• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول ) کا سامان نہ دینا۔
1143: سیدنا عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (قبیلہ) حمیر کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہاِ لیکن سیدنا خالد بن ولیدؓ (جو رسول اللہﷺ کی طرف سے ) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالکؓ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے یہ حال بیان کیا، تو آپﷺ نے خالدؓ سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالدؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالدؓ، سیدنا عوفؓ کے ساتھ نکلے ، تو سیدنا عوفؓ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالدؓ کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہﷺ نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بُری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دشمن کا سارا مال قاتل کو دینا چاہیئے۔
1144: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ ہم غزوہ ہوازن (حنین) میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ( جو آٹھ ہجری میں ہوا)۔ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار آیا۔ اونٹ کو بٹھا کر اس کی کمر پر سے ایک تسمہ نکالا اور اس سے باندھ دیا۔ پھر آ کر لوگوں کے ساتھ کھانا اور کھانے ادھر ادھر دیکھنے لگا (وہ کافروں کا جاسوس تھا)۔ اور ہم لوگ ان دنوں ناتواں تھے اور بعض پیدل بھی تھے (جن کے پاس سواری نہ تھی) اتنے میں یکا یک دوڑتا ہوا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھول کر اس کو بیٹھ کر اور پھر اس پر بیٹھ کر کھڑا کیا، تو اونٹ اس کو لے کر بھاگا (اب کافروں کو خبر دینے کے لئے چلا)۔ ایک شخص نے خاکی رنگ کی اونٹنی پر اس کا پیچھا کیا۔ سیدنا سلمہؓ نے کہا کہ میں پیدل دوڑتا چلا گیا پہلے میں اونٹنی کی سرین کے پاس تھا (جو کہ اس جاسوس کے تعاقب میں جا رہی تھی) پھر میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے سرین کے پاس آگیا پھر اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر اس کو بٹھا دیا۔ جونہی اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا، میں نے تلوار سونتی اور اس مرد کے سر پر ایک وار کر کے اس کو گرا دیا۔ پڑا پھر میں اونٹ کو کھینچتا ہوا، اس (جاسوس) کے سامان اور ہتھیار سمیت لے آیا۔ رسول اللہﷺ لوگوں کے ساتھ تھے جو آگے تشریف لائے تھے (میرے انتظار میں) مجھ سے ملے اور پوچھا کہ اس مرد کو کس نے مارا؟ لوگوں نے کہا کہ اکوع کے بیٹے نے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا سب سامان اکوع کے بیٹے کا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : انعام اور قیدیوں کے بدلہ میں مسلمانوں کو چھڑانے کے متعلق۔
1145: سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سیدنا سلمہ بن اکوعؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے (قبیلہ) فزارہ سے جہاد کیا اور ہمارے سردار سیدنا ابو بکر صدیقؓ تھے جنہیں ہمارا امیر رسول اللہﷺ نے بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہ گیا (یعنی اس پانی سے جہاں قبیلہ فزارہ رہتے تھے )، تو ہم سیدنا ابو بکرؓ کے حکم سے پچھلی رات کو اتر پڑے۔ پھر ہر طرف سے حملہ کرتے ہوئے پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا سو مارا گیا اور کچھ قید ہوئے اور میں ایک گروہ کو تاک رہا تھا جس میں (کافروں کے ) بچے اور عورتیں تھیں میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں ایک تیرا مارا، تو تیر کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی جو چمڑا پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی جو کہ عرب کی حسین ترین نوجوان لڑکی تھی۔ میں ان سب کو سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے پاس لایا، تو انہوں نے وہ لڑکی مجھے انعام کے طور پر دے دی۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور میں نے ابھی اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا کہ رسول اللہﷺ مجھے بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم وہ مجھے بھلی لگی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھے رسول اللہﷺ بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے اور تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے توﷺ سکا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر رسول اللہﷺ نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو بستی لڑائی سے فتح کی گئی اس میں حصے اور خمس ہے۔
1146: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس بستی میں تم آئے اور وہاں ٹھہرے ، تو اس میں تمہارا حصہ ہے اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی یعنی لڑائی کی تو (مالِ غنیمت کا) پانچواں حصہ اللہ کا اور رسول کا ہے اور باقی (چار حصے ) تمہارے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مال "فے " کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔
1147: سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمرؓ نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور وہ اپنے گھر میں (بغیر بستر کے ) ننگی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد ث آئے ہیں کیا ان کو آنے دوں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آ گئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی ث آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دیدے۔ سیدنا عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! میرا اور اس جھوٹے ، گنہگار، دغا باز اور چور کا فیصلہ کر دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیر المؤمنین! ان کا فیصلہ کر دیجئے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجئے۔ مالک بن اوس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ نے ) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعدؓ کو (اس لئے ) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمرؓ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں)۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ سب نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباسؓ اور سیدنا علیؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ؟ ان دونوں نے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسولﷺ کا ہی ہے " مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دئیے۔ اور اللہ کی قسم آپﷺ نے (مال کو) تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپﷺ نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہﷺ ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی، جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علیؓ اور عباسؓ کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کا ولی ہوں، تو تم دونوں آئے۔ عباسؓ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہﷺ سیدنا عباس کے بھائی کے بیٹے تھے ) اور علیؓ اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علیؓ کی زوجہ تھیں اور رسول اللہﷺ کی بیٹی تھیں) سیدنا ابو بکرؓ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ذیشان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، تو تم ان کو جھوٹا، گنہگار، دغا باز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے ، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہﷺ کا ولی ہوں اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا، تو تم نے مجھے بھی جھوٹا، گنہگار، دغا باز اور چور سمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکو کار اور حق پر ہوں، حق کا تابع ہوں۔ میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسولﷺ دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو تو میں نے کہا کہ اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہﷺ کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں، البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا، تو پھر مجھے لوٹا دو۔

