• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکر قراء ات علامہ تمناعمادی کے نظریات کاجائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤)امام نافع کے ستر تابعین سے پڑھنے والی روایت:
قراء ات کی روایات تواتر کے قبیل سے ہیں جن کو ہر ہر دور میں بہت بڑی بڑی جماعتوں نے نقل کیا اور متواتر روایت کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی جیساکہ ابن صلاح نے لکھا:
’’متواتر روایت کے رجال پر بحث نہیں کی جاتی۔ ‘‘ (مقدمہ ابن الصلاح )
لہٰذا اگر نافع اعرج سے نقل کرنے میں منفرد ہوں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر کسی راوی کی توثیق یا تنقیدمعلوم نہ ہو تو اس کے بارہ میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کی روایت مقبول ہی خیال کی جاتی ہے۔ یہاں تو ابوحمہ ایک تاریخی روایت بیان کررہے ہیں تو اس میں تو بطریق اولیٰ ان کی جہالت قطعاً مضر نہیں ہونی چاہئے۔
رہی بات ابوقرہ کے منفرد ہونے کی تو اس کی کئی مؤیدات ہیں مثلاً اسحاق مسیبی امام نافع کا قول نقل کرتے:
’’میں نے کئی تابعین کے درمیان اختلاف پایا،جس اختلاف میں دو کااتفاق ہوا میں نے اسی کو لے لیااور منفرد اختلاف کو چھوڑ دیا یونہی میں نے اپنی قراء ۃ ترتیب دی۔‘‘ (سیرأعلام النبلاء :۱؍۳۳۷)
نیز امام نافع نے ابوقرہ کو تنہائی میں نہیں پڑھایا۔ اگر تنہائی میں پڑھایا ہوتاتو یہ روایت معروف کیوں ہوتی۔ایک معروف عربی شعر ہے:
وعلم فی القرطاس لیس ضاع
وشر جاوز الاثنین شاع​
’’ کاغذوں میں لکھا جانے والا علم ضائع نہیں ہوتا اور جو راز دو سے زائد آدمیوں تک پہنچ جائے وہ معروف ہوجاتاہے، پھیل جاتاہے۔‘‘
٭ ابوحمہ اور ابوقرہ کے قاری نہ ہونے والے اعتراض کے متعلق امام جزری رحمہ اللہ نے لکھاہے:
’’ابوحمہ نے اختلاف قراء ت ابوقرہ سے نقل کیاہے اورعبدالرزاق سے بھی سماع کیااور ان سے ابن جندی نے نقل کیا ہے۔‘‘( طبقات :۲؍۳۱۹)
٭ ابوقرہ نے نافع سے عرضاً قراء ت حاصل کی اور ان سے ان کے بیٹے نے طارق اور علی بن زبان نے قراء ت نقل کی۔( طبقات :۲؍۳۳۱)معلوم ہوا ابوحمہ اور ابوقرہ قاری تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) امام نافع چپ چاپ مدینے میں کوفی ایجنٹ بٹھادیئے گئے:
امام نافع تبع تابعی ہیں ان کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ ہے۔ امام نافع مدینہ میں۷۰ سال تک قراء ات کی تعلیمات دیتے رہے۔ اس کے باوجود کہ مدینہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی یہاں پر لوگوں کاہر وقت آجانا تھا۔یہاں کبارعلماء موجود تھے، لیکن اس کے باوجود کسی ایک آدمی کو بھی اس بات کا علم نہ ہوا کہ نافع تو یہاں کوفی ایجنٹ ہیں اور قرآن مجید میں غیر قرآنی کلمات کو داخل کررہے ہیں۔امام جزری رحمہ اللہ، ابن حیان سے نقل کرتے ہیں۔
یہ بات صحیح نقل سے ثابت ہے کہ نافع نے ابوجعفر سے قراء ت حاصل کی۔ ابوجعفر معزز تابعین مدینہ میں سے تھے۔ ان کے زمانہ میں مدینہ میں بہت بڑے علماء موجود تھے۔ آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ اتنے بڑے مرتبے کا آدمی قرآن میں کوئی ناجائز چیز پڑھے حالانکہ جب انہوں نے صحابہ سے قراء ات حاصل کیں اس وقت قراء ات ابھی تازہ تھیں، سندیں طویل نہ تھیں ، ابھی غیر ضابطہ لوگ بھی سلسلہ سند میں داخل نہیں ہوئے تھے اور صحابہ خود بھی غلطی سے محفوظ اورمامون تھے۔ (النشر :۱؍۴۱)
