• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تیرہویں تحریف:
اجراء نبوت کی دلیل میں مرزائی پیش کرتے ہیں { وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ} کہ وہ پچھلی وحی پر ایمان لاتے ہیں۔ یعنی نبوت جاری ہے۔ (۲۸۱)
الجواب:
اس جگہ آخرت قیامت ہے جیسا دوسری جگہ بالصراحت یہ فرمایا گیا ہے۔ { وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لِھِیَ الْحَیَوَانُ} (۲۸۲)آخری زندگی ہی اصل زندگی ہے { خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ}(۲۸۳) دنیا و آخرت میں خائب و خاسر، قرآن مجید میں لفظ آخرہ پچاس سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوا ہے، اور سب جگہ مراد جزا سزا کا دن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (وَبِالْاٰخِرَۃِ) اَیْ بِالْبَعْثِ وَالْقِیَامَۃِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالحِسَابِ وَالْمِیْزَانِ۔(۲۸۴)
تفسیر مرزا صاحب قادیانی:
'' طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخر الزمان پر جو کچھ اُتارا گیا ہے پر ایمان لاوے... وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۔ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا سزا مانتا ہو۔'' (۲۸۵)
تفسیر از مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل قادیان:
'' اور آخرت کی گھڑی پر بھی یقین کرتے ہیں۔''(۲۸۶) (ضمیمہ بدر مورخہ ۴۔ فروری ۱۹۰۹ء)
----------------------------------------
(۲۸۱) تفسیر کبیر ص۱۴۴،ج۱ مؤلفہ مرزا محمود احمد جانشین ثانی مرزا قادیانی
(۲۸۲) پ۲۱ عنکبوت ۶۴
(۲۸۳) پ۱۷ حج ۱۱
(۲۸۴) ابن جریر ص۸۱،ج۱ و در منثور ص۲۷،ج۱
(۲۸۵) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۴،۳۵ مورخہ ۱۰،۱۷؍ اکتوبر ۱۹۰۴ء ص۹ و تفسیر مرزا ص۶۳، ج۲
(۲۸۶) ضمیمہ بدر مورخہ ۴؍فروری ۱۹۰۹ء لکن لم اجدہ، ای البدر
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چودہویں تحریف:
مرزائی کہتے ہیں کہ: وَجْعَلْنَا مِنْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتَابَ۔یعنی اور ہم نے اس کی (ابراہیم علیہ السلام ) کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے۔
الجواب:
اگر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے تو کتاب کا نزول بھی جاری معلوم ہوتا ہے وھو باطل جو دلیل کتاب سے مانع ہے وہی نبوت سے مانع ہے۔
پندرہویں تحریف:
وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّلِمِیْنَ۔
'' اور جس وقت آزمایا ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے ساتھ کئی باتوں کے پس پورا کیا ان کو کہا تحقیق میں کرنے والا ہوں تجھ کو واسطے لوگوں کے امام۔ کہا اور میری اولاد سے، کہا۔ نہ پہنچے گا عہد میرا ظالموں کو۔''
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ عہد نبوت ابراہیمی نسل کے ساتھ پورا ہوگا، دوسری یہ کہ جب نسل ابراہیمی ظالم ہو جائے گی تو ان سے نبوت چھن جائے گی کیونکہ امت محمدیہ میں نبوت جاری نہیں، لہٰذا یہ امت ظالم ہوگئی ہے، اگر ظالم نہیں تو امت محمدیہ میں نبوت جاری ہے۔(۲۸۷)
الجواب:
آیت کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ جو ظالم ہوگا اس کو نہ ملے، مگر ہر غیر ظالم کے لیے نبوت ضروری نہیں، ہاں! اگر نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہوتی تو پھر غیر ظالم کو مل سکتی تھی، مگر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے کہ مَاکَانَ مُحمد... وخاتم النبیین یعنی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ رسول ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا، یہ آیت صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔ (۲۸۸)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی مگر دکھاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی دعا مانگی ہے، بلکہ آپ نے صریح اور واضح الفاظ میں فرما دیا کہ نبوت اور رسالت منقطع ہوچکی ہے، اب میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ(۲۸۹) ثابت ہوا کہ نبوت جاری نہیں۔
