• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہ اسلام کو ہبہ کر دیا تھا۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
0001.jpg
محترم!
اسی صفحے کو مکمل طور پر دیکھیں ذرا۔
 

سید رضوی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 24، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
2
بھائی اس میں راوی عطیہ بن سعد العوفی پر جرح کی گئی ہے،جبکہ اس کی توثیق بھی علماء اہلسنت نے کی ہے۔
ابن سعد نے طبقات الکبرِیِ میں اسے ثقہ اور اس کی احادیث کو صالح قرار دیا ہے۔(طبقات جلد 4 ص 421)

اور علم جرح و تعدیل کے امام یحیٰی ابن معِین نے عطیہ کی تعدیل کی ہے جیسا کہ سوالات الدوری میں ہے کہ عطیہ کی حدیث کیسی ہے جواب دیا “صالح”
تاريخ ابن معين ، الدوري – يحيى بن معين – ج ١ – الصفحة ٣٦٣

اس کے علاوہ ابن شاھین نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ہے
تاريخ أسماء الثقات ممن نقل عنهم العلم – ابن شاهين 247

اس کے علاوہ ترمذی نے بھی عطیہ کی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔

کیا آپ عطیہ پر جرح مفسر دکھا سکتے ہیں ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
الكتاب: مسند أبي يعلى
المؤلف: أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (المتوفى: 307هـ)
المحقق: حسين سليم أسد
الناشر: دار المأمون للتراث - دمشق
الطبعة: الأولى، 1404 - 1984
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بھائی اس میں راوی عطیہ بن سعد العوفی پر جرح کی گئی ہے،جبکہ اس کی توثیق بھی علماء اہلسنت نے کی ہے۔
ابن سعد نے طبقات الکبرِیِ میں اسے ثقہ اور اس کی احادیث کو صالح قرار دیا ہے۔(طبقات جلد 4 ص 421)
اور علم جرح و تعدیل کے امام یحیٰی ابن معِین نے عطیہ کی تعدیل کی ہے جیسا کہ سوالات الدوری میں ہے کہ عطیہ کی حدیث کیسی ہے جواب دیا “صالح”
تاريخ ابن معين ، الدوري – يحيى بن معين – ج ١ – الصفحة ٣٦٣
اس کے علاوہ ابن شاھین نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ہے
تاريخ أسماء الثقات ممن نقل عنهم العلم – ابن شاهين 247
اس کے علاوہ ترمذی نے بھی عطیہ کی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
کیا آپ عطیہ پر جرح مفسر دکھا سکتے ہیں ؟
جی حافظ مزی کی کتاب تہذیب الکمال (برقم 4616 ) ذرا ملاحظہ فرمائیں :
قال مسلم بن الحجاج : قال أحمد و ذكر عطية العوفى ، فقال : هو ضعيف الحديث . ثم قال : بلغنى أن عطية كان يأتى الكلبى و يسأله عن التفسير و كان يكنيه
بأبى سعيد فيقول : قال أبو سعيد ، و كان هشيم يضعف حديث عطية .
و قال أحمد : حدثنا أبو أحمد الزبيرى ، قال : سمعت الكلبى قال : كنانى عطية
أبا سعيد .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه نحو ذلك . و قال : كان الثورى و هشيم
يضعفان حديث عطية .
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : صالح .
و قال أبو زرعة : لين .
و قال أبو حاتم : ضعيف ، يكتب حديثه ، و أبو نضرة أحب إلى منه .
و قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجانى : مائل .
و قال النسائى : ضعيف .

و قال الحافظ في تهذيب التهذيب 7 / 225 :
و قال ابن حبان فى " الضعفاء " بعد أن حكى قصته مع الكلبى بلفظ مستغرب ، فقال :
سمع من أبى سعيد أحاديث ، فلما مات جعل يجالس الكلبى يحضر بصفته ، فإذا قال
الكلبى : قال رسول الله صلى الله عليه وآله و سلم كذا ، فيحفظه ، و كناه
أبا سعيد و يروى عنه ، فإذا قيل له : من حدثك بهذا ؟ فيقول : حدثنى أبو سعيد ،
فيتوهمون أنه يريد أبا سعيد الخدرى ، و إنما أراد الكلبى .
قال : لا يحل كتب حديثه إلا على التعجب .
ثم أسند إلى أبى خالد الأحمر : قال لى الكلبى : قال لى عطية : كنيتك بأبى سعيد
فأنا أقول : حدثنا أبو سعيد .
و قال ابن سعد : أخبرنا يزيد بن هارون ، أخبرنا فضيل ، عن عطية ، قال : لما
ولدت أتى أبى عليا ففرض لى فى مئة .
