• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حربی کافر اور عہد توڑنے والے کے متعلق حکم۔
1155 : اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن معاذؓ کو خندق کے دن ایک جو قریش کے ایک شخص ابن العرفہ (اس کی ماں کا نام ہے ) نے ایک تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے ) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔ جب آپﷺ خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو پھر جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپﷺ نے ہتھیار اتار ڈالے ؟ اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے۔ چلو ان کی طرف۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کدھر؟ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہﷺ ان سے لڑے اور وہ آپﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے اور آپﷺ نے ان کا فیصلہ سیدنا سعدؓ پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد کے حلیف تھے )۔ سعدؓ نے کہا کہ میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دئیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لئے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سعدؓ سے فرمایا کہ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا اورا یک دفعہ یوں فرمایا کہ بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔
نام ہے ) نے ایک تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے ) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔ جب آپﷺ خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو پھر جبرائیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپﷺ نے ہتھیار اتار ڈالے ؟ اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے۔ چلو ان کی طرف۔ آپﷺ نے پوچھا کہ کدھر؟ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہﷺ ان سے لڑے اور وہ آپﷺ کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے اور آپﷺ نے ان کا فیصلہ سیدنا سعدؓ پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد کے حلیف تھے )۔ سعدؓ نے کہا کہ میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دئیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لئے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا سعدؓ سے فرمایا کہ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا اور ایک دفعہ یوں فرمایا کہ بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: ہجرت اور غزوات بیان میں

باب : نبیﷺ کی ہجرت اور آپﷺ کی نشانیوں کے بیان میں۔
1156: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء بن عازبؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ میرے باپ (عازب) کے مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور بولے کہ تم اپنے بیٹے سے کہو کہ یہ کجاوہ اٹھا کر میرے ساتھ میرے مکان تک لے چلے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ کجاوہ اٹھا لے۔ میں نے اٹھا لیا اور میرے والد بھی سیدنا ابو بکر کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو نکلے میرے باپ نے کہا کہ اے ابو بکر ! تم نے اس رات کو کیا کیا جس رات رسول اللہﷺ کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے چلے ) سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ ہم ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا کہ راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا۔ ہمیں سامنے ایک بڑی چٹان دکھائی دی جس کا سایہ زمین پر تھا اور وہاں دھوپ نہ آئی تھی، ہم اس کے پاس اترے۔ میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہﷺ اس کے سایہ میں آرام فرمائیں، پھر میں نے وہاں کملی (چادر) بچھائی اور اس کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ سو جائیے ، میں آپﷺ کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں (کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا)۔ پھر میں نے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریاں لئے ہوئے اسی پتھر کی طرف اس ارادے سے جس ارادے سے ہم آئے تھے (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا) آ رہا تھا۔میں اس سے ملا اور پوچھا کہ اے لڑکے تو کس کا غلام ہے ؟ وہ بولا کہ میں مدینہ (شہر یعنی مکہ) والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے کہا کہ تیری بکریاں دودھ ولی ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ میں نے کہا کہ تو ہمیں دودھ دے گا؟ وہ بولا ہاں۔ پھر وہ ایک بکری کو لایا تو میں نے کہا کہ اس تھن بالوں، مٹی اور گرد و غبار سے صاف کر لے تاکہ یہ چیزیں دودھ میں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا کہ) میں نے براء بن عازب کو دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے اور جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا، جس میں رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کے لئے پانی تھا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ پھر میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور مجھے آپﷺ کو نیند سے جگانا بُرا معلوم ہوا، لیکن میں نے دیکھا کہ آپﷺ خود بخود جاگ اٹھے تھے۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ دودھ پیجئے۔ آپﷺ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت نہیں آیا؟ میں نے کہا کہ آ گیا۔ پھر ہم زوال آفتاب کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا (اور وہ اس وقت کافر تھا) اور ہم سخت زمین پر تھے۔ کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہم کو تو کافروں نے پا لیا، آپﷺ نے فرمایا کہ مت فکر کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے سراقہ پر بددعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا (حالانکہ وہاں کی زمیں سخت تھی) وہ بولا کہ میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے ، اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تم دونوں کی تلاش میں جو آئے گا اس کو پھیر دوں گا تم میرے لئے دعا کرو (کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب سے چھڑا دے )۔ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو وہ چھٹ گیا اور لوٹ گیا۔ جو کوئی کافر اس کو ملتا وہ کہہ دیتا کہ ادھر میں سب دیکھ آیا ہوں غرض جو کوئی ملتا تو سراقہ اس کو پھیر دیتا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ سراقہ نے اپنی بات پوری کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ بدر کے متعلق۔
1157: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کو قافلہء ابو سفیان کے آنے کی خبر پہنچی، آپﷺ نے مشورہ کیا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے گفتگو کی، آپﷺ نے جواب نہ دیا پھر سیدنا عمرؓ نے گفتگو کی، لیکن آپﷺ جب بھی مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سیدنا سعد بن عبادہ (انصار کے رئیس) اٹھے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ہم (یعنی انصار) سے پوچھتے ہیں؟ تو قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں، تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپﷺ حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو برک الغماد تک بھگا دیں، (جو کہ مکہ سے بہت دور ایک مقام ہے ) تو البتہ ہم ضرور بھگا دیں گے (یعنی ہم ہر طرح آپﷺ کے حکم کے تابع ہیں گوہم نے آپﷺ سے یہ عہد نہ کیا ہو۔ آفرین ہے انصار کی جانثاری پر) تب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں قریش کے پانی پلانے والے ملے۔ ان میں بنی حجاج کا ایک کالا غلام بھی تھا، صحابہ نے اس کو پکڑا اور اس سے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھنے لگے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے ابو سفیان کا تو علم نہیں، البتہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو یہ موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا، تو اس کو مارتے اور جب وہ یہ کہتا کہ اچھا اچھا میں ابو سفیان کا حال بتاتا ہوں، تو اس کو چھوڑ دیتے۔ پھر اس سے پوچھتے تو وہ یہی کہتا کہ میں ابو سفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابو جہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ پھر اس کو مارتے اور رسول اللہﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپﷺ نے یہ دیکھا تو نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اسکو مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو (یہ ایک معجزہ ہوا)۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے اور ہاتھ زمین پر رکھ کر نشاندہی کی۔ اور یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ راوی نے کہا کہ پھر جہاں آپﷺ نے ہاتھ رکھا تھا، اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر کافر اسی جگہ گرا (یہ دوسرا معجزہ ہوا)۔

