• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری طرز سے
برادران اعجاز احمدی کے دو حصے ہیں۔ ایک عربی جس کا ذکر ہوچکا ، دوسرا اردو جو ۳۹ صفحات کا مضمون ہے۔ مرزا صاحب نے ۲۰ دن کی میعاد میں عربی اردو دونوں حصوں کا جواب مانگا ہے وہ بھی اس طرز میں کہ '' کوئی بات رہ نہ جائے۔'' (۸۹۴)پھر کمال یہ کہ ۲۰ دن صرف جواب لکھنے کے لیے نہیں بلکہ لکھ کر اور چھپوا کر مرزا صاحب کے پاس پہنچا دینے کے لیے۔ صاحبان اتنے سے ہی مرزا کی اعجاز نمائی پر مطلع ہوسکتے ہیں۔ بیس روز کی قلیل مدت میں تین چار کام کیسے ہوں۔
(۱) تصنیف کتاب مع قصیدہ طویلہ عربیہ (۲) کاتب کی کتابت (۳) مطبع کا فعل طباعت (۴)تہ بندی و سلائی (۵) مرزا صاحب کے پاس پہنچانے کے لیے ڈاک خانہ کے دن جو خود مرزا صاحب نے ''تین دن'' مانے ہیں۔ (۸۹۵)
بھائیو! انصاف کیجئے کہ مرزا صاحب کا یہ مقابلہ مخالف علماء سے تھا یا کہ کاتب اور پریس سے بھی؟ غور کرو کہ اگر ایک مصنف بڑا جلد نویس ہو تو بھی ایک ایسے مضمون کا لکھنا جس میں مخالف کی باتوں کا اور اس کی پیشگوئیوں وغیرہ کا جواب اسی کی کتابوں کو دیکھ بھال کر دینا ہو بڑے سے بڑا پانچ صفحات روزانہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ فرض کے طور پر دس صفحات روزانہ بھی شمار کریں تو ۹ دن میں کتاب تیار ہوئی۔ اب کاتب کی باری آئی ۔ بتلائیے وہ ۲۰،۲۶ تقطیع کے نوے صفحات کتنے دنوں میں لکھے گا؟ بڑا تیز نویس ہو تو بھی فی یوم ۶ صفحوں سے زیادہ نہ لکھ سکے گا۔ پس ۱۵ یوم میں کتاب ختم ہوئی۔ اس کے بعد ابھی پریس کا مسئلہ باقی ہے۔ تجربہ کار اصحاب جانتے ہیں کہ جلدی سے جلدی دیں تو دو ہفتہ تک دیں گے پھر سلائی اور تہ بندی پر کتنے یوم خرچ ہوتے ہیں فرمائیے؟ یہ مہینے سوا مہینے کا کام ۲۰ دنوں میں کس طرح ہوسکتا ہے یہ بھی ہم نے سرسری طور پر حساب لگایا ہے۔ ورنہ اعجازِ احمدی میں عربی قصیدہ کے علاوہ جن باتوں کا ترتیب وار جواب مانگا گیا ہے۔ ایک انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ بیس پچیس دن میں طبع کرا دینا تو درکنار صرف جواب ہی لکھ سکے۔ ملاحظہ ہوں وہ امور یہ ہیں:
(۱) طاعون مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کے مطابق آئی یا نہیں؟
(۲) طلوع ستارہ ذوالسنن علامت مسیح ہے یا نہیں؟
(۳) اونٹوں کی بیکاری جو علامت مسیح موعود ہے وہ پوری ہوچکی یا نہیں؟
(۴) کسوف خسوف کی روایت صحیح ہے یا موضوع؟
(۵) بشق اول مرزا کے وقت جو کسوف و خسوف ہوا وہ اس روایت کے مطابق ہے یا نہیں؟
(۶) بشق ثانی اس روایت کا موضوع ہونا ثابت کرنا۔
(۷) پسر مصلح موعود کی پیشگوئی جو مرزا نے کی تھی اس کا ردّ ۔
(۸) لیکھ رام والی پیشگوئی کا ردّ۔
(۹) عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا جواب۔
(۱۰) محمدی بیگم کے نکاح والی پیشگوئی کا رد۔
(۱۱) مرزا صاحب نے جو چیلنج مباہلہ علماء کو دیا تھا اس کا جواب۔
(۱۲) دلائل وفاتِ مسیح علیہ السلام جو مرزا نے پیش کیں ان کا جواب۔
(۱۳) حیاتِ مسیح علیہ السلام کا ثبوت۔
(۱۴) حضرت مسیح علیہ السلام پر جو اعتراضات مرزا نے بہ تمسک کتب یہود کے کئے ان کا جواب۔
(۱۵) احادیث میں جو تضاد ہے ان میں تطبیق متعلقہ حیاتِ وفاتِ مسیح علیہ السلام ۔
یہ پندرہ مضمون تو اردو حصہ کے قابلِ جواب ملے۔ ایسے کئی مسائل عربی قصیدے میں ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے بعض مسائل ایسے ہیں جن پر سَو سَو صفحات لکھنے ضروری ہیں۔ فرمائیے! ایک انسان سے کیا یہ ممکن ہے؟ پھر اس پر بھی مرزا صاحب کی چالاکی باقی ہے۔ بفرضِ محال کوئی ایسا کر بھی لے تو مرزا صاحب جھوٹے بننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ جواب کے بعد بیسیوں عذر پیش کئے جاسکتے تھے کہ ہم نے جو دس ہزار روپے کا انعامی اشتہار جواب دینے کے لیے مقرر کیا ہے وہ یونہی محض جواب دینے سے نہیں مل سکتا۔ منصف مقرر کرو۔ پھر منصف کے تقرر میں، ایچ پیچ، پھر جواب الجواب کا ڈھکوسلہ۔ غرض یہ سب مرزا صاحب کی چال بازیاں ہیں۔ جنہیں ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت مولانا صاحب نے ایک نزدیک ترین راہ سے مرزا صاحب کو پکڑا۔ چنانچہ آپ نے ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء کو اشتہار دیا کہ:
آپ پہلے ایک مجلس میں اس قصیدے اعجاز یہ کو ان غلطیوں سے جو میں پیش کروں صاف کردیں۔ تو پھر میں آپ سے زانو بہ زانو بیٹھ کر عربی نویسی کروں گا۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ گھر سے تمام زور لگا کر ایک مضمون اچھی خاصی مدت میں لکھیں اور مخاطب کو جسے آپ کی مہلت کا کوئی علم نہ ہو محدود وقت کا پابند کریں۔ اگر واقعی آپ خدا کی طرف سے ہیں اور جدھر آپ کا منہ ہے ادھر ہی خدا کا منہ ہے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ میدان میں آکر طبع آزمائی نہ کریں بلکہ بقول حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی۔
بنائی آڑکیوں دیوار گھر؟
نکل دیکھیں ہم تیری شعر خوانی
'' حرم سرا سے ہی گولہ باری کریں۔'' (۸۹۶)
چونکہ مرزا صاحب اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے خوب واقف تھے اس لیے وہ میدان میں نہ نکلے اور گھر میں ہی شور مچاتے رہے الغرض مرزا صاحب کا اس قصیدے کے جواب پر قلیل میعاد مقرر کرنا ہی ان کی اندرونی کمزوری پردال ہے۔ اگر مرزا صاحب کا کلام واقعی اس خدا کی طرف سے ہے جس نے قرآنِ پاک کی مثل لانے پر کوئی میعاد مقرر نہیں کی تو مرزا صاحب کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔
اعتراض:
ایسا اس لیے نہیں کیا گیا کہ قرآنِ (پاک) کی برابری نہ ہو۔
جواب:
جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صرف چاند کا خسوف اور اپنے لیے چاند اور سورج دونوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسلام کی حالت پہلی رات کے چاند کی طرح اور اپنے وقت میں چودھویں رات کے چاند جیسی بتائی ہے وہاں یہ ادب کیوں روانہ رکھا گیا۔ ہاں اپنے ''معجزات و کرامات'' کو جہاں لوگوں کو پھنسانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا ہے وہاں اگر قرآنی برکات سے بے مثل کلام الیٰ یومِ القیام کا دعویٰ کیا جاتا تو اس سے قرآن اور نبی علیہ السلام کی عزت و دبالا ہوتی نہ کہ گھٹ جاتی۔ ہاں ہاں جب یہ دعویٰ ہے کہ:
'' میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور قریب ہے کہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔'' (۸۹۷)
پھر اس جگہ کیوں دبک گئے۔ اچھا اگر قرآن کا اتنا ہی ادب ... ملحوظ تھا تو کم از کم دو چار دس پانچ سال کی میعاد تو مقرر کر دیتے۔ نہ سہی دس پانچ ماہ کی ہی کردیتے۔ جس سے قرآن کا مقابلہ بھی نہ ہوتا اور لوگوں پر حق واضح ہو جاتا، حجت پوری ہو جاتی اصل بات وہی ہے کہ مرزا صاحب اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کو ایسی ویسی بیہودہ شرائط میں منہ چھپاتے رہے۔
بیخودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
----------------------
(۸۹۴) ایضاً ص۹۰ و روحانی ص۲۰۴، ج۱۹ و مجموعہ اشتہارات ص۴۷۹، ج۳
(۸۹۵) ایضاً
(۸۹۶) الہامات مرزا ص۹۶ و فتنہ قادیانیت اور مولانا ثناء اللہ امرتسری ص۸۰
(۸۹۷) بدر جلد ۲ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۳ والحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۱۹۰۶ء ص۱ و تذکرہ ص۶۷۴ والبشرٰی ص۱۱۹، ج۲ و ملفوظات مرزا ص۲۹۶، ج۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری طرز سے
مولانا غنیمت حسین صاحب مونگیری نے اعجازِ احمدی کے جواب میں کتاب ابطال اعجاز مرزا دو حصوں میں لکھی پہلے حصے میں مرزا صاحب کے اشعار کی صرنی، نحوی، عروضی اور ادبی غلطیاں ظاہر کیں اور دوسرے حصے میں چھ سو سے زائد اشعار کا عربی قصیدہ لکھا جو نہایت فصیح و بلیغ ہے اور اغلاط سے پاک۔
دیگر یہ کہ مرزا صاحب نے حضرت مولانا اصغر علی صاحب روحی سابق پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور کی گرفت و اعتراضات پر اپنے اغلاط کو خود تسلیم کرلیا کہ میں نہ عربی کا عالم ہوں نہ شاعر ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (۸۹۸)نیز مرزا صاحب کے مقابلے میں قاضی ظفر الدین صاحب مرحوم پروفیسر عربی اورنٹیل کالج لاہور نے قصیدہ رائیہ بجواب قصیدہ مرزا لکھا اور وہ نہایت فصیح و بلیغ اور مطابق قواعد عروض و قوافی ہے۔ اور صرنی و نحوی، عروضی، ادبی اغلاط سے پاک ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب نے جب اپنا کلام مصر بھیجا تو وہاں کے ادیبوں نے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور اسے پراز اغلاط پاکر لچر قرار دیا۔ چنانچہ مرزا صاحب اپنی کتاب الہدیٰ میں اس کی شکایت کرتے ہیں کہ '' اہل مصر نے خصوصاً مدیر''المنار'' نے میرے کلام کی قدر نہیں کی'' بلکہ بعض مصری جرائد و رسائل نے یہاں تک لکھ دیا کہ مرزا قادیانی کے کلام کے مطالعہ سے دماغی اور ادبی سل ودِق ہو جاتی ہے۔ ان رسائل و جرائد میں ''الفتح'' پیش پیش ہے۔ (۸۹۹)
-------------------------------------------------------------------------
(۸۹۸) الحکم جلد نمبر ۳۸ مورخہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء ص۵
(۸۹۹) اخبار المنار ص۴۶۵،۵۴۵، ج۴ والھدٰی والتبصرۃ لمن یرٰی ص۱۱ و روحانی ص۲۵۶ ج۱۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی چھٹی دلیل
یہودیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم خدا کے دوست ہیں۔ خدا نے کہا اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ مگر انہوں نے نہ کی۔ پس ثابت ہوا کہ جھوٹا موت کی تمنا نہیں کرتا۔ حالانکہ مرزا صاحب نے لکھا کہ اے خدا اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے مار دے مگر خدا نے آپ کو ترقی دی پس ثابت ہوا کہ آپ سچے ہیں۔ (۹۰۰)
الجواب:
یہ سچ ہے کہ یہودیوں کو ایسا حکم ہوا تھا مگر اس واقعہ کو عام بنانا کس بنا پر ہے؟ ان کے متعلق تو خدا نے وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ موت مانگیں گے تو خدا انہیں مزہ چکھائے گا۔ مگر یہ وعدہ عام تو نہیں ہے کہ جو شخص بھی اپنے حق میں موت کا عذاب طلب کرے گا وہ اس میں ضرور مبتلا ہو جائے گا۔ قرآن شریف کے اس مقام کو عام قاعدہ قرار دینا یہودیانہ تحریف ہے دیکھئے کفار مکہ نے بھی تو موت مانگی تھی فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِ ائتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (سورۂ الانفال ع۴) اے خدا ہم پر پتھر برسا یا درد ناک عذاب لے آ۔ جواب ملا مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ معذبھم وھم یستغفرون (۹۰۱)خدا تعالیٰ ان لوگوں پر جن میں تو موجود ہے یا جو استغفار کرنے والے ہیں عذاب نہیں بھیجے گا۔
عذر:
'' یہ دعا ابو جہل نے کی تھی۔ جنگ بدر میں قتل ہوا۔ خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ (الآیہ)کا ارشاد فرمایا گویا کفار آسمانی پتھروں سے ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ اس نے ڈبل بد دعا کی تھی پہلی کے مطابق وہ آسمانی پتھر کا نشانہ بنا، دوسری کے مطابق مقتول ہوا۔'' (ملخص ص۳۸۰ پاکٹ بک مرزائی مطبوعہ ۱۹۳۲ء)
جواب:
اللہ تعالیٰ نے تو کفار کی بد دعا پر عذاب کی نفی کی ہے مگر مرزائی تحریف ملاحظہ ہو کہ کس دھڑلے سے قرآن پاک کی تکذیب پر کمر بستہ ہے۔ استغفر اللہ