امام مالک رحمہ اللہ،امام نافع رحمہ اللہ کوقراء ت کا امام قرار دیتے ہیں اور مسائل قراء ت میں انہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام مالک سے بسم اﷲ کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا: ’’لو سلوا عن کل علم أھلہ ونافع إمام الناس فی القراء ۃ ‘‘ (طبقات :۱؍۳۳۱)
٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نافع ثقہ آدمی ہیں۔‘‘
٭ نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ لا بأس ہیں۔‘‘
٭ ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ یہ سچے آدمی تھے۔‘‘
٭ ائمہ کے ہاں امام نافع کا یہ مقام اور مرتبہ تھا کسی ایک صاحب علم کونافع کی کوفی ایجنٹی کا علم نہ ہوسکا ہوا تو صرف ناقد کوایک ہزار سال کے بعد۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) امام نافع نے صرف ابوجعفر اور اَعرج سے نقل کیا۔ انہوں نے اکابر تابعین سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
جواب : امام جزری رحمہ اللہ، نافع کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نافع نے اعرج، ابوجعفر، شیبہ بن نصفاح، یزید بن روما، مسلم بن جندب، صالح بن خوات، اصبغ نحوی، عبدالرحمن بن قاسم اور زہری سے قراء ت پڑھ کر حاصل کی۔ ابوقرہ فرماتے ہیں میں نے نافع سے سنا کہ میں نے ستر تابعین سے قرآن پڑھا۔ امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مذکورہ پہلے پانچ سے تو نافع کی قراء ت ہم تک بطریق تواتر پہنچی ہے۔‘‘ (طبقات: ۲؍۳۳۰)
معلوم ہوا امام نافع رحمہ اللہ نے ستر (۷۰) تابعین سے قراء ت حاصل کی۔اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے تابعین کی ایک جماعت سے قراء ت نقل کی۔ (معرفۃ القراء الکبار:۱؍۸۹)اولاد صحابہ یا تابعین نے نافع سے کبھی بھی نہیں پڑھا۔صحابہ کا دور امام نافع نے دیکھانہیں بلکہ یہ تبع تابعین میں سے ہیں ہاں چند اصاغر تبع تابعین نے ان سے ضرور قراء ت پڑھیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام دانی رحمہ اللہ نے امام مالک کو طبقات القراء میں شامل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوں نے نافع بن ابی نعیم سے قراء ت حاصل کی تھی (سیراعلام النبلاء:۸؍۹۵)اور طبقات القراء میں بہت سے قدماء اور متأخرین کے نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ان سے بہت سی مخلوق نے نقل کیا ہے۔ (معرفۃ القراء الکبار:ص۱؍۹۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧)قراء ت نافع کی سنیت کا مخدوش ہونا:
جواب: قراء ۃ نافع کو سنت کہنے کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے بلا سند ایک حرف بھی نقل نہیں کیا اور جو قراء ت انہوں نے اختیار کی وہ وجوہ مروجہ متصلہ ہیں۔ امام جزری رحمہ اللہ نے امام نافع کا ایک قول نقل کیاہے جس میں وہ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں:
