- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
قادیانی تراجم:
ڈاکٹر محمد عبدالحکیم نے سب سے پہلے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ سن ۱۹۰۵ء میں شائع کیا ۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ڈاکٹر مرحوم قادیانی تھے پھر تائب ہوگئے اس لئے یہ ترجمہ ان کی علمی ناپختگی اور قرآنی پیغام کے منہج ابلاغ سے بالکل ہٹا ہوا تھا ۔ جس کی وجہ ان کی سابقہ تربیت اور اس کے اثرات تھے۔ مولوی محمد علی کا ترجمہ انگریزی جو ۱۹۱۷ء کو ہوا ، قادیانیت کا اہم ترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے اور یورپ ونارتھ امریکہ کی لائبریریوں میں یہی پسندیدہ ہے۔بارہ سال بعد سن ۱۹۲۹ء میں حافظ غلام سرور کا ترجمہ بھی شائع ہوا جو محمد علی کے ترجمہ سے دقت وپختگی میں زیادہ فائق تھا۔ پھر قادیانیوں میں شیر علی کا سرکاری ترجمہ جو سن ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا ۔خادم رحمن نوری نے اس میں تفسیری انداز اپنا کر سن ۱۹۶۴ء میں شائع کیا جو اغلاط اور زیغ سے پر تھا۔ملک غلام فرید نے بھی قرآنی نص کے ترجمہ کی کوشش کی جس میں مزعوم مسیح موعود کے قادیانی لیڈر خلیفہ ثالث کی تفسیر بھی شائع کی۔ ۱۹۷۱ء میں چوہدری ظفراللہ خان نے بھی ایک اور قادیانی ترجمہ شائع کیا۔کیا یہ قرآن کی خدمت تھی یا ان تراجم کے ذریعے اپنی تحریفی اور دجلی خیالات کی ترجمانی مقصود تھی؟۔
ان تمام قادیانی تراجم میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ یہ سب تراجم:
۱۔ قادیانی تحریک کا دفاع کرتے ہیں۔ جن کی کوشش ہے کہ اپنے غلط عقائد کو قرآنی تراجم میں پر ویا جائے خواہ اس میں عربی زبان اور اس کے اسلوب سے کتنا بھی صرف نظر کرنا پڑے۔ اور ایسی دور ازکار تاویلات بیان کی جائیں کہ جن سے عام قاری اصل مقصد سے ہٹ جائے اور الجھ جائے۔ یہ سب تاویلات پہلے پہل مرزا غلام کی تالیفات و بیانات میں ظاہر ہوئیں جنہیں مرزا سے پہلے کسی نے نہیں اپنایا یا نہیں کہا۔بطور خاص رسول اکرم ﷺ کا وہ پہلو جو خاتم النبیین ہونے کا ہے اور جسے ہر دور میں اہل اسلام نے اپنا اساسی عقیدہ سمجھا۔
۲۔ سیدنا ابراہیم ، یعقوب، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے انبیاء کرام کے معجزات وخوارق جو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بیان فرمائے ہیں یہ تراجم ان سب معجزات کا انکار اس حجت ودلیل سے کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ نصوص بظاہر فطری قوانین کے عین مخالف ہیں۔ لہذا سیدنا داؤد علیہ السلام کے لئے تسخیر جبال جیسے الفاظ تو استعمال ہوئے مگر ان سے مراد ان کا ظاہری مطلب نہیں بلکہ ان سے مراد سخت جان پہاڑی لوگ ہیں۔ نیز سیدنا داؤد علیہ السلام کے ہمراہ تسبیح کنندہ پہاڑ نہیں تھے بلکہ صالح افراد تھے۔وہ اس زعم میں بھی مبتلا ہیں کہ منطق الطیر جیسا معجزہ جو اللہ تعالی نے خود سیدنا سلیمان علیہ السلام کو سکھایا تھا اس سے مراد پرندوں کو سدھارنا او ان کو پیغام رسانی کی تربیت دینا ہے۔ قصہ سلیمان علیہ السلام میں ہدہد سے مراد ایک آرمی کمانڈر ہے نہ کہ معروف پرندہ۔ انہی کے قصہ میں نملہ سے مراد انسانی قبیلے کے چند افراد ہیں نہ کہ معروف حیوان یعنی چیونٹی۔یہی حال انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا کیا ہے۔یہ قادیانی تراجم عالم جن کے بھی منکر ہیں۔جس کی تعبیر وہ ارسطوئی صنف سے کرتے ہیں یا لوگوں سے چھپی مخلوق کو کہتے ہیں۔
معجزات وخوارق انبیاء کی یہ دور ازکار تاویلات یا ان کا انکار یہ قادیانی تراجم اس لئے کرتے ہیں کہ اگروہ ان معجزات اور خوارق کو تسلیم کرلیں تو پھر لا محالہ مرزا غلام کی نبوت ثابت کرنے کی لئے ہمیں بھی معجزات بطور دلیل پیش کرنا ہوں گے ۔ چونکہ ایسے معجزات سے مرزا غلام محروم تھا لہذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ ابتداء سے ہی ان کا انکار کرکے اور تحریف ترجمہ کرکے لوگوں کو سوال کرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