و قال ابن سعد : خرج عطية مع ابن الأشعث ، فكتب الحجاج إلى محمد بن القاسم أن
يعرضه على سب على ، فإن لم يفعل فاضربه أربعمئة سوط و احلق لحيته ، فاستدعاه
، فأبى أن يسب ، فأمضى حكم الحجاج فيه ، ثم خرج إلى خراسان فلم يزل بها حتى ولى
عمر بن هبيرة العراق فقدمها فلم يزل بها إلى أن توفى سنة إحدى عشر ، و كان ثقة
إن شاء الله ، و له أحاديث صالحة ، و من الناس من لا يحتج به .
و قال أبو داود : ليس بالذى يعتمد عليه .
قال أبو بكر البزار : كان يعده فى التشيع ، روى عنه جلة الناس .
و قال الساجى : ليس بحجة ، و كان يقدم عليا على الكل . اهـ .

(ماخوذ من الشاملۃ)
مذکورہ اقوال میں تقریبا دس کے قریب کبار محدثین ہیں جنہوں نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔
رضوی صاحب آپ نے عطیہ کی توثیق کے لیے چار محدثین کے نام پیش کیے ہیں :
ابن سعد
ابن معین
ترمذی
ابن شاہین
آخری دو اس کی توثیق ثابت کرنے کے لیے نا کافی ہیں ، کیونکہ ترمذی نے راوی کی توثیق نہیں بلکہ بقول آپ کے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ اور حدیث کو حسن کہنا اور شے ہے جبکہ اس کے راوی کی توثیق کرنا اور شے ہے ۔
جبکہ ابن شاہین نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ، بلکہ اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ ابن شاہین کی اس کتاب میں بعض ضعیف راوی بھی شامل ہیں ۔
رہ گیا ابن سعد اور ابن معین کا حوالہ تو گزارش ہے کہ جمہور علماء کی تضعیف (جیساکہ مزی و ابن حجر کے ذکر کردہ اقوال سے معلوم ہوتا ہے ) پر ان دو محدثین کی توثیق (اگر اس کو معروف معنوں میں توثیق مان بھی لیا جائے ) کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔
اور یہی وجہ ہےکہ حافظ ذہبی نے اس کو بالاتفاق ضعیف لکھا ہے (دیوان الضعفاء برقم 2843) گویا انہوں نے ابن سعد اور ابن معین کی توثیق کو جمہور کے مقابلے میں معتبر نہیں جانا ۔
گویا اس راوی میں ایک سے زیادہ مسئلے ہیں :
1۔ ضعیف ہونا۔
2۔ مدلس بلکہ کثیر التدلیس ہونا ۔ ( دیکھیے طبقات المدلسین لابن حجر ص 50 ط القریوتی )
3۔ حالیہ روایت میں حتمی طور پر یہ کہنا بھی محل نظر ہے کہ اس کے شیخ ’’ ابو سعید ‘‘ الخدری صحابی ہی ہیں بلکہ یہ عطیہ اپنے شیخ ’’ کلبی ‘‘ کو بھی ابو سعید کہہ کر روایت بیان کردیا کرتے تھے ۔
 

سید رضوی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 24، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
2
عطیہ پر اب تفصیلن میں جواب دیتا ہوں،

اول : عطیہ بن سعد العوفی پر کی گئی جرح پر تبصرہ :

عطیہ پر جو جرح مفسر کی گئی ہے اس کی تین اقسام ہیں

1 عطیہ کی تدلیس
2 عطیہ کی تشیع
3 عطیہ کی روایت کردہ مناکیر


جہاں تک عطیہ کی تدلیس کی جرح کا تعلق ہے تو اُس کی بنیاد صرف ایک شخص کی روایت پے ہے جس کا نام ہے محمد بن السائب الکلبی ، ابن حبان نے کتاب المجروحین میں لکھا ہے کہ عطیہ نے ابی سعید الخدری سے احادیث کی سماعت کی اور جب ابی سعید الخدری وفات پا گئے تو عطیہ نے کلبی کی روایات کو سُنا اور اور کلبی کو ابو سعید کی کُنیت دے کر اُس سے روایت کرنا شروع کر دیا۔ عطیہ کہتا ہے میں نے یہ حدیث ابو سعید سے سُنی ہے ، لوگوں کو وھم ہوتا کہ ابو سعید الخدری نے بیان کی ہے جب کہ اُس کی مُراد کلبی سے ہوتی تھی۔
