• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موطأ امام مالک روایۃ ابن القاسم (یونیکوڈ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عطاء بن يسارٍ
ستة أحاديث
169- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسارٍ وعن بسر بن سعيدٍ وعن الأعرج ، يحدثونه عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من أدرك من الصبح ركعةً قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح ، ومن أدرك من العصر ركعةً قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے سورج کے طلوع ہونے پہلے صبح ( کی نماز ) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے صبح ( کی نماز) پالی اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر ( کی نماز) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے عصر ( کی نماز ) پالی ۔

سندہ صحیح
متفق عليه

«169-الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 6/1 ح 4 ، ك 1 ب 1 ح 5) التمهيد 270/3 ، الاستذكار : 5
و أخرجه البخاري (579) ومسلم (608) من حديث مالك به »
------------------
قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:
169moatta.jpg

170- وبه : عن عطاء بن يسارٍ عن عبد الله بن عباسٍ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل كتف شاةٍ ، ثم صلى ولم يتوضأ.

سیدنا عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کے کندھے کا ( بھونا ہوا) گوشت کھایا پھر آپ نے نماز پڑھی اور ( دوبارہ) وضو نہیں کیا

سندہ صحیح
متفق عليه

«170- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 25/1 ح 47 ، ك 2 ب 5 ح 19) التمهيد 329/3 ، الاستذكار : 49
و أخرجه البخاري (207) ومسلم (354) من حديث مالك به »
------------------
171- وبه : أنه قال : خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، والناس معه ، فقام قياماً طويلاً ، قال : نحواً من سورة البقرة ، قال : ثم ركع ركوعاً طويلاً ثم رفع فقام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ، ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ثم سجد ، ثم قام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ، ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ، ثم رفع فقام قياماً طويلاً وهو دون القيام الأول ، ثم ركع ركوعاً طويلاً وهو دون الركوع الأول ، ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس ، فخطب الناس ، فقال : ( (إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحدٍ ولا لحياته ، فإذا رأيتم ذلك فاذكروا الله) ) ، قالوا : يا رسول الله رأيناك تناولت شيئاً في مقامك هذا ، ثم رأيناك تكعكعت ، فقال : ( (إني رأيت الجنة ، أو أريت الجنة ، فتناولت منها عنقوداً ، ولو أخذته لأكلتم منه ما بقيت الدنيا. ورأيت النار فلم أر كاليوم منظراً قط أفظع ، ورأيت أكثر أهلها النساء) ) ، قالوا : بم يا رسول الله؟ قال : ((بكفرهن) ) ، قيل : أيكفرن بالله؟ قال : ( (يكفرن العشير ويكفرن الإحسان ، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر ثم رأت منك شيئاً ، قالت : ما رأيت منك خيراً قط) ) .

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ ( سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ) فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو ( بہت) لمبا قیام فرمایا یعنی سورة البقرہ کے برابر ، پھر آپ نے ( بہت ) لمبا رکوع کیا پھر اٹھ کر قیام فرمایا جو پہلے قیام سے کم تھا پھر لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آ پ نے سجدہ کیا پھر ( دوسری رکعت میں)آپ نے لمبا قیام فرمایاجو پہلے قیام سے کم تھا پھر آ پ نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آ پ ( رکوع سے ) اٹھے تو لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کم تھاپھر آ پ نے لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر آ پ نے سجدہ کیا پھر سلام پھیرا اور سورج روشن ہو چکا تھا پس آ پ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انھیں کسی کے مرنے یا جینے سے گرہن نہں لگتا لہٰذا اگر تم ایسی حالت پاؤ تو اللہ کا ذکر کرو ۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنے اس مقام پر کھڑے ہو کر کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے ؟تو آپ نے فرمایا : میں نے جنت دیکھی یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں سے ایک گچھا لینے کا ارادہ کیا اور اگر میں اس سے لے لیتا تو تم جب تک دنیا باقی ہے ، اس سے کھاتے رہتے اور میں نے ( جہنم کی) آگ دیکھی تو آج تک اس جیساخوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے اس میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ۔ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! یہ کیوں ؟ آپ نے فرمایا : ان کے کفر کی وجہ سے ۔ پوچھا: گیا کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا : اپنے خاوندوں کے ساتھ کفر یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان ( نیکی) کی نا شکری کرتی ہیں ، اگر تم کسی کے ساتھ ساری عمر نیکی کرتے رہو پھر وہ تم سے کوئی ایسی چیز دیکھے ( جو اسے نا پسند ہے ) تو وہ کہہ دیتی ہے میں نے تجھ سے کبھی خیر نہیں دیکھی

سندہ صحیح
متفق عليه

«171- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 186/1 ، 187 ح 446 ، ك 12 ب 1 ح 2) التمهيد 301/3 ، 302 ، الاستذكار : 416
و أخرجه البخاري (1052) ومسلم (907) من حديث مالك به »
------------------
172- وبه : عن عطاء بن يسارٍ عن أبي رافعٍ مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : استسلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بكراً ، فجاءته إبل الصدقة قال أبو رافعٍ : فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقضي الرجل بكره ، فقلت : لم أجد في الإبل إلا جملاً خياراً رباعياً ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (أعطه إياه ، فإن خيار الناس أحسنهم قضاء) ) .

سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہما مولٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ قرض لیا پھر جب آپ کے پاس صدقے کے اونٹ آئے تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اس شخص کا قرض ادا کردوں جس سے چھوٹا اونٹ لیا تھا میں نے کہا: میں تو اونٹوں میں چھ سال کے بہترین اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں پاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اسی میں سے اسے دے دو ، کیونکہ لوگوں میں بہتریں وہ انسان ہیں جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھے ہیں ۔ “

سندہ صحیح

«172- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 680/2 ح 1421 ، ك 31 ب 43 ح 89) التمهيد 58/4 ، الاستذكار : 1342
و أخرجه مسلم (1600) من حديث مالك به »
------------------
173- وبه : عن عطاء بن يسارٍ حدثه عن أبي قتادة في الحمار الوحشي مثل حديث أبي النضر ، إلا أن حديث زيد بن أسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (هل معكم من لحمه شيءٌ؟) ) .

اور اسی سند کے ساتح عطاء بن یسار سے روایت ہے ، انہوں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے وحشی گدھے ( گورخر ) کے بارے میں ابوالنضر جیسی حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ زید بن اسلم کی ( روایت کردہ) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کوئی چیز ہے ؟“

صحیح
متفق عليه

«173- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 351/1 ح 796 ، ك 20 ب 24 ح 78) التمهيد 126/4 ، الاستذكار : 745
و أخرجه البخاري (5491) ومسلم (1196/58) من حديث مالك به »
------------------
174- وبه : عن عطاء بن يسارٍ عن رجلٍ من بني أسدٍ أنه قال : نزلت أنا وأهلي ببقيع الغرقد ، فقال لي أهلي : اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئاً نأكله ، وجعلوا يذكرون من حاجتهم فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فوجدت عنده رجلاً يسأله ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( (لا أجد ما أعطيك) ) ، فتولى الرجل عنه وهو مغضبٌ وهو يقول : لعمري إنك لتعطي من شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إنه ليغضب علي أن لا أجد ما أعطيه ، من سأل منكم وله أوقيةً أو عدلها فقد سأل إلحافاً) ). قال الأسدي : فقلت : للقحةٌ لنا خيرٌ من أوقيةٍ. قال مالكٌ : والأوقية أربعون درهماً ، قال الأسدي : فرجعت ولم أسأله ، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك بشعيرٍ وزبيبٍ ، فقسم لنا منه حتى أغنانا الله.

بنو اسد کے ایک آدمی ( صحابی رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ میں اور میرے گھر والے بقیع غرقد میں اترے تو میرے گھر والوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کے لئے کچھ چیز مانگو وہ اپنی محتاجیاں اور ضرورتیں بیان کرنے لگے پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ کے پاس ایک آدمی دیکھا جو سوال کر رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے : ”میرے پاس تجھے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے “ پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے غصے سے واپس لوٹا کہ میری زندگی کی قسم ! اسے نوازتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مجھ پر ( اس وجہ سے ) غصہ کررہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے تم میں سے اگر کوئی شخص ( اس حالت میں ) سوال کرے کہ اس کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے برابر ہوگا تو اس نے لپٹ لپٹ کر سوال کیا اَسدی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہماری دودھ دینے والی اونٹنی تو ایک اوقیہ چاندی سے بہتر ہے
( امام ) مالک نے فرمایا : اوقیہ چالیس درہم کو کہتے ہیں اسدی ( صحابی رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا : پھر میں واپس چلاگیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور خشک انگور لائے گئے تو آپ نے اس میں سے تقسیم کر کے ہمیں بھی دیا حتیٰ کہ اللہ نے ہمیں بے نیاز کر دیا

سندہ صحیح

«174- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 999/2 ح 1949 ، ك 58 ب 2 ح 11) التمهيد 93/4 وقال ”وهو حديث صحيح“ ، الاستذكار : 1886
و أخرجه ا النسائي (98/5 ، 99 ح 2597) من حديث ابن القاسم عن مالك ، و أبوداود (1627) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عبد الرحمن بن أبي سعيدٍ الخدري
حديثٌ واحدٌ
175- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن عبد الرحمن بن أبي سعيدٍ عن أبي سعيدٍ الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحداً يمر بين يديه وليدرأه ما استطاع ، فإن أبى فليقاتله ، فإنما هو شيطانٌ) ) .

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھے تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے ، جتنی استطاعت ہو اسے ہٹائے پھر اگر وہ انکارکرے تو اس سے جنگ کرے کیونکہ یہ شیطان ہے “

سندہ صحیح

«175- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 154/1 ح 361 ، ك 9 ب 10 ح 33) التمهيد 185/4 ، الاستذكار : 331
و أخرجه مسلم (505) من حديث مالك به »
------------------
عياضٌ
حديثٌ واحدٌ
176- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن عياض بن عبد الله بن أبي سرحٍ العامري أنه سمع أبا سعيدٍ الخدري يقول : كنا نخرج زكاة الفطر صاعاً من طعامٍ ، أو صاعاً من شعيرٍ ، أو صاعاً من تمرٍ ، أو صاعاً من أقطٍ ، أو صاعاً من زبيبٍ.

