• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جنگ شروع کرنے اور دشمن پر حملہ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت پیش کرنا۔
1120: ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے یہ پوچھنے کے لئے کہ لڑائی سے پہلے کافروں کو دین کی دعوت دینا ضروری ہے ؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا (جب کافروں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی) اور رسول اللہﷺ نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اور وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے۔ آپﷺ نے ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قید کیا اور اسی دن اُمّ المؤمنین جویریہ یا البتہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو پکڑا۔ نافع نے کہا کہ یہ حدیث مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شامل تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بادشاہوں کی طرف نبیﷺ کے خطوط، جن میں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔
1121: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور ہر ایک حاکم کو لکھا ، ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔

1122: سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ نے ان سے بالمشافہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہﷺ کے درمیان ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت) ملک شام میں تھا کہ ہرقل شاہ روم کی طرف رسول اللہﷺ کا خط لایا گیا جو کہ دحیہ کلبی لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بصرہ کے رئیس کو دیا اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دیا۔ ہرقل نے پوچھا کہ یہاں اس شخص کی قوم کا کوئی آدمی ہے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں قریش کے چند آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے تو اس نے ہمیں اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا کہ تم میں سے رشتہ میں اس شخص سے ، جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ، زیادہ نزدیک کون ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں ہوں (یہ ہرقل نے اس لئے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپﷺ کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ترجمان کو بلایا (جو دوسرے ملک کے لوگوں کی زبان بادشاہ کو سمجھاتا ہے ) اور اس سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص (یعنی ابو سفیان) سے اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے ، پھر اگر یہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابو سفیان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری طرف جھوٹ کی نسبت کی جائے گی (اور میری ذلت ہو گی) تو میں جھوٹ بولتا (کیونکہ مجھے آپﷺ سے عداوت تھی)۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھ کہ اس شخص (یعنی محمدﷺ) کا حسب و نسب (یعنی خاندان) کیسا ہے ؟۔ ابو سفیان نے کہا کہ ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے پوچھا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ دعویٰ (نبوت) سے پہلے کبھی تم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اچھا! ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ؟ میں نے کہا کہ غریب لوگ کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بڑھتے جاتے ہیں ہرقل نے کہا کہ ان کے تابعداروں میں سے کوئی ان کے دین میں آ کر اور پھر اس دین کو بُرا جان کر پھرا؟ میں نے کہا نہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ ہرقل نے کہا کہ ان کی تم سے کیسے لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے )؟ میں نے کہا کہ ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے (جیسے کنوئیں سے ڈول پانی کھینچنے میں ایک ادھر آتا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی انکی فتح ہوتی ہے ) وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ وہ معاہدہ کو توڑتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ ہاں اب ایک مدت کے لئے ہمارے اور ان کے درمیان اقرار ہوا ہے ، دیکھئے اب وہ اس میں کیا کرتے ہیں؟ (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابو سفیان نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے سوائے اس بات کے اور کسی بات میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقعہ نہیں ملا (تو اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا کہ ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ تم اس شخص سے یعنی ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تجھ سے ان کا حسب و نسب پوچھا تو تو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اور پیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تو نے کہا نہیں، یہ اس لئے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ ہوتا، تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ؟ تو تو نے کہا کہ غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے ؟ تو نے کہا کہ نہیں اس سے میں نے یہ نکالا کہ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں سے تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے۔ (جھوٹا دعویٰ کر کے ) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو بُرا سمجھ کر پھر جاتا ہے ؟ تو نے کہا نہیں اور ایمان جب دل میں سما جاتا ہے تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ بڑھتے جاتے ہیں اور یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ تم ان سے لڑتے ہو؟ تو نے کہا کہ ہم لڑتے ہیں اور ہمارے ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر۔ تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کو صبر و تکلیف کا اجر ملے اوران کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں)، پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ دغا کرتے ہیں؟ تو نے کہا کہ وہ دغا نہیں کرتے اور پیغمبروں کا یہی حال ہے وہ دغا (یعنی عہد شکنی) نہیں کرتے اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیاہے ؟ تو نے کہا کہ نہیں۔ یہ میں نے اس لئے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے پھر ہرقل نے کہا کہ وہ تمہیں کن باتوں کا حکم کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ نماز پڑھنے کا، زکوٰۃ دینے ، رشتہ داروں سے اچھے سلوک کرنے اور بُری باتوں سے بچنے کا حکم کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ اگر ان کا یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو بیشک وہ پیغمبر ہیں اور (پہلی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے ) میں جانتا تھا کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤنگا، تو میں ان سے ملنا پسند کرتا۔ (بخاری کی روایت میں ہے کہ میں کسی طرح بھی محنت مشقت اٹھا کر ملتا) اور جو میں ان کے پاس ہوتا، تو ان کے پاؤں دھوتا اور یقیناً ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں۔پھر ہرقل نے رسول اللہﷺ کا خط منگوایا اور اسکو پڑھا اس میں یہ لکھا تھا کہ:
"شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کی طرف جو کہ روم کا رئیس ہے۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد میں تجھے دعوتِ اسلام کی طرف بلاتا ہوں کہ مسلمان ہو جائے تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت اور جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا، اللہ تجھے دہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے گا، تو اریسیین کا وبال بھی تجھ پر ہو گا۔ اے اہل کتاب! مان لو ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور ہم ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہ بنائیں۔ اگر اہل کتاب پھر جائیں تو تم کہو یقیناً ہم تو مسلمان (فرمانبردار) ہیں"۔ (آل عمران: 64)
پھر جب ہرقل اس خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو، لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور بک بک بہت ہوئی اور ہم باہر نکال دیئے گئے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کبشہ کے بیٹے (محمدﷺ) کا درجہ بہت بڑھ گیا، ان سے بنی اصفر کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ اس دن سے مجھے یقین تھا کہ رسول اللہﷺ کامیاب اور غالب ہوں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مسلمان کر دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کی طرف نبیﷺ کی دعوت اور منافقوں کی تکالیف پر صبر۔
1123: سیدنا اسامہ بن زید صراوی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے ، جس کی کاٹھی کے نیچے (شہر) فدک کی (بَنی ہوئی) چادر پڑی تھی اور اسامہ بن زیدؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ آپﷺ بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں، سیدنا سعد بن عبادہؓ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے۔راستے میں مسلمانوں، بتوں کے پجاری مشرکوں اور یہود پر مشتمل ایک ملی جلی مجلس پر سے گزرے ، جس میں عبد اللہ بن ابی ابن سلول (مشہور منافق) بھی تھا۔ (اس وقت تک عبد اللہ بن ابی ظاہر میں بھی مسلمان نہیں ہوا تھا)۔ اس مجلس میں سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ (مشہور صحابی) بھی موجود تھے۔ جب گدھے کے پاؤں کی گرد مجلس والوں پر پڑنے لگی (یعنی سواری قریب آ پہنچی) تو عبد اللہ بن ابی نے اپنی ناک چادر سے ڈھک لی اور کہا کہ ہم پر گرد مت اڑاؤ۔ رسول اللہﷺ نے سلام کیا اور پھر ٹھہر گئے اور سواری سے اتر کر ان کو قرآن پڑھ کر سنانے لگے اور (ان مجلس والوں کو) اللہ کی طرف بلایا۔ اس وقت عبد اللہ بن ابی نے کہا اے شخص! اگر یہ سچ ہے تو بھی ہمیں ہماری مجلسوں میں مت سنا۔ اپنے گھر کو جا، وہاں جو تیرے پاس آئے اس کو یہ قصے سنا۔ سیدنا عبد اللہ بن رواحہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! نہیں بلکہ آپ ہماری ہر ایک مجلس میں ضرور آیا کیجئے ، ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اس بات پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں گالی گلوچ ہونے لگی اور قریب تھا کہ لڑائی شروع ہو جائے تو رسول اللہﷺ ان سب کو چپ کرانے لگے (آخر کار وہ سب خاموش ہو گئے ) پھر رسول اللہﷺ سوار ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہؓ کے ہاں گئے اور ان سے فرمایا اے سعد! تو نے ابو حباب کی باتیں نہیں سنیں؟ }ابو حباب سے عبد اللہ بن ابی مراد ہے { اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ سے معاف کر دیجئے اور اس سے درگزر فرمائیے اور قسم اس ذات کی جس نے آپﷺ پر کتاب نازل کی ہے کہ اللہ کی جانب سے جو کچھ آپﷺ پر اترا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ (وجہ یہ ہے کہ) اس بستی کے لوگوں نے (آپﷺ کے آنے سے پہلے ) یہ فیصلہ کیا تھا کہ عبد اللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے اور اس کو اپنا والی اور رئیس بنائیں گے۔ پس جب اللہ نے یہ بات (عبد اللہ بن ابی کا سردار ہونا) نہ چاہی بوجہ اُس حق کے جو آپﷺ کو عطا کیاہے ، تو وہ آپﷺ کے ساتھ حسد میں مبتلا ہو گیا ہے اس لئے اس نے (آپﷺ سے ) ایسے بُرے کلمات کہے ہیں۔ آپﷺ نے اس کا قصور معاف کر دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دھوکہ بازی کی ممانعت۔
1124: سیدنا ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جو اس کی دغا بازی کے موافق بلند کیا جائیگا اور کوئی دغا باز اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر دغا بازی کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وعدے کی پاسداری۔
1125: سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ میں بدر میں صرف اسی وجہ سے شریک نہ کہ میں اپنے والد حسیل کے ساتھ نکلا (یہ سیدنا حذیفہؓ کے والد کا نام ہے اور بعض لوگوں نے حسل کہا ہے اور یمان ان کا لقب ہے اور اسی سے مشہور ہیں) تو ہمیں قریش کے کافروں نے پکڑ لیا اور کہا کہ تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ہو؟ پس ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو جائیں گے اور محمدﷺ کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے۔ پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور یہ سب قصہ بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم مدینہ کو چلے جاؤ کہ ہم ان کا معاہدہ پورا کریں گے اور ان پر اللہ سے مدد چاہیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دشمن کے ساتھ آمنا سامنا کرنے کی آرزو نہ کرنا لیکن جب آمنا سامنا ہو، تو صبر کرنا چاہیئے۔