جنہوں نے عطیہ پے تدلیس کی تھمت کو قبول کیا ہے انہوں نے کلبی کی اسی حکایت پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ عبداللہ بن احمد سے روایت ہے کہ اُس نے اپنے ابا جی سے سُنا کہ اُس نے عطیہ کو ضعیف قرار دیا اور کہا کہ اُس تک یہ اطلاع پہنچی ہے کہ عطیہ کلبی کو ابو سعید کہہ کر اُس سے روایت کرتا تھا، اسی طرح ایا اور روایت جس کو نقل کیا ہے اس میں امام احمد بن حنبل نے جس طریق سے اُس کو خبر پہنچی وہ بتاتا ہے کہ عبداللہ نے اپنے باپ سے اُس نے ابو احمد الزبیری سے اُس کو سفیان الثوری نے بتایا کہ کلبی نے کہا عطیہ نے اُسے یعنی کلبی کو ابو سعید کی کنیت دی۔وقال عبد الله بن أحمد حدثنا أبي ثنا أبو أحمد الزبيري سمعت الثوري قال: سمعت الكلبي قال: كناني عطية بأبي سعيد.الكامل لابن عدي (5 / 2007)
اسی طرح ابن حبان نے ایک اور روایت ابن نضیر کے واسطہ سے نقل کی کہ ابو خالد کو کلبی نے کہا کہ عطیہ نے مجھے ابو سعید کی کنیت دی ہے اور وہ مجھ سے ایسے روایت کرتا ہے حدثنا ابو سعید۔۔۔۔ المجروحين لابن حبان جلد 2 صفحہ 168
پس معلوم ہوا جن افراد نے عطیہ پے تدلیس کی تھمت لگائ ہے اُن کی جرح کا دارومدار تنہا کلبی کی روایت پر ہے، احمد بن حنبل نے بھی وہی سند بیان کی جس کی بناء پر اُس نے عطیہ کی تضعیف کا کہا اور وہ سفیان ثوری کے واسطہ سے کلبی کی ہی روایت ہے۔
اب یہاں بہت نازک صورتحال ہے کیوں کہ اہل سنت پر جب کوئ بات آتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ کلبی متھم بالکذب ہے جو کہ جرح مفسر ہے تھذیب الکمال جلد 25 صفحہ 246 نمبر 5234 اور اس لئے اُس کی روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، مگر عجیب دوغلا پن اور منافقت ہے کہ جب کلبی نسب عمر کے متعلق بتاتا ہے کہ اُن کے ماں باپ بہن بحائ چچا بھتیجی، ماموں بھانجی تھے [الصلابة في معرفة الصحابة(3/212) اور دیگر شرفاء کی شرافت کو آشکار کرے [حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد محترم عفان بن عاص خصی تھے، ان سے کنجروں کا کام لیا جاتا تھا۔ المثالب العرب صفحہ ۶۳] تو یہی کلبی متروک الحدیث اور جب ناصبیت چاروں شانے چِت ہونے لگے تو اسی "جھوٹے" شخص پے اعتماد کر لیا جاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کلبی کے سوا کوئ اور دلیل تدلیس کی موجود نہیں ہے اور کلبی پے اعتماد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کلبی ثقہ ہے ، کیوں کہ اگر ثقہ نہیں تو اُس کی روایت کا اعتبار نہیں اور اعتبار صدوق و عادل کا کیا جاتا ہے نہ کہ جھوٹے اور مُنافق کا۔
اس لئے عطیہ پے تدلیس کی جرح کی عمارت یہیں پے دھڑام سے گر جاتی ہے کیوں کہ کلبی کو جھوٹا مان لیا تو جرح ختم اور اگر نواصب کا اتنی بے عزتی پے گزارہ نہ ہوتا ہو اور وہ مزید مٹی پلید کروانا چاہتے ہوں تو کلبی پے اعتماد کر کے بزرگوں کے کارناموں کو قبول کرتے ہوں تو بھی اگر عطیہ کلبی کو ابو سعید کہہ کر تدلیس کرے گا تو بھی اس کا یہ "جرم" اُس کی روایات کو درجہ اعتبار سے نہیں گرائے گا کیوں کہ یہ تدلیس اب تدلیس الثقات کے عنوان کے تحت آئے گی نہ کہ ضعیف شیوخ کو تدلیس کر کے ثقہ بنانے کی۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ إذا عرف أن المدلس الثقة لا يدلس إلا عن ثقة فتدليسه لا يضر، ضوابط قبول عنعنة المدلس دراسة نظرية وتطبيقية [جزء3 / صفحة97]
اور اس کے علاوہ اگر کلبی پے جرح کو رد کر دیا جائے تو وہ تابعی ہے اُس کی روایات منقطع بھی ہوں تو مراسیل قرار پائیں گی۔ مراسیل مذاہب اربعہ میں قابل احتجاج ہیں [فتح المغیث -سخاوی 213][المقنع فی العلوم الحدیث جلد 1 صفحہ 139]
