ایسی روایات کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی تعلیم ہے کہ ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ ہی تکذیب۔صحیح بخاری (۴۴۸۵) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے مگر مسلمانوں کے سامنے اس کی تفسیر عربی میں کرتے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ تم سب مسلمان یہ کہو:
{۔۔۔ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْْکُمْ ۔۔۔} (العنکبوت:۴۶)
کہو! ہم ایمان لائے اس پرجو اتارا گیا ہماری طرف اور جو اتارا گیا تمہاری طرف۔
ہاں ان کونقل کرناجائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی خطرہ نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ بین بین ہے۔ اگر تصدیق کی جاتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ وہ بات محرف ہو اور اگر تکذیب کی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ بات کسی حد تک سچی ہو۔ ہاں عبرانی زبان کی معرفت کے بعداس روایت کو مزید جانچا جا سکتا ہے۔امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر اسرائیلیات کو پرکھا ہے۔
 
Top