1148: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کی صاحبزادی نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے پاس کسی کو رسول اللہﷺ کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھو ڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمدﷺ کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گاجو رسول اللہﷺ کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے )۔ اور وہ رسول اللہﷺ کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ ۱۱ ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علیؓ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علیؓ نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علیؓ سے (بوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ) محبت کرتے تھے ، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علیؓ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمرؓ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے ؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابو بکرؓ ان کے پاس گئے اور سیدنا علیؓ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابو بکر ص! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہﷺ سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے برابر باتیں کرتے رہے ، یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہﷺ کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اورخمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا ابو بکرؓ سے کہا کہ اچھا آج دو پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابو بکرؓ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے ، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علیؓ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علیؓ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابو بکرؓ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابو بکرؓ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے ، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علیؓ کی طرف مائل ہوئے۔

1149 : سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں جو چھوڑ جاؤں تو میرے وارث ایک دینار بھی نہیں بانٹ سکتے اور اپنی عورتوں کے خرچ اور منتظم کی اجرت کے بعد جو بچے ، وہ صدقہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (مال غنیمت میں سے )گھڑ سوار اور پیدل فوج کے حصوں کے متعلق
1150 : سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے غنیمت کے مال میں سے دو حصے گھوڑے کو دلائے اور پیدل آدمی کو ایک حصہ دلایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مال غنیمت میں عورتوں کا حصہ نہیں ہے یوں کچھ دے دینا چاہیئے اور جہاد میں بچوں کے قتل کرنے کے متعلق۔
1151: یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اگر علم کے چھپانے کی بات نہ ہوتی، تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتی لوگوں کا سردار تھا اور رسول اللہﷺ نے ان کی شان میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے )۔ نجدہ نے لکھا تھا کہ بعد حمد و صلوٰة۔ 1۔ بتاؤ کہ کیا رسول اللہﷺ جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے ؟۔ 2۔ کیا ان کو (مالِ غنیمت میں سے ) حصہ دیتے تھے ؟۔3۔ کیا آپﷺ بچوں کو بھی قتل کرتے تھے ؟۔ 4۔ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے ؟۔ 5۔ خمس کس کا حق ہے ؟ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ نے جواب لکھا کہ تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا رسول اللہﷺ جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے ؟ تو بیشک ساتھ رکھتے تھے اور وہ زخمیوں کی دوا کرتی تھیں اور ان کو کچھ انعام ملتا تھا، ان کا حصہ نہیں لگایا گیا۔ (ابو حنیفہ، ثوری، لیث، رشافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت اگر لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے تو اس کا حصہ لگایا جائے گا۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا اور یہ دونوں مذہب اس صحیح حدیث سے مردود ہیں) اور رسول اللہﷺ (کافروں کے ) بچوں کو نہیں مارتے تھے۔ تو بھی بچوں کو مت مارنا (اسی طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے ) اور تو نے مجھ سے پوچھا کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے ، تو قسم میری عمر (دینے والے ) کی کہ بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے ، پر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے اور نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے )۔ پھر جب اپنے فائدے کے لئے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں، تو اس کی یتیمی جاتی رہتی ہے اور تو نے مجھ سے خمس کا پوچھا کہ کس کا حق ہے ؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمار ے لئے ہے لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قیدیوں کے چھوڑ دینے اور ان پر احسان کرنے کے بار ے میں۔
1152 : سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے ، تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے جو اہل یمامہ کا سردار تھا۔ پھر اُسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبیﷺ نے اُس کے پاس جا کر کہا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے ؟ (کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمدﷺ میرا خیال بہتر ہے ، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے ، تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والا ہے (یعنی اس میں کوئی بھی قباحت نہیں کیونکہ میرا خون ضائع نہیں جائے گا بلکہ میرا بدلہ لینے والے موجود ہیں)۔ اور اگر آپﷺ احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے ، تو میں آپﷺ کا شکر گزار ہوں گا اور اگر آپﷺ مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے ،جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپﷺ چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آپﷺ نے پوچھا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکاکہ اگر آپﷺ احسان کر کے چھوڑ دیں گے ، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپﷺ نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے ؟ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپﷺ احسان کر کے چھوڑ دیں گے ، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے تعمیل حکم کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد کے قریب ہی ایک نخلستان کی طرف گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اے محمدا ! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا منہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپﷺ کا منہ دیکھ کر آتا تھا، اب آج کے دن آپﷺ کا چہرہ سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے ، اور اللہ کی قسم آپﷺ کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے بُرا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپﷺ کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپﷺ کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپﷺ کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا ہے۔ آپﷺ کے سواروں نے مجھے گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپﷺ کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے اسے مبارکباد دی اور عمرہ کرنے کی اجازت دی۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم بلکہ محمد رسول اللہﷺ کا فرمانبردار ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے اس وقت گندم کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا، جب تک کہ نبیﷺ اجازت نہ دے دیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مدینہ سے یہودیوں کو جلا وطن کرنا۔
1153 : سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم آپﷺ کے ساتھ گئے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچے ، تو رسول اللہﷺ کھڑے ہو گئے اور ان کوپکارا اور فرمایا کہ اے یہود کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسمﷺ! آپ نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے یہود مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ وہ کہنے لگے کہ اے ابو القاسمﷺ! آپ نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں (کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیغام کے پہنچ جانے کا اقرار کرو) پھر آپﷺ نے تیسری بار یہی کہا اور فرمایا کہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو اس ملک سے باہر نکال دوں، تو جو شخص اپنے مال کو بیچ سکے ، وہ بیچ ڈالے اور نہیں تو یہ سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالنا۔
1154: سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ البتہ میں یہود اور نصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں رہنے دوں گا۔
 
Top