برادران جبکہ قرآن پاک شاہد ہے کہ ان کی بد دعا کے جواب میں عذاب نہ اتارنے کا وعدہ الٰہی ہے تو یقینا ان کی موت اس بد دعا کے تحت نہیں ہوسکتی خود مرزائی پاکٹ بک کا مصنف اسی کتاب کے صفحہ ۴۳۳،۴۳۸ پر اسی آیت سے استدلال کرتا ہے کہ جب سلطان محمد (مرزا صاحب کی منکوحہ آسمانی کا خاوند) نے توبہ کرلی۔ وہ ہلاکت سے بچ گیا۔
خدا توبہ کرنے والوں پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ اسی طرح مرزا صاحب قادیانی بھی اس آیت کا یہی مطلب بتاتے ہیں:
مَا کَان اللّٰہُ اَنْ یُعذبھم وانت فیھم خدا ایسا نہیں کہ مکہ والوں پر عذاب نازل کرے اور تو اُن میں ہو۔ (۹۰۳)
مگر جب مرزائی صاحب کو مرزا کی نبوت بنانے کی ضرورت ہوئی تو اس مسلمہ ترجمہ سے روگردانی کرکے وعدہ الٰہی کو غلط ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کر رہا ہے۔
حاصل یہ کہ ہر بد دعا مانگنے والے کی دعا قبول ہو جانے کا قاعدہ نہیں ہے۔ فھو المطلوب
-------------------------------------------------------
(۹۰۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۰۳
(۹۰۱) پ۹ انفال آیت نمبر ۳۳، ۳۴
(۹۰۲) ملخصًا احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۰ طبعہ ۱۹۳۲
(۹۰۳) انوار الاسلام ص۴۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی ساتویں دلیل
'' قرآن میں ہے کہ ہم نے نوح علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھ بیٹھنے والوں کو بچالیا۔ اس بچنے کو بطورِ صداقت نوح علیہ السلام ، نشان مقرر کیا حضرت مسیح موعود (مرزا) کے زمانہ میں آپ کی پیشگوئی کے مطابق طاعون پڑی حضور نے فرمایا کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے اِنِّی اُحافِظُکَ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ الخ میں ان تمام لوگوں کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوں گے طاعون سے محفوظ رکھوں گا خاص کر تیری ذات کو۔ چنانچہ آج تک حضور کے گھر میں کبھی کوئی چوہا بھی نہیں مرا۔ لہٰذا آپ کی صداقت ثابت ہے۔'' (۹۰۴)
جواب:
چار دیواری سے مراد مرزا صاحب کا خشت و خاک کا گھر ہی نہیں بلکہ روحانی چار دیواری ہے ملاحظہ ہو قول مرزا:
'' جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا کے کلام میں یہ وعدہ ہے انی اُحافظ کل من فی الدارء۔ (۹۰۵)
نیز مرزا جی نے طاعون کو جہنم کا عذاب لکھا ہے جو صرف کافروں سے مخصوص ہے:
'' عَرَضْنَا جَھَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لِلکٰفِرِیْنَ عَرْضًایہ مسیح موعود کے زمانے کا ایک نشان ہے کہ اس دن جہنم پیش کیا جاے گا جہنم سے مراد طاعون ہے۔'' (۹۰۶)
آئیے اب ہم دیکھیں کہ جس طرح نوح علیہ السلام کے جملہ ساتھی ایماندار بچائے گئے تھے اسی طرح یہاں بھی حسب پیشگوئی مرزا، احمدی لوگ طاعون سے محفوظ رہے؟ اور جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کے جملہ مخالف غرق کئے گئے اسی طرح یہاں بھی مخالفین مرزا طاعون میں مبتلا ہوئے۔ خدا کا فضل ہے کہ آج جبکہ مرزا کو مرے ۲۶ سال ہوگئے ہیں کروڑوں کی تعداد میں مخالفین مرزا مرزائیوں کا سر کچلنے کو زندہ ہیں۔ خاص کر اشد ترین مخالف جن کے نام سے مرزا کی روح کانپ اٹھتی تھی۔ مثل حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب صدہا علمائے اسلام سلامت بہ کرامت موجود ہے۔
باقی رہی دوسری شق، سو مرزائیوں پر طاعون آئی اور ایسی کہ مرزا صاحب پکار اُٹھے کہ:
'' اے خدا ہماری جماعت سے طاعون کو اٹھالے۔'' (۹۰۷)
پس یہ پیشگوئی صاف جھوٹی نکلی۔
---------------------------------
(۹۰۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۰۵ طبعہ ۱۹۴۵ء و ص۳۸۱ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۹۰۵) کشتی نوح ص۱۰ و روحانی ص۱۰، ج۱۹
(۹۰۶) بدرجلہ ۷ نمبر ۳ مورخہ ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء ص۳ و تفسیر مرزا ص۳۲۲، ج۵ و ملفوظات مرزا ص۴۲۸، ج۵ فرمودہ ۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء
(۹۰۷) بدرجلہ اول نمبر ۵ مورخہ ۴؍ مئی ۱۹۰۵ء ص۲ والحکم جلد ۹ نمبر ۱۵، ص۲مورخہ ۳۰؍ اپریل ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص ۲۷۲، ج۴ فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۱۹۰۵ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی آٹھویں دلیل
اَلَا اِنَّ حَزْبَ اللّٰہِ ھُمْ الغَالِبُوْنَ خدا کا گروہ ہی غالب آتا ہے اَلَا انَّ حزبَ الشَّیْطَانِ ھُمْ الخَاسِرُوْنَ شیطان کا گروہ ناکام و نامراد رہتا ہے۔ اب اس بات کا فیصلہ کس طرح ہو کہ غالب گروہ کون ہے اور مغلوب گروہ کون؟ فرمایا: اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا ناتی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا من اَطرافھا افھم الْغَالِبُوْنَ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے کم کرتے چلے آرہے، کیا اب بھی وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ غالب آجائیں گے۔ گھر یا کافر ایک زمین کی طرح ہیں اور خدا اس کو دن بدن چاروں طرف سے کم کرتا چلا آرہا ہے۔ پس نبی کی جماعت کا دن بدن بڑھنا نبی کے غالب اور اس کے مخالفوں کے مغلوب ہونے کی دلیل ہے۔ (۹۰۸)
الجواب:
مومنین کے غلبہ دلائل کا ذکر ہے نہ کہ کثرتِ جماعت کا۔ قرآن مجید شاہد ہے کہ کثرت و قلت معیار صداقت نہیں۔