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اناج کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا خشک انگور کا صاع صدقہ فطر ادا کرتے تھے

سندہ صحیح
متفق عليه

«176- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 284/1 ح 634 ، ك 17 ب 28 ح 53) التمهيد 127/4 ، الاستذكار : 585
و أخرجه البخاري (1506) ومسلم (985) من حديث مالك به »
------------------
القعقاع بن حكيمٍ
حديثٌ واحدٌ
177- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن القعقاع بن حكيمٍ عن أبي يونس مولى عائشة أنه قال : أمرتني عائشة أم المؤمنين أن أكتب لها مصحفاً ، ثم قالت : إذا بلغت هذه الآية فآذني ”حافظوا على الصلاة والصلاة الوسطى“.
قال : فلما بلغتها آذنذتها فأملت علي ”حافظوا على الصلاة والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين“.
ثم قالت عائشة : سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم.

ابویونس مولیٰ عائشہ ( تابعی) سے روایت ہے کہ مجھے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ میں انکے لئے مصحف ( قرآن مجید) لکھوں ، پھر آپ نے فرمایا : جب تم اس آیت «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ» نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی حفاظت کرو (البقرة : 238) پر پہنچو تو مجھے بتانا پھر جب میں وہاں پہنچا تو انہیں بتایا انہوں ( سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے مجھے لکھوایا : «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ، وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» پھر ( ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے ) فرمایا : میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے

سندہ صحیح
«
177- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 138/1 ح 311 ، ك 8 ب 8 ح 25) التمهيد 273/4 ، وقال : ” وحديث عائشة هٰذا صحيح ، لا اعلم فيه اختلافاً“ ، الاستذكار : 281

و أخرجه مسلم (629) من حديث مالك به »
------------------
قال شيخ زبير علي زئي رحمہ اللہ :
177moatta.jpg
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أبو صالح السمان
حديثٌ واحدٌ
178- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن أبي صالحٍ السمان عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الخيل لرجلٍ أجرٌ ولرجلٍ سترٌ وعلى رجلٍ وزرٌ. فأما الذي هي له أجرٌ فرجلٌ ربطها في سبيل الله فأطال لها في مرجٍ أو روضةٍ ، فما أصابت في طيلها ذلك من المرج أو الروضة كان له حسناتٍ ، ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفاً أو شرفين كانت آثارها وأرواثها حسناتٍ له ، ولو أنها مرت بنهرٍ فشربت منه ولم يرد أن يسقي به كان ذلك له حسناتٍ فهي له أجرٌ. ورجلٌ ربطها تغنياً وتعففاً ولم ينس حق الله في رقابها ولا ظهورها فهي لذلك سترٌ. ورجلٌ ربطها فخراً ورياءً ونواءً لأهل الإسلام فهي على ذلك وزرٌ) ) ، وسئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الحمر فقال : ( (لم ينزل علي فيها شيءٌ إلا هذه الآية الجامعة الفاذة) ) :”فمن يعمل مثقال ذرةٍ خيراً يره. ومن يعمل مثقال ذرةٍ شراً يره“.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بعض) گھوڑے آدمی کے لئے اجر ( کا باعث) ہوتے ہیں اور بعض اس کا پردہ ہیں اور بعض آدمی پر بوجھ ( گناہ) ہوتے ہیں باعث اجر وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی اللہ کے راستے میں ( جہاد کے لئے ) تیار کرتا ہے پھر وہ ان کی رسی کسی جگہ یا باغ میں لمبی کرتا ہے تو وہ جتنی دور تک اس جگہ یا باغ میں چرتے ہیں تو اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر وہ رسی توڑ کر ایک چڑھائی یا دو چڑھائیوں پر چڑھیں تو اس آدمی کے لئے ان کے قدموں اور لیدوں کے بدلے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرتے ہوئے پانی پئیں اور وہ مالک انہیں پانی پلانے کے لئے نہ لایا ہو تو بھی اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ اس کے لئے اجر ہے دوسرا آدمی جو اپنی ضرورتوں کے لئے دوسرے لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لئے اور دوسروں سے مانگنے سے بچنے کے لئے انہیں پالے اور ان کی گردنوں اور پیٹھوں میں اللہ کے حق کو نہ بھلائے تو یہ اس آدمی کے لئے پردہ ہیں اور ( تیسرا) آدمی جو فخر ، ریا اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے گھوڑے پالتا ہے تو یہ اس کے لئے گناہ ہیں . نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے بارے میں پوچھا: گیا تو آپ نے فرمایا : ان کے بارے میں مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی سوائے اس جامع منفرد آیت : « فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» ”پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا“.

