• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدینہ حرم نہیں فقہ حنفی شریف میں

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
واہ بھئی واہ۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ نہ تحقیق ہوتی ہے نا موقف معلوم ہوتا ہے۔۔۔ بس ایسے ہی کہہ دیتے ہیں آپ
جو اعتراض کیا ہے اس کا جواب دیا ہے جناب۔ اور اسی جگہ سے۔
آپ کو کوئی پریشانی؟؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حالیہ ’’ لڑی ‘‘ کے عنوان میں دعوی ہے کہ ’’ فقہ حنفی شریف کےمطابق مدینہ حرم نہیں ‘‘ ۔
اور چونکہ دعوی کی دلیل بزبان حنفی عالم دین بیان کردی گئی ۔ جس کی آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی تردید نہیں ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں دعوی درست ہے ۔ واللہ اعلم ۔
علامہ عینی کے بیان ’’ ليس للمدينة حرم كما كان لمكة ‘‘ سے کا آپ نے یہ مفہوم لیاہے کہ مدینہ حرم ہے لیکن مکہ کی طرح نہیں ۔
جبکہ مجھے اس کو جو مفہوم سمجھ آیا ہے وہ یوں ہے : مدینہ حرم نہیں ہے بخلاف مکہ کہ وہ حرم ہے ۔
بہر صورت یہ دونوں احتمال ہیں آپ کے نزدیک پہلا قوی ہے مجھے دوسرا بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ چونکہ آپ حنفی ہیں اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فقہ حنفی کے دیگر مصادر سے اس مسئلہ میں حنفی موقف کی وضاحت فرمائیں ۔
میں نےجو احتمال درست سمجھا ہے اس سے ملتا جلتا آپ کو ایک تاریخی فیصلہ بھی مل جائے گا کہ 1378 ہجری میں جب مدینہ منورہ کی حدود کی تحدید کامعاملہ پیش آیا اور سعودی حکومت کی طرف سے مفتی المملکۃ محمد بن إبراہیم کی سرپرستی میں مختلف مسالک کے علماء کی مجلس تشکیل دی گئی تو اس میں حنفی علماء شامل نہیں تھے وجہ اس کی انہوں نے یہی بتائی کہ ’’ احناف کے نزدیک چونکہ مدینہ حرم ہے ہی نہیں لہذا ان کے نزدیک حدود مقرر کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا ‘‘
یہ دستاویز شیخ محمد بن إبراہیم کے مجموعہ ’’ فتاوی و رسائل الشیخ محمد بن إبراہیم ‘‘ کی جلد نمبر 5 ص 233 پر موجود ہے :
جرى دراسة ما جاء في المعاملة من أوامر، وما اشتملت عليه من بيانات، بما فيها الأوراق المتضمنة نقل الأحاديث ولآثار الواردة في حدود حرم المدينة، وكلام العلماء عليها من أهل المذاهب الثلاثة وغيرهم، ماعدا علماء الحنفية فليس في مذهبهم إثبات حرم للمدينة أصلاً
یہ تو تھی ایک تاریخی دستاویز
لیکن چونکہ یہاں بات اہل مذہب کی ہی معتبر ہوگی لہذا ہم اس سلسلےمیں حنفی موقف کے منتظر رہیں گے ۔
ایک بات کا اور اضافہ مفید رہے گا کہ :
آپ نے جتنی احادیث پیش کی ہیں ان سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہےکہ مدینہ مکہ مکرمہ کی طرح حرم نہیں ۔ لیکن ان میں اس بات کی صراحت نہیں کہ مدینہ سرے سے حرم ہے ہی نہیں ۔
ٹھیک ہے بھائی مجھے موقع ملے گا تو ان شاء اللہ تفصیلا دیکھ کر عرض کروں گا۔ اصل میں کتب فقہ میں غالبا یہ موضوع نہیں ہوتا اور باقاعدہ طور پر مشہور کتب حدیث کا میرا ابتدائی سال ہے۔ امید ہے اگلے سال بخاری یا مسلم میں اس کی بحث آجائے گی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ دستاویز شیخ محمد بن إبراہیم کے مجموعہ ’’ فتاوی و رسائل الشیخ محمد بن إبراہیم ‘‘ کی جلد نمبر 5 ص 233 پر موجود ہے :
جرى دراسة ما جاء في المعاملة من أوامر، وما اشتملت عليه من بيانات، بما فيها الأوراق المتضمنة نقل الأحاديث ولآثار الواردة في حدود حرم المدينة، وكلام العلماء عليها من أهل المذاهب الثلاثة وغيرهم، ماعدا علماء الحنفية فليس في مذهبهم إثبات حرم للمدينة أصلاً
اس دستاویز میں مکہ اور مدینہ کے حرم ہونے میں تین چیزوں میں فرق بھی بیان کیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ بخاری و مسلم کی احادیث کو ترجیح دے کر دیگر میں تاویل و تطبیق کی گئی ہے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
اور احناف کی مندرجہ بالا عبارت کے مطابق دیگر روایات پر اعتماد کر کے بخاری و مسلم کی روایات کو تطبیق دی گئی ہے۔
اپنی اپنی سمجھ ہے۔
اس پر تفصیلا موقف دیکھوں گا تو پھر اس پر مزید بات کریں گے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خضر حیات بھائی
میں نے کافی دیر تلاش و جستجو کی لیکن مجھے اس سلسلے میں احناف کا صرف ایک ہی حوالہ ملا ہے زمانہ قریب کا۔
جہاں سے میں نے لال لکیر کھینچی ہے وہاں سے آخر تک ملاحظہ فرمائیے:۔

Fath ul mulhim 6 by ishmaria, on Flickr

Fath ul mulhim 6(1) by ishmaria, on Flickr
اس سے تو ظاہرا یوں لگتا ہے کہ احناف کے مختار قول کے مطابق یہ حرم ہی ہے لیکن یہاں صراحت نہیں ہے اس لیے واللہ اعلم