’’اگر یہ پابندی نہ ہوتی کہ جس طرح پڑھا ہے اسی طرح پڑھوں تو میں فلاں حرف کو فلاں طرح اور فلاں حرف کوفلاں طرح پڑھتا ۔ (النشر:۱؍۱۷) امام مجاہد فرماتے ہیں: نافع قراء ت کی تمام وجوہ و علل کو پہچانتے تھے اور وہ ائمہ متقدمین مدینین کے آثار کے متبع تھے ۔ (طبقات:۲؍۳۳۱) اور امام ابراہیم مسعدی شرح مقدمہ میں ایک واقعہ منقولہ میں امام نافع کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہماری قراء ات تواکابر اصحاب رسول کے مطابق ہے۔‘‘ (الفوائد التجوید ،ص۴۹۔ بحوالہ دفاع قراء ات،ص۳۶۹)
مذکورہ بالا تقریر سے یہ بات واضح ہوئی کہ قراء ۃ نافع کو سنت کہنے کا مطلب کیا ہے۔
٭ رہی یہ بات صحابہ کا قراء ت نافع نہ پڑھناتو یہ بات حقیقت ہے کہ صحابہ قراء ۃ نافع نہیں پڑھتے تھے بلکہ امام نافع قراء ۃ صحابہ پڑھتے تھے جیسا کہ پہلے نقل کیا گیا ہے۔ امام نافع کی طرف قراء ۃ کی نسبت محض اختیاری اور لزومی ہے نہ کہ ایجادی اور اختراعی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨)قراۃ نافع اور مصاحف کی عدم مطابقت:
جواب:امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت مجمع علیہ مصحف، جسے کئی ہزار صحابہ کے اجماع سے نقل کیاگیا ہے، کے مطابق ہے۔امام نافع کی قراء ۃ مصحف مدینہ کے مطابق ہے۔مثلاً عثمانی مصحف مدینہ میں سورۃ المائدہ کی آیت ۸ ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ‘‘ میں یرتدَّ دو دالوں کے ساتھ یرتدد لکھاہوا ہے۔ اسی طرح ’’وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَاراً‘‘ (التوبۃ :۱۳) میں الذین واؤ کے اضافہ کے بغیر ہے۔معلوم ہوا قراۃ نافع مصحف صحابہ کے عین مطابق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) مصر میں قراء ۃ نافع:
جواب:یہ بات جان لینی چاہئے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف قراء ات معروف اورشائع ہیں لیکن پڑھائی تمام قراء ات جاتی ہیں۔ جزائر اور تیونس وغیرہ قالون عن نافع اور ورش عن نافع معروف ہیں۔لیبیا میں روایت قالون، سوڈان میں روایت بصری اور اکثر مشرقی ممالک میں حفص عن عاصم متداول ہیں، لیکن یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ آج بھی مصر میں روایت ورش عن نافع معروف ہے، اگر وہاں یہ روایت نہیں چل سکی تھی تو آج یہ روایت وہاں کیسے پہنچی یا ان لوگوں نے خود ہی اس روایت کو گھڑ کر امام نافع کی طرف منسوب کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠) امام نافع کی مدح
جواب: امام نافع کی مدح متقدمین و متاخرین ہردو نے کی۔ بطورِ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
نافع کے متعلق امام مالک فرماتے ہیں آپ قراء ۃ میں لوگوں کے امام تھے۔ (معرفۃ القراء :۱؍۸۹)
سعیدبن منصو ررحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میں نے امام مالک کو کہتے سنا امام نافع کی قراء ت سنت (کے مطابق) ہے۔ ‘‘ (سیرأعلام النبلاء:۷؍۳۳۷)
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’نافع قراء ت میں پختہ آدمی تھے۔‘‘ (میزان الاعتدال :۴؍۲۴۶)
لیث بن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ نافع قراء ۃ میں آج کل کے لوگوں کے امام ہیں۔ ‘‘ [طبقات ابن سعد]