سندہ صحیح

«178- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 444/2 ، 445 ح 988 ، ك 21 ب 1 ح 3) التمهيد 201/4 ، الاستذكار : 927
و أخرجه البخاري (2860) من حديث مالك به »
------------------
إبراهيم بن عبد الله بن حنين
حديثٌ واحدٌ
179- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن إبراهيم بن عبد الله بن حنينٍ عن أبيه أن عبد الله بن عباس والمسور بن مخرمة اختلفا بالأبواء. فقال عبد الله بن عباسٍ : يغسل المحرم رأسه ، وقال المسور : لا يغسل المحرم رأسه.
قال : فأرسلني عبد الله بن عباس إلى أبي أيوب الأنصاري فوجدته يغتسل بين القرنين وهو يستتر بثوبٍ ، قال : فسلمت عليه ، فقال : من هذا؟ فقلت : أنا عبد الله بن حنينٍ ، أرسلني إليك عبد الله بن عباسٍ يسألك كيف كان يغسل رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه وهو محرمٌ.
قال : فوضع أبو أيوب يده على الثوب فطأطأه حتى بدا لي رأسه ، ثم قال لإنسانٍ يصب عليه : أصبب ، فصب على رأسه ، ثم حرك رأسه بيديه فأقبل بهما وأدبر ، ثم قال : هكذا رأيته صلى الله عليه وسلم يفعل.

عبداللہ بن حنین ( تابعی) سے روایت ہے کہ ابواءکے مقام پر سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوگیا تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : احرام باندھنے والا پنا سر دھوئے گا اور سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: احرام باندھنے والا سر نہیں دھوئے گا پھر عبداللہ بن عباس نے مجھے سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو میں نے دیکھا کہ وہ کنویں کی دو لکڑیوں کے درمیان کپڑے سے پردہ کئے ہوئے نہا رہے تھے میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ میں نے کہا: میں عبداللہ بن حنین ہوں ، مجھے عبداللہ بن عباس نے آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اپنا سر کس طرح دھوتے تھے ؟ پس سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کپڑے پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کیا تو مجھے آپ کا سر نظر آنے لگا پھر انہوں نے پانی ڈالنے والے انسان کو کہا: پانی ڈالو ، تو اس نے آپ کے سر پر پانی ڈالا پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور انہیں آگے پیچھے لے گئے پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«179- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 323/1 ح 720 ، ك 20 ب 2 ح 4) التمهيد 260/4 ، الاستذكار : 669
و أخرجه البخاري (1840) ومسلم (1205) من حديث مالك به »
------------------
عمرو بن معاذٍ الأشهلي
حديثٌ واحدٌ
180- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن عمرو بن معاذ الأشهلي عن جدته أنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (يا نساء المؤمنات ، لا تحقرن إحداكن لجارتها ولو كراع شاةٍ محرقاً) ) .

عمرو بن ( سعد بن) معاذ الاشہلی کی دادی ( حوا رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ایمان والی عورتو ! اپنی پڑوسن کے ساتھ نیکی میں کسی چیز کو بھی حقیر نہ سمجھو اگرچہ بکری کا جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو

صحيح
«180- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 931/2 ح 795 ، ك 49 ب 10 ح 45) التمهيد 295/4 ، الاستذكار : 1728
و أخرجه أحمد (64/4 ، 377/5 ، 434/6) والدارمي (1679) والبخاري في الأدب المفرد (122) من حديث مالك به وللحديث شواهد عند البخاري (2566) ومسلم (1030) وغيرهما هوهو بها صحيح والحمدللّٰه»
------------------
محمد بن بجيدٍ الأنصاري
حديثٌ واحدٌ
181- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن محمد بن بجيدٍ الأنصاري عن جدته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ردوا السائل ولو بظلفٍ محرقٍ) ) .

محمد بن بجید الانصاری ( تابعی) کی دادی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سائل کو ( کچھ دے کر ) واپس بھیجو اگرچہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو ۔

سندہ صحیح

« 181- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 923/2 ح 1779 ، ك 49 ب 5 ح 8 وعندہ : ابن بجيد) التمهيد 298/4 ، الاستذكار : 1711
و أخرجه النسائي (81/5 ، 82 ح 2566) من حديث مالك ، وابوداؤد (1667) والترمذي (665 وقال : حسن صحيح) من حديث ابن بجيد وصححه ابن خزيمة (111/4 ح 2473) وابن حبان (الاحسان : 3374/3363) والحاكم (417/1) والذهبي وأخطأ من ضعفه »
------------------
ابن وعلة المصري
حديثان
182- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن ابن وعلة المصري عن عبد الله بن عباسٍ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا دبغ الإهاب فقد طهر) ) .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہوجاتا ہے ۔

سندہ صحیح

«182- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 498/2 ح 1100 ، ك 25 ب 6 ح 17) التمهيد 152/4 ، الاستذكار : 1032
و أخرجه مسلم (366/105) من حديث مالك به »
------------------
183- وبه : أنه سأل ابن عباسٍ عما يعصر من العنب ، فقال عبد الله بن عباسٍ : أهدى رجلٌ إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم راوية خمرٍ ، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم : ( (أما علمت أن الله حرمها؟) ) فقال : لا. فسار إنساناً إلى جانبه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (بم ساررته؟) ) فقال : أمرته أن يبيعها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن الذي حرم شربها حرم بيعها) ) . ففتح المزادتين حتى ذهب ما فيهما.

