• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدینہ حرم نہیں فقہ حنفی شریف میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی اگر نا پسند کیے بغیر یہ پوچھ لیتے تب بھی بتا ہی دیتا میرے بھائی۔

مدینہ شکار اور درخت کاٹنے کے سلسلے میں حرم مکی کی طرح نہیں ہے۔
مسلم کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی ابو عمیر کے پاس ایک نغیر (ایک پرندہ) تھا جس سے وہ کھیلتے تھے۔ وہ مرگیا تو نبی ﷺ نے ان سے اس کا پوچھا۔ اس واقعہ کو طحاوی اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔
امام طحاوی کہتے ہیں کہ اگر حرم مدینہ مکہ کی طرح ہوتا تو نبی ﷺ اس نغیر کو پکڑنے اور اس سے کھیلنے کی اجازت نہ دیتے جیسے مکہ میں اجازت نہیں۔
دوسری روایت طحاویؒ نے کی ہے کہ آل رسول ﷺ کا ایک وحشی جانور تھا (جو انسان کے پالتو نہیں ہو سکتے وہ وحشی کہلاتے ہیں) جو خوب کھیلتا کودتا تھا اور جب نبی ﷺ کی آہٹ پاتا تو خاموش ہو جاتا تھا۔ اگر مدینہ حرم ہوتا مکہ کی طرح تو نبی ﷺ اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع رض سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں شکار کی جگہ بتائی۔ حالاں کہ حرم میں یہ جائز نہیں ہے۔

اس حدیث کا کیا مطلب ہے پھر جو یہاں مروی ہے جس میں شکار اور درخت اکھاڑنا منع ہے؟ تو اس حدیث میں مدینہ کی زینت کو ختم کرنے سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے جیسا کہ مدینہ کی بلند عمارتوں اور قلعوں کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے اسی وجہ سے۔ اسی لئے ابن نافع نے مالکؒ سے اس نہی کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مدینہ کی بوٹیاں کاٹنے سے اس لیے منع کیا ہے تاکہ مدینہ وحشت ناک نہ ہو جائے اور درخت کاٹنے سے اس لیے تاکہ ان سے یہ اچھا لگے اور ہجرت کرنے والے ان کے سائے میں بیٹھ سکیں۔

یہ ساری بحث اسی حوالے کے آگے اور پیچھے خود علامہ عینیؒ نے ذکر کی ہے لیکن برا ہو اس اندھی تقلید کا کہ جس نے میرے لولی بھائی کو اپنے عالم سے پوچھنے اور اصلی جگہ دکھا کر ترجمہ کروانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ بس احناف کے خلاف اعتراض مل گیا۔ جاؤ کر دو۔ آخر کیوں؟ کیا یہ تقلید نہیں ہے؟

ارسلان بھائی ایک اصول آپ کو بتاتا چلوں کہ احادیث میں تطبیق کی جاتی ہے اگر ان کا معنی باہم معارض محسوس ہو رہا ہو۔ احناف کا طرز اس سلسلے میں اکثر یہ رہتا ہے کہ ایک پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑنے کے بجائے اس کا مناسب مطلب بیان کیا جائے۔ دیگر ائمہ بھی یہ کرتے ہیں اور بسا اوقات ایک کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔
ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ احناف کا دماغ نہیں چلا تھا کہ تیرہ سو سال سے مسلم دنیا کا اکثر حصہ رہے اور پھر بھی احادیث کے خلاف چلتے رہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں کیا فائدہ تھا؟ اس لیے انہوں نے بھی تمام چیزوں پر غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد مسئلہ اخذ کیا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ فقہ جس کا حکومت میں کافی دخل رہا ہے چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتا۔ حکومت کوئی کمزور چیز تو نہیں کر سکتی تھی اس دور میں۔
بھائی "ناپسند" کی ریٹ پوسٹ میں موجود آپ کی بات کے لئے تھی، ناکہ آپ سے کسی ذاتی دشمنی کی خاطر۔
آپ نے علمی نکتہ بیان کیا، اس پر میں خضر حیات بھائی کر ٹیگ کر رہا ہوں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
مدینہ شکار اور درخت کاٹنے کے سلسلے میں حرم مکی کی طرح نہیں ہے۔

صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 823 حدیث مرفوع مکررات 4 متفق علیہ 3

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي أَحْمَدَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا

ابوبکر بن ابی شبیہ، عمرو، ابی احمد، ابوبکر، محمد بن عبد اللہ، سفیان، ابوزبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں مدینہ کے دونوں طرف کے پتھریلے علاقے کے درمیانی حصہ میں سے نہ کوئی درخت کاٹا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی جانور کا شکار کیا جا سکتا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اگر مدینہ حرم ہوتا مکہ کی طرح تو نبی ﷺ اس کی اجازت نہیں دیتے۔



صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 822 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2

و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ خَطَبَ النَّاسَ فَذَکَرَ مَکَّةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَلَمْ يَذْکُرْ الْمَدِينَةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا فَنَادَاهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ فَقَالَ مَا لِي أَسْمَعُکَ ذَکَرْتَ مَکَّةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَلَمْ تَذْکُرْ الْمَدِينَةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَقَدْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا وَذَلِکَ عِنْدَنَا فِي أَدِيمٍ خَوْلَانِيٍّ إِنْ شِئْتَ أَقْرَأْتُکَهُ قَالَ فَسَکَتَ مَرْوَانُ ثُمَّ قَالَ قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ ذَلِکَ

عبد اللہ بن مسلمہ بن قعنب، سلیمان بن بلال عتبہ، بن مسلم، حضرت نافع بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے مکہ اور مکہ کے رہنے والوں اور مکہ کی حرمت کا تذکرہ کیا تو رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروان کو پکارا اور فرمایا کہ میں تجھ سے کیا سن رہا ہوں کہ تو مکہ اور مکہ والوں کا اور مکہ کی حرمت کا ذکر کر رہا ہے اور تو مدینہ اور مدینہ کے رہنے والوں اور مدینہ کی حرمت کا ذکر نہیں کر رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پتھریلے علاقے کے دونوں کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے اور یہ حکم نامہ ہمارے پاس خولانی چمڑے پر لکھا ہوا موجود ہے اگر تو چاہے تو میں اس سے پڑھ کر سناؤں راوی کہتے ہیں کہ مروان خاموش ہوگیا پھر کہا میں نے کچھ اسی طرح سنا ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
مسلم کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی ابو عمیر کے پاس ایک نغیر (ایک پرندہ) تھا جس سے وہ کھیلتے تھے۔ وہ مرگیا تو نبی ﷺ نے ان سے اس کا پوچھا۔ اس واقعہ کو طحاوی اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔

امام طحاوی کہتے ہیں کہ اگر حرم مدینہ مکہ کی طرح ہوتا تو نبی ﷺ اس نغیر کو پکڑنے اور اس سے کھیلنے کی اجازت نہ دیتے جیسے مکہ میں اجازت نہیں۔
دوسری روایت طحاویؒ نے کی ہے کہ آل رسول ﷺ کا ایک وحشی جانور تھا (جو انسان کے پالتو نہیں ہو سکتے وہ وحشی کہلاتے ہیں) جو خوب کھیلتا کودتا تھا اور جب نبی ﷺ کی آہٹ پاتا تو خاموش ہو جاتا تھا۔ اگر مدینہ حرم ہوتا مکہ کی طرح تو نبی ﷺ اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع رض سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں شکار کی جگہ بتائی۔ حالاں کہ حرم میں یہ جائز نہیں ہے۔


صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 846 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 5
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو کُرَيْبٍ جَمِيعًا عَنْ أَبِي أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ وَابْنِ نُمَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ کَثِيرٍ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَکَّةَ قَالَ ثُمَّ کَانَ أَبُو سَعِيدٍ يَأْخُذُ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَجِدُ أَحَدَنَا فِي يَدِهِ الطَّيْرُ فَيَفُکُّهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ يُرْسِلُهُ
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ ابن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ، ابوبکر ابن انمیر، ابواسامہ، ولید بن کثیر، سعید بن عبدالرحمن، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کے ہاتھ میں مدینہ میں پرندہ دیکھ لیتے تو اس کے ہاتھ سے اس کو چھڑا لیتے اور آزاد کر دیتے۔





۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ارسلان بھائی اگر نا پسند کیے بغیر یہ پوچھ لیتے تب بھی بتا ہی دیتا میرے بھائی۔
مدینہ شکار اور درخت کاٹنے کے سلسلے میں حرم مکی کی طرح نہیں ہے۔
۔۔۔
۔۔۔۔
بھائی "ناپسند" کی ریٹ پوسٹ میں موجود آپ کی بات کے لئے تھی، ناکہ آپ سے کسی ذاتی دشمنی کی خاطر۔
آپ نے علمی نکتہ بیان کیا، اس پر میں خضر حیات بھائی کر ٹیگ کر رہا ہوں۔
اشماریہ بھائی !
آپ پہلے یہ وضاحت فرمادیں کہ آپ ان دونوں باتوں میں کس کے قائل ہیں :
1۔ مدینہ اور مکہ دونوں حرم ہیں البتہ دونوں میں فرق ہے ۔
2۔حرم صرف مکہ ہے ۔ مدینہ حرم نہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی !
آپ پہلے یہ وضاحت فرمادیں کہ آپ ان دونوں باتوں میں کس کے قائل ہیں :
1۔ مدینہ اور مکہ دونوں حرم ہیں البتہ دونوں میں فرق ہے ۔
2۔حرم صرف مکہ ہے ۔ مدینہ حرم نہیں ۔
خضر بھائی۔
جو حوالہ دیا ہوا ہے اس میں لکھے ہوئے کے مطابق مدینہ حرم ہے لیکن مکہ سے فرق ہے۔ غالبا یہ دونوں خونریزی وغیرہ میں مشترک ہوں گے۔
میری ذاتی اس پر تحقیق نہیں ہے نہ ہی علماء دیوبند کا موقف معلوم ہے اس لیے میری اپنی رائے کے لیے معذرت۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 846 حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 5
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو کُرَيْبٍ جَمِيعًا عَنْ أَبِي أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ وَابْنِ نُمَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ کَثِيرٍ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَکَّةَ قَالَ ثُمَّ کَانَ أَبُو سَعِيدٍ يَأْخُذُ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَجِدُ أَحَدَنَا فِي يَدِهِ الطَّيْرُ فَيَفُکُّهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ يُرْسِلُهُ
ابوبکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبداللہ ابن نمیر، ابوکریب، ابواسامہ، ابوبکر ابن انمیر، ابواسامہ، ولید بن کثیر، سعید بن عبدالرحمن، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی حصہ کو حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کے ہاتھ میں مدینہ میں پرندہ دیکھ لیتے تو اس کے ہاتھ سے اس کو چھڑا لیتے اور آزاد کر دیتے۔