اور تابعین کی عظمت کے لئے منابع اہل سنت میں یہ حدیث بھی موجود ہے خیر القرون قرنی ثم۔۔۔ جس سے تابعی کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔
البانی نے بھی کلبی کی ہی روایت پے اعتماد کیا ہے اور کہا کہ هذا وحده عندي يسقط عدالة عطية پھر کہتا ہے أن تدليس عطية من هذا النوع الفاحش، التوسل أنواعه وأحكامه 96 عطیہ کو ضعیف کہتے وقت ہمارے برادران اور علمائے اہل سنت باقیوں کو تو دیکھتے ہیں مگر کلبی کو نہیں دیکھتے سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة 31،32/1
اس کے علاوہ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ کلبی سے اُس کا نام بدل کر روایت کرنا اہل سنت کے نزدیک کوئ بڑا جرم نہیں ہے کیوں کہ یہ کام امام بخاری نے خود کیا ہوا ہے ۔ ملاحضہ ہو .6548- (ز): محمد بن بشر [هو محمد بن السائب بن بشر الكلبي]. لسان الميزان
پس جب بخاری صاحب خود محمد بن السائب بن بشر سے تدلیس کرتے ہوئے محمد بن بشر کر سکتے ہیں تو عطیہ بے چارے پے طعن و تشنیع کیوں ؟ اس کے علاوہ جنہوں نے عطیہ پے تھمت لگائ ہے وہ بذات خود کلبی کی روایات کو تدلیس کر کے بیان کرتے تھے، جیسا کہ سفیان الثوری خود کلبی سے روایت کرتا تھا اور اُسے ابو النضر کی کنیت دیتا تھا المجروحين من المحدثين لابن حبان 2/262 حالاں کہ اُس کا ایک ثقہ شیخ ابو النضر سالم بن ابی اُمیہ تھا، ملاحضہ ہو،التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 145/21
اسی طرح ھشییم بن بشیر جس نے عطیہ کو ضعیف قرار دیا وہ عبداللہ بن میسرۃ ابی اسحاق الکوفی سے نام بدلا کر روایت کرتا تھا جو کہ ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ جابر الجعفی سے اس کی دو روایات کو چھوڑ کر باقیوں پے مدلس کا حکم لگایا گیا العلل و معرفة الرجال 363
پس اگر جارحین خود مدلس ہیں تو اُن کی جرح کا کیا اعتبار اور اگر ان جارحین کی عدالت ثابت رہتی ہے تو عطیہ کی کیوں کر نہیں؟
ابن رجب حنبلی نے شرح علل ترمذی جلد 2 صفحہ 824 میں عطیہ پے ہوئ جرح کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ جرح کو کلبی سے روایت کیا گیاہے اور وہ قابل اعتماد نہیں ، پس جرح رد ہو گئ۔
ابن الصدیق الغماری نے بھی ھدایہ فی التخریج الحدیث البدایہ میں لکھا ہے کہ یہ حکایت تصحیح کلبی کے سواء نظر نہیں آئ
رہی بات عطیہ کی تشیع کی تو اس پے جوزجانی وغیرہ نے جو جرح کی ہے اس کے متعلق حافظ ابن حجر کا لسان المیزان 1/212 کے مقدمہ میں اتنا کہنا کافی ہے کہ جو جرح مذھب کی بناء پر کی جائے گی یا مخالفت کی بناء پر وہ جرح قابل قبول نہیں ہو گی بلکہ اُس کو رد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ صاحب کتاب نے جوزجانی کی مثال دی کہ اُس کی اہل کوفہ پے کی گئ جرح کو رد کیا جائے گا کیوں کہ وہ ناصبی تھا اور یہی حال ساجی وغیرہ کا ہے جو کہ نواصب میں سے تھے اور ناصبی حدیث رسول لا یحبک الا مومن و لا یغضبک الا منافق کے تحت منافق ہیں
صحیح مسلم کرمی/59
پس منافقین کی جرح قابل التفات نہیں ۔
اس کے علاوہ جہاں تک اس کے شیعہ ہونے کا تعلق ہے تو متقدمین کے ہاں تشیع کا وہ مطلب ہر گز نہیں جو کہ متآخرین کے ہاں ہے جیسا کہ حافظ نے کہا ہے
فالتشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان وأن عليا كان مصيبا في حروبه ، وأن مخالفه مخطئ مع تقديم الشيخين وتفضيلهما ، وربما اعتقد بعضهم أن علياً أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وإذا كان معتقد ذلك ورعاً ديناً صادقاً مجتهداً فلا ترد روايته بهذا لاسيما إن كان غير داعية.