اور اسی سند کے ساتھ ( ابن وعلہ المصری سے ) روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے انگور کے شربت کے بارے میں پوچھا: تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شراب سے لدا ہوا جانور بطور تحفہ پیش کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : کیا تجھے پتا نہیں کہ اللہ نے اسے حرام کر دیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : نہیں ، پھر اس آدمی نے اپنے قریب والے کسی شخص سے سرگوشی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ؛ تم نے اس سے کیا خفیہ بات کی ہے ؟ اس نے کہا: میں نے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے ( شراب کو) بیچ دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اس کا پینا حرام کیا ہے اس نے اس کا بیچنا ( بھی) حرام کیا ہے پھر اس آدمی نے دونوں مشکیزے کھول دیئے حتی ٰ کہ ان میں سے ساری شراب بہہ گئی ۔

سندہ صحیح

«183- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 846/2 ح 1643 ، ك 42 ب 5 ح 12) التمهيد 140/4 ، الاستذكار : 1571
و أخرجه مسلم (1579) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
بسر بن محجنٍ
حديثٌ واحدٌ
184- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن رجلٍ من بني الديل يقال له بسر بن محجنٍ ، عن أبيه : أنه كان في مجلسٍ مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذن بالصلاة ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ثم رجع ومحجنٌ في مجلسه. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ((ما منعك أن تصلي مع الناس؟ ألست برجلٍ مسلمٍ؟) ) قال : بلى يا رسول الله ولكني ، كنت قد صليت في أهلي. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إذا جئت فصل مع الناس ، وإن كنت قد صليت) ) .

سیدنا محجن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں ( بیٹھے ہوئے ) تھے پھر نما ز کے لئے اذان دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی پھر واپس آئے تو سیدنا محجن رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں ( ہی) موجود تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟ محجن نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ ! میں مسلمان ہوں لیکن میں نے ( یہ) نماز گھر میں پڑھ لی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : اگر تم نماز پڑھ چکے ہو اور ( مسجد) آؤ تو لوگوں کے ساتھ ( دوبارہ بھی) نماز پڑھو

سندہ حسن

«184- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 1328/1 ح 294 ، ك 8 ب 3 ح 8) التمهيد 222/4 ، الاستذكار : 264
و أخرجه النسائي (112/2 ح 858) من حديث مالك به وصححه ابن حبان ( الاحسان : 2405/2398) والحاكم (244/1) وحسنه البغوي في شرح السنة (130/3 ح 856) »
------------------
رجلٌ من بني ضمرة
حديثٌ واحدٌ
185- مالكٌ عن زيد بن أسلم عن رجلٍ من بني ضمرة عن أبيه أنه قال : سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة ، فقال : ( (لا أحب العقوق) ) وكأنه إنما كره الاسم ، وقال : ( (من ولد له ولدٌ فأحب أن ينسك عن ولده فليفعل) ) .
كمل حديث زيد بن أسلم وهو اثنان وعشرون حديثاً.

بنوضمرہ کے ایک آدمی سے روایت ہے وہ اپنے باپ سے بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کے بارے میں پوچھا: گیا تو آپ نے فرمایا : میں عقوق ( نافرمانی) کو پسند نہیں کرتا ، گویا کہ آپ نے اس نام کو ناپسند کیا ور فرمایا : جس کا بیٹا ( یا بیٹی) پیدا ہو پھر وہ اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا پسند کرے تو قربانی کر لے ۔
زید بن اسلم کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہوگئیں ، یہ بائیس حدیثیں ہیں

صحيح
« 185- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 500/2 ح 1103 ، ك 26 ب 1 ح 1 ، وسنده ضعيف) التمهيد 304/4 ، الاستذكار : 1035
و أخرجه أحمد (369/5) من حديث مالك به
ورواه أبوداود (2842) من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه : أراه عن جده به نحوه وهو هديث حسن وله شواهد»
------------------
زيدٌ بن رباحٍ وعبيد الله بن أبي عبد الله الأغر
حديثٌ واحدٌ
186- مالكٌ عن زيد بن رباحٍ وعبيد الله بن أبي عبد الله عن أبي عبد الله الأغر عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (صلاةٌ في مسجدي هذا خيرٌ من ألف صلاةٍ فيما سواه إلا المسجد الحرام) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اس مسجد میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے ۔

سندہ صحیح

« 186- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 196/1 ح 463 ، ك 14 ب 5 ح 9) التمهيد 16/6 ، الاستذكار : 432
و أخرجه البخاري (1190) من حديث مالك به »
------------------
زيادٌ بن سعدٍ
حديثٌ واحدٌ
187- مالكٌ عن زيادٍ بن سعدٍ عن عمر بن مسلمٍ عن طاووس أنه قال : أدركت ناساً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون : كل شيءٍ بقدرٍ. قال : وسمعت عبد الله بن عمر يقول : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كل شيءٍ بقدرٍ حتى العجز والكيس.