ان تمام ادلہ و اجوبہ پر مرقاۃ میں ملا علی قاریؒ نے کافی تفصیلی اور پر مغز بحث فرمائی ہے۔ اگر آپ وہاں مطالعہ فرما لیں۔
اور اگر کہیں تو یہاں کاپی کر دوں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
رد المحتار میں ہے:۔
(قوله لا حرم للمدينة عندنا) أي خلافا للأئمة الثلاثة. قال في الكافي: لأنا عرفنا حل الاصطياد بالنص القاطع، فلا يحرم إلا بدليل قطعي ولم يوجد. قال ابن المنذر: وقال الشافعي في الجديد ومالك في المشهور وأكثر من لقينا من علماء الأمصار: لا جزاء على قاتل صيده ولا على قاطع شجره. وأوجب الجزاء ابن أبي ليلى وابن أبي ذئب وابن نافع المالكي، وهو القديم للشافعي ورجحه النووي، وتمامه في المعراج

مجھے نہیں علم کہ اس قول کو اختیار کیا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن دونوں اطراف کے دلائل اور طرق استدلال کا خلاصہ پیش کر دیتا ہوں:۔
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک: مدینہ مکہ کی طرح حرم ہے۔
قول مذکور کے مطابق: مدینہ کا حرم نہیں۔ حدیث میں مراد کنایہ از تعظیم اور وحشت و خرابی سے بچانا ہے۔

حرم کے اس ہونے نہ ہونے کی بحث اس مقام پر شکار اور درختوں کو کاٹنے کے سلسلے میں ہے۔

ائمہ ثلاثہ کے دلائل:
وہ احادیث جن میں مدینہ کے حرم کا ذکر ہے اور وہ احادیث جن میں مدینہ کے مکہ کی طرح حرم کا ذکر ہے۔
جیسے:۔


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَمْرٌو النَّاقِدُ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي أَحْمَدَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا
مسلم




و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ خَطَبَ النَّاسَ فَذَکَرَ مَکَّةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَلَمْ يَذْکُرْ الْمَدِينَةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا فَنَادَاهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ فَقَالَ مَا لِي أَسْمَعُکَ ذَکَرْتَ مَکَّةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَلَمْ تَذْکُرْ الْمَدِينَةَ وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا وَقَدْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا وَذَلِکَ عِنْدَنَا فِي أَدِيمٍ خَوْلَانِيٍّ إِنْ شِئْتَ أَقْرَأْتُکَهُ قَالَ فَسَکَتَ مَرْوَانُ ثُمَّ قَالَ قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ ذَلِکَ
مسلم



حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَأَبُو کُرَيْبٍ جَمِيعًا عَنْ أَبِي أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَکْرٍ وَابْنِ نُمَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ کَثِيرٍ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَکَّةَ قَالَ ثُمَّ کَانَ أَبُو سَعِيدٍ يَأْخُذُ وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَجِدُ أَحَدَنَا فِي يَدِهِ الطَّيْرُ فَيَفُکُّهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ يُرْسِلُهُ
مسلم


حدثنا أبو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم أبو عبد الرحمن الأحول، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏المدينة حرم، من كذا إلى كذا، لا يقطع شجرها، ولا يحدث فيها حدث، من أحدث حدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين‏"‏‏.
بخاری


لیکن حرم میں شکار بھی منع ہے اور درختوں کا کاٹنا بھی۔ اور حرم مکی کے درختوں کے کاٹنے وغیرہ پر جزا بھی ہے جب کہ حرم مدنی میں نہیں۔ چنانچہ اس فرق کو بیان کرنے اور ان احادیث سے تطبیق کرنے کے لیے جن میں حرم مدنی میں شکار کے قید کا ذکر ہے تین فرق بیان کیے گئے ہیں:۔


ولا يفوتني أن نذكر هنا تتميماً للفائدة أن حرم المدينة يخالف حرم مكة في ثلاثة أشياء.
أولاً: أن صيده وقطع شجره لا جزاء فيه بخلاف حرم مكة.
ثانيًا: أن من أدخله صيدًا من خارج الحرم جاز له إمساكه وذبحه بدليل قوله صلى الله عليه وسلم: "يا أبا عمير ما فعل النغير" وهذا بخلاف حرم مكة.
ثالثًا: جواز قطع ما تدعو حاجة الفلاحين إليه من آلات الحرث والرحل كالمساند وغيرها.
فتاوی و رسائل



دوسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ حدیث نغیر تحریم سے پہلے کی ہے۔ اوپر جن صفحات کے اسکین میں نے دیے ہیں ان پر تحریر تو فتح الملہم ہے لیکن تشریح بعینہ منہاج شرح نووی کی ہے۔ نہ جانے کتاب میں فرق ہے یا یہاں مولف نے یہی نقل کی ہے۔


قوله صلى الله عليه وسلم (إن إبراهيم حرم مكة) هذا دليل لمن يقول إن تحريم مكة إنما هو كان في زمن إبراهيم صلى الله عليه وسلم والصحيح أنه كان يوم خلق الله السماوات والأرض وقد سبقت المسألة مستوفاة قريبا وذكروا في تحريم إبراهيم احتمالين أحدهما أنه حرمها بأمر الله تعالى له بذلك لا باجتهاده فلهذا أضاف التحريم إليه تارة وإلى الله تعالى تارة والثاني أنه دعا لها فحرمها الله تعالى بدعوته فأضيف التحريم إليه لذلك قوله صلى الله عليه وسلم (وإني حرمت المدينة كما حرم إبراهيم مكة وذكر مسلم الأحاديث التي بعده بمعناه هذه الأحاديث حجة ظاهرة للشافعي ومالك وموافقيهما في تحريم صيد المدينة وشجرها وأباح أبو حنيفة ذلك واحتج له بحديث يا أبا عمير ما فعل النغير وأجاب أصحابنا بجوابين أحدهما أنه يحتمل أن حديث النغير كان قبل تحريم المدينة والثاني يحتمل أنه صاده من الحل لا من حرم المدينة وهذا الجواب لا يلزمهم على أصولهم لأن مذهب الحنفية أن صيد الحل إذا أدخله الحلال إلى الحرم ثبت له حكم الحرم ولكن أصلهم هذا ضعيف فيرد عليهم بدليله والمشهور من مذهب مالك والشافعي والجمهور أنه لا ضمان في صيد المدينة وشجرها بل هو حرام بلا ضمان وقال بن أبي ذئب وبن أبي ليلى يجب فيه الجزاء كحرم مكة وبه قال بعض المالكية وللشافعي قول قديم أنه يسلب القاتل لحديث سعد بن أبي وقاص الذي ذكره مسلم بعد هذا قال القاضي عياض لم يقل بهذا القول أحد بعد الصحابة إلا الشافعي في قوله القديم والله أعلم
شرح النووی


حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں دلائل کا رد اور اشکالات کا حل کرتے ہوئے تفصیلی بحث فرمائی ہے:۔
ومما يدل على أن المراد بقوله في حديث أنس من كذا إلى كذا جبلان ما وقع عند مسلم من طريق إسماعيل بن جعفر عن عمرو بن أبي عمرو عن أنس مرفوعا اللهم إني أحرم ما بين جبليها لكن عند المصنف في الجهاد وغيره من طريق محمد بن جعفر ويعقوب بن عبد الرحمن ومالك كلهم عن عمرو بلفظ ما بين لابتيها وكذا في حديث أبي هريرة ثالث أحاديث الباب وسيأتي بعد أبواب من وجه آخر وكذا في حديث رافع بن خديج وأبي سعيد وسعد وجابر وكلها عند مسلم وكذا رواه أحمد من حديث عبادة الزرقي والبيهقي من حديث عبد الرحمن بن عوف والطبراني من حديث أبي اليسر وأبي حسين وكعب بن مالك كلهم بلفظ ما بين لابتيها واللابتان جمع لابة بتخفيف الموحدة وهي الحرة وهي الحجارة السود وقد تكرر ذكرها في الحديث ووقع في حديث جابر عند أحمد وأنا أحرم المدينة ما بين حرتيها فادعى بعض الحنفية أن الحديث مضطرب لأنه وقع في رواية ما بين جبليها وفي رواية ما بين لابتيها وفي رواية مأزميها وتعقب بأن الجمع بينهما واضح وبمثل هذا لا ترد الأحاديث الصحيحة فإن الجمع لو تعذر أمكن الترجيح ولا شك أن رواية ما بين لابتيها أرجح لتوارد الرواة عليها ورواية جبليها لا تنافيها فيكون عند كل لابة جبل أو لابتيها من جهة الجنوب والشمال وجبليها من جهة الشرق والغرب وتسمية الجبلين في رواية أخرى لا تضر وأما رواية مأزميها فهي في بعض طرق حديث أبي سعيد والمأزم بكسر الزاي المضيق بين الجبلين وقد يطلق على الجبل نفسه واحتج الطحاوي بحديث أنس في قصة أبي عمير ما فعل النغير قال لو كان صيدها حراما ما جاز حبس الطير وأجيب باحتمال أن يكون من صيد الحل قال أحمد من صاد من الحل ثم أدخله المدينة لم يلزمه إرساله لحديث أبي عمير وهذا قول الجمهور لكن لا يرد ذلك على الحنفية لأن صيد الحل عندهم إذا دخل الحرم كان له حكم الحرم ويحتمل أن تكون قصة أبي عمير كانت قبل التحريم واحتج بعضهم بحديث أنس في قصة قطع النخل لبناء المسجد ولو كان قطع شجرها حراما ما فعله صلى الله عليه وسلم وتعقب بأن ذلك كان في أول الهجرة كما سيأتي واضحا في أول المغازي وحديث تحريم المدينة كان بعد رجوعه صلى الله عليه وسلم من خيبر كما سيأتي في حديث عمرو بن أبي عمرو عن أنس في الجهاد وفي غزوة أحد من المغازي واضحا وقال الطحاوي يحتمل أن يكون سبب النهي عن صيد المدينة وقطع شجرها كون الهجرة كانت إليها فكان بقاء الصيد والشجر مما يزيد في زينتها ويدعو إلى ألفتها كما روى بن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن هدم آطام المدينة فإنها من زينة المدينة فلما انقطعت الهجرة زال ذلك وما قاله ليس بواضح لأن النسخ لا يثبت إلا بدليل وقد ثبت على الفتوى بتحريمها سعد وزيد بن ثابت وأبو سعيد وغيرهم كما أخرجه مسلم وقال بن قدامة يحرم صيد المدينة وقطع شجرها وبه قال مالك والشافعي وأكثر أهل العلم وقال أبو حنيفة لا يحرم ثم من فعل مما حرم عليه فيه شيئا أثم ولا جزاء عليه في رواية لأحمد وهو قول مالك والشافعي في الجديد وأكثر أهل العلم وفي رواية لأحمد وهو قول الشافعي في القديم وبن أبي ذئب واختاره بن المنذر وبن نافع من أصحاب مالك وقال القاضي عبد الوهاب إنه الأقيس واختاره جماعة بعدهم فيه الجزاء وهو كما في حرم مكة وقيل الجزاء في حرم المدينة أخذ السلب لحديث صححه مسلم عن سعد بن أبي وقاص وفي رواية لأبي داود من وجد أحدا يصيد في حرم المدينة فليسلبه قال القاضي عياض لم يقل بهذا بعد الصحابة إلا الشافعي في القديم قلت واختاره جماعة معه وبعده لصحة الخبر فيه ولمن قال به اختلاف في كيفيته ومصرفه والذي دل عليه صنيع سعد عند مسلم وغيره أنه كسلب القتيل وأنه للسالب لكنه لا يخمس وأغرب بعض الحنفية فادعى الإجماع على ترك الأخذ بحديث السلب ثم استدل بذلك على نسخ أحاديث تحريم المدينة ودعوى الإجماع مردودة فبطل ما ترتب عليها قال بن عبد البر لو صح حديث سعد لم يكن في نسخ أخذ السلب ما يسقط الأحاديث الصحيحة ويجوز أخذ العلف لحديث أبي سعيد في مسلم ولا يخبط فيها شجرة إلا لعلف ولأبي داود من طريق أبي حسان عن علي نحوه وقال المهلب في حديث أنس دلالة على أن المنهي عنه في الحديث الماضي مقصور على القطع الذي يحصل به الإفساد فأما من يقصد الإصلاح كمن يغرس بستانا مثلا فلا يمتنع عليه قطع ما كان بتلك الأرض من شجر يضر بقاؤه قال وقيل بل فيه دلالة على أن النهي إنما يتوجه إلى ما أنبته الله من الشجر مما لا صنع للآدمي فيه كما حمل عليه النهي عن قطع شجر مكة وعلى هذا يحمل قطعه صلى الله عليه وسلم النخل وجعله قبلة المسجد ولا يلزم منه النسخ المذكور قوله لا يقطع شجرها في رواية يزيد بن هارون لا يختلى خلاها وفي حديث جابر عند مسلم لا يقطع عضاهها ولا يصاد صيدها ونحوه عنده عن سعد
فتح الباری