اسی طرح گروہ شیطان کے خسرانِ آخرت کا تذکرہ ہے فاعبدوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُوْنِہٖ الآیۃ۔ پوجو اللہ کے سوا جو چاہو اے نبی کہہ دیجئے گھاٹا پانے والے وہی ہیں جو بمعہ اہل و عیال قیامت میں گھاٹا پائیں۔ ان کا اوڑھنا بچونا آگ ہے۔ جس سے اللہ ڈراتا ہے۔ اے بندو! ڈر جاؤ (۹۰۹)آیت تیسری زمین کے گھٹتے آنے والی بھی یونہی بے سمجھی سے پیش کی گئی ہے۔ اب تو مشاہدہ میں آچکا ہے کہ فی الواقع زمین کناروں سے گھٹتی چلی آرہی ہے۔ یہی منشا الٰہی ہے ناظرین اس آیت کا سیاق و سباق ملاحظہ کرلیں (سورۂ انبیاء ع۳۔۴) کافر کہتے مَتیٰ ھٰذَا الْوَعْدُ یہ قیامت کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ خدا فرماتا ہے ہم زمین جیسی ٹھوس مادی چیز کو معدوم کرتے چلے آرہے ہیں پھر تمہیں جو خاک کی پیدائش ہو ہمیشہ زندہ رہنے کا کیا گھمنڈ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی مَسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِنْ عَذَابٍ رَبَّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَا اِنَّا کُنَّا ظَالِمِیْنَ ۔(۹۱۰)ایک بھاپ عذاب الٰہی سے ان کو چھو جائے تو یقینا پکار اٹھیں کو بیشک ہم ہی ظالم تھے۔
بتائیے اس جگہ کثرت وقلت جماعت کا کیا ذکر ہے۔ فرضاً اس آیت کے وہی تاویلی معنے ہوں جو مرزائی کرتے ہیں۔ تو بھی اس میں جماعت کا بڑھنا دلیل صداقت نہیں گردانا گیا۔ '' خدا فرماتا ہے ہم کفر کو مٹاتے آتے ہیں کیا وہ غالب آجائیں گے'' پس اس ترجمہ کی رو سے کبھی کفار کا غلبہ علی الحق بدلائل معقولہ مراد ہے نہ کہ کثرتِ جماعت کا غلبہ۔ کیونکہ کثرت کے لحاظ سے ہمیشہ منکرین حق زیادہ رہے اور رہیں گے۔ بخلاف اس کے مسلمان اللہ کے فضل و کرم سے قرآنِ پاک کی براہین باہرہ کی برکت سے ہمیشہ مرزائیوں پر غالب رہے اور رہیں گے۔ اور مرزائی انشاء اللہ ہمیشہ مغلوب رہیں گے۔ جیسا کہ انہی کے دلائل سے عیاں ہے کہ انہیں مرزا کی سچائی ثابت کرنے کے لیے نہ صرف قرآن میں تحریف کرنی پڑتی ہے بلکہ خود اپنے نبی اور اپنی دستی تحریرات کی بھی خلاف ورزی کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
برادران! مرزائی صاحبان نے جو آیات پیش کی ہیں۔ ان سے بنی کی جماعت کا دن بدن زیادہ ہوتے جانا دلیل صداقت ثابت نہیں ہوتا۔ تاہم ہمیں تسلیم ہے کہ اسلام کی صداقت کی یہ دلیل ہے کہ ایک یتیم و بیکس بے یار و مددگار، غریب انسان تنہا سچائی کا پیغام لے کر لاکھوں مخالفوں کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے۔ پھر مخالف بھی وہ خونخوار درندے جن کی وحشت ضرب المثل ہے اور پھر پکار کر علی الاعلان کہتا ہے کہ جملہ شیاطین الجن والانس اکٹھے ہو کر آجاؤ اور میرے خلاف جو مکر تم سے ہوسکے کرلو۔ تاہم میں بڑھوں گا، پھولوں گا، پھلوں گا، تمہیں مجھے مٹا دینے کی طاقت نہ ہوگی، حالانکہ تم مسلح، میں نہتا ہوں، تم ہزاروں میں اکیلا ہوں، تم لاکھوں کے مالک، میں غریب و نادار ہوں، تم وحشی پھاڑ کھانے والے درندے، میں صاحب اخلاق کریمہ سلیم المزاج شریف الطبع بے ضرر انسان ہوں۔ باوجود اس کے وہ زمانہ نبی امی پر آیا کہ وَرَأیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہ اَفْوَاجًا اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی محمد وبارک وسلم۔(۹۱۱)
پچھلے نبی چونکہ خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خطوں کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے۔ اس لیے ان کا غالب و مغلوب ہونا دلیل صدق و کذب نہیں تھا۔ چنانچہ احادیث گواہ ہیں کہ بعض نبی قیامت کے دن ایسے آئیں گے جن کے ساتھ صرف ایک ہی امتی ہوگا (بخاری و مسلم در مشکوٰۃ باب التوکل) بخلاف اس کے ہمارے رسول چونکہ کافہ ٔ ناس کے لیے رسول تھے۔ کامل و مکمل شریعت کے مالک حجۃ اللہ علی الارض الیٰ یوم القیامۃ۔ اس لیے آپ کی ترقی آناً فاناً ہوئی۔ وہ بھی ایسی کہ خاک سے اٹھ کر عرشِ افلاک تک پہنچ گئی۔ ہاں وہ جو کل تک محتاجوں کا محتاج تھا آج دنیا جہاں کی حکمرانی پر فائز نظر آتا ہے۔ بالآخر اپنے جملہ مقاصد میں کامیاب و بامراد ہو کر اپنے خدا سے جاملے( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
-------------------------------------------------------------------------
(۹۰۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۔۳۸۱ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۹۰۹) پ ۲۳ الزمر رکوع نمبر ۴
(۹۱۰) پ ۱۷ الانبیاء رکوع نمبر ۳،۴
(۹۱۱) پ ۳۰ النصر آیت نمبر ۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ مرزا صاحب بھی لکھتے ہیں:
'' حاصل مطلب یہ کہ قرآن جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا۔ اور مستعد دلوں میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔ اور یہی دو رکن ضروری ہیں۔ جو ایک نبی کے آنے کی علت غائی ہوتے ہیں۔ اب دیکھو یہ آیت کس قدر زور سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کو تنزیل قرآن اور تکمیل نفوس سے کامل نہ کیا گیا اور یہی ایک خاص علامت ہے منجانب اللہ ہونے کی جو کاذب کو ہرگز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھایا۔ جس کام کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے وہ پورا ہوگیا۔ ''الخ (۹۱۲)
اس تحریر سے کئی باتیں ثابت ہیں۔ اول دین اسلام اور تنزیل قرآن کا اصلی مقصد اور انتہائی کمال پر پہنچنا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والا کذاب ہے۔ دوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے مقاصد میں کامیاب اور اپنی ڈیوٹی کو پورا کرکے وفات پانا۔ لہٰذا جو شخص اب کہے کہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت صرف پہلی رات کے چاند جیسا تھا۔ مگر میرے زمانہ میں چودھویں شب کے چاند (بدرِ کامل) جیسا ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دین ناقص چھوڑ کر فوت ہوئے جسے میں بروزی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن کر پورا کرنے آیا ہوں۔ (خطبہ الہامیہ و تحفہ گولڑہ) وہ بھی غلط گو ہے۔ (۹۱۳)
سوم یہ کہ نبی کی علت غائی یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرکے فوت ہو ورنہ کاذب ہوگا۔ بہت خوب!
