• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدینہ حرم نہیں فقہ حنفی شریف میں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جو پوچھا وہ تو بتا دیں​
کہ صحیح حدیث آ جانے کی صورت میں اقوال کی کیا اہمیت ہے​
آپ سے گزارش ہے کہ آپ صرف یہ بتا دیں کہ فقہ حنفی میں مدینہ حرم ہے یا نہیں​
ہرگز نہیں بتاؤں گا جب تک آپ ان حضرات پر حکم نہ لگا دیں۔ ڈر کیوں رہے ہیں حکم لگاتے ہوئے؟ کوئی حنفی ہوتا تو فورا لگا دیتے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ہرگز نہیں بتاؤں گا جب تک آپ ان حضرات پر حکم نہ لگا دیں۔ ڈر کیوں رہے ہیں حکم لگاتے ہوئے؟ کوئی حنفی ہوتا تو فورا لگا دیتے۔


تمھارے بتانے یا نہ بتانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا​
ہمارے نزدیک جس کسی کی بات بھی قرآن اور صحیح احادیث سے ٹکرا جا ے گا - ہم رد کر دیں گے​
لیکن آپ تو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ مدینہ حرم ہے​
اور نہ یہ کہہ سکتے کہ مدینہ حرم نہیں​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
تحقیق تو تب کروں گا جب یہ صاحب کاپی پیسٹ کے بجائے یہاں یہ اشکال لکھ دیں گے۔ جواب بھی تب ہی دوں گا ان شاء اللہ۔
لیکن تصویر میں ثوری اور عبد اللہ بن مبارک کا قول بھی ذکر ہے۔ مخالف حدیث کیا وہ بھی ہیں؟ اور مخالفت کی صورت میں ان کی حدیث مقبول ہوگی کہ نہیں؟
محمد ارسلان بھائی کیا آپ ان سے لکھ کر اعتراض کرنے کی درخواست نہیں کرسکتے؟ میری درخواست پر انہوں نے اس لیے عمل نہیں کرنا کہ اس طرح یہ جواب ملنے سے بچ جاتے ہیں۔
ابتسامہ۔۔۔
جواب سے تو "کوئی"اور بچ رہا ہے بھائی۔
اور یونیکوڈ میں ہو یا اس صورت میں ،تحریر تو واضح ہے۔۔۔۔یونیکوڈ میں کرنے سے بات بدل تو نہیں جائے گی نہ!!! آپ اعتراض کا مطالبہ کرتے ہیں ،تو وہ بھی صاف ظاہر ہے ۔بہتر ہے موضوع پر ہی بات کریں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تمھارے بتانے یا نہ بتانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا​
ہمارے نزدیک جس کسی کی بات بھی قرآن اور صحیح احادیث سے ٹکرا جا ے گا - ہم رد کر دیں گے​
لیکن آپ تو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ مدینہ حرم ہے​
اور نہ یہ کہہ سکتے کہ مدینہ حرم نہیں​
ثوری اور عبد اللہ بن مبارکؒ پر حکم تو لگا دیں۔
؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابتسامہ۔۔۔
جواب سے تو "کوئی"اور بچ رہا ہے بھائی۔
اور یونیکوڈ میں ہو یا اس صورت میں ،تحریر تو واضح ہے۔۔۔۔یونیکوڈ میں کرنے سے بات بدل تو نہیں جائے گی نہ!!! آپ اعتراض کا مطالبہ کرتے ہیں ،تو وہ بھی صاف ظاہر ہے ۔بہتر ہے موضوع پر ہی بات کریں۔
نہیں میری بہن۔ انہوں نے تو ایک جملہ اٹھا کر دیدیا ہے صرف۔ حالاں کہ اس میں بھی لکھا ہے کہ مدینہ مکہ کی طرح تمام معاملات میں حرم نہیں ہے۔
اگر یہ پوری بحث پڑھتے یا پڑھ سکتے تو موقف واضح ہوجاتا۔ یہ حدیث مؤول ہے اور امام مدینہؒ نے بھی اس میں تاویل کی ہے۔ دوسری احادیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں۔ لیکن نہ انہوں نے مکمل تفصیل اپنے اس عالم سے لی جس کی یہ اندھی تقلید کر رہے ہیں اور نہ اس نے دی۔
حیرت ہے مقلد تو آپ لوگ ہمیں بولتے ہیں۔
یہ یونیکوڈ میں لکھیں گے اور ثوری اور عبد اللہ بن مبارک کا حکم بتائیں گے تو آگے بات چلے گی۔ اگر احناف نے حدیث کی مخالفت کی ہے اور احناف برے ہیں تو یہ کیوں نہیں؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ثوری اور عبد اللہ بن مبارکؒ پر حکم تو لگا دیں۔
؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں


جس کسی کی بات بھی قرآن اور صحیح احادیث سے ٹکرا جا ے گا - ہم رد کر دیں گے​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اشماریہ
وہ کون سے معاملات میں جن میں مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم نہیں ہے؟ اور یہ استدلال آپ نے کہاں سے کشید کیا، یہ بھی بتائیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جس کسی کی بات بھی قرآن اور صحیح احادیث سے ٹکرا جا ے گا - ہم رد کر دیں گے​
جی کیجیے رد۔ لیکن میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ قرآن و حدیث کے مخالف بات کرنے پر یہ آئیندہ حدیث قبول کرنے کے لیے قابل اعتماد رہے ہیں آپ کے نزدیک یا نہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ
وہ کون سے معاملات میں جن میں مدینہ بھی مکہ کی طرح حرم نہیں ہے؟ اور یہ استدلال آپ نے کہاں سے کشید کیا، یہ بھی بتائیں۔
ارسلان بھائی اگر نا پسند کیے بغیر یہ پوچھ لیتے تب بھی بتا ہی دیتا میرے بھائی۔

مدینہ شکار اور درخت کاٹنے کے سلسلے میں حرم مکی کی طرح نہیں ہے۔
مسلم کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی ابو عمیر کے پاس ایک نغیر (ایک پرندہ) تھا جس سے وہ کھیلتے تھے۔ وہ مرگیا تو نبی ﷺ نے ان سے اس کا پوچھا۔ اس واقعہ کو طحاوی اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔
امام طحاوی کہتے ہیں کہ اگر حرم مدینہ مکہ کی طرح ہوتا تو نبی ﷺ اس نغیر کو پکڑنے اور اس سے کھیلنے کی اجازت نہ دیتے جیسے مکہ میں اجازت نہیں۔
دوسری روایت طحاویؒ نے کی ہے کہ آل رسول ﷺ کا ایک وحشی جانور تھا (جو انسان کے پالتو نہیں ہو سکتے وہ وحشی کہلاتے ہیں) جو خوب کھیلتا کودتا تھا اور جب نبی ﷺ کی آہٹ پاتا تو خاموش ہو جاتا تھا۔ اگر مدینہ حرم ہوتا مکہ کی طرح تو نبی ﷺ اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع رض سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں شکار کی جگہ بتائی۔ حالاں کہ حرم میں یہ جائز نہیں ہے۔

اس حدیث کا کیا مطلب ہے پھر جو یہاں مروی ہے جس میں شکار اور درخت اکھاڑنا منع ہے؟ تو اس حدیث میں مدینہ کی زینت کو ختم کرنے سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے جیسا کہ مدینہ کی بلند عمارتوں اور قلعوں کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے اسی وجہ سے۔ اسی لئے ابن نافع نے مالکؒ سے اس نہی کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مدینہ کی بوٹیاں کاٹنے سے اس لیے منع کیا ہے تاکہ مدینہ وحشت ناک نہ ہو جائے اور درخت کاٹنے سے اس لیے تاکہ ان سے یہ اچھا لگے اور ہجرت کرنے والے ان کے سائے میں بیٹھ سکیں۔

یہ ساری بحث اسی حوالے کے آگے اور پیچھے خود علامہ عینیؒ نے ذکر کی ہے لیکن برا ہو اس اندھی تقلید کا کہ جس نے میرے لولی بھائی کو اپنے عالم سے پوچھنے اور اصلی جگہ دکھا کر ترجمہ کروانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ بس احناف کے خلاف اعتراض مل گیا۔ جاؤ کر دو۔ آخر کیوں؟ کیا یہ تقلید نہیں ہے؟

ارسلان بھائی ایک اصول آپ کو بتاتا چلوں کہ احادیث میں تطبیق کی جاتی ہے اگر ان کا معنی باہم معارض محسوس ہو رہا ہو۔ احناف کا طرز اس سلسلے میں اکثر یہ رہتا ہے کہ ایک پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑنے کے بجائے اس کا مناسب مطلب بیان کیا جائے۔ دیگر ائمہ بھی یہ کرتے ہیں اور بسا اوقات ایک کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔
ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ احناف کا دماغ نہیں چلا تھا کہ تیرہ سو سال سے مسلم دنیا کا اکثر حصہ رہے اور پھر بھی احادیث کے خلاف چلتے رہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں کیا فائدہ تھا؟ اس لیے انہوں نے بھی تمام چیزوں پر غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد مسئلہ اخذ کیا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ فقہ جس کا حکومت میں کافی دخل رہا ہے چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتا۔ حکومت کوئی کمزور چیز تو نہیں کر سکتی تھی اس دور میں۔
 
Top