• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم تفسیر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عکرمہ رحمہ اللہ:
یہ بھی مشہور تابعی اور ابن عباس ؓ کے مولی(آزاد کردہ غلام) تھے ۔ سیدنا ابن ؓعباس نے انہیں نہایت محنت وشفقت سے تعلیم دی تھی۔ آپ ؒ نے ابن عباس ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ ؓ سے بھی استفادہ کیا ہے جن میں سیدنا علی ؓ، سیدنا ابوہریرہؓ، ابو سعید خدریؓ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہم اور بعض دوسرے صحابہ ؓ شامل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مطبوعہ تفسیر کا انتخاب

تفسیر کا انتخاب بھی ایک اہم دوراہا ہے جس سے قرآن فہمی یا تو صحیح حاصل ہوتی ہے یا پھر آدمی قرآن کریم کے اصل موضوع سے ہٹ کر سوچنے اور عمل کرنے لگتا ہے۔کیا ہی لطف ومزہ آجائے تفسیر کو سمجھنے اور جانچنے کا اگر آدمی خود قرآن کی عربی زبان سے واقف ہو۔ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

تفسیر چار قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم حلال وحرام کی تفسیر ہے جس کا جاننا ہر عاقل مسلمان کے لئے ضروری ہے کوئی معذور نہیں ہوسکتا۔دوسری وہ تفسیر جس کا عرب اقرار کرتے ہوں۔ تیسری وہ تفسیر جسے علماء بیان کرتے ہوں۔ اور چوتھی وہ تفسیر جسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔

کچھ علماء نے تفسیر کی وہ تین اقسا م بیان کی ہیں جنہیں ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔علماء نے جو تفسیر بیان کی ہے ظاہر ہے ان کے اپنے اپنے رجحانات، زاویے اور افکار ہیں۔ اس لئے متاخرمفسرین میں خواہ تفسیر ابن جریر، تفسیر کبیر، تفسیر الفتوحات المکیہ،تفسیر تستری، تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر اور روح المعانی ہو یا اردو ترجمہ وتفاسیر میں ترجمان القرآن، تفہیم القرآن،تدبر قرآن، احسن البیان، معارف القرآن، تیسیر القرآن، تذکیر القرآن، ضیاء القرآن، تفسیر عثمانی اور کنز الایمان وغیرہ ہوں ان سب میں تفسیر کا انتخاب کرنے سے قبل ذیل کی چند باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں۔

اپنی تفسیر میں اگر کوئی مفسر کسی خاص رجحان یافکر میں تعصب کا شکار ہو تو ظاہر ہے اسے قرآن پر اپنی فکر کو سوار کرنے کی فکر ہے۔جسے وہ خدمت قرآن سمجھتا ہے ۔اس بارے میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض مفسرین اپنے ذہن میں پہلے سے ہی ایک خود ساختہ رائے پر جامد ہوکر اسے اپنی لفاظی میں ہی قرآن پر چسپاں کئے چلے جاتے ہیں اور اپنی تحریر میں باطل مگر سیاسی عقائد ونظریات کو چھپا دیتے ہیں کہ اکثر لوگ اس زہر کو معلوم ہی نہیں کرسکتے ۔ ایسی تفاسیر سے جتنا بھی ممکن ہو بچا جائے۔ مثالیں اوپر گذر چکی ہیں جو باطنی اور اشاری تفسیر کے تعارف میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایسا مفسر، کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کے منہج سے ہٹ کراپنی تفسیر مذموم رائے پر کرتا ہے۔ ہاں اگر پہلے سے اپنے اسلامی عقائد کا علم ہو تو ان کتابوں کا مطالعہ برائے علم مضر نہیں۔ان تمام مناہج میں تفسیر بالماثور کا منہج ہی زیادہ قوی اور قابل اعتماد ہے جس کی وجہ سنت رسول ، اقوال صحابہؓ اور تابعینؒ کے تائیدی بیانات کا اس میں ہونا ہے۔جو علم تفسیر ماثور میں ملتا ہے اور عمل کا مزہ بھی وہ ایسی غیر ماثور تفاسیر میں کہاں ؟ تفسیر بالرائے میں محمود رائے کو جس طرح مقام عالی حاصل ہے اسی طرح تفسیر بالرائے مذموم کو بھی مقام نازل حاصل ہونا چاہئے۔غالباً انہی تفاسیر کے بارے میں امام احمدؒ کا ایک بہت ہی مشہور قول ہے۔
"ثَلاَثَۃُ کُتُبٍ لَیْسَ لَھَا أُصُوْلٌ، وَھِيَ الْمَغَازِي، وَالتَّفْسِیْرُ، وَالْمَلاَحِمُ"۔ یعنی تین قسم کی کتابیں ایسی ہیں جن کا کوئی اصول نہیں ؛ مغازی، تفسیر اور آئندہ فتنوں کی پیشین گوئیاں۔