---------------------------------
(۲۸۷) مفہوم تفہیمات ربانیہ ص۷۶۱ و بقائے نبوت فی خیر امت ص۹۲،۹۳
(۲۸۸) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱،ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲،ج۷
(۲۸۹) دیکھئے حاشیہ ۴۹باب ھذا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سولہویں تحریف:
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابِ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۔
اس اور اگلی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے، رسول نکرہ ہے اور دونوں عہد ایک ہی ہیں، اور رسول اللہ سے بھی عہد لیا گیا کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی مدد کے لیے امت کو تلقین کریں گے۔ (۲۹۰)
الجواب:
اس آیت کا مرزا صاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں:
'' اور یاد کرو کہ جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب حکمت دوں گا اور تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری تصدیق کرے گا، تمہیں اس پر ضرور ایمان لانا ہوگا اور تمہیں اس کی مدد کرنی ہوگی۔ اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہوچکے تھے یہ حکم ہر نبی کی امت کے لیے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے، خدا تعالیٰ ان کو ضرور مواخذہ کرے گا۔'' (۲۹۱)
یہاں ثُمَّ جَآئَ کُمْ کے الفاظ قابل غور ہیں، ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام انبیاء کے ساتھ تشریف لانے کو لفظ ثم کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ جو لغت عربی میں تراخی یعنی مہلت کے لیے آتا ہے، جب کہا جاتا ہے: جَائَ نِی الْقوْمُ ثُمَّ عُمَرُ۔تو لغت عرب میں اس کے معنی ہوتے ہیں کہ پہلے تمام قوم آگئی پھر کچھ مہلت کے بعد سب سے آخر میں عمر آیا، لہٰذا ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ کے یہ معنی ہوں گے کہ تمام انبیاء کے آنے کے سب سے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام سے پختہ وعدہ لیا کہ اگر تمہاری موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور نصرت کرو جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا مِّنَ الْاَنْبِیَائِ اِلاَّ اَخَذَ عَلَیْہِ الْمِیْثَاقَ لَئِنْ بَعَثَ اللّٰہُ مُحَمَّدًا وَھُوَحَیٌ لَّیُؤْمِنَنَّ بِہٖ وَلَیَنْصُرَنَّہٗ وَاَمَرَہٗ اَنْ یَّاْخُذَ الْمِیثْاقَ عَلٰی اُمَّتِہٖ لَئِنْ بُعِثَ مُحَمَّدٌ وَھُمْ اَحْیَائٌ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ وَلَیَنْصُرَنَّہٗ۔(۲۹۲)
'' اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث کیا، اس سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اگر اس کی زندگی میں اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو اس کو آپ پر ضرور ایمان لانا چاہیے اور نصرت کرنی چاہیے، اسی طرح اس نے نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے پختہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں نبی مبعوث ہوئے تو ان کو آپ پر ضرور ایمان لانا چاہیے اور نصرت کرنی چاہیے۔ (تفسیر ابن کثیر ص۱۷۷ وتفسیر جامع البیان ص۵۵)
اس آیت میں رسول کا لفظ گو نکرہ ہے لیکن اس کی تخصیص ابن عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ نے مندرجہ بالا عبارت میں دی ہے۔ اس سے انکار کی گنجائش نہیں ورنہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً۔(۲۹۳) ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً۔(۲۹۴) لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ۔(۲۹۵) قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا رَّسُوْلاً یَّتَلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیت اللّٰہ مُبَیّٰنَتٍ لِیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا لصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ(۲۹۶)۔ان آیات میں بھی رسول نکرہ واقعہ ہوا ہے، ان کی تخصیص کیسے ہوگی؟
عہد دوم کی تشریح!
وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَاَخَذْنَا مِنْھُمْ مِیْثَاقًا غَلِیْظًا(۲۹۷)۔ اور جبکہ لیا ہم نے نبیوں سے ان کا میثاق (پختہ عہد) اور آپ سے اور نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہا السلام سے اور لیا ان سے پکا وعدہ۔ اس آیت میں میثاق کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اولو العزم نبیوں سے اس بات کا پکا وعدہ لیا کہ دین کی تبلیغ اچھی طرح کرنا اور کسی قسم کی تفرقہ اندازی نہ کرنا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد میں آنے والے نبی کی تصدیق کریں گے۔ منک کے لفظ سے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا مقصود ہے، دیکھو ابن کثیر لکھتے ہیں:
اِنَّہٗ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ فِیْ اِقَامَۃِ دِیْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِبْلَاغِ رِسَالَتِہٖ۔(۲۹۸)
'' تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان پر میثاق (پختہ وعدہ) لیا ہے کہ دین کو قائم کریں گے اور پیغام رسالت کو لوگوں تک پہنچائیں گے۔''
اس میثاق کی تفسیر دوسری آیت میں ملتی ہے وہاں بھی ان اولو العزم نبیوں کو خطاب ہے۔
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنَ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدَّیْنَ وَلا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔(۲۹۹)
اس آیت سے صاف معلوم ہوگیا کہ سورہ احزاب کی آیت میں صرف اس بات پر میثاق لیا گیا (ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ) کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ اندازی نہ کرو۔
--------------------------------------
(۲۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۷
(۲۹۱) حقیقت الوحی ص۱۳۰ و تفسیر مرزا ص۱۲۶،ج۳ و روحانی ص۱۳۳،ج۲۲
(۲۹۲) ابن کثیر ص۳۷۸،ج۱ و در منثور ص۴۷،ج۲ و جامع البیان ص۵۵ زیر آیت واذ اخذ اللّٰہ، اٰل عمران ۸۱
(۲۹۳) پ۱ البقرہ:۱۲۹
(۲۹۴) پ۲۸ جمعہ:۲
(۲۹۵) پ۱۱ توبہ : ۱۲۸
(۲۹۶) پ۲۸ الطلاق : ۱۰،۱۱
(۲۹۷) پ۲۱ الاحزاب:۷
(۲۹۸) ابن کثیر ص۴۶۹،ج۳
(۲۹۹) پ۲۵ الشورٰی : ۱۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سترہویں تحریف:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبَلْھِمْ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہما السلام کی طرح خلیفے یعنی غیر تشریعی نبی ہوں گے۔ (۳۰۰)
الجواب:
مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سلطنت عطا کرے گا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نبی خلیفہ ہوں گے ، ورنہ دوسری آیت میں کیا مطلب ہوگا عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یھلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض(۳۰۱)۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے اور تمہیں زمین کا بادشاہ بنا دے۔ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِی الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتِ لَیَبْلُوَکُمْ فِیْمَا اٰتَاکُمْ(۳۰۲)۔وہ ذات پاک جس نے تم کو دنیا میں جانشین بنایا اور بعض کے بعض پر مراتب بلند کیے تاکہ اس نے تمہیں جو کچھ دیا ہے، اس میں آزمائش کرے، تفسیر معالم التنزیل میں لَیَسْتَخْلِفَنَّکُمْ کا معنی لکھتے ہیں ای لیورثھم ارض الکفار من العرب والعجم فیجعلھم ملوکا وساستھا وسکانھا(۳۰۳) یعنی مسلمانوں کو کافروں (عربی ہوں یا عجمی) کی زمین کا وارث بنا دے گا، اور ان کو بادشاہ اور فرماں روا اور وہاں کا باشندہ بنا دے گا۔
----------------------------------------
(۳۰۰) تفسیر مرزا ص۲۷۰ تا ۳۲۹، ج۶
(۳۰۱) پ۹ الاعراف : ۱۲۹
(۳۰۲) پ۸ الانعام : ۱۶۵
(۳۰۳) معالم التنزیل نوٹ: مذکورہ تفسیر مرزا کو بھی مسلم ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس (اسلام) کو معدوم ہونے نہیں دے گا ، انتھی بلفظہٖ، جنگ مقدس ص۲۰۸ و روحانی ص۲۹۰، ج۶ و تفسیر مرزا ص۲۷۴،ج۶ یہی معنیٰ حکیم نور الدین مرزائی جانشین اول مرزا قادیانی نے تصدیق براہین احمدیہ ص۱۵ بحوالہ حقائق الفرقان ص۲۲۴،ج۳، میں بیان کیے ہیں۔ ابوصہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
