Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا۔
1143: سیدنا عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہاِ لیکن سیدنا خالد بن ولیدؓ (جو رسول اللہﷺ کی طرف سے ) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالکؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے یہ حال بیان کیا، تو آپﷺ نے خالدؓ سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالدؓ، سیدنا عوفؓ کے ساتھ نکلے ، تو سیدنا عوفؓ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالدؓ کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہﷺ نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بُری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔
1143: سیدنا عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہاِ لیکن سیدنا خالد بن ولیدؓ (جو رسول اللہﷺ کی طرف سے ) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالکؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے یہ حال بیان کیا، تو آپﷺ نے خالدؓ سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالدؓ، سیدنا عوفؓ کے ساتھ نکلے ، تو سیدنا عوفؓ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالدؓ کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہﷺ نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بُری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