طاوس ( تابعی) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو یہ کہتے ہوئے پایا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے طاؤس نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرشے تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور عقل مندی بھی تقدیر سے ہے ۔

سندہ صحیح

«187- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 899/2 ح 1728 ، ك 46 ب 1 ح 4) التمهيد 62/2 ، الاستذكار : 1660
و أخرجه مسلم (2655) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي وجاء في الأصل : عمر بن مسلم»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الطاء
واحدٌ
طلحة بن عبد الملك
له حديثٌ واحدٌ
188- مالكٌ عن طلحة بن عبد الملك الأيلي عن القاسم بن محمدٍ عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (من نذر أن يطيع الله فليطعه ، ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه) ) .

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کی اطاعت کرنے کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے .

سندہ صحیح

«188- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 476/2 ح 1049 ، ك 22 ب 4 ح 8) التمهيد 90/6 ، الاستذكار : 983
و أخرجه البخاري (6696) من حديث مالك به »
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
باب الميم
خمسةٌ سوى من اسمه محمدٌ لجميعهم ستة أحاديث
موسى بن عقبة
حديثان
189- مالكٌ عن موسى بن عقبة عن سالم بن عبد الله أنه سمع أباه يقول : بيداؤكم هذه التي تكذبون على رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ، ما أهل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا من عند المسجد ، يعني مسجد ذي الحليفة.

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ( اے لوگو ! ) یہ تمہارا بیداء ( ایک خاص میدانی مقام) جسے تم غلطی سے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ہو ( حالانکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے ہی لبیک کہی تھی .

سندہ صحیح
متفق عليه
«189- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 332/1 ح 747 ، ك 20 ب 9 ح 30) التمهيد 65/13 ، الاستذكار : 697
و أخرجه البخاري (1541) ومسلم (1186) من حديث مالك به»
------------------
190- مالكٌ عن موسى بن عقبة عن كريب مولى ابن عباسٍ عن أسامة بن زيدٍ أنه سمعه يقول : دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة ، حتى إذا كان بالشعب نزل فبال ثم توضأ ولم يسبغ الوضوء ، فقلت له : الصلاة ، فقال : ( (الصلاة أمامك) ) . فركب. فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ وأسبغ الوضوء ، ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب ، ثم أناخ كل إنسانٍ بعيره في منزله ، ثم أقيمت العشاء فصلاها ، ولم يصل بينهما شيئاً.

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس لوٹے حتیٰ کہ جب ( مزدلفہ سے پہلے ) ایک گھاٹی پر اترے تو پیشاب کیا پھر وضو کیا اور پورا وضو نہ کیا میں نے آپ سے کہا: نماز پڑھیں؟ آپ نے فرمایا : نماز آگے ہے پھر آپ سوار ہوئے اور جب مزدلفہ میں پہنچے تو اتر کر وضو کیا اور پورا وضو کیا پھر نماز کی اقامت کہی گئی تو آپ نے مغرب کی نماز پڑھی پھر ہر انسان نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا پھر عشاءکی اقامت کہی گئی تو آپ نے عشاء کی نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی

سندہ صحیح
متفق عليه
«190- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 400/1 ، 401 ح 925 ، ك 20 ب 65 ح 197) التمهيد 156/13 ، الاستذكار : 865
و أخرجه البخاري (139) ومسلم (1280) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
موسى بن ميسرة
حديثٌ واحدٌ
191- قال مالكٌ : حدثني موسى بن ميسرة عن أبي مرة مولى عقيل بن أبي طالبٍ أن أم هانيء ابنة أبي طالبٍ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى عام الفتح ثماني ركعاتٍ ملتحفاً في ثوبٍ واحدٍ.

ابوطالب کی بیٹی ( اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہن) سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں اشتمال کئے ہوئے آٹھ رکعات پڑھیں ۔

سندہ صحیح

« 191- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 152/1 ح 355 ، ك 9 ب 8 ح 27) التمهيد 184/13 ، الاستذكار : 325
و أخرجه أحمد (425/6 ح 27936) من حديث مالك به»
------------------
موسى بن أبي تميمٍ
حديثٌ واحدٌ
192- مالكٌ عن موسى بن أبي تميمٍ عن سعيد بن يسارٍ عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الدينار بالدينار ، والدرهم بالدرهم ، لا فضل بينهما) ) .