1126: ابو النضر سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی جو کہ قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے اور نبیﷺ کے صحابہ میں سے تھے ، کی کتاب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمر بن عبید اللہ کو کہ جب وہ حروریہ کی طرف (لڑائی) کے لئے نکلے تو لکھا اور وہ انہیں رسول اللہﷺ کے عمل کی خبر دینا چاہتے تھے کہ جن دنوں رسولﷺ دشمن سے لڑائی کی حالت میں تھے تو آپﷺ نے زوال آفتاب تک انتظار کیا اور پھر لوگوں (صحابہ کرام) میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! دشمن سے (لڑائی) ملاقات کی آرزو مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی آرزو کرو۔ (لیکن) جب آمنا سامنا ہو جائے تو صبر سے کام لو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ!کتاب نازل فرمانے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور جتھوں کو بھگانے والے ، ان کو بھگا دے اور ان پر ہماری مدد فرما۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دشمن کے خلاف دعا۔
اس باب میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی کی حدیث ہے جو اوپر والے باب میں گزر چکی ہے۔
1127: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُحد کے دن یہ فریاد کر رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو زمین میں کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔ (یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ پوری حدیث میں ہے کہ اگر آج مسلمان مغلوب ہو گئے تو اہل توحید مٹ جائیں گے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : لڑائی مکر و حیلہ ہے۔
1128: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لڑائی مکر اور حیلہ ہے۔ (یعنی اپنے بچاؤ اور دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے حیلہ اور مکر و فریب کرنا جائز ہے )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جہاد میں مشرکین سے مدد لینا (کیسا ہے ؟)۔
1129: اُمّ ا لمؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جنگِ بدر کی طرف نکلے۔ جب (مقامِ) حرۃالوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے ) میں پہنچے ، تو ایک شخص آپﷺ سے ملا، جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا اور رسول اللہﷺ کے اصحاب اس کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ جب آپﷺ سے ملا تو اس نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپﷺ کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو لوٹ جا، میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر آپﷺ چلے جب شجرہ (مقام) پہنچے تو وہ شخص پھر آپﷺ سے ملا اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ آپﷺ نے بھی وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا کہ لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔ پھر وہ لوٹ گیا اس کے بعد پھر آپﷺ سے (مقامِ) بیداء میں ملا اور آپﷺ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا کہ کیا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر یقین رکھتا ہے ؟ اب وہ شخص بولا کہ ہاں میں یقین رکھتا ہوں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر چل۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غازیوں کے ساتھ عورتوں کے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
1130: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ (ان کی والدہ) اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا کہ سیدنا ابو طلحہؓ نے دیکھا تو رسول اللہﷺ! سے عرض کیا کہ یہ اُمّ سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپﷺ نے (اُمّ سلیم سے ) پوچھا کہ یہ خنجر کیسا ہے ؟ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ ہنسے۔ پھر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے سوا طلقاء (یعنی اہل مکہ) کو مار ڈالئے ، انہوں نے آپﷺ سے شکست پائی (اس وجہ سے مسلمان ہو گئے اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! (کافروں کے شر کو) اللہ تعالیٰ بہت بہترین انداز سے کافی ہو گیا (اب تیرے خنجر باندھنے کی ضرورت نہیں)۔

1131: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ احد کے دن لوگ شکست خوردہ ہو کر رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور ابو طلحہؓ آپﷺ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے تھے اور ابو طلحہؓ بڑے ماہر تیر انداز تھے ، ان کی اس دن دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔ جب کوئی شخص تیروں کا ترکش لے کر نکلتا، آپﷺ اس سے فرماتے کہ یہ تیر ابو طلحہؓ کے لئے رکھ دو۔ آپﷺ گردن اٹھا کر کافروں کو دیکھتے ، تو ابو طلحہؓ کہتے کہ اے اللہ کے نبیﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں آپﷺ گردن مت اٹھائیے ایسا نہ ہو کہ کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپﷺ کے سینے کے آگے ہے (یعنی ابو طلحہ نے اپنا سینہ آگے کیا تھا کہ اگر کوئی تیر وغیرہ آئے تو مجھے لگے )۔ سیدنا انسؓ نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر اور اُمّ سلیمؓ کو دیکھا وہ دونوں کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں (جیسے کام کے وقت کوئی اٹھاتا ہے ) اور میں ان کی پنڈلی کی پازیب کو دیکھ رہا تھا، وہ دونوں اپنی پیٹھ پر مشکیں لاتی تھیں، پھر اس کا پانی لوگوں کو پلا دیتیں، پھر جاتیں اور بھر کر لاتیں اور لوگوں کو پلا دیتیں۔ اور سیدنا ابو طلحہؓ کے ہاتھ سے دو تین بار اونگھ کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔

1132: سیدہ اُمّ عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی، مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی، زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔
 
Top