اور عطیہ کا شمار غیر داعية میں ہے کیوں کہ اُس سے فضیلت شیخین کی روایات بھی مروی ہیں۔ اور اگر تقدم علی الکل کی بات بھی مانی جائے تو اس کے باوجود اُس پر تشیع معیوب کا الزام نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ یہ "تشیع" بہت سے صحابہ کرام میں پائ جاتی تھی پس یہ بدعت نہیں ہے۔ مثال کے طور پے أبو الطفيل عامر بن واثلة الإصابة في معرفة الصحابة - (ج 3 / ص 353)
اس کے علاوہ ذھبی نے کہا ہے البدعة على ضربين : فبدعة صغرى : كغلو التشيع ، أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف ، فهذا كثير في التابعين وتابعيهم مع الدين والورع والصدق ، فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية ، وهذه مفسدة بينة .
پس ایسے افراد کی حدیث کو رد نہیں کیا جائے گا، اسی طرح ابن تیمیہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ سارے شیعہ عرف عام والے شیعہ نہ تھے بلکہ بعض دیگر قسم کے بھی تھے ، واتـهم طائفة من الشيعة الأولى بتفضيل علي على عثمان ولم يتهم أحد من الشيعة الأولى بتفضيل علي على أبي بكر وعمر بل كانت عامة الشيعة الأولى الذين يحبون عليا يفضلون عليه أبا بكر وعمر لكن كان فيهم طائفة ترجحه على عثمان
وكان الناس في الفتنة صاروا شيعتين شيعة عثمانية وشيعة علوية وليس كل من قاتل مع علي كان يفضله على عثمان بل كان كثير منهم يفضل عثمان عليه كما هو قول سائر أهل السنة
قرآئن سے واضح ہوتا ہے کہ عطیہ عرف عام والا رافضی نہیں تھا ۔ یہاں یہ بتانا بھی فائدہ مند معلوم ہوتا ہے کہ راوی رافضی بھی ہو تو بھی وہ حدیث میں بہت بلند مقام رکھ سکتا ہے جیسا کہ امام الحاکم کے متعلق ملتا ہے امام فی الحدیث لکنہ رافضی الخبیث المقترع صفحہ 138
بعض لوگوں کا اس بات سے استدلال کہ بدعتی اپنی بدعت کی طرف بُلائے تو اُس کی روایت قابل قبول نہیں ، اس لئے مردود ہے کہ ذھبی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ جو تشیع ہے یہ بدعت ہی نہیں ۔۔۔ ليس تفضيل علي برفض ولا هو ببدعة، بل قد ذهب إليه خلق من الصحابة والتابعين پس جو اس کو بدعت کہتے ہیں وہ پہلے عطیہ کہ خصوصیات کا بدعت ہونا ثابت کریں۔ نیز خالد بن مخلد کی روایت کا جواب دیں کہ اپنے متن کے لحاظ سے منفرد ہے اور اسے بخاری نے روایت کیا ہے، اگر فقط تشیع سے روایت ضعیف ہوتی ہے تو صحیح بخاری ضعیف ہو جاتی ہے۔ جس راوی میں تشیع پائ جاتی ہو اور اگر اس سے شیخین کے مناقب میں روایات بھی ہوں تو اس کی روایت کو قبول کیا جاتا ہے اور اس کی یہ تشیع روایات میں کسی ضرر کا باعث نہیں بنتی جیسا کہ ذھبی نے سير أعلام النبلاء 154/9 میں نقل کیا ہے احمد سے والظاهر أن وكيعا فيه تشيع يسير لا يضر إن شاء الله فإنه كوفي في الجملة وقد صنف كتاب فضائل الصحابة
3: عطیہ ابن سعد اور مناکیر
جن لوگوں نے عطیہ پے منکر روایات کا الزام لگایا ہے انہوں نے اپنے دعویٰ کے کوئ ٹھوس دلائل نہیں دئیے۔ ابن عدی نے ایک روایت عطیہ سے کی ہے جس میں الفاظ ہیں [ و ان ابا بکر و عمر منھم و انھما] اور اس کو منکر قرار دیا ہے [روایت فضیلت شیخین کی اور جرح عطیہ پے تشیع کی ] حالاں کہ اس روایت کی متابعت مجالد عن ابی الوداک کی روایت بھی کرتی ہے جس کو احمد نے مسند وغیرہ میں درج کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ثقہ راوی کا اضافہ بذات خود قابل قبول ہوتا ہے۔