احادیث نبویہ کے متعلق مرزائی اعتراضات کے جوابات

پہلی دلیل مرزائیہ:
اَنَا اٰخِرُ الْاَنَِبِیَآئِ وَمَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ۔ (مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے، چونکہ مسجد نبوی کے بعد بہت سی مساجد بنائی گئیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ آخری کے معنی مغائرت اور مخالفت کے ہیں، یعنی کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف رہ کر نبی نہیں ہو سکتا، ہاں موافقت کی صورت میں آسکتا ہے جس طرح بحکم شرعی مساجد بن رہی ہیں۔ (۳۰۴)
الجواب:
جو نبی بھی دنیا میں آیا، خدا کی عبادت کروانے آیا، اسی طرح ہر نبی نے حسب اقتضاء زمانہ و استعداد عوام عبادت کے طریق اور جائے عبادت کی تعیین وتکریم بیان کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب ہے کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیاء کی آخری مسجد ہے اب میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ نیا طریق عبادت پیش کرے گا۔ چنانچہ مزید تشریح فرمادی کہ انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء(۳۰۵)۔ میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا اور میری مسجد ختم کرنے والی ہے مساجد انبیاء کی۔
لفظ آخری نبی کی مثال از کتب مرزا:
مرزا صاحب نے اشتہار واجب الاظہار ۴۔ نومبر ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح کا ذکر کرتے ہوئے کہا خدا نے:
'' عیسیٰ مسیح کو اسرائیلی نبوت کے لیے آخری اینٹ کردیا۔ نبوت بنی اسرائیل سے گئی۔''(۳۰۶)
اب آخری اینٹ کا مطلب صاف ظاہر ہوگیا کہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ بعینہٖ یہی مثال مرزا نے دی ہے کہ آنحضرت '' دیوار نبوت کی آخری اینٹ''۔ (۳۰۷)
-----------------------------------------
(۳۰۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۴۲
(۳۰۵) کنز العمال ص۲۵۶،ج۶ طبعہ قدیم دکن، ومسند فردوس دیلمی ص۷۸،ج۱
(۳۰۶) اشتہار مرزا مؤرخہ ۴؍ نومبر ۱۹۰۰ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۶۱،ج۱
(۳۰۷) حاشیہ سرمہ چشم آریہ ص۱۹۸ و روحانی ص۲۴۶،ج۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسری دلیل مرزائیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْعَاشِ ابْرَاھِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا۔
'' اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔''
معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا امکان ہے۔(۳۰۸) (ابن ماجہ کتاب الجنائز)
جواب:
اول تو یہ حدیث ہی باطل ہے، جہاں سے مرزائیوں نے یہ نقل کی یعنی ابن ماجہ سے، وہیں اس کے حاشیہ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی بھی متروک ہے، اسی طرح حافظ ابن حجر نے تقریب میں لکھا ہے کہ یہ شخص متروک الحدیث ہے(۳۰۹) اور تہذیب التہذیب میں محدثین کے بہت سے اقوال اس کی تضعیف میں نقل کیے ہیں(۳۱۰)، غالباً اسی بناء پر علامہ نووی نے اس روایت کو باطل قرار دیا ہے(۳۱۱)۔ اور مدارج النبوت (شیخ عبدالحق) میں ہے ''اعتبار سے ندارد۔''(۳۱۲) جن لوگوں نے اس کی تائید کی ہے، اوّل تو وہ نقاد حدیث نہیں ان کا پلہ اور درجہ اس فن میں ہلکا و کمتر ہے۔ لہٰذا یہ روایت قابل اعتبار نہیں۔ (۱)
۱۔ صحیح الفاظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات کے متعلق منقول ہیں یہ ہیں لَوْقُضِیَ اَنْ یَّکُوْنَ بَعْدَ مُحَمد ﷺ نَبِیٌّ عَاشَ ابْنُہٗ وَلٰکِنْ لاَّ نَبِیَّ بَعْدَہٗ(۳۱۳)۔یعنی اگر قضائے الٰہی میں یہ بات ہوتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کا بیٹا (ابراہیم) زندہ رہتا، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے اور ابن ماجہ میں بھی۔
