- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
قبولیت کی چند شرائط
یہ وہ شرائط ہیں جن سے نہ صرف فقہ اسلامی کی صحیح پہچان ہوتی ہے بلکہ اس کی ثقاہت ومتانت اور شرع سے ہٹے ہوئے مسائل کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ فقہ چونکہ ایک فرعی مسئلے کو دلیل سے بیان کرنے کا نام ہے اس لئے علمی ثقاہت ہی اجتہادی کوشش کی بنیاد ہوگی۔ اور اسی کو اولین حیثیت حاصل ہوگی۔ اس لئے وہ اجتہادات جو دلائل سے مزین نہیں ان کی عدم قبولیت پر ہی اجماع ہے۔ فقہاء کرام کے اجتہادات میں دلائل دیکھنا اور تلاش کرنا ان کے فقہی مرتبے اورعلمی شان کو دوبالا کردے گا۔اور صحیح مدلل فقہی مسائل امت میں خیر کا باعث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل درست ہے:
{لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘ تنزیل من حکیم حمید}(السجدۃ۴۲)
اس پر جھوٹ کا حملہ نہ آگے سے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے‘ یہ دانا وخوبیوں والے اللہ کی نازل کردہ ہے۔
آپ ﷺ کا بھی ارشاد ہے:
قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ، لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا، لاَ یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْ إِلاَّ ہَالِکٌ ۔
میں تمہیں ایک واضح اور روشن دین دے کرجا رہا ہوں جس کی رات بھی اس کے دن کی مانند ہے اس سے پھرنے والا ہی میرے بعد ہلاک ہوگا۔ کتاب السنۃ لابن ابی عاصم:۳۳
اس لئے معتدل رویہ یہی ہو نا چاہئے کہ جن مسائل واستنباطات پر علماء وفقہاء کی کثرت نے دلائل سے نکیر فرمائی ہے انہیں ترک کردیا جائے اور جو فقہی مسئلہ دلائل کی بنیاد پر بیان فرمایا ہے اسے قبول کرکے اختلاف کو ختم کردیا جائے۔ یہ وہ ضابطے ہیں جو قرآن نے ہمیں عطا کئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیر وأحسن تأویلا}۔
پھر اگر تم کسی مسئلہ میں اختلاف کرنے لگو تو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا لے جاؤ۔۔ ایسا کرنا ہی خیر ہے اورانجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔
یہ وہ شرائط ہیں جن سے نہ صرف فقہ اسلامی کی صحیح پہچان ہوتی ہے بلکہ اس کی ثقاہت ومتانت اور شرع سے ہٹے ہوئے مسائل کا بھی ادراک ہوتا ہے۔ فقہ چونکہ ایک فرعی مسئلے کو دلیل سے بیان کرنے کا نام ہے اس لئے علمی ثقاہت ہی اجتہادی کوشش کی بنیاد ہوگی۔ اور اسی کو اولین حیثیت حاصل ہوگی۔ اس لئے وہ اجتہادات جو دلائل سے مزین نہیں ان کی عدم قبولیت پر ہی اجماع ہے۔ فقہاء کرام کے اجتہادات میں دلائل دیکھنا اور تلاش کرنا ان کے فقہی مرتبے اورعلمی شان کو دوبالا کردے گا۔اور صحیح مدلل فقہی مسائل امت میں خیر کا باعث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل درست ہے:
{لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘ تنزیل من حکیم حمید}(السجدۃ۴۲)
اس پر جھوٹ کا حملہ نہ آگے سے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے‘ یہ دانا وخوبیوں والے اللہ کی نازل کردہ ہے۔
آپ ﷺ کا بھی ارشاد ہے:
قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ، لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا، لاَ یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْ إِلاَّ ہَالِکٌ ۔
میں تمہیں ایک واضح اور روشن دین دے کرجا رہا ہوں جس کی رات بھی اس کے دن کی مانند ہے اس سے پھرنے والا ہی میرے بعد ہلاک ہوگا۔ کتاب السنۃ لابن ابی عاصم:۳۳
اس لئے معتدل رویہ یہی ہو نا چاہئے کہ جن مسائل واستنباطات پر علماء وفقہاء کی کثرت نے دلائل سے نکیر فرمائی ہے انہیں ترک کردیا جائے اور جو فقہی مسئلہ دلائل کی بنیاد پر بیان فرمایا ہے اسے قبول کرکے اختلاف کو ختم کردیا جائے۔ یہ وہ ضابطے ہیں جو قرآن نے ہمیں عطا کئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر ذلک خیر وأحسن تأویلا}۔
پھر اگر تم کسی مسئلہ میں اختلاف کرنے لگو تو اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا لے جاؤ۔۔ ایسا کرنا ہی خیر ہے اورانجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