حافظ نے نتائج الافکار میں کہا ہے کہ عطیہ پے دو قسم کی جرح ہے ایک اُس کی تشیع ایک اُس کی تدلیس اور ہم نے بحمدللہ دونوں کو رد کر دیا ہے۔
دوم :اب آتے ہیں عطیہ کی تعدیل:
ابن سعد نے طبقات الکبرِیِ میں اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور اس کی احادیث کو صالحہ اور مقبول قرار دیا ہے،
طبقات 8/421
ابن سعد پے یہ اعتراض کہ وہ آئمہ فن میں سے نہیں تو جرح میں کتنے افراد آئمہ فن میں سے نکلتے ہیں ضعیف قرار دیتے وقت تو اُن کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے؟جیسے سالم مرادی۔ کتب رجال کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ نے جا بجا ابن سعد کو آئمہ فن کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اس کے علاوہ متشدد جارحین اور علم جرح و تعدیل کے امام یحیٰی ابن معِین نے عطیہ کی تعدیل کی ہے جیسا کہ سوالات الدوری میں ہے کہ عطیہ کی حدیث کیسی ہے جواب دیا "صالح"
تاريخ ابن معين ، الدوري - يحيى بن معين - ج ١ - الصفحة ٣٦٣
اس طرح یحیٰی ابن معین نے ابی خالد الدقاق کی روایت میں عطیہ کے متعلق کہا لیس بہ باس ،اس پر یہ بھی وضاحت ہے کہ ابن معین کے نزدیک عطیہ کی روایت سے احتجاج کرنا درست ہے۔
كلام يحيى بن معين في الرجال، رواية ابن طهمان ص 84
اور یہ بھی ابن معین کی مخصوص اصطلاح ہے کہ جس کو وہ یہ کہے وہ ثقہ ہوتا ہے جیسا کہ ثقات ابن شاھین مقدمہ ابن الصلاح اور لسان المیزان وغیرہ میں ہے، اسی طرح تھذیب میں ابن جنید نے ابن معین سے روایت کی ہے و قال ابن الجنيد عن ابن معين : هو عمرو بن أبي قيس لا بأس بهما قلت ثقتان ، قال : ثقتان .التهذيب ( 6 / 207 ) جس سے معلوم ہوا کہ ابن معین کے مطابق یہ ثقہ ہونے کی نشانی ہے۔ یہ روایت ابن معین سے بذات خود ہے ، لہذہ اس مخصوص اصطلاح سے وہی مراد لیا جائے گا جو کہ ابن معین نے خود بتایا۔احمد بن حنبل کے نزدیک بھی لیس بہ باس ثقہ ہونے کی نشانی ہے ملاحضہ ہو العلل و معرفة الرجال 358 عمر بن محمد شیخ ثقہ لیس بہ باس
اور رہی بات ابن معین سے جرح و تعدیل دونوں روایت کرنے کی تو عطیہ پے جرح مصریوں نے روایت کی ہے ، جب کہ تعدیل بغدادیوں نے، جرح کو تعدیل پے اُس وقت مقدم کیا جاتا ہے جب کوئ اور صورت نظر نہ آئے، جب کہ یہاں واضح معلوم ہوتا ہے کہ بغدادی ابن معین کے نظریات کے بارے میں بہتر جانتے تھے مصریوں کی نسبت، اس لئے بغدادیوں کی روایت کو مصریوں پے مقدم کیا جائے گا اصول الجمع والترجیع کے تحت۔ اس اصول کی مثال ہمیں حافظ کے عبدالرحمن بن عبداللہ الغفافی کے کلام میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ جب یحیی ابن معین کا کسی شخص کے بارے میں اختلاف ہو جائے تو عباس الدوری کی روایت کو دوسروں پے مقدم کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ابن معین کے پاس زیادہ عرصہ رہا سير أعلام النبلاء 523/12 اور ذھبی کا اس پے عمل سير أعلام النبلاء 157/11 ، سير أعلام النبلاء 354/9 وغیرہ پے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عباس الدوری اور ابن طھمان کا براہ راست سماع ثابت ہے ابن معین سے مگر ضعف کی روایات کا دارومدار راویان پر ہے۔
اس کے علاوہ ابن شاھین نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ہے
تاريخ أسماء الثقات ممن نقل عنهم العلم - ابن شاهين 247
اس کے علاوہ تھذیب میں لکھا ہے کہ اس کی روایت جلة الناس نے کی جو کہ اس کی عدالت کی ایک نشانی ہے اور من لا یحتج بہ کا بھی جواب ہے کہ وہاں صرف لفظ الناس ہے یہاں جلة الناس ہے جو کہ مقدم سے ارفع ہے۔