ڈاکٹر محمد عبدالحکیم نے سب سے پہلے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ سن ۱۹۰۵ء میں شائع کیا ۔ اپنی ابتدائی زندگی میں ڈاکٹر مرحوم قادیانی تھے پھر تائب ہوگئے اس لئے یہ ترجمہ ان کی علمی ناپختگی اور قرآنی پیغام کے منہج ابلاغ سے بالکل ہٹا ہوا تھا ۔ جس کی وجہ ان کی سابقہ تربیت اور اس کے اثرات تھے۔ مولوی محمد علی کا ترجمہ انگریزی جو ۱۹۱۷ء کو ہوا ، قادیانیت کا اہم ترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے اور یورپ ونارتھ امریکہ کی لائبریریوں میں یہی پسندیدہ ہے۔بارہ سال بعد سن ۱۹۲۹ء میں حافظ غلام سرور کا ترجمہ بھی شائع ہوا جو محمد علی کے ترجمہ سے دقت وپختگی میں زیادہ فائق تھا۔ پھر قادیانیوں میں شیر علی کا سرکاری ترجمہ جو سن ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا ۔خادم رحمن نوری نے اس میں تفسیری انداز اپنا کر سن ۱۹۶۴ء میں شائع کیا جو اغلاط اور زیغ سے پر تھا۔ملک غلام فرید نے بھی قرآنی نص کے ترجمہ کی کوشش کی جس میں مزعوم مسیح موعود کے قادیانی لیڈر خلیفہ ثالث کی تفسیر بھی شائع کی۔ ۱۹۷۱ء میں چوہدری ظفراللہ خان نے بھی ایک اور قادیانی ترجمہ شائع کیا۔کیا یہ قرآن کی خدمت تھی یا ان تراجم کے ذریعے اپنی تحریفی اور دجلی خیالات کی ترجمانی مقصود تھی؟۔
ان تمام قادیانی تراجم میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ یہ سب تراجم:
۱۔ قادیانی تحریک کا دفاع کرتے ہیں۔ جن کی کوشش ہے کہ اپنے غلط عقائد کو قرآنی تراجم میں پر ویا جائے خواہ اس میں عربی زبان اور اس کے اسلوب سے کتنا بھی صرف نظر کرنا پڑے۔ اور ایسی دور ازکار تاویلات بیان کی جائیں کہ جن سے عام قاری اصل مقصد سے ہٹ جائے اور الجھ جائے۔ یہ سب تاویلات پہلے پہل مرزا غلام کی تالیفات و بیانات میں ظاہر ہوئیں جنہیں مرزا سے پہلے کسی نے نہیں اپنایا یا نہیں کہا۔بطور خاص رسول اکرم ﷺ کا وہ پہلو جو خاتم النبیین ہونے کا ہے اور جسے ہر دور میں اہل اسلام نے اپنا اساسی عقیدہ سمجھا۔
۲۔ سیدنا ابراہیم ، یعقوب، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے انبیاء کرام کے معجزات وخوارق جو قرآن کریم میں اللہ تعالی نے بیان فرمائے ہیں یہ تراجم ان سب معجزات کا انکار اس حجت ودلیل سے کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ نصوص بظاہر فطری قوانین کے عین مخالف ہیں۔ لہذا سیدنا داؤد علیہ السلام کے لئے تسخیر جبال جیسے الفاظ تو استعمال ہوئے مگر ان سے مراد ان کا ظاہری مطلب نہیں بلکہ ان سے مراد سخت جان پہاڑی لوگ ہیں۔ نیز سیدنا داؤد علیہ السلام کے ہمراہ تسبیح کنندہ پہاڑ نہیں تھے بلکہ صالح افراد تھے۔وہ اس زعم میں بھی مبتلا ہیں کہ منطق الطیر جیسا معجزہ جو اللہ تعالی نے خود سیدنا سلیمان علیہ السلام کو سکھایا تھا اس سے مراد پرندوں کو سدھارنا او ان کو پیغام رسانی کی تربیت دینا ہے۔ قصہ سلیمان علیہ السلام میں ہدہد سے مراد ایک آرمی کمانڈر ہے نہ کہ معروف پرندہ۔ انہی کے قصہ میں نملہ سے مراد انسانی قبیلے کے چند افراد ہیں نہ کہ معروف حیوان یعنی چیونٹی۔یہی حال انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا کیا ہے۔یہ قادیانی تراجم عالم جن کے بھی منکر ہیں۔جس کی تعبیر وہ ارسطوئی صنف سے کرتے ہیں یا لوگوں سے چھپی مخلوق کو کہتے ہیں۔
معجزات وخوارق انبیاء کی یہ دور ازکار تاویلات یا ان کا انکار یہ قادیانی تراجم اس لئے کرتے ہیں کہ اگروہ ان معجزات اور خوارق کو تسلیم کرلیں تو پھر لا محالہ مرزا غلام کی نبوت ثابت کرنے کی لئے ہمیں بھی معجزات بطور دلیل پیش کرنا ہوں گے ۔ چونکہ ایسے معجزات سے مرزا غلام محروم تھا لہذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ ابتداء سے ہی ان کا انکار کرکے اور تحریف ترجمہ کرکے لوگوں کو سوال کرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم اور اس کے چند مباحث