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دینار دینار کے بدلے اور درہم درہم کے بدلے ( برابر برابر ہوں) انکے درمیان کوئی اضافہ نہ ہو ۔

سندہ صحیح

«192- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 232/2 ح 1360 ، ك 31 ب 16 ح 29) التمهيد 189/13 ، الاستذكار : 1283
و أخرجه مسلم (588/85 ) من حديث مالك به »
------------------
مخرمة بن سليمان
حديثٌ واحدٌ
193- مالكٌ عن مخرمة بن سليمان عن كريب مولى عبد الله بن عباسٍ أن عبد الله بن عباسٍ أخبره أنه بات عند ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وهي خالته ، قال : فاضطجعت في عرض الوسادة واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأهله في طولها ، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل أو قبله بقليلٍ أو بعده بقليلٍ استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس يمسح النوم عن وجهه بيديه ثم قرأ العشر الآيات الخواتم من سورة آل عمران ثم قام إلى شن معلقةٍ فتوضأ منها فأحسن وضوءه ثم قام يصلي.
قال عبد الله بن عباسٍ : فقمت فصنعت مثل ما صنع ثم ذهبت فقمت إلى جنبه ، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده اليمنى على رأسي وأخذ بأذني اليمنى يفتلها ، فصلى ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم ركعتين ثم أوتر ، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن ، فقام فصلى ركعتين خفيفتين ، ثم خرج فصلى الصبح.

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک رات رہے جو کہ ان کی خالہ تھیں ، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں سرہانے کو چوڑائی میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے اس کی لمبائی میں لیٹ گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ آدھی رات یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر نیند ( کے اثرات) دور کرنے لگے پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں پھر ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے تو اس ( کے پانی) سے بہترین وضو کیا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر میں نے کھڑے ہوکر اسی طرح کیا جس طرح آپ نے کیا تھا پھر میں آپ کے پاس کھڑا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان ( پیار سے ) پکڑ کر مروڑنے لگے پھر آپ نے دورکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں ( کل بارہ رکعتیں ہوئی) پھر آپ نے ( ایک ) وتر پڑھا پھر آپ لیٹ گئے حتی کہ جب مؤذن آیا تو آپ نے کھڑے ہوکر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی

سندہ صحیح
متفق عليه

« 193- الموطأ ( رواية يحيٰ بن يحيٰ 121/1 ، 122 ح 264 ، ك 7 ب 2 ح 11) التمهيد 206/13 ، الاستذكار : 235
و أخرجه البخاري (183) ومسلم (763/182) من حديث مالك به »
------------------
مسلم بن أبي مريم
حديثٌ واحدٌ
194- مالكٌ عن مسلم بن أبي مريم عن علي بن عبد الرحمن المعاوي أنه قال : رآني عبد الله بن عمر وأنا أعبث بالحصباء ، فلما انصرفت نهاني وقال : اصنع كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ، قال : فقلت : وكيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع؟ قال : كان إذا جلس في الصلاة وضع كفه اليمنى على فخذه اليمنى ، وقبض أصابعه كلها وأشار بإصبعه التي تلي الإبهام ، ووضع كفه اليسرى على فخذه اليسرى.

علی بن عبدالرحمٰن المعادی ( تابعی) سے روایت ہے کہ مجھے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ( نماز میں) دیکھا اور میں کنکریوں سے فضول کھیل رہاتھا پھر جب میں نے سلام پھیرا تو انہوں نے مجھے منع کیا اور فرمایا : اسی طرح کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے میں نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اس حالت میں) کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ جب نماز میں بیٹھتے تو دئیں ہتھیلی کو دائیں ران پر رکھتے اور اپنی ساری انگلیاں بند کرکے انگوٹھے کے واتھ والی انگلی ( سبابہ) سے اشارہ کرتے اور بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے تھے۔

سندہ صحیح

«194- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 88/1 ، 89 ح 195 ، ك 3 ب 12 ح 48) التمهيد 193/13 ، الاستذكار : 170
و أخرجه مسلم (580/16 ) من حديث مالك به»
------------------
قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:
194moatta.jpg
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
نافعٌ
ثلاثةٌ لجميعهم ستةٌ وسبعون حديثاً
195- مالكٌ عن نافعٍ عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله) ) .

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا مال اور گھر والے سب کچھ اس سے چھن گیا اور وہ دیکھتا رہ گیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«195- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 11/1 ، 12 ح 20 ، ك 1 ب 5 ح 21) التمهيد 115/14 ، الاستذكار : 19
و أخرجه البخاري (552) ومسلم (626 ) من حديث مالك به »
------------------
196- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (لا يتحرى أحدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آدمی جان بوجھ کر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت ( نفل) نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«196- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 220/1 ح 516 ، ك 15 ب 10 ح 47) التمهيد 127/14 ، الاستذكار : 29
و أخرجه البخاري (585) ومسلم (828 ) من حديث مالك به »
------------------
197- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بسبعٍ وعشرين درجةً) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس گنا افضل ہے۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«197- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 129/1 ح 286 ، ك 8 ب 1 ح 1) التمهيد 137/14 ، الاستذكار : 255
و أخرجه البخاري (645) ومسلم (650 ) من حديث مالك به»
------------------
198- وبه : أن ابن عمر أذن بالصلاة في ليلةٍ ذات بردٍ وريحٍ ، فقال : ألا صلوا في الرحال ، ثم قال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلةٌ باردةٌ ذات مطرٍ ، يقول : ( (ألا صلوا في الرحال) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( نافع تابعی سے ) روایت ہے کہ ایک ٹھنڈی اور ( تیز) ہوا والی رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی تو فرمایا : سن لو ! اپنے ڈیروں( گھروں) میں نماز پڑھو پھر فرمایا : جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ کہے : سن لو ! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«198- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 73/1 ح 154 ، ك 3 ب 2 ح 10) التمهيد 270/13 ، الاستذكار : 132
و أخرجه البخاري (666) ومسلم (697) من حديث مالك به »
------------------
199- وبه : قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عجل به السير يجمع بين المغرب والعشاء.
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں جب جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے ۔