دلائل احناف:۔
وہ روایات جن میں شکار، وحوش کو قید کرنے اور درختوں کو کاٹنے کا ذکر ہے۔ اگر مدینہ حرم ہوتا تو یہ درست نہ ہوتا۔ مکہ کے علاوہ کا حل ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے جب کہ مدینہ کے حرم ہونے کی نصوص محتمل ہیں اس لیے ان کی بنا پر یہ حکم لگانا درست نہیں۔ جیسے:۔


حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا أبو التياح، قال: سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه، يقول: إن كان النبي صلى الله عليه وسلم ليخالطنا، حتى يقول [ص:31] لأخ لي صغير: «يا أبا عمير، ما فعل النغير»
بخاری

حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا وكيع، عن شعبة، عن أبي التياح، قال: سمعت أنس بن مالك يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: يخالطنا حتى يقول لأخ لي صغير: يا أبا عمير ما فعل النغير؟ " قال: وكيع: يعني طيرا كان يلعب به
سنن ابن ماجہ



حدثنا وكيع، حدثنا شعبة، عن أبي التياح قال: سمعت أنس بن مالك يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا حتى يقول لأخ لي صغير: «يا أبا عمير، ما فعل النغير» طير كان يلعب به قال: ونضح بساط لنا قال: فصلى عليه، وصفنا خلفه
مسند احمد



حدثنا يحيى بن أيوب، حدثنا شعيب بن حرب، حدثنا يونس بن أبي إسحاق، حدثنا مجاهد، عن عائشة قالت: «كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم وحش، فكان يقبل ويدبر، فإذا دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ربض فلم يترمرم كراهية أن يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم»
حكم حسين سليم أسد : رجاله رجال الصحيح
مسند ابو یعلی

یونس بن ابی اسحاق پر تھوڑی سی جرح ہے لیکن وہ مسلم کے راوی ہیں۔

جن احادیث میں حرم ہونے اور درختوں کے نہ کاٹنے کا ذکر ہے ان میں تاویل کر کے دونوں کو آپس میں تطبیق دی گئی ہے کہ وہاں مراد تعظیما حرم کی طرح ہے اور یہ کاٹنے سے بجوہ دیگر منع کیا گیا ہے۔ طحاویؒ اس پر بحث فرماتے ہیں:۔


حدثنا فهد، قال: ثنا أبو نعيم، قال: ثنا عمارة بن زاذان، عن ثابت، عن أنس، رضي الله عنه قال: كان لي أخ , فكان النبي صلى الله عليه وسلم يستقبله ويقول: «يا أبا عمير , ما فعل النغير» قال أبو جعفر: فهذا قد كان بالمدينة , ولو كان حكم صيدها كحكم صيد مكة , إذا لما أطلق له رسول الله صلى الله عليه وسلم حبس النغير , ولا اللعب به , كما لا يطلق ذلك بمكة. فقال قائل: فقد يجوز أن يكون هذا كان بقباء , وذلك الموضع , غير الموضع المحرم , فلا حجة لكم في هذا الحديث. فنظرنا , هل نجد فيما سوى هذا الحديث ما يدل على شيء من حكم صيد المدينة فإذا عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي , وفهد بن سليمان , قد حدثانا , قالا: ثنا أبو نعيم , قال: ثنا يونس بن أبي إسحاق , عن مجاهد قال: قالت عائشة رضي الله عنها: «كان لآل رسول الله صلى الله عليه وسلم وحش , فإذا خرج , لعب واشتد , وأقبل وأدبر , فإذا أحس برسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قد دخل , ربض فلم يترمرم , كراهية أن يؤذيه» فهذا بالمدينة , في موضع قد دخل فيما حرم منها , وقد كانوا يأوون فيه الوحش , ويتخذونها , ويغلقون دونها الأبواب. فقد دل هذا أيضا , على أن حكم المدينة في ذلك , خلاف حكم مكة وقد حدثنا ابن أبي داود , قال: ثنا ابن أبي قتيلة المدني , قال: ثنا محمد بن طلحة التيمي , عن موسى بن محمد بن إبراهيم , عن أبيه , عن سلمة بن الأكوع , أنه كان يصيد ويأتي النبي صلى الله عليه وسلم من صيده فأبطأ عليه , ثم جاءه. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما الذي حبسك؟» ، فقال: يا رسول الله , انتفى عنا الصيد , فصرنا نصيد ما بين نبت وإلى قناة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما إنك لو كنت تصيد بالعقيق , لشيعتك إذا ذهبت , وتلقيتك إذا جئت فإني أحب العقيق»
حدثنا حسين بن نصر، قال: ثنا نعيم بن حماد، قال: ثنا محمد بن طلحة التيمي، عن موسى بن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن سلمة بن الأكوع، رضي الله عنه , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله
حدثنا أحمد بن داود، قال: أخبرنا إبراهيم بن المنذر الحزامي، قال: ثنا محمد بن طلحة، قال: حدثني موسى بن محمد بن إبراهيم بن الحارث بن خالد التيمي، ثم ذكر بإسناده مثله ففي هذا الحديث , ما يدل على إباحة صيد المدينة , ألا ترى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد دل سلمة , وهو بها , على موضع الصيد , وذلك لا يحل بمكة. ألا ترى أن رجلا لو دل , وهو بمكة , رجلا على صيد من صيدها , كان آثما. فلما كانت المدينة في ذلك , ليست كمكة , ثبت أن حكم صيدها , خلاف حكم صيد مكة , وفي هذا الحديث أيضا إباحة صيد العقيق. وقد روينا عن سعد , في الفصل الأول عن النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك , ما قد روينا , ففي هذا , ما يخالفه. فأما ما في حديث سعد من إباحة سلب الذي يصيد صيد المدينة , فإن ذلك، عندنا والله أعلم كان في وقت ما كانت العقوبات التي تجب بالمعاصي في الأموال. فمن ذلك ما قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم في الزكاة أنه قال: من أداها طائعا , فله أجرها , ومن لا , أخذناها منه وشطر ماله. وما روي عنه , فيمن سرق ثمرا من أكمامه أن عليه غرامة مثليه , في نظائر من ذلك كثيرة , قد ذكرناها في موضعها من كتابنا هذا. ثم نسخ ذلك , في وقت نسخ الربا , فرد الأشياء المأخوذة إلى أمثالها , إن كان لها أمثال , وإلى قيمتها إن كان لا مثل لها , وجعلت العقوبات في انتهاك الحرم في الأبدان , لا في الأموال. فهذا وجه ما روي في صيد المدينة. وأما حكم ذلك من طريق النظر , فإذا رأينا مكة حراما , وصيدها وشجرها كذلك , هذا ما لا اختلاف بين المسلمين فيه. ثم رأينا من أراد دخول مكة , لم يكن له أن يدخلها إلا حراما , فكان دخول الحرم , لا يحل لحلال كانت حرمة صيده وشجره , كحرمته في نفسه. ثم رأينا المدينة , كل قد أجمع أنه لا بأس بدخولها للرجل حلالا , فلما لم تكن محرمة في نفسها , كان حكم صيدها وشجرها , كحكمها في نفسها. وكما كان صيد مكة إنما حرم لحرمتها , ولم تكن المدينة في نفسها حراما , لم يكن صيدها , ولا شجرها حراما. فثبت بذلك قول من ذهب إلى أن صيد المدينة وشجرها كصيد سائر البلدان وشجرها غير مكة. وهذا أيضا قول أبي حنيفة , وأبي يوسف , ومحمد رحمة الله عليهم أجمعين
شرح معانی الآثار