پھر اس کا جھوٹی اور مردود ہونا یوں بھی ظاہر ہے کہ یہ قرآن پاک کے نصوص صریحہ کے مخالف ہے اور صدہا احادیث صحیحہ نبویہ مندرجہ صحاح ستہ مسلمہ فریقین و مقبولہ مرزا کے خلاف ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا، اور قرآن شریف میں جس کا لفظ قطعی ہے اپنی آیت کریمہ ولٰکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا تھا کہ فی الحقیقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔(۳۱۴)
اعتراض:
یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے، لہٰذا یہ حدیث صحیح ہے۔ (۳۱۵)
الجواب:
سبحان اللہ! کیا علمیت ہے کہ حدیث کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ یہ ابن ماجہ میں ہے، صاحب علم حضرات سے مخفی نہیں کہ صحاح ستہ میں بھی بہت سی ضعیف روایات موجود ہیں۔
ابن ماجہ کا تو چھٹا درجہ ہے (بلکہ بعض لوگ مثلاً علامہ ابن اثیر صحاح ستہ میں سنن ابن ماجہ کو شمار ہی نہیں کرتے، بلکہ مؤطا مالک کو شمار کرتے ہیں) مرزا صاحب بخاری اور مسلم میں بھی ضعیف حدیثیں بتاتے ہیں، مثلاً صحیح مسلم میں دمشقی منارے والی حدیث (جس کو تو اس بن سمعان نے بیان کیا ہے) کو ضعیف شمار کرتے ہیں:
'' یہ حدیث وہ ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے، جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری نے چھوڑ دیا ہے۔'' (۳۱۶)
صحیح بخاری میں ہے کہ مجھ کو یونس بن متیٰ پر فضیلت مت دو مرزا صاحب اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ (۳۱۷)
بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا، مرزا صاحب اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ (۳۱۸)
لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی حدیث کا ابن ماجہ میں ہونا اس کی صحت کی دلیل نہیں۔
اعتراض:
اس حدیث کے متعلق شہاب علی البیضاوی میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور نیز ملا علی قاری نے اس کی تصحیح کی ہے۔ (۳۱۹)
الجواب:
اول تو وہ نقاد حدیث سے نہیں ہیں، ان کا مرتبہ اس فن میں کم تر ہے ائمہ حدیث مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن عبدالبر اور امام نووی اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں، بلکہ امام نووی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان عظیم ہے۔(۳۲۰) ابراہیم بن عثمان عبسی راوی کو ائمہ حدیث نے مجروح قرار دیا ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں:
لَا یَخْفٰی اَنَّ الْجَرْحَ مُقَدَّمٌ عَلَی التَّعَدِیْلِ کَمَا فِی النُّخْبَۃِ فَلَا یَدْفَعُہٗ تَصْحِیْحُ بَعْضِ الْمُحَدِّثِیْنَ۔(۳۲۱)
جرح تعدیل پر مقدم ہوگی جیسا کہ نخبہ میں ہے، پس بعض محدثین کی تصحیح اس کی جرح کو دفع نہیں کرسکتی۔
اس لیے ملا علی قاری وغیرہ کی تصحیح قابل حجت نہیں۔ ملا علی قاری جہاں اس کو صحیح قرار دیتے ہیں، پہلے خود مانتے ہیں کہ امام نووی، ابن حجر اور ابن عبدالبر نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ شہاب علی البیضاوی میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو یہ کافی نہیں کیونکہ تصحیح حدیث کے لیے پہلے جرح کا اطلاق مقدم ہے، صرف ابن ماجہ میں حدیث کا مذکور ہونا صحت حدیث کی دلیل نہیں۔
نیز بحث صورت مقدرہ میں ہے، یعنی اگر یہ حدیث صحیح ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ختم نبوت کے منافی ہے جیسے لوکان موسیٰ حیا لما وسعہ الا اتباعی میں(۳۲۲) ۔ کیونکہ اس سے ہرگز یہ مقصود نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام حضور کے بعد تشریف لاسکتے ہیں بلکہ یہ محض مفروضہ ہے، مقصد یہ ہے کہ حضور کے مرتبہ نبوت کو بیان کیا جائے، اسی طرح لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت بیان کرتا ہے، نہ امکان نبوت، کیونکہ ملا علی قاری صاف فرماتے ہیں۔
دعوی النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالاجماع۔(۳۲۳)
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔'' فافھم
----------------------------------------------------
(۳۰۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۸
(۳۰۹) تقریب التھذیب ص۱۴ طبعہ دہلی ۱۲۹۰ھ
(۳۱۰) تھذیب التھذیب ص۱۴۴،ج۱
(۳۱۱) تھذیب الاسماء واللغات ص۱۰۳،ج۱ و موضوعات کبیر ص۹۹