ابن خزیمہ نے اس کی روایت اپنی صحیح میں درج کی جو کہ اس کے ثقہ ہونے پے دال ہے جیسا کہ ابن حجر نے کہا کہ کتاب ابن خزیمہ قابل احتجاج ہے اس میں بعض حسن ہے اوربعض صحیح کہ ابن خزیمہ حسن و صحیح میں فرق نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھ عطیہ کی روایت کو ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں درج کیا جس کے متعلق ابن خزیمہ کا قول ہے کہ ثبت عن نبینا بالاسانید الثابتہ الصحیحہ بنقل الاھل العدالتہ موصولآ الیہ
مقدمہ كتاب التوحيد لابن خزيمة 11
اس طرح عطیہ امام ترمذی کے نزدیک بھی صدوق تھا جیسا کہ ابن حجر نے تعجيبل المنفعة ص 153 میں لکھا ہے۔
اس کے علاوہ ذھبی نے الموقظقہ میں مدارج الثقات کے بارے میں لکھا ہے کہ جن ثقات سے شیخین نے روایات نہیں لیں اُن میں افضل وہ ہیں جن کو ترمذی یا ابن خزیمہ نے صحیح کہا پھر وہ جس سے نسائ وا ابن حبان نے روایت کی الموقظة 81
عجلی نے عطیہ کو ثقات میں شمار کیا ہے
معرفة الثقات، للعجلي 2/140
ابن القطان نے نصب الرایہ میں کہا کہ قال ابن معین فیہ صالح فالحدیث حسن ۔
نصب الراية 4/ 68
اب یہاں ایک نکتے کی وضاحت کر کے آگے حفاظ کا ذکر کیا جائے گا کہ جنہوں نے عطیہ سے روایت کی ہے، حفاظ کا کسی شخص سے روایت کرنا بالعموم اس راوی کا اس حافظ سے توثیق سمجھا جاتا ہے کیوں کہ حافظ ہوتا ہی وہ ہے جسے رجال کی جرح و تعدیل کا کامل علم ہو صحیح و ضعیف کی تمیز رکھتا ہو۔
النکت علی ابن الصلاح للحافظ ابن حجر 267/1
حافظ ابن ماجة نے عطیة سے 26 روایات لی ہیں۔
سنن ابن ماجة 521/6
حاکم نے مستدرک کے دیباچہ میں یہ لکھا کہ اس میں وہ وہی روایات لے گا جو کہ ثقہ ہیں اور شیخین کی شروط کے مطابق ہیں پھر اس نے عطیہ سے روایات لیں، پس معلوم ہوا عطیہ امام حاکم کے نزدیک شیخین کی شرط کے مطابق بھی ثقہ ہے۔
اس طرح حافظ ابن حجر نے الامالی الاذکار میں کہا کہ عطیہ کو دو وجہ سے ضعیف کہا گیا تدلیس و تشیع و ھو فی نفسہ صدوق۔
مزید برآں ابن الصلاح نے مدلسین کی دو اقسام لکھی ہیں 1 جو مدلس تھے مگر صدوق تھے 2 جو مدلس تھے اور ضعیف تھے، پھر ابن الصلاح نے ابن عطیہ کو طبقہ اول میں شمار کیا ہے۔

النكت على ابن الصلاح
2 /145

اس کے علاوہ ابن تیمیہ نے بھی عطیہ کی روایت سے احتجاج کیا ہے جو کہ مروی بھی عن کے صیغے سے ہے۔
مجموعة فتاوى ابن تيمية 201/15
الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح ابن تيمية 284/5
اب رہی بات عطیہ کی تضعیف پے اجماع کے دعویٰ کی تو اُس کی کلی مندرجہ بالا بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ اجماع کا دعویٰ باطل ہے ایک تو بہت سے اعلام نے عطیہ کی توثیق کی ہے اور دوسرا اس کی بنیاد صرف کلبی کی روایت پے ہے اُس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
جب جرح مفسر رد ہو گئ تو تعدیل مبھم/مجمل کو جرح مبھم پے مقدم کیا جائے گا۔
اور جہاں تک بات ہے ابن حجر کے یہ کہنے کی
عطية بن سعد العوفي الكوفي،
تابعي معروف ضعيف الحفظ مشهور بالتدليس القبيح ۔
طبقات المدلسين//جلد 1//صفحہ 50// ۔