ابن حجرؒ کے ہم زمانہ علامہ عینیؒ بحث کرتے ہوئے اور اشکالات کو حل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔


ذكر ما يستفاد منه: احتج بهذا الحديث محمد بن أبي ذئب والزهري والشافعي ومالك وأحمد وإسحاق، وقالوا: المدينة لها حرم فلا يجوز قطع شجرها ولا أخذ صيدها، ولكنه لا يجب الجزاء فيه عندهم، خلافا لابن أبي ذئب، فإنه قال: يجب الجزاء، وكذلك لا يحل سلب من يفعل ذلك عندهم إلا الشافعي، وقال في القديم: من اصطاد في المدينة صيدا أخذ سلب، ويروي فيه أثرا عن سعيد، وقال في الجديد بخلافه، وقال ابن نافع: سئل مالك عن قطع سدر المدينة وما جاء فيه من النهي؟ فقال: إنما نهى عن قطع سدر المدينة لئلا توحش وليبقى فيها شجرها ويستأنس بذلك ويستظل به من هاجر إليها. وقال ابن حزم: من احتطب في حرم المدينة فحلال سلبه كل ما معه في حاله تلك، وتجريده إلا ما يستر عورته فقط، لما روى مسلم: حدثنا إسحاق بن إبراهيم وعبد بن حميد جميعا عن العقدي قال عبد: أخبرنا عبد الملك بن عمر، وقال: حدثنا عبد الله بن جعفر عن إسماعيل بن محمد عن عامر بن سعد أن سعدا ركب إلى قصره بالعقيق، فوجد عبدا يقطع شجرا ويخبطه، فسلبه، فلما رجع سعد جاءه أهل العبد فكلموه أن يرد على غلامهم أو عليهم ما أخذ من غلامهم، فقال: معاذ الله أن أرد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبى أن يرده عليهم، وقال الثوري وعبد الله بن المبارك وأبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد: ليس للمدينة حرم كما كان لمكة، فلا يمنع أحد من أخذ صيدها وقطع شجرها، وأجابوا عن الحديث المذكور بأنه صلى الله عليه وسلم إنما قال ذلك لا لأنه لما ذكروه من تحريم صيد المدينة وشجرها، بل إنما أراد بذلك بقاء زينة المدينة ليستطيبوها ويألفوها، كما ذكرنا عن قريب عن ابن نافع: سئل مالك عن قطع سدر المدينة إلى آخره، وذلك كمنعه صلى الله عليه وسلم من هدم آطام المدينة. وقال: إنها زينة المدينة على ما رواه الطحاوي، عن علي بن عبد الرحمن، قال: حدثنا يحيى بن معين، قال: حدثنا وهب بن جرير عن العمري عن نافع عن ابن عمر، قال: (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن آطام المدينة أن تهدم) . وفي رواية: (لا تهدموا الآطام فإنها زينة المدينة) . وهذا إسناد صحيح، ورواه البزار في (مسنده) والآطام جمع أطم، بضم الهمزة والطاء، وهو بناء مرتفع، وأراد بآطام المدينة أبنيتها المرتفعة كالحصون، ثم ذكر الطحاوي دليلا على ذلك من حديث حميد الطويل عن أنس، قال: (كان لآل أبي طلحة ابن من أم سليم يقال له: أبو عمير، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضاحكه إذا دخل، وكان له نغير، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأى أبا عمير حزينا فقال: ما شأن أبي عمير؟ فقيل: يا رسول الله {مات نغيره. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أبا عمير} ما فعل النغير؟) . وأخرجه من أربع طرق. وأخرجه مسلم أيضا: حدثنا شيبان بن فروخ، قال: حدثنا عبد الوارث عن أبي التياح (عن أنس بن مالك قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقا، وكان لي أخ يقال له أبو عمير، قال: وأحسبه قال: فطيما، قال: فكان إذا جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فرآه قال: أبا عمير ما فعل النغير؟ قال: فكان يلعب به) . وأخرجه النسائي أيضا في اليوم والليلة، والبزار في (مسنده) . واسم أبي طلحة زيد بن أبي سهل الأنصاري وأم سليم بنت ملحان أم أنس بن مالك، واسمها سهلة أو رميلة أو مليكة. ونغير، بضم النون وفتح الغين المعجمة وسكون الياء آخر الحروف وفي آخره راء: مصغر نغر، وهو طائر يشبه العصفور أحمر المنقار، ويجمع على: نغران، قال الطحاوي: فهذا قد كان بالمدينة ولو كان حكم صيدها كحكم صيد مكة إذا لما أطلق له رسول الله صلى الله عليه وسلم حبس النغير ولا اللعب به كما لا يطلق ذلك بمكة، وقال بعضهم: احتج الطحاوي بحديث أنس في قصة أبي عمير. ونقل عنه ما ذكرناه، ثم قال: وأجيب: باحتمال أن يكون من صيد الحل، انتهى.
قلت: لا تقوم الحجة بالاحتمال الذي لا ينشأ عن دليل، واعترضوا أيضا بأنه يجوز أن يكون من صيد الحل ثم أدخله المدينة، ورد بأن صيد الحل إذا أدخل الحرم يجب عليه إرساله فلا يرد علينا، ثم قال الطحاوي، فقال قائل: فقد يجوز أن يكون هذا الحديث بقناة، وذلك الموضع غير موضع الحرم فلا حجة لكم في هذا الحديث، فنظرنا هل نجد مما سوى هذا الحديث ما يدل على شيء من حكم صيد المدينة؟ فإذا عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي وفهد قد حدثانا، قالا: حدثنا أبو نعيم، قال: حدثنا يونس بن أبي إسحاق (عن مجاهد، قال: قالت عائشة، رضي الله تعالى عنها: كان لآل رسول الله صلى الله عليه وسلم وحش فإذا خرج لعب واشتد وأقبل وأدبر، فإذا أحس برسول الله صلى الله عليه وسلم قد دخل ربض فلم يترمرم كراهة أن يؤذيه) . فهذا بالمدينة في موضع قد دخل فيما حرم منها، وقد كانوا يؤوون فيه الوحوش ويتخذونها ويغلقون دونها الأبواب، وقد دل هذا أيضا على أن حكم المدينة في ذلك بخلاف حكم صلة قلت: وإسناده صحيح وأخرجه أحمد أيضا في مسند والوحش أحد الوحوش وهي حيوان البر. قوله (ربض) من الربوض وربوض الغنم والبقر والفرس والكلب كبروك الجمل وحشوم الطير. قوله: (لم يترمرم) ، من ترمرم إذا حرك فاه للكلام، وهي بالراءين المهملتين.
وروى الطحاوي أيضا من حديث أبي سلمة بن عبد الرحمن (عن سلمة بن الأكوع أنه كان يصيد ويأتي النبي، صلى الله عليه وسلم، من صيده فأبطأ عليه ثم جاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما الذي حبسك؟ فقال: يا رسول الله انتفى عنا الصيد فصرنا نصيد ما بين تيت إلى قناة، فقال رسول الله، صلى الله عليه وسلم: أما أنك لو كنت تصيد بالعقيق لشيعتك، إذا ذهبت. وتلقيتك إذا جئت، فإني أحب العقيق) . وأخرجه من ثلاث طرق وأخرجه من ثلاث طرق وأخرجه الطبراني أيضا، ثم قال الطحاوي: ففي هذا الحديث ما يدل على إباحة صيد المدينة، ألا ترى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد دل سلمة وهوبها على موضع الصيد وذلك لا يحل بمكة، فثبت أن حكم صيد المدينة خلاف حكم صيد مكة. قوله: (تيت) ، بكسر التاء المثناة من فوق وسكون الياء آخر الحروف وفي آخره تاء مثناة أخرى، ويقال: تيت، على وزن سيد، وقال الصاغاني: هو جبل قرب المدينة على بريد منها.
وأما الجواب عن حديث سعد بن أبي وقاص في أمر السلب فهو أنه كان في وقت ما كانت العقوبات التي تجب بالمعاصي في الأموال، فمن ذلك ما روي عن النبي، صلى الله عليه وسلم، في الزكاة أنه قال: من أداها طائعا له أجرها ومن لا، أخذناها منه وشطر ماله، ثم نسخ ذلك في وقت نسخ الربا، وقال ابن بطال: حديث سعد بن أبي وقاص في السلب لم يصح عند مالك، ولا رأى العمل عليه بالمدينة.
عمدۃ القاری


ملا علی قاریؒ نے تمام اشکالات و دلائل کو جمع کرتے ہوئے ایک عجیب انداز سے بحث فرمائی ہے:۔
باب حرم المدينة
اعلم أن للمدينة عندنا لا حرما کما لمكة خلافا للأئمة الثلاثة، فعندهم يحرم صيدها وقطع شجرها، وعندنا لا يحرم ذلك. قال في الكافي: لأن حل الاصطياد عرف بالنصوص القاطعة، فلا يحرم إلا ببراهن ساطعة ومرويهم محتمل وهو لا يصلح حجة (حرسها الله - تعالى -) .