امام ابن حجر ؒ (م ۸۵۲؁ھ) اس قول پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔
بَنْبَغِي أَنْ یُضَافَ إِلَیْھَا الْفَضَائِلُ، فَہَذِہِ أَوْدِیَۃُ الأَحَادِیْثِ الضَّعِیْفَۃِ الْمَوضُوعَۃِ۔ ان تینوں کے ساتھ فضائل اعمال کی احادیث کا اضافہ بھی ہونا چائیے۔کیوں کہ یہ بھی ضعیف اور موضوع احادیث کی وادیاں ہیں۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
جس طرح حدیث کی صحت کے لئے قطعی دلائل ہوتے ہیں اسی طرح حدیث کے ضعیف اور موضوع ہونے (جھوٹا ہونے) کے بھی قطعی دلائل ہیں۔ مثلاً: انہیں بدعتی و ضاعین نے وضع کیا ہو اور فضائل میں غلو سے کام لیا ہو جیسے عاشوراء کے دن کی فضیلت، اس میں نماز پڑھنے کا ذکر۔ تفاسیر میں اس قسم کی موضوعات بکثرت ہیں جیسا کہ مختلف سورتوں کی فضیلت میں ثعلبی ؒ، واحدی اور زمحشری احادیث نقل کرتے ہیں۔ ثعلبی ؒ اگرچہ دیندار اور صاحب علم ہیں مگر وہ حاطب لیل ہیں سابقہ تفاسیر میں جو کچھ انہیں ملا اسے اپنی تفسیر میں بلا سوچے سمجھے نقل کر دیا خواہ وہ صحیح ہو ، ضعیف ہو یا موضوع"۔

لہذاایسی تفاسیر یا کتب جن میں آیات کو محرف کیا گیا ہو یا تفسیر کیلئے زیادہ ترانتخاب ضعیف یا موضوع احادیث کا کیا گیاہو، یااپنی مذموم رائے اس میں پرو دی ہو۔ایک مسلمان کو ان سے احتیاط ہی برتنی چاہئے اور تفسیر مأثور کے مطالعے کا اسے خوگر ہونا چاہئے۔اب آئیے! ذیل میں چند اہم عربی واردو تفاسیر کا ہم مطالعہ کرتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر ابن جریر:
اس کا پورا نام "جَامِعُ الْبَیَانِ فِی عُلُومِ الْقُرْآنِ"ہے۔ اور مصنف ابن جریر طبری ؒ (۲۲۴۔۳۱۰ھ)ہیں۔طبرستان کے شہر آمل میں پیدا ہوئے اور بغدا دمیں ان کا انتقال ہوا۔ عالم قراء ات ، امام تفسیر، ماہر حدیث، اور مورخین کے استاذ تھے۔ فقہ میں بھی ایک مستقل مذہب ، اقوال اور اپنے منتخبات رکھتے تھے۔ ان کے بھی اتباع اور مقلد پائے جاتے ہیں۔(طبقات المفسرین از سیوطی: ۹۶) امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: مَا أَعْلَمُ عَلَی أَدِیْمِ الأَرْضِ أَعْلَمُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ۔ محمد بن جریر سے بڑھ کر میں اس زمیں پر کوئی عالم نہیں جانتا۔(طبقات المفسرین از داؤدی ۲؍ ۱۱۱) ۔ ان کی بے شمار تصانیف ہیں جن میں کتاب القراء ات ، تاریخ الرجال فی الصحابۃ والتابعین، لَطِیْفُ الْقَوْلِ جس میں وہ اپنی پسندیدہ منتخبات کا ذکر کرتے ہیں جو ان کا مذہب ہیں۔ اسی طرح تہذیب الآثار اور انتہائی اہم کتاب تاریخُ الأُمَمِ وَالْمُلُوْکِ وَأَخْبَارِہِمْ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غالباً ان کی یہ تفسیر اولین کتاب ہے جو ماثور طریقے پر لکھی گئی۔مفسرین آج بھی ان کی تفسیر کے خوشہ چیں ہیں۔اس تفسیر کے چند محاسن یہ ہیں:

۱۔ اپنی تفسیر میں وہ زیادہ تر اعتماد احادیث رسول ، اقوال صحابہ اور تابعین پر کرتے ہیں۔
۲۔ جو روایت بیان کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے وہ اسے سنداً بیان کریں۔
۳۔ اقوال علماء کی طرف راہنمائی کرتے ہیں اور ترجیح بھی دیتے ہیں۔
۴۔ وجوہ اعراب یعنی گرامر صرف ونحو کو بھی خوب بیان کرتے ہیں۔
۵۔ آیات سے شرعی احکام کا استنباط بھی بہت باریکی سے کرتے ہیں۔

چند ضعیف روایات کے باوجود بھی یہ ایک جامع کتاب ہے ۔ یہ کتاب کچھ عرصہ قبل حائل کے ایک شیخ حمود بن عبید الرشید کے مکتبہ سے دستیاب ہوئی اور شیخ محمود شاکر رحمہ اللہ کی تحقیق اور تعلیق سے سورہ ابراہیم کی آیت ۲۷تک ہوئی جو بعد میں ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن ترکی کی تحقیق سے ۲۶جلدوں میں طبع ہوسکی۔علماء نے اس کتاب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔خطیب ؒبغدادی اور امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: لَہُ کِتَابُ التَّفْسِیرِ لَمْ ُیصَنِّفْ أَحَدٌ مِثْلَہُ۔ ان کی بے مثال تفسیر ہے اس جیسی کوئی نہ لکھ سکا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جو تفاسیر آج عوام وخواص کے پاس ہیں ان میں صحیح ترین تفسیر ابن جریر الطبری کی ہے کیونکہ وہ اپنی تفسیر میں علماء سلف کے اقوال ثابت شدہ اسانید سے ذکر کرتے ہیں اس کتاب میں کوئی بدعت نہیں اور نہ ہی یہ متہم لوگوں سے روایت کرتے ہیں۔ (مجموع الفتاوی ۱۳؍۳۸۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر کبیر:
اس کا اصل نام "مفاتیح الغیب"ہے۔ ۱۶بڑی جلدوں میں یہ تفسیر ۳۲اجزاء کی کتاب ہے ۔ اس کے مصنف امام رازی (م ۶۰۶؁ھ) ہیں۔ رازی ؒ معقول و منقول دونوں کے ماہرتھے۔ حاذق طبیب بھی تھے۔ تفسیر بالرائے میں انتہائی جامع اور بے مثال تفسیر ہے۔امام رازی ؒاپنی تفسیر صرف سورۃ الانبیاء تک لکھ سکے ۔ ان کے شاگرد رشید خُوَیّ نے اسے مکمل کرنا چاہا تو وہ بھی نہ کرسکے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ نجم الدین قمولی نے آخر میں اسے مکمل کیا۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب کے اسلوب میں ذرہ برابر فرق نہیں لگتا۔اس تفسیر میں امام رازی ؒ نے قرآن مجید کے انداز بیان ، اس کی شان وشوکت اور ہر آیت سے متعلق فقہی احکام کو تفصیلی دلائل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ آیتوں کے درمیان موجود ربط ونظم کو بھی انتہائی دلنشیں اندازسے پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ان خصوصیات کی بناء پر تفسیر کبیر ایک انتہائی جامع تفسیر ہے۔

مجموعی حیثیت سے یہ کتاب علم کلام کی قیل و قال کا خزینہ ہے اس کے شیدائی حضرات ہی اس کتاب کی قدر وقیمت جانتے ہیں مگر کیا یہ بحثیں قرآن حکیم کو سمجھنے کے لئے مفید ہیں؟۔

