• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : انبیاء علیہم السلام کا اپنی قوم کی تکلیف پر صبر کرنا۔
1169: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ گویا کہ میں (اب بھی) رسول اللہﷺ کو دیکھ رہا ہوں، کہ آپﷺ ایک پیغمبر کا حال بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حوصلے کا کیا کہنا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ابو جہل کا قتل۔
1170: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابو جہل کی خبر کون لاتا ہے ؟ یہ سن کر سیدنا ابن مسعودؓ گئے تو دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا تھا کہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا(یعنی قریب المرگ تھا) سیدنا ابن مسعودؓ نے اس کی ڈاڑھی پکڑی اور کہا کہ تو ابو جہل ہے ؟ وہ بولا کہ کیا تم نے اس شخص (ابو جہل) سے زیادہ مرتبے والے شخص کو قتل کیا ہے ؟ (یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجے کا نہیں) یا اس نے کہا کسی بڑے آدمی کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے جو مجھ سے بڑا ہو؟(یعنی اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابو مجلز نے کہا کہ ابو جہل نے کہا کہ کاش کاشتکار کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ۔
1171: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے ؟ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو بڑی تکلیف دی ہے۔ سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپﷺ کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں؛ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے اجازت دیجئے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ اپا نے فرمایا کہ تجھے اختیار ہے۔ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہؓ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمدا ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے ، اللہ کی قسم آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم اُس کا اتباع کر چکے ہیں اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا۔لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے اس نے کہا ٹھک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابی عبس بن جبر اور عباد بن بشر کو بھی ساتھ لائے گا۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔وہ قلعہ سے نیچے اتر کر اُن کے پاس آنے لگا۔ اُس کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہؓ اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں) عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ شریک بھائی ابو نائلہ ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہؓ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے )۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے ، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔ کعب نے جواب دیا کہ ہاں! میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہؓ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ محمد بن مسلمہؓ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے ؟ اس نے کہا ہاں ہے۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ رقاع کا بیان۔
1172: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے۔ ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پیر پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے ، تو ہم نے اپنے پیروں پر پٹیاں باندھ لیں، اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔ ابو بردہ (راوی) نے کہا کہ یہ حدیث ابو موسیٰؓ نے ایک مرتبہ سنائی پھر (ریا کاری کے خوف سے ) بیان نہیں کرتے تھے۔ اور ابو اسامہ نے کہا کہ برید کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ زیادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ احزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے۔
1173: سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا: اگر میں رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں ہوتا، تو آپﷺ کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں کوشش کرتا۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا۔ کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوہ احزاب کی رات کو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے ؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔ یہ سن کر ہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے )۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے ؟ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا۔ کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپﷺ نے فرمایا کہ اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔ اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپﷺ نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔ (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپﷺ کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپﷺ کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے ) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابو سفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے ، تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہﷺ کا فرمان یا د آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتا تو بیشک ابو سفیان کو مار لیتا۔آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا،اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپﷺ کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپﷺ نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپﷺ نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے !

1174: سیدنا براءؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ غزوہ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے (جب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی)اور مٹی نے آپﷺ کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپﷺ یہ فرما رہے تھے : قسم اللہ تعالیٰ کی اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ تو ہم پر اپنی رحمت کو اتار ان لوگوں (یعنی مکہ والوں) نے ہمارا کہنا نہ مانا (یعنی ایمان نہ لائے )اور ایک روایت میں ہے کہ سرداروں نے ہمارا کہنا نہ مانا۔ جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں (یعنی شرک اور کفر وغیرہ) تو ہم ان کے شریک نہیں ہوتے اور یہ آپﷺ بلند آواز سے فرماتے تھے۔

1175: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے اصحاب خندق کے دن یہ رجز پڑھ رہے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدﷺ سے اسلام پر یا جہاد پر بیعت کی ہے (اس وقت تک) جب تک ہم زندہ رہیں اور رسول اللہﷺ یہ رجز پڑھ رہے تھے : اے اللہ! بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بنی قریظہ کا بیان۔
1176: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب آپﷺ غزوہ احزاب سے لوٹے ، تو آپﷺ نے منادی کی کہ کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے محلہ میں۔بعض لوگ ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ نماز قضا ہو جائے۔ انہوں نے وہاں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم نہیں پڑھیں گے مگر جہاں رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ پھر آپﷺ دونوں گروہوں میں سے کسی گروہ پر خفا نہیں ہوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ ذی قرد کا بیان۔
1177: سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع)ؓ نے بیان کیا، کہا ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں پہنچے اور ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہور روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنوئیں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا)۔ پھر رسول اللہﷺ نے کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر یا تو دعا کی یا کنوئیں میں دہن مبارک ڈالا، تو وہ اسی وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا۔ اس کے بعد نبیﷺ نے ہمیں بیعت کے لئے درخت کی جڑ میں بلایا۔ (اسی درخت کو شجرۂ رضوان کہتے ہیں اور اسی درخت کا ذکر قرآن پاک میں ہے ) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں سے آپﷺ سے بیعت کی۔ پھر آپﷺ بیعت لیتے رہے ، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے تو اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! بیعت کر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں تو اوّل ہی آپﷺ سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر دوبارہ ہی سہی اور آپﷺ نے مجھے نہتا (بے ہتھیار دیکھا) تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی۔ پھر آپﷺ بیعت لینے لگے ، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے۔ اس وقت آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں تو آپﷺ سے اوّل لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں پھر درمیان کے لوگوں میں بھی۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر سہی۔ غرض میں نے تیسری بار آپﷺ سے بیعت کی پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ! تیری وہ بڑی یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا چچا عامر مجھے ملا اور وہ نہتا تھا، تو میں نے وہ اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپﷺ ہنسے اور آپﷺ نے فرمایا کہ تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔ پھر مشرکوں نے صلح کے پیغام بھیجے ، یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی۔ سلمہ نے کہا کہ میں طلحہ بن عبید اللہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا اسی کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اور میں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ہجرت کر کے اپنا گھر بار، دھن دولت سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا، تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے صاف کئے اور جڑ کے پاس لیٹ گیا کہ اتنے میں مکہ کے چار آدمی مشرکوں میں سے آئے اور رسول اللہ کو بُرا کہنے لگے۔ مجھے غصہ آیا اور (مصلحت کی بناء پر) میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے۔ وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی کہ دوڑو اے مہاجرین ابن زنیم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا جو سو رہے تھے۔ ان کے ہتھیار میں نے لے لئے اور ایک گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے ، پھر کہا کہ قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو عزت دی، تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں اس کا وہ عضو کہ جس میں اس کی ہیں (یعنی سر) تن سے جدا کر دوں گا۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس لایا اور میرا چچا عامر عبلات (جو کہ قریش کی ایک شاخ ہے ) میں سےایک شخص کو لایا جس کو مکرز کہتے تھے۔ وہ اس کو ایسے گھوڑے پر کھینچتا ہوا لایا جس پر جھول پڑی تھی مشرکین کے ستر آدمیوں کے ساتھ۔ رسول اللہﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ان کو چھوڑ دو، مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو، پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہدشکنی ایک بار نہیں دوبار ہو تو ہمیں بدلہ لینا بُرا نہیں)۔ آخر رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کو معاف کر دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری "اس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (لڑائی سے ) روکا مکہ کی سرحد میں جب تم کو ان پر فتح دے چکا تھا..." (پوری آیت)۔ (الفتح:24) پھر ہم مدینہ کو لوٹے راستے میں ایک منزل پر اترے جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا رسول اللہﷺ نے اس شخص کے لئے دعا کی جو رات کو اس پہاڑ پر چڑھ جائے اور آپ اور آپﷺ کے اصحاب کا کا پہرہ دے۔ میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا) پھر ہم مدینہ میں پہنچے ، تو رسول اللہﷺ نے اپنی اونٹنیاں اپنے غلام رباح کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا اور میں اس کے ساتھ طلحہؓ کا گھوڑا لئے ہوئے انہیں پانی پلانے کے لئے ندی پر لانے کے لئے نکلا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری (مشرک) نے آپﷺ کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا کہ اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہﷺ کو خبر کر کہ کافروں نے آپﷺ کی اونٹنیاں لوٹ لیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اورمدینہ کی طرف منہ کر کے میں نے تین بار آواز دی کہ یاصباحاہ، یا صباحاہ (یہ الفاظ حملہ کے وقت اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لئے بولے جاتے تھے )۔ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے تیر مارتا اور رجز پڑھتا ہوا روانہ ہوا۔ (رجز یہ تھا) میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو (کاٹھی کو چیر کر) اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا اور کہتا: یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ پھر اللہ کی قسم میں ان کو برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا۔ جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا، تو میں درخت کے نیچے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مار کر سوار یا گھوڑے کو زخمی کر دیتا تھا، یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے ، تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کر دیئے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہﷺ کی سواری کا تھا، نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا ہو اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوعؓ نے چھین لئے )۔ سیدنا سلمہؓ نے کہا کہ پھر میں ان کے پیچھے تیر مارتا ہوا چلا، یہاں تک کہ انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لئے پھینک دیئے۔ اور جو چیز وہ پھینکتے اس پر میں پتھر کا ایک نشان رکھ دیتا تاکہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اسے اٹھالیں)، یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا اور وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھے گئے۔ اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ فزاری نے کہا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے کہ اس نے تو شخص نے ہمیں تنگ کر چھوڑا ہے۔ اللہ کی قسم اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے ، باربر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا کہ تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے ، جب وہ اتنی دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں، تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن اپنے آپ کو بوجہ شہرت کے دادا کی طرف منسوب کیا) قسم اس ذات کی جس نے محمدﷺ کو بزرگی دی کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں گا (تیر سے ) مار ڈالوں گا اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ سب لوٹے اور میں وہاں سے چلا نہیں تھا کہ رسول اللہﷺ کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے۔ ان کے پیچھے سیدنا ابو قتادہ ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندیؓ تھے نے سیدنا اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا کہ اے اخرم جب تک رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے اصحاب نہ آ جائیں تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اے سلمہ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا یقین ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو مجھ کو شہادت سے مت روک (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ سے شہید ہوں گا تو اس سے بہتر کیا ہے ؟) میں نے ان کو چھوڑ دیا ان کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا۔ اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمن نے برچھی سے اخرم کو شہید کر دیا۔ اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا کہ اتنے میں سیدنا ابو قتادہ ص، رسول اللہﷺ کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمن کو برچھا مار کر قتل کر دیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمدﷺ کو بزرگی دی کہ میں ان کے پیچھے گیا۔ میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے نبیﷺ کا کوئی صحابی دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا۔ وہ پیاسے تھے اور پانی پینے کو اترے۔ پھر مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، تو آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا کہ وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ اب وہ کسی گھاٹی کی طرف دوڑتے تو میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر اس کے شانے کی ہڈی میں مارا اور میں نے کہا کہ یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔ وہ بولا اس کی ماں اس پر روئے (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے ) کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں اے اپنی جان کے دشمن! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ ابن اکوعؓ نے کہا کہ ان لٹیروں کے دو گھوڑے (دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو) انہوں نے ان کوچھوڑ دیا۔ تو میں ان گھوڑوں کو ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس ایک گھاٹی میں لایا۔ وہاں مجھے عامرؓ ملے۔ جن کے پاس ایک برتن میں دودھ اور ایک میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوعؓ کی ہمت کہ صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے ، اونٹ تھک گئے ، لوگ مر گئے مال رہ گئے لیکن سلمہ بن اکوعؓ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ یہ اللہ جل جلالہ کی خاص مدد تھی جو اس کی راہ میں ہمت و استقامت کے ساتھ چلنے والوں کو ملتی ہے ) پھر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ نے سارے اونٹ لے لئے ہیں اور وہ سب چیزیں (بھی) جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں اور وہ نیزے اور چادریں۔ اور سیدنا بلالؓ نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نحر (ذبح) کیا جو میں نے چھینے تھے اور وہ رسول اللہﷺ کے لئے اس کی تلی اور کوہان کا گوشت بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے لشکر میں سے سو آدمی لینے کی اجازت دیجئے میں ان لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جو (اپنی قوم کو) جا کر خبر دے سکے یہ سن کر آپﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپﷺ کی داڑھیں آگ کی روشنی میں ظاہر ہو گئیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے سلمہ تو یہ کر سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں اس اللہ کی قسم جس نے آپﷺ کو بزرگی دی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے اور وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔ اتنے میں غطفان میں سے ایک شخص آیا اور وہ بولا کہ فلاں شخص نے ان کے لئے ایک اونٹ کاٹا تھا اور وہ اس کی کھال نکال رہے تھے کہ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آ گئے اور وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح کے وقت آپﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر ابو قتادہؓ ہیں اور پیادوں (پیدل فوج) میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوعؓ ہیں۔ سلمہؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ نے مجھے دو حصے دئیے ایک حصہ سوار کا اور ایک پیادے (پیدل) کا اور دونوں میرے لئے جمع کر دیئے۔ پھر اس کے بعد آپﷺ نے مدینہ کو لوٹتے وقت مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھا لیا۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کہ کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور بار بار یہی کہتا تھا۔ جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا کہ تو بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں کرتا۔ اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے کہا نہیں البتہ رسول اللہﷺ کی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں مجھے چھوڑ دیجئے میں اس مرد سے دوڑ میں آگے بڑھوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا اگر تیرا جی چاہے۔ تب میں نے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کر کے کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو میں نے اپنا سانس بحال کیا پھر اس کے پیچھے دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور کہا کہ اللہ کی قسم اب میں آگے بڑھا۔ پھر اس سے آگے مدینہ کو پہنچا (تو معلوم ہوا کہ بغیر کسی لالچ و انعام کے مقابلہ بازی درست ہے اور انعام وغیرہ کی شکل میں اختلاف ہے۔ اکثر انعام وغیرہ کی شکل میں دھوکے بازی، سٹے بازی وغیرہ کا معمول بن چکا ہے ) پھر اللہ کی قسم ہم صرف تین رات ٹھہرے تھے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور میرے چچا عامرؓ نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ "اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پرواہ نہیں ہوئے تو ہمارے پاؤں کو جمائے رکھ اگر ہم کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسکین ہمارے اوپر اتار"۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ عامرؓ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو بخشے۔ سلمہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب کسی کے لئے خاص طور پر استغفار کرتے ، تو وہ ضرور شہید ہوتا۔ سیدنا عمرؓ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آپﷺ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سلمہؓ نے کہا کہ پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار لہراتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھ رہا تھا کہ "خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں" یہ سن کر میرے چچا عامر اس سے مقابلے کو نکلے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا کہ "میں عامر ہوں پورا ہتھیار بند، لڑائی میں گھسنے والا" پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامرؓ نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سلمہ نے کہا کہ پھر میں نکلا اور اصحابِ رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عامرؓ کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہﷺ کے پاس روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! عامرؓ کا عمل لغو ہو گیا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کون کہتا ہے ؟ میں نے کہا کہ آپﷺ کے بعض اصحاب کہتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے کہا جھوٹ کہا۔ نہیں! بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے مجھے سیدنا علیؓ کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو دوست رکھتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ اس کو دوست رکھتے ہیں (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح دے گا اور وہ بھاگنے والا نہیں ہے )۔ سلمہؓ نے کہا کہ پھر میں سیدنا علیؓ کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لایا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے پاس لے آیا۔ آپﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ پھر آپﷺ نے ان کو جھنڈا دیا۔ مرحب وہی رجز پڑھتے ہوئے "خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند، بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں" سیدنا علیؓ نے اس کے جواب میں کہا کہ "میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے ، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں اُن کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)" پھر سیدنا علیؓ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبیﷺ کی صلح کا بیان۔