قال التوربشتي، صاحب شرح مسلم، أول شراح المصابيح: قوله - عليه الصلاة والسلام -: " «حرمت المدينة» "، أراد بذلك تحريم التعظيم دون ما عداه من الأحكام المتعلقة بالحرم، ومن الدليل عليه قوله - عليه الصلاة والسلام في حديث مسلم: " «لا يتخبط منها شجرة إلا لعلف» " وأشجار حرم مكة لا يجوز خبطها بحال، وأما صيد المدينة وإن رأى تحريمه نفر يسير من الصحابة فإن الجمهور منهم لم ينكروا اصطياد الطيور بالمدينة، ولم يبلغنا فيه عن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهي من طريق يعتمد عليه. اهـ. كلامه.
وأيضا قال أصحابنا: قوله - صلى الله عليه وسلم - في الحديث السابق: " أحرم " من الحرمة لا من التحريم ; بمعنى أعظم المدينة جمعا بين الدليلين بقدر الإمكان، وبه نقول فنعظمها ونوقرها أشد التوقير والتعظيم ; لكن لا نقول بالتحريم ; لعدم القاطع احترازا عن الجراءة على تحريم ما أحل الله - تعالى -. فإن قيل: إنه شبه التحريم بمكة فكيف يصح الحمل على التعظيم؟ أجيب: بأنه لا يخلو عن أمرين: إما أن يكون المراد التشبيه من كل الوجوه، أو من وجه دون وجه، فإن كان الأول ; فلا يصح الحمل على ما حملتم عليه قوله: " كتحريم إبراهيم مكة " فقلتم في الحرمة فقط لا في وجوب الجزاء في المشهور من المذهب، وإن قلتم بوجوب الجزاء فلا نسلم؟ لأنه لم يثبت عن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا عن الصحابة - رضي الله عنهم - إلا عن سعد فقط، وعن عمر في قوله: وهو سلب القاطع والصائد، وقد أجمعنا أن ذلك لا يجب في حرم مكة، فكيف يجب هناك؟ وإن كان الثاني فكما حملتم على شيء ساغ لنا أن يحمل على آخر، وهذا لأن تشبيه الشيء بالشيء يصح من وجه واحد، وإن كان لا يشبهه من كل الوجوه كما في قوله - تعالى: {إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم} [آل عمران: 59] يعني: من وجه واحد، وهو تخليقه بغير أب، فكذلك نقول: إن تشبيهه بمكة في تحريم التعظيم فقط لا في التحريم الذي يتعلق به أحكام أخر ; لأن ذلك يوجب التعارض بين الأحاديث، وبالحمل على ما قلنا يدفع، ودفعه هو المطلوب مهما أمكن بالإجماع، فصار المصير إلى ما ذهبنا إليه أولى وأرجح بلا نزاع، ما أبعد من استبعد وهذا الحمل مع وجود فعل ذلك غير واحد من الأئمة في كل موضع، فمنها ما أجمع عليه الأئمة الثلاثة - غير الشافعي - في حديث الزبير قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «إن صيدوج وعضاهة حرم محرم لله» ". رواه أبو داود، وقد اتفق الثلاثة على عدم تحريم صيد وج وقطع شجره، مع ما في الحديث من التأكيد، وأولوه أو حملوه على النسخ، فكذا هذا مثله. فالجواب الذي لهم في ذلك هو جوابنا في هذا.
ولنورد بعض الأحاديث التي نتمسك على عدم تحريمها. فمنها: عن أنس - رضي الله عنه - قال: «كان لأبي طلحة ابن من أم سليم، يقال له أبو عمير، وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يضاحكه إذا دخل، وكان له طير، فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فرأى أبا عمير حزينا فقال: " ما شأن أبي عمير؟ " فقيل: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مات نغيره، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " يا أبا عمير ما فعل النغير» " قال ابن الأثير: هذا حديث صحيح قد أخرجه البخاري، ومسلم في كتابيهما، وكذا الإمام أحمد، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه.
قال الطحاوي: فهذا كان في المدينة، ولو كان حكم صيدها حكم صيد مكة لما أطلق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حبس النغير، ولا اللعب به كما يطلق ذلك بمكة.
وقال التوربشتي: لو كان حراما لم يسكت عنه في وضع الحاجة. فإن قيل: يجوز أن يكون بقباء، وذلك ليس من الحرم. قيل له: هب أنه كما ذكرته ; ولكن لم قلت أن قباء ليست من الحرم ; لأنه روى غير واحد في تحديد حرمها بريدا في بريد، والبريد: أربع فراسخ، وقباء لا تبلغ من المدينة فرسخا. فإن قيل: يحتمل أن حديث النغير كان قبل تحريم المدينة، أو أنه صاد من الحل. قيل له: هذا احتمال تأويل، وتأويل الراوي ليس بحجة، فكيف تأويل غيره؟ وقوله: أو صاده من الحل لا يلزمنا على أصلنا، لأن صيد الحل إذا دخل الحرم ثبت له حكم الحرم عندنا، فلا يكون حجة علينا بل عليهم.