آئیے اب ہم دیکھیں کہ مرزا صاحب کن مقاصد کو لے کر اٹھے اور وہ ان کو کہاں تک پورا کرکے مرے۔ سو سنیے مرزا صاحب راقم ہیں:
'' میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمان کے لیے یہ کہ وہ سچے مسلمان ہوں۔ اور عیسائیوں کے لیے کسرِ صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے، دنیا اس کو بھول جاوے۔'' (۹۱۷)
بھائیو! کیا مرزا صاحب اپنے ان مقاصد کو پورا کرکے فوت ہوئے؟ ہرگز نہیں! مسلمان پہلے سے بھی تنزل وادبار کی حالت میں ہیں۔ عیسائی دن بدن ترقی پر ہیں۔ مرزائی بقول مرزا صاحب ان کے وقت ''چار لاکھ کے قریب'' تھے۔ (۹۱۵)مگر الفضل گواہ ہے کہ ۱۹۳۱ء میں مردم شماری ہوئی تو صرف ''۵۶'' ہزار نکلے۔ (۹۱۶)
گویا کفر کی زمین دن بدن گھٹ رہی ہے۔ آہ
کوئی بھی بات مسیحا تیری پوری نہ ہوئی
نامرادی میں ہوا تیرا آنا جانا
مرزائیوں کی ناویں دلیل
ظَھَرَ الفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ نبی اس وقت آتا ہے جب دنیا میں کفر و ضلالت پھیل جائے۔ (۹۱۷)
جواب: مرزا صاحب راقم ہیں کہ:
قرآن کے زمانہ میں علاوہ فسق و فجور کے عقائد میں بھی فتور ہوگیا تھا۔ ہزارہا لوگ دہریہ تھے۔ ہزارہا وحی والہام کے منکر تھے اور ہر قسم کی بدکاریاں زمین پر پھیل گئی تھیں۔ اور دنیا میں اعتقادی اور عملی خرابیوں کا ایک سخت طوفان برپا تھا (حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ناقل) اگر کوئی کہے کہ فساد اور بد عقیدگی اور بد اعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں۔ پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا۔ تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہوگیا تھا اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہنے والے موجود ہیں۔ اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا۔ (نور القرآن نمبر۱، ص۷)
تحریر ہذا بآواز بلند پکار رہی ہے کہ ہمارا زمانہ کسی نبی کی آمد کا مقتضی نہیں۔ باقی رہے مجدد سو خود احمدیوں کو مسلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر صدی کے سر پر آتے رہے اور آتے رہیں گے چونکہ مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت بھی کیا ہے۔ حالانکہ خود ان کو مسلم تھا کہ اس زمانہ میں نبی کی ضرورت نہیں بلکہ مدعی نبوت کافر ہے۔ (۹۱۹)اس لیے مرزا صاحب مجدد بھی نہیں ہوسکتے بلکہ بقول خود کافر:
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں
زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہِ کنعان کا
------------------------------
(۹۱۲) نور القرآن ص ۱۲ تا ۱۹ حصہ اول و روحانی ص۳۴۷ تا ۳۵۵، ج۹ و تفسیر مرزا ص۱۳، ج۴
(۹۱۳) خطبہ الھامیۃ ص۱۹۸ مفہوماً ، و روحانی ص ۲۹۴ ، ج۱۶ و تحفہ گولڑویہ ص ۹۹ و روحانی ص۲۵۸، ج۱۷
(۹۱۴) الحکم جلد ۹ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۵ء ص۱۰ و ملفوظات مرزا ص ۴۷۲، ج۴
(۹۱۵) تجلیات الھٰیہ ص۵ و روحانی ص ۳۹۷، ج۲۰، نوٹ، مذکورہ تحریر جو کہ ۱۵ مارچ ۱۹۰۶ء کی ہے اس سے تقریباً چار ماہ قبل ۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو لدھیانہ میں لیکچر دیتے ہوئے اپنے مریدوں کی تعداد تین لاکھ بتائی ہے، لیکچر لدھیانہ ص ۲ و روحانی ص ۲۵۰، ج۲۰ و ملفوظات مرزا ص۵۳۰، ج۴ ۔ گویا مرزا ان چار ماہ میں صبح سے شام تک لگاتار بیعت ہی لیتے رہے جس کا حساب یوں لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ہر ماہ ۲۵ ہزار یا ہر دن ۸۳۳ یا فی گھنٹہ ۷۸ یا پونے منٹ بعد دس شرائط بیعت سنا کر اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ لے کر ایک مرید پھانستے رہے، واہ رہے مسیح قادیانی۔ ابو صہیب
(۹۱۶) خطبہ مرزا محمود احمد مندرجہ الفضل، مورخہ ۲۶؍ نومبر ۱۹۳۱ء و ایضاً جلد ۲۲ نمبر ۱۶ مورخہ ۵؍ اگست ۱۹۳۴
(۹۱۷) احمدیہ پاکٹ بک نمبر ۶۱۰ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۹۱۸) نور القرآن ص ۷ نمبر ۱ و روحانی ص ۳۳۹، ج۹
(۹۱۹) آسمانی فیصلہ ص ۳ و روحانی ص ۳۱۳، ج ۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کی دسویں دلیل
'' جو خدا پر جھوٹ باندھے خدا اس کو کامیاب نہیں کرتا۔'' (۹۲۰)
جواب:
ہم دلیل دوم کے جواب میں بآیاتِ قرآن ثابت کر آئے ہیں کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مفتریوں کو ڈھیل دیتا ہے اور انہیں دنیاوی فوائد سے بہرہ مند کرتا ہے ما سوا اس کے مرزا اپنے مقاصد میں نامراد مرا ہے۔
مرزائیوں کی گیارھویں دلیل
''سو انبیاء کے کوئی غیب پر بکثرت مطلع نہیں کیا جاتا مرزا صاحب نے لاکھوں پیشگوئیاں کیں جو پوری ہوئیں۔''
جواب:
مرزا صاحب کے الہامات عموماً خواب اور کشوفات ہیں اور مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:
'' بعض فاسق اور فاجر۔ زانی غیر متدین۔ چور حرام خور خدا کے احکام کے مخالف چلنے والے بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ ان کو کبھی کبھی سچی خوابیں آتی ہیں۔'' (۹۲۱)
الہاموں کے متعلق مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' وہ کاہن جو عرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے بکثرت تھے۔ ان لوگوں کو بکثرت شیطانی الہام ہوتے تھے۔ ان کی بعض پیشگوئیاں سچی بھی ہوتی تھیں۔'' (۹۲۲)
پیشگوئیوں کے متعلق کہنے کو تو کہا ہے کہ مرزا کی لاکھوں پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔ مگر افسوس کہ پیش کرتے وقت ایک بھی نہ کرسکے جسے پیشگوئی کہا جائے بلکہ چند گول مول بے سروپا اقوال وہ بھی صرف ۲۵ کے قریب ڈھونڈ کر اکٹھے کئے ہیں۔ جن کا نمبروار جواب ملاحظہ ہو۔
-----------------------------------------------
(۹۲۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۱
(۹۲۱) حقیقت الوحی ص ۲ و روحانی ص۵ ، ج۲۲
(۹۲۲) ضرورۃ الامام ص۱۷ و روحانی ص ۴۸۸، ج۱۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کی پیش گوئیاں