1158: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بسیسہ (ایک شخص کا نام ہے ) کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ وہ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لائے وہ لوٹ کر آیا اور اس وقت میرے گھر میں رسول اللہﷺ کے سوا کوئی نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کی کس بی بی کا انسؓ نے ذکر کیا پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ باہر نکلے اور فرمایا کہ ہمیں کام ہے ، تو جس کی سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو۔ یہ سن کر چند آدمی آپﷺ سے اپنی سواریوں کی طرف جانے کی اجازت مانگنے لگے جو مدینہ منورہ کی بلندی میں تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں صرف وہ لوگ جائیں جن کی سواریاں موجود ہوں۔ آخر آپﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ چلے ، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں پہنچے اور مشرک بھی آ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے جب تک میں اس کے آگے نہ ہوں۔ پھر مشرک قریب پہنچے ، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس جنت میں جانے کے لئے اٹھو جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن حمام انصاری نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا واہ سبحان اللہ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ وہ بولا کچھ نہیں یا رسول اللہﷺ! میں نے اس امید پر کہا کہ میں بھی اہل جنت سے ہو جاؤں۔آپﷺ نے فرمایا تو جنتی ہے۔ یہ سن کر چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگا پھر بولا کہ اگر میں اپنی کھجوریں کھانے تک جیوں تو بڑی لمبی زندگی ہو گی اور جتنی کھجوریں باقی تھیں وہ پھینک دیں اور کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فرشتوں کی امداد ، قیدیوں کے فدیہ اور مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق۔
1159: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپﷺ کے اصحاب تین سو انیس تھے۔رسول اللہﷺ نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے ) یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا، تو پھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔ پھر آپﷺ اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے ، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابو بکرؓ آئے اور آپﷺ کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپﷺ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا" (الانفال: 9) پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابو زمیل (راوئ حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباسؓ نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی وہ کہتا تھا کہ بڑھ اے حیزوم (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اسکا منہ پھٹ گیا تھا، جیسا کوئی کوڑا مارتا ہے اور وہ (کوڑے کی وجہ سے ) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابو زمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے ، تو رسول اللہ نے سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپﷺ ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجئے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ص! تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابو بکر کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علیؓ کے حوالے کیجئے ، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے "امام" ہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ کو سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گا ورنہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (رسول اللہﷺ کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے " (الانفال: 69..67)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جنگ بدر کے مردار کافروں سے نبیﷺ کی گفتگو جبکہ وہ مردہ تھے۔
1160: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا- پھر آپﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ابو جہل بن ہشام، اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔سیدنا عمرؓ نے جب رسول اللہﷺ کا فرمانا سنا، تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر سڑ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر آپﷺ کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ (یعنی وہ صرف نبیﷺ کی بات کو سن رہے تھے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ احد کا بیان۔
1161: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ احد کے دن (جب کافروں کا غلبہ ہوا اور مسلمان مغلوب ہو گئے ) اکیلے رہ گئے سات آدمی انصار کے اور دو قریش کے آپﷺ کے پاس رہ گئے تھے اور کافروں نے آپﷺ پر ہجوم کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو کون پھیرتا ہے ؟ اس کو جنت ملے گی یا جنت میں میری رفاقت ملے گی۔ ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ (کفار نے ) پھر ہجوم کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کون ان کو لوٹاتا ہے ؟ اس کو جنت ملے گی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔ ایک اور انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ پھر یہی حال رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے۔ (سبحان اللہ انصار کی جانثاری اور وفاداری کیسی تھی یہاں سے اصحاب رسول اللہﷺ کا درجہ اور مرتبہ سمجھ لینا چاہئیے ) تب آپﷺ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے اصحاب کے ساتھ انصاف نہ کیا (یا ہمارے اصحاب نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا) (پہلی صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ انصاف نہ کیا یعنی قریش بیٹھے رہے اور انصار شہید ہو گئے قریش کو بھی نکلنا تھا دوسری صورت میں یہ معنی ہوں گے ہمارے اصحاب جو جان بچا کر بھاگ گئے انہوں نے انصاف نہ کیا کہ ان کے بھائی شہید ہوئے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں رہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : احد کے دن نبیﷺ کے زخمی ہونے کا بیان۔
1162: سیدنا ابو حازم سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے سنا، جب ان سے رسول اللہﷺ کے احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور آپﷺ کے دانت ٹوٹ گئے اور آپﷺ کے سر پر خود ٹوٹا (تو سر کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی) پھر آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خون دھوتی تھیں اور سیدنا علیؓ اس پر سے پانی ڈالتے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون اور زیادہ نکلتا ہے تو انہوں نے بورئیے کا ایک ٹکڑا جلا کر راکھ زخم پر بھر دی تب خون بند ہوا۔