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’انہوں نے اپنے مشائخ کی زندگی میں ہی قراء ت پڑھانے کا کام شروع کردیا بلکہ اسی وقت سے منصب امامت پر فائز ہیں۔‘‘ (سیر:۷؍۳۳۷)مزید تفصیل شرح سبعہ :۱؍۸۰+۹۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠)کوئی مدنی امام نافع کاشاگرد نہیں اور ان کو منصب امامت ان کی وفات کے بعد دیا گیا۔
جواب: امام نافع کے کئی مدنی شاگرد تھے، امام جزری رحمہ اللہ مندرجہ ذیل بیس نام اَصحاب نافع شمار کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔یہ سب کے سب مدنی تھے۔نام حسب ذیل ہیں:
اسماعیل بن جعفر، عیسیٰ بن وردان، سلیمان بن مسلم بن جماز، مالک بن انس، اسحاق بن محمد ابوبکر بن ابی اویس، اسماعیل بن ابی اویس، یعقوب بن جعفر، عبدالرحمن بن ابی الزناد، عیسیٰ بن مینا، قالون، سعد اور یعقوب بن ابراہیم، محمد بن عمر واقدی، زبیر بن عامر، خلف بن وصاح، محمد بن یحییٰ، ابوالعجلان، ابوغسان محمد بن یحییٰ، صفوان، محمد بن ابراہیم رحمہم اللہ ، لہٰذا یہ کہنا کہ امام نافع کے مدنی شاگرد نہ تھے غلط بات ہے۔
رہی بات ان کی امانت کی تو ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ انہیں قراء ۃ کا امام ان کی زندگی میں کہاکرتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١١)قالون اور ورش۔کاگمنام ہونا:
جواب: اگر ان کی گمنامی کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو صرف دو شاگردوں سے ان کی جہالت دور ہوجاتی جیساکہ اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے۔قالون کے اٹھارہ (۱۸) شاگردوں کا تذکرہ امام جزری نے کیا ہے۔(طبقات: ۱؍۱۶۔۶۱۵) گیارہ تلامذہ کا امام ذہبی نے (معرفۃ القراء الکبار:۱؍۱۲۹) میں کیا ہے۔بلکہ امام ذہبی چند شاگردوں کا نام لینے کے بعد لکھتے ہیں:
’’وعدد کثیر وکان ثقۃ في الحروف حجۃ‘‘
’’اس کثرت کے ساتھ لوگوں نے ان سے نقل کیاکہ وہ مرجع خلائق بنے رہے۔‘‘
کیا یہ گمنامی ہے؟ہاں اگر حدیث کے معاملہ میں کوئی یہ کہے تو کسی درجہ بات سمجھ آتی ہے۔ وہ حدیث میں مہارت تامہ نہیں رکھتے تھے جیسا کہ ذہبی نے کہا ’’الحدیث فما رأینا لہ شیئاً‘‘ ہم نے ان سے کوئی حدیث نہیں دیکھی۔
نوٹ: یہ بات بھی ذہن میں رہے کسی ایک فن میں کمزوری کسی دوسری فن میں کمزوری کی دلیل نہیں اور اس بات کا تمنا عمادی بھی اعتراف کرتے ہیں، فرماتے ہیں:’’ابن جنی بلاغت میں امام تھے مگر منطق نہیں جانتے تھے۔ ‘‘ (اعجاز القرآن: ص۳۷۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٣)نہ حلوانی،قالون کا نہ اصبھانی ورش کا اور نہ ہی مطوعی، اصبھانی کا شاگرد ہے:
جواب: لسان المیزان میں ہی حلوانی کو صاحب قالون لکھا ہوا ہے۔ (۱؍۲۲۷)
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حلوانی نے مکہ میں قواس اور مدینہ میں قالون سے پڑھا۔‘‘ (طبقات:۱؍۱۴۹)
نوٹ: حلوانی احمد بن یزید ہیں نہ کہ احمدبن علی۔
اسی طرح اصبھانی بھی دو ہیں:ایک محدثین کے ہاں اور وہ ہیں:قتیبہ بن مہران جبکہ ورش کے شاگرد اصبہانی سے مراد محمد بن عبدالرحیم، متوفی۲۹۶ھ ہیں۔
رہی بات مطوعی کی شاگردی کی تو سنیے ! امام جزری نے مطوعی کے ۳۷ اساتذہ قراء ت کا ذکر کیا ان میں اصبھانی بھی شامل ہیں۔ (طبقات القراء :۱؍۲۱۳)
 
Top