(۳۱۲) مدارج النبوت ص۲۶۷،ج۲
(۳۱۳) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۹۱۴،ج۲ کتاب الادب باب من سمی باسماء الانبیاء من حدیث ابن ابی اوفی رضی اللّٰہ عنہ وابن ماجہ فی السنن ص۱۰۹ تا ۱۱۰ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللّٰہ ﷺ وزکرو فاتہ
(۳۱۴) کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۸،ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۸،ج۷
(۳۱۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۹
(۳۱۶) ازالہ اوہام ص۲۲۰ و روحانی ص۲۰۹،ج۳
(۳۱۷) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۳،ج۵
(۳۱۸) الحکم جلد ۱۱نمبر۴۰ مورخہ ۱۰؍ نومبر ۱۹۰۷ء ص۸ و ملفوظات مرزا ص۳۴۸ و تفسیر مرزا ص۳۱ ،ج۶ فرمودہ، ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء بلکہ خود ملک عبدالرحمن مرزائی مؤلف احمدیہ پاکٹ بک نے ص۱۱۰۲ میں اسے توہین پر محمول کرکے اس کی تضعیف کردی ہے۔ ابو صھیب
(۳۱۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۹
(۳۲۰) موضوعات کبیر ص۹۹
(۳۲۱) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص۳۴۲،ج۱ طبعہ قدیم مصر ۱۳۰۹ھ
(۳۲۲) باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۶۳ دیکھئے
(۳۲۳) شرح فقہ اکبر ص۱۵۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تیسری دلیل مرزائیہ:
ہم درود شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کی ویسی ہی رحمت طلب کرتے ہیں جیسی ابراہیم علیہ السلام اور اس کی آل پر ہوئی یعنی دیگر رحمتوں کے ساتھ ساتھ نبوت بھی۔
الجواب:
(۱) اگر درود شریف پڑھنے سے تم لوگوں کا یہی مفہوم ہوتا ہے تو تم سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا شاید ہی کوئی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ افضل اور اتم شریعت عطا ہوئی کہ جملہ انبیاء کی شریعیتیں مل کر بھی اس پایہ کی نہ ہوئیں، پھر تمہاری یہ کس قدر گستاخی ہے کہ باوجود یہ کہ آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پیشتر جو اعلیٰ احسن کامل و مکمل شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی تم اس کے عوض ایسی شریعت ناقص چاہتے ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملی تھی۔ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِا الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ۔(۳۲۴)
ماسوا اس کے یہ کیا لغویت ہے کہ خدا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم علیہ السلام جیسی نبوت دے حالانکہ آپ سید المرسلین ہیں۔
(۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر تو یہ بھی رحمت ہوئی تھی کہ ان میں صاحب کتاب و شریعت نبی ہوئے، کیا امت محمدیہ میں بھی تم لوگ قرآن کے بعد کسی دوسری شریعت کی آمد کے طالب ہو؟ پھر تو قادیان سے ڈیرہ اٹھا کر ایرانی نبی کے ہاں اڈا جماؤ کہ وہ صاحب کتاب نبی ہونے کا بھی مدعی ہے اور درود شریف میں شریعت والی نبوت کو تم مستثنیٰ کرتے ہو کیونکہ ایسا دعویٰ مرزا صاحب کے نزدیک کفر ہے(۳۲۵) ۔ تو فرمائیے یہ استثنیٰ کس بناء پر ہے، اگر خاتم النبیین والی آیت اور لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ والی حدیث سے ہے تو یہی جواب ہمارا ہے کہ اس آیت و حدیث میں ہر قسم کی نبوت جدیدہ کی بندش ہے، جیسا کہ ہم اُوپر ثابت کر آئے ہیں۔
(۳) درود شریف سے اجرائے نبوت پر استدلال کرنا محض یہودیانہ کھینچ تان ہے، معلوم ہوتا ہے کہ مرزائی محرف کی نظر الفاظ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ پر ہے، وہ لفظ ''کما'' سے '' مشابہت تامہ'' سمجھ رہا ہے حالانکہ:
'' یہ ظاہر ہے کہ (ہر ایک جگہ) تشبیہات میں پوری پوری تطبیق (یا مشابہت مفہوم) نہیں ہوتی، بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث ایک چیز کا نام دوسری پر اطلاق کردیتے ہیں۔'' (۳۲۶)
خلاصہ جواب یہ کہ درود شریف میں جن رحمتوں کو طلب کیا جاتا ہے وہ نبوت کے علاوہ ہیں، وجہ یہ کہ:
قرآن شریف کی آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے۔ (۳۲۷)