نمبر۱: مثلاً سعد اللہ لدھیانوی کے ابتر ہونے کی پیشگوئی۔ (۹۲۳)
الجواب:
لفظ ابتر کے کئی معانی ہوسکتے ہیں (۱) ابتر بمعنی مفلس (۹۲۴)(۲) ناکام، زیاں کار، نامراد(۹۲۵) (۳) بے برکت(۹۲۶) (۴) پوتے سے آگے اولاد نہ چلے تو بھی ابتر (۹۲۷)ان معانی کے ہوتے ہوئے شاید ہی کوئی خوش نصیب ایسا ہوگا جو ابتر نہ بن سکے۔ دیکھئے خود مرزا صاحب بوجہ نامراد مرنے کے ابتر ہوئے اور بے برکتی تو ان کی مشہور ہے بھلا اگر ابتر کے یہی معنی تھے کہ سعد اللہ کے ہاں آئندہ اولاد نہ ہوگی یا موجودہ اولاد سے آگے نسل نہ چلے گی تو کیوں مرزا جی نے مولوی محی الدین صاحب (ولد اکبر مولانا حافظ صاحب لکھوی ؒ مصنف تفسیر محمدی) کو ابتر لکھا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی اولاد در اولاد موجود ہے۔ (۹۲۸)
اسی طرح حضرت المکرم مولانا سید نذیر حسین رحمہ اللہ کو ابتر لکھا (۹۲۹)حالانکہ ان کے بھی پوتے در پوتے موجود ہیں۔ ایسا ہی اور بھی کئی ایک صاحبِ اولاد بزرگوں کو ابتر لکھا۔ (۹۳۰)
مولوی سعد اللہ مرحوم کے متعلق مرزا نے الہام ابتر ۱۸۹۴ء میں وضع کیا تھا۔ (۹۳۱)مگر چونکہ لفظ ابتر کے کئی معنی ہوسکتے تھے اس لیے مرزا صاحب نے ہوشیاری سے اس جگہ کوئی معنی نہ لکھے بلکہ عربی الہام کا اردو ترجمہ بھی نہ کیا۔ پھر جب اس الہام پر قریباً تیرہ سال گزر گئے تو ۱۹۰۶ء میں:
'' معتبر ذرائع سے یہ معلوم کرکے کہ سعد اللہ کا بیٹا محتث ہے۔'' (۹۳۲)
حقیقۃ الوحی میں لکھ دیا کہ سعد اللہ کے ہاں اولاد نہ ہوگی۔ (۹۳۳)
بھائیو ! یہ ہے وہ پیشگوئی جسے بڑے طمطراق سے احمدی لوگ بار بار پیش کیا کرتے ہیں۔ آہ! سچ ہے : اِذَا لَمْ تَسْتَحی فاصنع ما شیئت۔(۹۳۴)
برادران! چونکہ اس مضمون میں مرزائی پاکٹ بک کے مصنف کی پیش کردہ پیشگوئیاں سب کی سب اسی قسم کی ہیرا پھریوں سے مملو ہیں اس لیے مناسب ہے کہ پہلے ہم تحریر مرزا سے دکھائیں کہ پیشگوئی کس قسم کی ہونی چاہیے جو دلیل بن سکے۔ ملاحظہ ہو مرزا صاحب لکھتے ہیں:
۱۔ '' پیشگوئی سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بطور دلیل کے کام آسکے۔ لیکن جب ایک پیشگوئی خود دلیل کی محتاج ہے تو کس کام کی پیشگوئی میں تو وہ امور پیش کرنے چاہئیں جن کو کھلے کھلے طور پر دنیا دیکھ سکے۔'' (۹۳۵)
۲۔ '' ہر ایک پیشگوئی میں دیکھا ہے کہ جب پیشگوئی شائع کی گئی تو کیا اس کے مضمون میں کوئی خارق عادت بیان تھا جو انسانی اٹکلوں کے دائرہ سے بالاتر خیال کیا جاتا یا ایسا بیان تھا کہ ایک عقلمند علم ہیئت یا طبعی (یا طبّی یا قانونی ناقل) سے مدد لے کر یا کسی اور طریقہ سے بیان کرسکتا ہے۔'' (۹۳۶)
نمبر ۲۔ '' کرم الدین جہلمی والے مقدمہ سے بریت اور اس کا مفصل حال پہلے سے شائع کیا۔'' (مواہب الرحمن ص۱۲۹) '' یہ مقدمہ چند دلال اور آتما رام کی کچہری میں چلتا رہا آخر کار حضرت بری ہوئے۔'' (۹۳۷)
الجواب:
یہ پیشگوئی اگر ہے تو مرزا صاحب کے قانونی وکلاء کی ہے مرزا صاحب کی نہیں۔ تفصیلی سنیے:
مرزا صاحب کے مخالفوں میں ایک صاحب مولوی محمد حسن فیضی ساکن جہلم بھی تھے۔ جنہوں نے اپنی علمی قابلیت سے مرزا کا قافیہ تنگ اور ناطقہ بند کردیا تھا۔ چنانچہ ۱۸۹۹ء میں جبکہ مرزا صاحب سیالکوٹ میں وارد تھے، موصوف نے ایک عربی قصیدہ بے نقطہ منظومہ خود ، مرزا کے سامنے پیش کیا کہ آپ بڑی قابلیت کے مدعی ہیں اس قصیدہ کو مجلس میں پڑھ کر سنا دو اور اس کا ترجمہ کردو۔ چونکہ مرزا صاحب خیر سے رسمی باتوں ہی سے واقف تھے اس لیے فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ بن کر رہ گئے۔ مولوی صاحب مذکور نے وہ قصیدہ رسالہ انجمن نعمانیہ لاہور ماہ فروری ۱۸۹۹ء نیز سراج الاخبار جہلم ۹ مئی ۱۸۹۹ء میں شائع کردیا اور مرزا صاحب کی لاجوابی کا بھی اظہار کیا۔ اسی طرح مولوی صاحب نے کئی دفعہ مرزا صاحب کو دعوتِ مقابلہ دی۔مگر مرزا صاحب مقابلہ میں نہ نکلے۔ خدا کی قدرت ہے کہ مولوی صاحب اکتوبر ۱۹۰۱ء کو وفات پاگئے۔ (۹۳۸)پھر کیا تھا مرزا صاحب نے ان کی وفات کو معجزہ ظاہر کیا۔ اور اپنی تصنیفات میں حسب عادتِ قدیم ان کو خوب خوب گالیاں دیں۔ جس سے مشتعل ہو کر فیضی مرحوم کے عمزاد بھائی مولوی کرم الدین صاحب بھین نے مرزا صاحب کو نوٹس دیا کہ آپ پر مقدمہ کیا جائے گا۔
مرزا صاحب نے پہل کر کے اپنے ایک مرید حکیم فضل دین سے مولوی کرم دین پر مقدمہ زیر دفعہ ۴۳۰ تعزیرات ہند دائر کردیا۔(۹۳۹) اس کے بعد مولوی کرم الدین صاحب نے جہلم میں رائے سنار چند صاحب کی عدالت میں مرزا صاحب پر مرحوم کی توہین کا مقدمہ قائم کیا۔ جس میں مرزا صاحب سے بذریعہ وارنٹ ضمانتی ایک ہزار روپیہ طلب ہوئے۔ (۹۴۰)
----------------------------------------------------------------------------------------------
(۹۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۲
(۹۲۴) تتمہ حقیقت الوحی ص۱۱ و روحانی ص۴۴۲ ج۲۲
(۹۲۵) ایضاً
(۹۲۶) ایضاً ص ۹ و روحانی ص۴۴۰ ج۲۲
(۹۲۷) ایضاً ص ۱۱ و روحانی ص ۴۴۲ نوٹ: ابتر دراصل بتر سے ماخوذ ہے اور اس کا معنیٰ ائمہ لغت نے یہ کیا ہے کہ الا بتر المبنتر والذی لا ولدلہ۔ قیل لم یکن یومئذ ولدلہ قال فیہ نظر، لسان العرب ص۳۸، ج۴۔ یعنی ابتر کا معنیٰ ہے جو لا ولد ہونے کی صورت میں وفات پائے اور کہا گیا ہے کہ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس کی کبھی کوئی اولاد نہ ہوئی ہو لیکن اس میں نظر (کلام) ہے۔ (انتھی) یہی معنیٰ مرزا محمود نے اپنی تفسیر، کبیر ص۳۶۷ ج ۱۰ میں کیے ہیں ائمہ لغت کی مذکورہ صراحت سے ثابت ہے کہ ابتر اس شخص کو کہتے ہیں جس کی اولاد اس کی زندگی میں وفات پا جائے ۔ ناظرین! ان معنوں کو ملحوظ رکھ کر کوئی جاہل اور متعصب ہی مولوی سعد اللہ لدھیانوی کو ابتر کہے گا کیونکہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کی شادی حاجی عبدالرحیم کی دختر نیک اختر سے ہوئی۔ تتمہ حقیقت الوحی ص ۵