1163: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا دانت احد کے دن ٹوٹا اور سر پر زخم لگا۔ آپﷺ خون کو صاف کرتے جاتے اور فرماتے تھے کہ اس قوم کی فلاح کیسے ہو گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اور اس کا دانت توڑا حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا تھا۔ اس وقت یہ آیت اتری کہ "تمہارا کچھ اختیار نہیں اللہ تعالیٰ چاہے ان کو معاف کرے اور چاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں" (آل عمران : 128)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی طرف سے احد کے دن جبریل اور میکائیل علیہم السلام کا لڑنا۔
1164: فاتح ایران سیدنا سعدبن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے اُحد کے دن رسول اللہﷺ کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپﷺ کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے ) اس سے پہلے اور اسکے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا وہ جبرئیل اورمیکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کا غصہ اس پر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہﷺ نے قتل کیا ہو۔
1165: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غصہ ان لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کیا اور آپﷺ اپنے دانت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر (بھی) بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کریں (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبر کو مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آپﷺ حد یا قصاص میں ماریں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آپﷺ کی قوم سے آپﷺ کو جو تکلیف پہنچی اس کا بیان۔
1166: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے ) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنانہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقامِ) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرئیلؑ تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا اور جو انہوں نے آپ کو جواب دیا سن لیا ہے۔ اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشتے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اور کہا کہ اے محمدﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپﷺ کے رب نے آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کروں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابو قبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے ) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)؟۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ (میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے (سبحان اللہ کیا شفقت تھی آپﷺ کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ ان کی تکلیف گوارا کرتے )۔

1167: سیدنا جندب بن سفیانؓ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہﷺ کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں ہے تو مگر ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بے حقیقت ہے )۔

1168: سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اپنے دوستوں سمیت بیٹھا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابو جہل نے کہا کہ تم میں سے کون جا کر اس کی بچہ دانی لاتا ہے اور اس کو محمدﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان میں رکھ دیتا ہے جب کہ وہ سجدے میں جائیں؟ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اٹھا اور لا کر رسول اللہﷺ جب سجدے میں گئے ، تو آپﷺ کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں وہ بچہ دانی رکھ دی۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا، مجھے اگر زور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے )، تو میں اس کو آپﷺ کی پیٹھ سے پھینک دیتا اور رسول اللہﷺ سجدے ہی میں رہے اور آپﷺ نے سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر کی تو وہ آئیں اور اس وقت وہ لڑکی تھیں اور اس کو آپﷺ کی پیٹھ سے اتارا اور پھر ان لوگوں کی طرف آئیں اور ان کو بُرا کہا۔ جب آپﷺ نماز پڑھ چکے ، تو بلند آواز سے ان پر بددعا کی۔ اور آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپﷺ دعا کرتے تو تین بار دعا کرتے اور جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! قریش کو سزا دے۔ تین بار آپﷺ نے فرمایا: اور وہ لوگ آپﷺ کی آواز سن کر آپﷺ کی بددعاء سے ڈر گئے اور ان کی ہنسی جاتی رہی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! تو ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو برباد کر دے اور ساتویں کا نام مجھے یاد نہیں رہا(بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے )۔ پھر قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا کہ میں نے ان سب لوگوں کو جن کا نام آپﷺ نے لیا تھا، بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے دیکھا کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنوئیں میں ڈالی گئیں (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابو اسحاق نے کہا کہ ولید بن عقبہ کا نام اس حدیث میں غلط ہے۔
 
Top