Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپﷺ کا مکہ والوں پر احسان۔
1182: سیدنا عبد اللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہؓ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبد اللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہؓ اکثر ہمیں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں، تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابو ہریرہؓ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتاہوں پھر انہوں نے فتہ مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیرؓ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولیدؓ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں، وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہﷺ ایک ٹکرے میں تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا ابو ہریرہ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس انصاری کے علاوہ کوئی نہ آئے اور شیبان کے علاوہ دوسرے راوی نے یہ اضافہ کیا کہ انصار کو میرے لئے پکارو۔ کیونکہ آپﷺ کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپﷺ نے ان کا رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپﷺ کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کئے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔ پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا کہ تم مجھ سے صفا پر ملو۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابو سفیانؓ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپﷺ نے ابو سفیانؓ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہﷺ کو) اپنے وطن کی محبت آ گئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپﷺ کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم حاضر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت آ گئی؟ انہوں نے کہا کہ بیشک یہ تو ہم نے کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔ نصاریٰ نے جیسے عیسیٰؑ کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپﷺ ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ اور رسول اللہﷺ تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لئے ) ابو سفیان کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے اور رسول اللہﷺ حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو چوما، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپﷺ احرام سے نہ تھے کیونکہ آپﷺ کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے ، آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپﷺ اس کا کونا تھامے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ "حق آگیا اور باطل مٹ گیا" جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔ (الاسرا:81)۔
1182: سیدنا عبد اللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہؓ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبد اللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہؓ اکثر ہمیں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں، تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابو ہریرہؓ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)۔ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتاہوں پھر انہوں نے فتہ مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیرؓ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولیدؓ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں، وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہﷺ ایک ٹکرے میں تھے۔ آپﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا کیا ابو ہریرہ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس انصاری کے علاوہ کوئی نہ آئے اور شیبان کے علاوہ دوسرے راوی نے یہ اضافہ کیا کہ انصار کو میرے لئے پکارو۔ کیونکہ آپﷺ کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپﷺ نے ان کا رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپﷺ کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کئے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔ پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا کہ تم مجھ سے صفا پر ملو۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابو سفیانؓ آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپﷺ نے ابو سفیانؓ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہﷺ کو) اپنے وطن کی محبت آ گئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہمیں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپﷺ کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم حاضر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت آ گئی؟ انہوں نے کہا کہ بیشک یہ تو ہم نے کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا۔ نصاریٰ نے جیسے عیسیٰؑ کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپﷺ ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ اور رسول اللہﷺ تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لئے ) ابو سفیان کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لئے اور رسول اللہﷺ حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو چوما، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپﷺ احرام سے نہ تھے کیونکہ آپﷺ کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے ، آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپﷺ اس کا کونا تھامے ہوئے تھے جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ "حق آگیا اور باطل مٹ گیا" جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔ (الاسرا:81)۔