قال النووي - رحمه الله: طاعنا فينا، ولكن أصلهم هذا ضعيف فيرد عليهم اهـ.
وكيف يصح قوله هذا، مع أن استدلالنا بالنص واستدلالهم بالقياس فلا جرم أن يقدم النص على القياس، ثم إنهم قاسوا حكم الصيد على مسألة الاسترقاق، فإن الإسلام يمنعه ولا يرفعه، حتى إذا ثبت حال الكفر ثم طرأ إسلام لا يرتفع منه حق الشرع، ولنا: أنه لما حصل في الحرم صار من صيده، فلا يجوز التعرض له، كما إذا دخل هو بنفسه، وما كان كذلك لا يجوز له التعرض بالنص ; لأنه لا يراد بصيد الحرم إلا ما كان حالا فيه، وهذا فيه فوجب ترك التعرض له لإطلاق النص لحرمة الحرم ولم يوجد مثله في الرق.
ومذهبنا مروي عن ابن مسعود، وابن عمر، وعائشة - رضي الله عنهم - وكفى بهم قدوة، وتقليدهم أولى من القياس باتفاق الناس، فعلمنا مما ذكرنا أن دليلهم أضعف أصلا.
ومنها: في الصحيحين، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «لما أخذه كان نخل وقبور للمشركين وخرب، فأمر النبي - صلى الله عليه وسلم - بالنخل فقطع» . . الحديث. وقوله: أخذه أي مكان المسجد، فعندهم لا يجوز قطع نخل الحرم، فلو كان حرما لما أمر بالقطع على أصلهم.
ومنها: ما روى ابن مسعود، وابن زبالة وغيره، عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال لمسلمة: " «أما إنك لو كنت تصيده بالعقيق لشيعتك إذا ذهبت وتلقيتك إذا جئت فإني أحب العقيق» " روى ابن أبي شيبة نحوه، ورواه الطبراني بسند حسنه المنذري قال في النخبة: وهذا تصريح من النبي - صلى الله عليه وسلم - جواز صيد المدينة فإن الأئمة اتفقوا على أن العقيق من المدينة، ولم يخالف فيه مخالف، وزيادة ترغيب النبي - صلى الله عليه وسلم - في صيدها عن غيرها والله - تعالى - أعلم لكون لحمها تربى من نبات المدينة فكان للحمها مزية على لحوم الصيد الذي ليس منها، كما أن لثمرها مزية على بقية الأثمار، ويدل عليه ما في حديث ابن أبي شيبة عن سلمة قال: «قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " أين كنت " قلت في الصيد قال: " أين " فأخبرته بالناحية التي كنت فيها فكأنه كره تلك الناحية وقال: " لو كنت تذهب إلى العقيق» " الحديث، ومنها ما روى الطبراني في الأوسط وفيه كثير بن زيد وثقه أحمد وغيره من حديث أنس مرفوعا: «أحد جبل يحبنا ونحبه فإذا جئتموه فكلوا من شجرة ولو من عضاهه» ، وروى ابن أبي شيبة مثله والأكل منها لا يصح إلا بقطع أو قلع، وقد اتفقنا على جواز ذلك في الحرم المكي فعلم أن المراد من المنع في غير أحد منع استحباب لا تحريم، أو كان ينهى عن ذلك للبيع لا للأكل لئلا يضيق عليهم ولتتوفر الصيود بها فنهاهم على وجه التشديد إرادة للتوسعة عليهم في الاصطياد والانتفاع به، كما قال المنازعون في تأويل حديث صيد وج وأشجاره وهو ما قاله في شرح السنة: حماه أي وادي وج رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نظرا لعامة المسلمين لإبل الصدقة ونعم الجزية، فيجوز الاصطياد فيه لأن المقصود منع الكلأ من العامة، وقال الخطابي في معالم السنن: ولا أعلم لتحريمه - صلى الله عليه وسلم - وجا معنى إلا أن يكون على سبيل الحمى لنوع من منافع المسلمين، إلى أن قال ما حاصله وقد يحتمل أنه كان ذلك للتحريم ثم نسخ، فكما أولوا ذلك الحديث لنا أن نئول هذا، ثم إن صح مراد التحريم فقال الطحاوي: يحتمل أن يكون سبب النهي عن صيد المدينة وقطع شجرها كون الهجرة إليها واجبة فكان يفعله بقاء لزينتها ليستطيبوها ويألفوها، لأن بقاء ذلك مما يزيد في زينتها ويدعو إليها كما روى ابن عمر أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن هضم آطام المدينة فإنها من زينتها، فلما انقطعت الهجرة زال ذلك، فكذا هذا» ، فإن قيل فصار الأمر محتملا؛ أجيب فعاد على ما كان وهو عدم التحريم لأنه الأصل، وإنما أطنبنا الكلام مع إنه خلاف المراد ردا للجاهل بعلم الإمام الأعظم والمجتهد الأعلم الذي صار عياله في الفقه جميع الفقهاء، وقد انفرد بكونه تابعيا من بين المجتهدين من العلماء حيث قال في حقه: لم يبلغه حديث المنع أو بلغه فخالفه بالرأي والدفع، والله - سبحانه وتعالى - أعلم.