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابو حیان ؒ البحر المحیط میں لکھتے ہیں کہ امام رازی ؒ نے اپنی تفسیر میں بہت سی چیزیں درج کر دیں جن کی تفسیر میں قطعاً ضرورت نہ تھی۔ اس لئے بعض علماء نے اس پر نقد کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے۔ "فِیْہَ کُلُّ شَئٍ إِلاَّ التَّفْسِیْرُ"۔ اس تفسیر میں سب کچھ ہے مگر تفسیر نہیں۔

علم کلام میں ان کے انہماک نے بعد از زمانہ اس ندامت کا اظہار بھی کروایا: لَیْتَنِی لَمْ أَشْتَغِلْ بِعِلْمِ الْکَلَامِ ۔ کاش میں علم کلام میں اپنا شغل نہ ہی رکھتا۔ (طبقات المفسرین از داؤدی۔۱؍۲۱۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر قرطبیؒ:
اس کا پورا نام "الجامِعُ لأَِحْکَامِ الْقُرآنِ"ہے۔ یہ علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد ابی بکر بن فرح القرطبی ؒ کی تصنیف ہے جوبارہ جلدوں پرمشتمل ہے۔ اس کتاب کا بنیادی موضوع آیات احکام سے فقہی احکام و مسائل کا استنباط کرنا ہے۔ مصنف نے آیات کی تشریح ، مشکل الفاظ کی تحقیق، بلاغت و فصاحت، فقہی استدلال اور متعلقہ روایات کو جمع کیا ہے۔ اپنے شیخ محترم امام بن العربی ؒ القرطبی کی تفسیر کے تمام اہم علمی و فقہی نکات کو انہوں نے اپنی اس کتاب میں سمو دیا ہے۔ روز مرہ زندگی کے لئے قرآن کریم سے جو ہدایات ملتی ہیں انہیں بھی اچھی طرح واضح فرمایا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ نہایت مفصل اور علوم القرآن کے اہم مباحث پر مشتمل ہے۔اردو یا عربی کی بیشتر تفاسیر اسی تفسیر کی مرہون منت ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر ابن کثیرؒ:
اس کے مصنف حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن الخطیب ابو حفص عمر بن کثیرؒ ہیں۔ یہ تفسیرچار جلدوں پر مشتمل ہے۔ابن کثیرؒ مفسر بھی ہیں اور جلیل القدر محدث بھی ۔انہوں نے کوشش کی کہ آیت کو ذکر کرکے بہت ہی سہل اور مختصر عبارت میں تفسیر کریں۔ اسی مقام پر اس سے متعلق دیگر آیات کو بھی جمع کردیں۔ ان کا آپس میں مقارنہ کریں۔اس طرح تفسیر کرتے وقت وہ ایک ہی معنی کی آیات کا خوب استعمال کرتے ہیں۔پھر ان مرفوع احادیث کو اس تفسیر میں بیان کرتے ہیں جن کا تعلق اس آیت سے ہوسکتا ہے۔ان کے بعد اقوال صحابہ وتابعین اور علماء سلف کو پیش کرتے ہیں۔اپنی اس تفسیر میں وہ اسرائیلی منکر روایات کو کہیں اجمال سے اور کہیں تفصیل سے بیان کرکے قاری کو متنبہ کردیتے ہیں۔کوشش یہ بھی کی ہے کہ تفسیر میں ضعیف اور موضوع روایات کو چھانٹ کر الگ کر دیں۔ جہاں مؤلف نے ضرورت محسوس کی وہاں جرح و تعدیل جیسے اصول حدیث بھی منطبق کئے ہیں۔ اسرائیلیات کے بارے میں بھی ان کا طرز عمل نہایت محتاط، صاف ستھرا اور قرآن و سنت کے مطابق ہے۔ اس تفسیر میں حافظ ابن کثیر ؒ نے تفسیر بالروایہ کا طریقہ اپنا کراپنی جلالت حدیث کو خوب نمایاں کیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس تفسیر میں درج ہر روایت درست ہے بلکہ اس میں صحیح بھی ہے حسن اور ضعیف بھی۔ اس کی احادیث کی تخریج ہوگئی ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت کو مزید نکھرگئی ہے۔بہر کیف تفسیر ابن کثیر ، تفسیر ابن جریر کے بعد دیگر تفاسیر کی نسبت زیادہ محتاط اور مستند تفسیر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر روح المعانی:
اس کا پورا نام "رُوْحُ الْمَعَانِی تَفْسِیْرُ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ الْمَثَانِی"ہے۔ اور یہ علامہ محمد آلوسی حنفیؒ کی تصنیف ہے۔ تیس جلدوں پر مشتمل یہ ضخیم تفسیر بالکل آخری دور کی تصنیف ہے۔ سابقہ تفاسیر کے اہم مباحث کو اپنی اس تفسیر میں جمع کرنے کی انہوں نے کوشش کی ہے۔ روایت حدیث میں بھی علامہ آلوسی ؒ دوسرے مفسرین کے مقابلے میں محتاط رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تفسیر الکشاف :
اس کے مولف جار اللہ محمود بن عمر زمخشری (۴۶۷۔۵۳۸ھ) ہیں۔بہت سے مشائخ سے علم حاصل کیا اور ائمہ لغت وتفسیر میں ان کا شمار ہوا۔ تفسیر میں قرآنی اعجاز کی وجوہ کو، قرآن کے نظمی جمال اور بلاغت کو بغیر کسی زائد از ضرورت بات میں انتہائی عمدگی سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔اسرائیلیات کا ذکر بھی شاذ ونادر کرتے ہیں۔ حدیث رسول سے بہت کم استشہاد لیتے ہیں بلکہ کبھی کبھار موضوع احادیث کو بالخصوص فضائل سور میں بیان کرتے ہیں۔