۔
محترم دوبارہ پوسٹ پڑھیے۔
ابو سعید رض وغیرہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور امام شافعی و احمد نے بھی۔ اور ثوری، عبد اللہ بن مبارک، فقہاء احناف وغیرہم نے دوسری روایات سے استدلال کیا ہے۔ اور مالک نے اس حدیث کا معنی مؤول بیان کیا ہے۔
اگر آپ ان روایات کا جواب بھی عرض کر دیں تو یہ ایک علمی کاوش ہوگی۔ وگرنہ بہر صورت آپ انہیں متہم نہیں کر سکتے۔ وہ جس انداز میں احادیث کو سمجھے اور جو تطبیق کی اس پر عمل پیرا ہیں مخالف حدیث نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
خضر بھائی۔
جو حوالہ دیا ہوا ہے اس میں لکھے ہوئے کے مطابق مدینہ حرم ہے لیکن مکہ سے فرق ہے۔ غالبا یہ دونوں خونریزی وغیرہ میں مشترک ہوں گے۔
میری ذاتی اس پر تحقیق نہیں ہے نہ ہی علماء دیوبند کا موقف معلوم ہے اس لیے میری اپنی رائے کے لیے معذرت۔
واہ بھئی واہ۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ نہ تحقیق ہوتی ہے نا موقف معلوم ہوتا ہے۔۔۔ بس ایسے ہی کہہ دیتے ہیں آپ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر بھائی۔
جو حوالہ دیا ہوا ہے اس میں لکھے ہوئے کے مطابق مدینہ حرم ہے لیکن مکہ سے فرق ہے۔ غالبا یہ دونوں خونریزی وغیرہ میں مشترک ہوں گے۔
میری ذاتی اس پر تحقیق نہیں ہے نہ ہی علماء دیوبند کا موقف معلوم ہے اس لیے میری اپنی رائے کے لیے معذرت۔
حالیہ ’’ لڑی ‘‘ کے عنوان میں دعوی ہے کہ ’’ فقہ حنفی شریف کےمطابق مدینہ حرم نہیں ‘‘ ۔
اور چونکہ دعوی کی دلیل بزبان حنفی عالم دین بیان کردی گئی ۔ جس کی آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی تردید نہیں ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں دعوی درست ہے ۔ واللہ اعلم ۔
علامہ عینی کے بیان ’’ ليس للمدينة حرم كما كان لمكة ‘‘ سے کا آپ نے یہ مفہوم لیاہے کہ مدینہ حرم ہے لیکن مکہ کی طرح نہیں ۔
جبکہ مجھے اس کو جو مفہوم سمجھ آیا ہے وہ یوں ہے : مدینہ حرم نہیں ہے بخلاف مکہ کہ وہ حرم ہے ۔
بہر صورت یہ دونوں احتمال ہیں آپ کے نزدیک پہلا قوی ہے مجھے دوسرا بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ چونکہ آپ حنفی ہیں اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فقہ حنفی کے دیگر مصادر سے اس مسئلہ میں حنفی موقف کی وضاحت فرمائیں ۔
میں نےجو احتمال درست سمجھا ہے اس سے ملتا جلتا آپ کو ایک تاریخی فیصلہ بھی مل جائے گا کہ 1378 ہجری میں جب مدینہ منورہ کی حدود کی تحدید کامعاملہ پیش آیا اور سعودی حکومت کی طرف سے مفتی المملکۃ محمد بن إبراہیم کی سرپرستی میں مختلف مسالک کے علماء کی مجلس تشکیل دی گئی تو اس میں حنفی علماء شامل نہیں تھے وجہ اس کی انہوں نے یہی بتائی کہ ’’ احناف کے نزدیک چونکہ مدینہ حرم ہے ہی نہیں لہذا ان کے نزدیک حدود مقرر کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا ‘‘
یہ دستاویز شیخ محمد بن إبراہیم کے مجموعہ ’’ فتاوی و رسائل الشیخ محمد بن إبراہیم ‘‘ کی جلد نمبر 5 ص 233 پر موجود ہے :
جرى دراسة ما جاء في المعاملة من أوامر، وما اشتملت عليه من بيانات، بما فيها الأوراق المتضمنة نقل الأحاديث ولآثار الواردة في حدود حرم المدينة، وكلام العلماء عليها من أهل المذاهب الثلاثة وغيرهم، ماعدا علماء الحنفية فليس في مذهبهم إثبات حرم للمدينة أصلاً
یہ تو تھی ایک تاریخی دستاویز
لیکن چونکہ یہاں بات اہل مذہب کی ہی معتبر ہوگی لہذا ہم اس سلسلےمیں حنفی موقف کے منتظر رہیں گے ۔
ایک بات کا اور اضافہ مفید رہے گا کہ :
آپ نے جتنی احادیث پیش کی ہیں ان سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہےکہ مدینہ مکہ مکرمہ کی طرح حرم نہیں ۔ لیکن ان میں اس بات کی صراحت نہیں کہ مدینہ سرے سے حرم ہے ہی نہیں ۔
 
Top