1178: سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ بیت اللہ کے قریب (وہاں جانے سے ) روکے گئے اور مکہ والوں نے آپﷺ سے اس شرط پر صلح کی کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر لائیں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو (مشرکوں کا ساتھ قبول کر کے ) رہ جائے تو اس کو منع نہ کریں۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ اچھا اس شرط کو لکھو کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہﷺ نے فیصلہ کیا، تو مشرک بولے کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، تو آپﷺ کی اطاعت ہی کر لیتے یا آپﷺ سے بیعت کرتے بلکہ یہ لکھئے کہ محمد بن عبد اللہﷺ نے فیصلہ کیا۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ کو رسول اللہﷺ کا لفظ مٹانے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتاؤ۔ سیدنا علیؓ نے بتا دی، تو آپﷺ نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبد اللہ لکھ دیا (جب دوسرا سال ہوا تو آپﷺ تشریف لائے )۔ پھر تین روز تک مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا، تو مشرکوں نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے اب ان سے جانے کو کہو، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا اور آپﷺ نکل آئے۔

1179: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ﴿اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً ...﴾ (الفتح:5-1) آخر تک تو آپﷺ حدیبیہ سے لوٹ کر آ رہے تھے اور صحابہؓ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپﷺ نے حدیبیہ میں قربانی کے جانوروں کو ذبح و نحر کر دیا تھا (کیونکہ کافروں نے مکہ میں آنے نہ دیا)، تب آپﷺ نے فرمایا کہ میرے اوپر ایک آیت اتری ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : غزوہ خیبر کا بیان۔
1180: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی، تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں لوٹا (یعنی چاندی اور سونا ہاتھ نہیں آیا) بلکہ ہم نے اسباب، اناج اور کپڑے کا مال غنیمت حاصل کیا۔ پھر ہم وادی کی طرف چلے اور رسول اللہﷺ کے ساتھ آپﷺ کا ایک غلام تھا (جس کانام مدغم تھا) جو آپﷺ کو جذام میں سے ایک شخص جس کا نام رفاعہ بن زیدتھا، نے ہبہ کیا تھا اور وہ بنی ضبیب میں سے تھا۔ جب ہم وادی میں اترے اور رسول اللہﷺ کا غلام کھڑا ہوا آپﷺ کا کجاوہ کھول رہا تھا کہ اتنے میں ایک (غیبی) تیر اس کو لگا جس میں اس کی موت تھی۔ ہم لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مبارک ہو وہ شہید ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے کہ وہ چادر اس پر آگ کی طرح سلگ رہی ہے جو اس نے مالِ غنیمت میں سے خیبر کے دن لے لی تھی اور اس وقت تک غنیمت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ سن کر لوگ ڈر گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ میں نے خیبر کے دن ان کو پایا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ تسمہ یا تسمے آگ کے ہیں (یعنی اگر تو ان کو واپس نہ کرتا تو یہ تسمہ انگارہ ہو کر قیامت کے دن تجھ پر لپٹتا یا تجھے ان تسموں کی وجہ سے عذاب ہوتا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فتح کے بعد مہاجرین کا انصار کو عطیہ میں دی ہوئی چیزیں واپس کرنا۔
1181: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ مہاجرین مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کو خالی ہاتھ آئے تھے اور انصار کے پاس زمین تھی اور درخت تھے (یعنی کھیت بھی تھے اور باغ بھی)، تو انصار نے مہاجرین کو اپنا مال اس طور سے بانٹ دیا کہ آدھا میوہ ہر سال ان کو دیتے اور وہ کام اور محنت کرتے۔ سیدنا انس بن مالک کی والدہ جن کا نام اُمّ سلیم تھا اور وہ عبد اللہ بن ابی طلحہ کی ماں بھی تھیں جو سیدنا انس کے مادری بھائی تھے ، انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنا کھجور کا ایک درخت دیا تو رسول اللہﷺ نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ باندی اُمّ ایمن کو دے دیا جو کہ اسامہ بن زیدؓ کی والدہ تھیں۔ (اس سے معلوم ہوا کہ اُمّ سلیم نے وہ درخت آپﷺ کو ہبہ کے طور پر دیا تھا اور وہ صرف میوہ کھانے کو دیتیں تو آپﷺ اُمّ ایمن کو کس طرح دیتے ) ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سیدنا انس بن مالکؓ نے خبر دی کہ پھر جب رسول اللہﷺ خیبر کی لڑائی سے فارغ ہو کر مدینہ لوٹے ، تو مہاجرین نے انصار کو ان کی دی ہوئی چیزیں بھی لوٹا دیں اور رسول اللہﷺ نے بھی میری ماں کو ان کا باغیچہ لوٹا دیا۔ اور اُمّ ایمن کو اس کی جگہ اپنے باغ سے دے دیا ابن شہاب نے کہا کہ اُمّ ایمن جو اسامہ بن زید کی والدہ تھیں وہ عبد اللہ بن عبدالمطلب کی (جو رسول اللہﷺ کے والد تھے ) لونڈی تھیں اور وہ حبشہ کی تھیں۔ جب آمنہ نے رسول اللہﷺ کو آپﷺ کے والد کی وفات کے بعد جنا، تو وہ آپﷺ کی پرورش کرتی تھیں۔ آپﷺ نے بڑے ہو کر ان کو آزاد کر دیا پھر ان کا نکاح زید بن حارثہؓ سے پڑھا دیا اور وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے پانچ مہینے بعد فوت ہو گئیں۔
 
Top