چنانچہ حضرت فاتحہ قادیان نے ، اخبار اہل حدیث میں ۸؍ فروری ۱۹۰۷ء کی اشاعت میں یہ اعتراض کیا کہ سعد اللہ ایک لڑکا چھوڑ گیا ہے تو پھر اس کو ابتر کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مرزا سے کچھ نہ بن پڑا اور ان کی دلیل کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنیٰ نہیں جانتا، تتمہ حقیقت الوحی ص ۷
ملاحظہ کیجئے کہ مرزا کس چالاکی سے الہام کے معنیٰ کی آڑ میں میدان چھوڑ رہے ہیں، ابو صہیب
(۹۲۸) حقیقت الوحی ص۳۵۷ و روحانی ص۳۷۰ ج ۲۲
(۹۲۹) تتمہ حقیقت الوحی ص۲۲ و روحانی ص ۴۵۴، ج۲۲
(۹۳۰) ایضاً ص۲۳ و روحانی ص۴۵۴
(۹۳۱) اشتہار مرزا مورخہ ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ء مندرجہ، مجموعہ اشتہارات ص۷۹، ج۳ و روحانی ص۸۶، ج۹ و تذکرہ ص۲۶۵
(۹۳۲) ٹریکٹ خواجہ کمال الدین بجواب موقوت نامہ ثنائی ص۱۸
(۹۳۳) حقیقت الوحی ص۳۶۴ و روحانی ص۳۷۸، ج۲۲
(۹۳۴) الحدیث، صحیح بخاری ص ۹۰۴، ج۲ کتاب الادب باب اذا لم تستحی وایضًا فی الادب المفرد ص۳۳۶ رقم ۱۳۱۶
شاید مرزا نے اسی کا ہی معنیٰ کیا ہے کہ جب انسان بے حیاء ہو جائے تو جو چاہے بکے، انتھی، اعجاز احمدی ص۳۔ ابو صہیب
(۹۳۵) ملخصًا تحفہ گولڑویہ ص۱۲۱، ۴۲۲ و روحانی ص۳۰۱ ج ۱۷
(۹۳۶) ملخصًا تریاق القلوب ص۱۱۵، و روحانی ص۴۰۲ ج۱۵
(۹۳۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۳، طبعہ ۱۹۳۲ و ایضًا ص۶۱۲ طبعہ ۱۹۴۵
(۹۳۸) سراج الاخبار مورخہ ۱۳؍ اگست ۱۹۰۰ء و تذکرہ اکابر اہل سنت ص۴۵۵
(۹۳۸) تذکرہ اکابر اہل سنت ص۴۵۸
(۹۳۹) تاریخ احمدیت ص ۲۷۱، ج۳
(۹۴۰) حیات طیبہ ص۳۴۴ و اصحاب احمد ص۴۶۳، ج۲ و تاریخ احمدیت ص۳۰۷، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پیشگوئی نمبر ۳
بابت موت ڈوئی:
ڈوئی کی موت کی پیشگوئی کی کہ اگر مباہلہ کرے یا نہ کرے تب بھی اس کو اللہ ہلاک کردے گا۔(۹۴۱)
الجواب:
اس کو پیشگوئی کہنا اپنی جہالت کا ثبوت دینا ہے۔ اس طرح تو ہر شخص پیشگوئی کرسکتا ہے کہ مرزائی پاکٹ بک کا مصنف ہلاک ہوگا۔ خلیفہ قادیانی ہلاک ہوگا بلکہ کل مرزائی مر جائیں گے اور دوزخ میں پڑیں گے۔ کیا کوئی دانا اس کا نام پیشگوئی رکھے گا؟ قارئین! مزا تب تھا کہ مرزا صاحب اس کی ہلاکت کی میعاد اور تاریخ بتاتے پھر اگر وہ اس کے مطابق مر جاتا۔ تو ہم صاف مان لیتے کہ:
'' شیطانی الہام حق ہے اور شیطانی الہام ہوا کرتا ہے۔'' (۹۴۲)
پیشگوئی نمبر۴:
'' طاعون سے گھر محفوظ رہے گا۔'' (۹۴۳)
جواب:
حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۱۹ پر کشتی نوح کا حوالہ دیا ہے اور کشتی نوح میں گھر سے مراد جملہ مرید بتائے ہیں سو ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مرزا کے مرید طاعون سے مرے۔ پس یہ پیش گوئی غلط نکلی۔ (دیکھو دلیل نمبر ۷ کا جواب)
پیشگوئی نمبر۵:
'' عبدالرحیم بن نواب محمد علی خاں کے حق میں۔'' (۹۴۴)
جواب:
جن دنوں وہ بیمار تھا۔ مرزا صاحب نے اس کی صحت و موت ہر دو پہلو ہاتھ میں رکھے تھے۔ جب اسے آرام آنا شروع ہوگیا اور وہ تندرست ہوگیا تو کہہ دیا کہ پہلے اس کی نسبت دعا کی تھی خدا کی طرف سے مایوس کن جواب ملا۔ مگر بعد میں مجھے اس کی شفاعت کی اجازت مل گئی تھی چنانچہ وہ اسی وجہ سے راضی ہوا ہے ۔ (تفصیل ملاحظہ ہوا) (۹۴۵)
پس یہ سب بعد از صحت گھڑی گئی ہیں جو قابلِ قبول نہیں بلکہ الٹا مرزا صاحب کے مغالطہ باز ہونے کی دلیل ہے۔
'' پیشگوئی میں وہ امور پیش کرنے چاہئیں جن کو دنیا کھلے کھلے طور پر دیکھ سکے۔'' (۹۴۶)
----------------------------------------------------
(۹۴۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۴ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۶۱۲ طبعہ ۱۹۴۵
(۹۴۲) ضرورت الامام ص۱۳ و روحانی ص ۴۸۳ ج ۱۳، نوٹ ، ڈوئی کی وفات کے بعد مرزا نے لکھا ہے کہ میں نے اس کی طرف لکھا تھا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرے اور ساتھ اس کے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر وہ مباہلہ نہیں کرے گا تب بھی خدا اس کو تباہ کرے گا، حقیقت الوحی ص ۲۱۶، و روحانی ص ۲۶۶، ج ۲۲
امر واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا جی کی طرف سے صرف مباہلہ کی چیلنج بازی ہوتی رہی لیکن ڈاکٹر ڈوئی نے اسے دیوانے کی بڑھ سمجھ کر درخور اعتنا نہ سمجھا انہیں حالات میں ڈاکٹر ڈوئی کی وفات ہوگی تو مرزا نے بعد میں یہ بات بتائی کہ میں نے یہ بھی لکھا تھا اگر اس نے مباہلہ نہ کیا تو تب بھی تباہ و برباد ہو جائے گا۔ حالانکہ مرزا نے ایسا کہیں بھی نہ لکھا تھا اور نہ ہی کوئی مرزا کی تحریر پیش کی جاسکتی ہے۔ ابو صہیب
(۸۴۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۸۴ بحوالہ حقیقت الوحی ص ۲۱۹
(۹۴۴) ایضاً ص۶۱۲ و حقیقت اوحی ص۲۱۹
(۹۴۵) البدر جلد ۲ نمبر ۴۱،۴۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳ء ص۳۲۱ و تذکرہ ص۴۹۶ و حقیقت الوحی ص ۲۱۹ و تاریخ احمدیت ص۳۵۸، ج۳ و حیات طیبہ ص۳۵۵
(۹۴۶) تحفہ گولڈویہ ص۱۲۳ و روحانی ص۳۰۱، ج۱۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پیشگوئی نمبر۶:
'' دافع البلاء'' میں چراغ دین جمونی کے طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی ہے۔ سو وہ بمعہ بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہوگیا۔ (۹۴۷)
جواب:
یہ قطعاً دروغ بے فروغ ہے دافع البلاء میں اس کا طاعون سے مرنا ہرگز نہیں لکھا ہے۔ البتہ یہ گیدڑ بھبکیاں دی ہیں کہ:
'' میں فنا کر دوں گا، غارت کردوں گا، غضب نازل کروں گا۔'' (۹۴۸)
سو ایسی ویسی بے تعین پادر ہوا باتیں بیسیوں بھنگی اور چرسی تکیوں میں بیٹھے کیا کرتے ہیں ۔ جنہیں کوئی عقلمند شائستہ اعتناء نہیں جانتا بلکہ دیوانے کی بڑ سمجھتا ہے۔ بقول مرزا ایسی ویسی پیشگوئیاں کچھ نہیں۔
پیشگوئی نمبر۷:
پیشگوئی زلزلہ کا دھکہ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحلّھَا ومقامھا یہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ والے زلزلے سے واقع ہوا۔ (۹۴۹)