اپنی تفسیر میں انہوں نے جابجا معتزلی عقائد کو بڑی شدومد سے بطور استشہادپیش کیا ہے۔آیات کی تاویل بھی انہی کے موافق کی ہے۔ اس اعتزال کو انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنی تفسیر میں اس طرح پرویا ہے کہ کوئی حاذق ہی اسے سمجھ پاتا ہے۔امام بلقینی رحمہ اللہ کو کہنا پڑا: اِسْتَخْرَجْتُ مِنَ الْکَشّافِ اِعْتِزَالاً بِالْمَنَاقِیْشِ۔ میں نے کشاف میں اعتزال کو بے شمار بحثوں کے بعد طشت از بام کیا ہے۔ اہل السنۃ پر اپنا غیض وغضب خوب ڈھاتے ہیں اور حقارت آمیز لفظوں میں ان پر پھبتیاں کستے ہیں۔ (التفسیر والمفسرون از ذہبی ۱؍۴۶۵) ۔اسی بناء بہت سے علماء نے وقت مطالعہ ان کی تفسیر سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال ۵؍۲۰۳) میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمودُ بنُ عُمَرَ الزِّمَخْشَرِیُّ الْمُفَسفِرُ النَّحْوِیُّ صَالِحٌ، لٰکِنَّہُ دَعَا إِلَی الاِعْتِزَالِ أَجَارَنَا اللّٰہُ ، فَکُنْ حَذِرًا مِنْ کَشَّافِہِ۔ محمود بن عمر زمخشری جو مفسر ، نحوی اور صالح ہیں مگر اس جار اللہ نے اپنی تفسیر میں اعتزال کی دعوت دی اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے لہذا اس کی تفسیر کشاف تفسیر سے ہوشیار رہنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چند اردو تفاسیر و مفسرین

تفسیر عثمانی ؒ:
اس کا ترجمہ ، مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا ہے اور تفسیر مولانا شبیر احمد ؒ مرحوم کی ہے۔ اس میں ترجمہ کے ساتھ تفسیر کو حواشی میں اور قوسین میں لکھا ہے۔خاصی علمی تفسیر ہے جس کی اردو بھی خاصی ثقیل ہے۔فارسی، عربی اور قدیم اردو سے ناواقف حضرات اس سے بھرپورمتمتع نہیں ہوسکتے۔محسوس ہوتا ہے مولانا حیاتی دیوبندی تھے جس کی بناء پر انہوں نے اپنی تفسیر کی ابتداء میں ہی استعانت نبی اور ولی کے جواز کاذکر کردیا ہے۔ چند ایک اور مقامات بھی ہیں جہاں پر مولانا نے اس نکتہ نظر کو پرویا ہے۔سعودی حکومت نے یہ تفسیر بڑی آب و تاب کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کی مگر بعد میں اس تفسیر کے بارے میں چند معتبر علماء کے علمی و عقائدی مواخذات ونشاندہی پراس کی اشاعت روک دی۔
 
Top