اور برادران کا یہ دعویٰ کہ عطیہ پے جرح اُس کے حفظ کی وجہ سے ہے یہ ایک غلط فہمی ہے کیوں کہ حافظ کا شمار متاخرین میں ہو گا ، جبکہ متقدمین میں سے کسی نے اُس کے حفظ پے جرح نہیں کی، یہاں پے حافظ کا یہ کہنا دلیل کا محتاج ہے کیوں کہ متقدمین نے ایسا کچھ نہیں کہا بلکہ خود حافظ نے نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار جلد 1 صفحہ 267 دار ابن کثیر پے لکھا ہے کہ ضعف عطية إنما جاء من قبل التشيع و من قبل التدليس، کہ عطیہ کے ضعف کی وجوہات تشیع اور تدلیس ہیں ، تیسری کوئ وجہ ادھر بیان نہیں کی اور متقدمین سے بھی یہ ثابت نہیں۔ اس لئے حافظ کے الفاظ سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔اور اس میں جس قبیح تدلیس کا ذکر ہے اُس کی حقیقت پہلے ہی آشکار ہو چکی ہے۔ اصولآ جب حافظ کا عطیہ کے بارے میں تساہل آشکار ہو چکا ہے تو اُس کی جرح کو قبول ہی نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ اگر وہ تساہل نہ کرتا تو اُسے آسانی سے معلوم ہو جاتا کہ جس تدلیس کو وہ قبیح کہہ رہاہے در حقیقت وہ وجود ہی نہیں رکھتی، اور اگر بالفرض المحال رکھتی بھی ہے تو قبیح کسی صورت نہیں۔ مزید یہ کہ ذھبی نے صدوق یخطئ کثیرا کی اصطلاح کو متناقص قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جو صدوق ہوتا ہے وہ زیادہ غلطیاں نہیں کرتا۔ ھذا فیہ تناقض فالصدوق لا یکثر خطوہ ضوابط الجرح و التعدیل 136 سیر الاعلام النبلاء 429/9
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ نےکاپی پیسٹ کرتے ہوئے یہ زحمت نہیں کی کہ جن باتوں کا موضوع سے تعلق نہیں ان کو ختم کردیا جائے ، آپ کی اور میری پہلی دفعہ بحث ہورہی ہے ، بلکہ بظاہر فورم پر بھی آپ کی پہلی بحث ہے ، اس کے باوجود انداز بیان ایسا ہے جیسے ہم نے آپ کو پہلے ’’ رافضی ، خبیث ، صحابہ کا دشمن ‘‘ قرار دیا ہو جس کا بدلہ اتارنے کے لیے آپ نے اہل سنت پر زبان درازی کو نقل کیا ہے ۔ خیر آئندہ ذرا احتیاط رکھیے گا ۔
عطیہ کی کلبی سے روایت :
آپ کے نزدیک عطیہ کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، کیونکہ جس حکایت کی بنا پر اس پر تدلیس کا الزام ہے وہ کلبی کی وجہ سے ثابت نہیں ۔
اگر عطیہ کی تدلیس کلبی کی وجہ سے ثابت نہیں ہوتی تو عطیہ کی کلبی سے روایات بھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتیں ۔
لہذا ہم کہیں گے کہ عطیہ کا شیخ ’’ ابو سعید ‘‘ مہمل ہے جس کی تعیین کی ضرورت ہے ، اور تعیین میں دونوں احتمال ہیں اگر صحابی ہو تو روایت مرفوع ہے اور اگر کلبی ہو تو روایت مقطوع و موضوع یا کم از کم ضعیف ہے ۔
آپ اس روایت کی صحت کے قائل ہیں تو اس ’’ اہمال ‘‘ کی تعیین آپ کے ذمہ ہے ۔
عطیہ کی تضعیف :
آپ کے نزدیک عطیہ پر جرح مفسر ثابت نہیں ، جبکہ جرح مبہم توثیق کے مقابلے میں مردود ہے ۔
یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ، کیونکہ ایک طرف جمہور اہل علم نے اس کی تضعیف کی ہے جبکہ توثیق کرنے والوں میں صرف ابن سعد کا نام آتا ہے ، رہے ابن معین تو (مزید تلاش کرنے سے پتہ چلا ہے کہ ) ان سے دونوں طرح کے اقوال مروی ہیں ، جب ایک ہی امام کے کسی راوی کے بارے میں اقوال مختلف ہو جائیں تو ترجیح کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ ان کا وہ قول لے لیا جائے جو دیگر اہل علم سے مطابقت رکھتا ہے ۔ گویا اس راوی کے بارے میں قابل اعتماد قول یہی ہے کہ یہ ضعیف ہے جبکہ اس کی توثیق کے قول کو شاذ کہا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی نے اس کو ’’ ضعیف بالاجماع ‘‘ قرار دیا ہے ۔
(دیوان الضعفاء برقم 2843)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top