جواب:
۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو جو زلزلہ آیا وہ ایسا ہولناک قیامت خیز تھا کہ پنجاب کے رہنے والے آج بھی اس کی یاد سے کانپ اٹھتے ہیں۔ بخلاف اس کے اس زلزلہ کے وقوع کے لیے جو الہام پیش کئے گئے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ''زلزلہ کا دھکہ'' مرزائی صاحب نے اس کے لفظ جو اسے بالکل معمولی واقعہ ظاہر کرتے ہیں پورے نہیں لکھے ملاحظہ ہوں وہ یہ ہیں:
'' رویا میں دیکھا کوئی کہتا ہے زلزلہ کا دھکہ، مگر میں نے کوئی زلزلہ محسوس نہیں کیا۔ نہ دیوار نہ مکان ہلتا تھا بعد میں الہام ہوا اِنَّ اللہ لا یضراللہ تعالیٰ ضرر نہیں دیتا۔'' (۹۵۰)
عبارتِ بالا میں اگر ایک طرف بلا تعیین وقت و تخصیص مدت و تحدید زمانہ راولوں کی طرح زلزلہ کی خبر (وہ بھی اس طرح کہ نہ معلوم سابقہ زلزلہ کی حکایت ہے یا آئندہ کی پیشگوئی) دی ہے تو دوسری طرف ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ ایک معمولی زلزلہ ہے۔ جس سے کوئی ضرر و نقصان حتیٰ کہ اس کا اثر، عمارات پر محسوس ہی نہیں ہوتا۔ پس اسے اس قیامت خیز زلزلہ اور ہوشربا واقعہ کی پیشگوئی بنانا ڈھٹائی ہے۔ ماسوا اس کے یہ الہام ۱۹۰۳ء کا ہے پس اگر کوئی زلزلہ اسی زمانہ میں آجاتا تو البتہ کہہ سکتے تھے کہ:
'' اس درماندہ انسان کی پیشگوئیاں کیا تھیں۔ صرف یہی زلزلے آئیں گے (زلزلہ کا دھکہ) پس ان دلوں پر خدا کی لعنت جنہوں نے ایسی ایسی پیشگوئیاں اس کی (نبوت) کی دلیل ٹھہرائیں کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے؟'' (۹۵۱)
مگر اب تو وہی بات ہے کہ بے حیا باش ہرچہ خواہی کن۔
دوسرا الہام جو پیش کیا ہے وہ اس سے بھی پراز فریب ہے جس میں زلزلہ وغیرہ تک کا نام نہیں۔ صرف یہی لفظ بہ صیغہ ماضی میں کہ '' مٹ گئے رہائشی اور عارضی مکان و مقام'' پھر لطف یہ کہ مرزا صاحب نے اس الہام کو سناتے وقت اس کا اردو ترجمہ بھی نہیں کیا تاکہ آگے چل کر پھنس نہ جائیں مگر اپنے حلقہ احباب میں کہہ رکھا تھا کہ اس الہام میں طاعون کا ذکر ہے چنانچہ جس پرچہ الحکم میں یہ الہام شائع کرایا اس میں لکھا ہے۔ '' متعلقہ طاعون۔'' (۹۵۲)
اب بظاہر اس سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ گذشتہ طاعون کی تباہی کا تذکرہ ہے اور اسی لیے مرزا صاحب نے نہ اس کا ترجمہ کیا نہ کچھ مزید توجیہ مطلب ان کا یہ تھا کہ اگر آج سے بعد مثل سابق طاعون کا کبھی زور ہوا تو کہہ دیں گے کہ پہلے سے ہم نے الہام کر رکھا تھا دیکھو وہ کیسا سچا نکلا۔ اور اگر امن رہا تو بھی کچھ ہرج نہیں۔ کیونکہ الہام بہ صیغہ ماضی ہے اور پچھلے برسوں میں طاعون زور شور سے پڑ چکی ہے۔ مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا اس کے چند ہی ماہ بعد پھر پنجاب میں طاعون کا زور ہوا اور مرزا صاحب نے بڑے طمطراق سے بکمالِ شان غیب دانی لکھا:
'' کسوف خسوف کے ساتھ قرآن شریف میں اَیْنَ الْمَفَر آیا جس سے یہی مراد ہے کہ طاعون اس کثرت سے ہوگی کہ کوئی پناہ کی جگہ نہ رہے گی میرے الہام عَفَتِ الدِّیَار مَحَلھَا ومقامُھَاکے یہی معنی ہیں۔'' (۹۵۳)
مگر آہ! کس قدر افسوس۔ حیرت بلکہ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جب اس کے بعد ۱۹۰۵ء میں زلزلہ عظیمہ آیا تو مرزا صاحب نے جھٹ سے اس الہام کو زلزلہ پر لگا دیا۔
ناظرین کرام! یہ ہے حقیقت ان پیشگوئیاں کی جو مصنف مرزائی پاکٹ بک مرزا کی نبوت پر بطور دلیل پیش کر رہا ہے۔
-----------------------------------------------------------------
(۹۴۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۲
(۹۲۸) دافع البلاء ص۲۳ و روحانی ص ۲۴۳، ج۱۸ و تذکرہ ص۴۲۵ والبشرٰی ص۷۲ ج۲
(۹۴۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۶۱۳
(۹۵۰) البدر جلد ۳ نمبر ۱ مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۴ء ص ۶ والحکم جلد ۷ نمبر ۴۶،۴۷ مورخہ ۱۷،۲۴ دسمبر ۱۹۰۳، ص۱۵ والبشرٰی ص۸۹، ج۲ و مکاشفات مرزا ص ۳۴ و تذکرہ ص۵۰۱
(۹۵۱) ضمیمہ انجام آتھم ص۴ و روحانی ص۲۸۸، ج۱۱
(۹۵۲) الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخہ ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء ص۹ کالم نمبر ۳
(۹۵۳) الحکم جلد ۸ نمبر ۴۰ مورخہ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴، و ملفوظات مرزا ص۸۹، ج۴ فرمودہ، ۴؍ نومبر ۱۹۰۴ء نوٹ: مذکورہ تحریر تو مرزا کی ملفوظات کی ہے جبکہ خود مرزا قادیانی نے ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ء میں ایک اشتہار '' الوصیت'' کے عنوان سے شائع کیا جس میں لکھا کہ دوستو! آپ صاحبوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے آج سے قریباً نو ماہ پہلے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ وحی شائع کرائی تھی کہ '' عفت الدیار محلھا و مقامھا '' یعنی یہ ملک عذاب الٰہی سے مٹ جانے کو ہے، نہ مستقل سکونت امن کی جگہ رہے گی اور نہ عارضی سکونت امن کی جگہ یعنی طاعون کی وبا ہر جگہ عام طور پر پڑے گی اور سخت پڑے گی، مجموعہ اشتہارات مرزا ص۵۱۵ ج۳ مگر قدرت کو مرزا کی تکذیب منظور تھی اس لیے مذکورہ اشتہار سے تقریباً ایک ماہ بعد ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء میں تقدیر الٰہی سے کانگڑہ میں زلزلہ آگیا، تاریخ احمدیت ص ۳۹۳، ج۳۔ تو مرزا نے فوراً کمال دیانت داری سے ۴؍ اپریل کو ہی اشتہار شائع کرتے ہیں۔ اور بغیر کسی ننگ و عار سے لکھتے ہیں کہ یہ زلزلہ جو ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کی صبح کو اس ملک میں ظاہر ہوا وہی نشان جس کی خدا نے پہلے سے (عفت الدیار میں من محلھا و مقامھا کے الھام میں) خبر دی ہے، مجموعہ اشتہارات ص۵۲۰، ج۳ دیکھئے ایک ہی الہام کو کس طرح چکر دے کر الٹ پلٹ کر دیا ہے۔ کیا ایک نبی و مسیح موعود کی یہی شان ہے۔ ابو صہیب
 
Top