-------------------------------------
(۳۲۴) پ۱ البقرہ:۶۱
(۳۲۵) بدر جلد ۷ نمبر ۹ مورخہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷،ج۵
(۳۲۶) حاشیہ ازالہ اوہام ص۷۲ و روحانی ص۱۳۸،ج۳
(۳۲۷) تحفہ گولڑویہ ص۵۱ و روحانی ص۱۷۴،ج۱۷ و تفسیر مرزا ص۵۴،ج۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چوتھی دلیل مرزائیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں خلاف منہاج نبوت پر ہوگی، اس سے ثابت ہوا کہ نبوت جاری ہے۔ (۳۲۸)
الجواب:
یا تو تجاہل عارفانہ ہے یا غایت درجے کی جہالت خلافت کے طریق نبوت پر جاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جس طریق پر امور سیاسیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چلایا۔ اسی طرح آخری زمانہ میں آپ کی سنت کے مطابق امام مہدی امور سیاسیہ چلائے گا، کہاں کسی امر کا مطابق سنت ہونا، اور کہاں نبوت کا جاری رہنا۔
دیگر یہ کہ اسی حدیث میں آپ کے فوراً بعد خلافت کا منہاج نبوت پر ہونا مذکور ہے اور اس سے مراد بالخصوص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے۔
ان زمانوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل ہوتا رہا اور یہ امر مسلمہ ہے کہ چاروں حضرات نہ نبی تھے، نہ ان میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا، پس یہ حدیث اجرائے نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتی۔
----------------------------------
(۳۲۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۸۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پانچویں دلیل مرزائیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ امت کس طرح ہلاک ہوگی جس کے شروع میں مَیں ہوں اور آخر میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہوگا۔
الجواب:
اوّل تو اسے اجرائے نبوت سے کیا تعلق؟ دیگر یہ کہ اس میں سے آپ امام مہدی کا ذکر کیوں چھوڑ گئے کیونکہ اس میں یہ بھی ہے کہ وسط میں مہدی ہے اور اس حدیث سے مہدی اور عیسیٰ دو الگ الگ شخصیتیں ثابت ہوتی ہیں اور مرزا صاحب آنجہانی ایک ہی ذات شریف ہر دو عہدوں کے مدعی ہیں اس لیے امام مہدی کو چھوڑ دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چھٹی دلیل:
ابوبکر خیر الناس بعدی الا ان یکون نبی۔ (کنز العمال جلد۶، ص۱۳۸)
''ابوبکر سوائے نبی کے میرے بعد سب انسانوں سے افضل ہیں۔'' (۳۲۹)
الجواب:
اس کے ساتھ ہی یہ لکھا ہوا ہے ھٰذَا الْحَدِیْثُ اَحَدُمَا اُنْکِرَ۔یہ حدیث ان میں سے ایک ہے جن پر انکار کیا گیا ہے۔ یعنی روایت موضوع ہی نہیں بلکہ جھوٹی سے بھی ایک درجہ اتر کر جھوٹی۔
نوٹ: اِلاَّ اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّمیں نبی مرفوع ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ کان تامہ ہے۔ پس تقدیر عبارت یہ ہوئی کہ ابوبکر خیر الناس بعدی الا وقت کون نبی یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے بعد سب لوگوں سے اچھے ہیں۔ مگر جس وقت کوئی نبی ہو پھر وہ خیر الناس نہ ہوگا۔
حالانکہ وقت تکلم بالحدیث نبی موجود ہے، اس وقت بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ خیر الناس ہیں۔
شاید کوئی کہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خیریت نبی سے مسلوب کی گئی ہے، سب سے نہیں تو جواب یہ ہے کہ ایسے موقع پر اَنْ مصدر یہ ظرف ہوتا ہے، جس کی بنانے کو وقت کون سے تعبیر کی جاتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث اصول روایت ہی سے غلط نہیں۔ قواعد نحویہ کی رو سے بھی غلط ہے۔
---------------------------------------
(۳۲۹) احمدیہ پاکٹ ص۴۸۶، نوٹ: علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد ص۴۷،ج۹ میں طبرانی سے مذکورہ روایت نقل کرکے صراحت کی ہے کہ اس میں اسماعیل بن زیاد ضعیف راوی ہے، علامہ ذہبی نے ، میزان الاعتدال ص۲۳۱،ج۱ میں اسماعیل کے ترجمہ میں نقل روایت کے بعد لکھا ہے کہ اسے بیان کرنے میں اسماعیل منفرد ہے اور یہ جھوٹی روایات بیان کرتا ہے اور اسے امام یحییٰ نے کذاب قرار دیا ہے۔ (ابوصہیب)
 
Top