اس انداز میں دونوں فریقوں نے بحث کی ہے۔ دونوں کا موقف درست ہے۔ یہ سمجھنے والے پر موقوف ہے کہ وہ کس کے انداز کو راجح سمجھتا ہے اور کس کے دلائل اسے اقرب الی الصواب لگتے ہیں۔ اور نتیجہ روز قیامت پر موقوف ہے۔
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ واضح مثال ہے کہ کس طرح ایک ہی دلائل کو دو انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ اور یہ تو صرف دو انداز ہیں کئی مرتبہ تو ان سے زیادہ طریقوں سے بھی دیکھا جاتا ہے جیسے ماء کثیر کا مسئلہ ہے۔
اگر کوئی یہ چاہے کہ ایک کو حق ثابت کر دے اور دوسرے کو باطل تو وہ شاید کبھی بھی ایسا نہ کر سکے الا یہ کہ دو چار مسئلوں میں کر لے۔
اللہ پاک ہم سب کو علم نافع اور فہم سلیم عطا فرمائے۔

اگر کوئی غور سے پڑھے تو یہ حوالہ جات ان شاء اللہ اسے کافی ہوں گے۔
ایک اور مقام پر معزز عامر بھائی نے ایک اشکال فرمایا ہے:۔
تشریح : اس سے بعض حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ اگر مدینہ حرم ہوتا تو وہاں کے درخت آپ کیوں کٹواتے؟ ان کا جواب یہ ہے کہ یہ فعل ضرورت سے واقع ہوا یعنی مسجد نبوی بنانے کے لیے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کیا بحکم الٰہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مکہ میں بھی قتال کیا، کیا حنفیہ بھی اس کو کسی اور کے لیے جائز کہیں گے۔ مسلم کی روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بارہ میل تک حرم کی حد قرار دی۔
اس کا سمپل سا جواب یہ ہے کہ باقی کام بھی نبی ﷺ نے اللہ کے حکم سے کیے ہیں۔ اور اسی کو دیکھ کر یہ تطبیقات کی جاتی ہیں۔ اور مکہ میں قتال تو نبی ﷺ کی خصوصیت تھی اور وہ بھی کچھ وقت کے لیے۔ اس پر نص موجود ہے۔ جبکہ یہاں ایسی کوئی نص موجود نہیں۔
 
Top