سندہ صحیح

«199- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 144/1 ح 327 ، ك 9 ب 1 ح 3) التمهيد 141/14 ، الاستذكار : 297
و أخرجه مسلم (703) من حديث مالك به »
------------------
200- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر ركعتين ، وبعدها ركعتين ، وبعد المغرب ركعتين في بيته ، وبعد صلاة العشاء ركعتين ، وكان لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے ، آپ مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھتے تھے اور عشاءکے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے آپ جمعہ ( پڑھنے ) کے بعد( گھر) واپس آنے تک کچھ بھی نہیں پڑھتے تھے پھر ( گھر آکر) دو رکعتیں پڑھتے تھے

سندہ صحیح
متفق عليه
«200- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 166/1 ح 399 ، ك 9 ب 23 ح 69) التمهيد 167/14 ، الاستذكار : 369
و أخرجه البخاري (937) ومسلم (882) من حديث مالك به»
------------------
قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:
200moatta.jpg
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
201- وبه : عن ابن عمر أن حفصة أم المؤمنين أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سكت المؤذن من الأذان لصلاة الصبح ، صلى ركعتين خفيفتين قبل أن تقام الصلاة.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ انہیں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہ نے بتا یا کہ جب مؤذن صبح کی نماز لئے اذان سے فارغ ہو کر خاموش ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی اقامت سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑ ھتے تھے

سندہ صحیح
متفق عليه

« 201- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 127/1 ح 281 ، ك 7 ب 5 ح 29) التمهيد 309/15 ، الاستذكار : 250
و أخرجه البخاري (618) ومسلم (723) من حديث مالك به»
------------------
202- مالكٌ عن نافعٍ وعبد الله بن دينارٍ عن عبد الله بن عمر : أن رجلاً سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (صلاة الليل مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعةً واحدةً توتر له ما قد صلى) ) .

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آ دمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رات کی نماز دو دو رکعت ہے ، پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے ، اس نے جو نماز پڑھی ہے یہ اسے وتر بنا دے گی

سندہ صحیح
متفق عليه

«202- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 123/1 ح 266 ، ك 7 ب 3 ح 13) التمهيد 240/13 ، الاستذكار : 237
و أخرجه البخاري (990) ومسلم (749) من حديث مالك به »
------------------
203- وعن نافعٍ عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إنما مثل صاحب القرآن كمثل صاحب الإبل المعقلة إن عاهد عليها أمسكها وإن أطلقت ذهبت) ) .

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صاحب ِ قرآن ( حافظ) کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے اونٹ بندھے ہو ئے ہوں ، اگر وہ ان کا خیال رکھے گا تو انہیں قابومیں رکھے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو یہ اونٹ ( بھاگ کر) چلے جائیں گے

سندہ صحیح
متفق عليه

« 203- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 202/1 ح 475 ، ك 15 ب 4 ح 6) التمهيد 131/14 ، الاستذكار : 444
و أخرجه البخاري (5031) ومسلم (789) من حديث مالك به
من رواية يحي بن يحي و سقط من الأصل»
------------------
204- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إذا جاء أحدكم الجمعة فليغتسل) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ ( کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کر ے

سندہ صحیح

«204- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 102/1 ح 227 ، ك 5 ب 1 ح 5) التمهيد 144/1
و أخرجه البخاري (877) من حديث مالك ومسلم (844) من حديث نافع به»
------------------
205- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى بصاقاً في جدار القبلة فحكه : ثم أقبل على الناس فقال : ( (إذا كان أحدكم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى) ) .

اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف دیوار پر تھوک دیکھا تو اسے کھرچ ( کر صاف کر) دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے سامنے اللہ ہو تا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه

«205- الموطأ ( رواية يحيٰ بن يحيٰ 194/1 ح 458 ، ك 14 ب 3 ح 4) التمهيد 154/14 ، الاستذكار : 427
و أخرجه البخاري ( 406) ومسلم ( 547) من حديث مالك به »
------------------
206- وبه : أن ابن عمر كان يقول : إن الرجال والنساء كانوا يتوضؤون في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعاً.

اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں اکٹھے وضو کر تے تھے

سندہ صحیح

«206- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 24/1 ح 43 ، ك 2 ب 3 ح 15) التمهيد 163/14 ، الاستذكار : 46
و أخرجه البخاري (193) من حديث مالك به »
------------------
207- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي ، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة ، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار ، يقال له : هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جا تا ہے ، اگر وہ جنتیوں میں سے تھا تو اسے جنت کا ٹھکانا اور اگر وہ جہنمیوں میں سے تھا تو اسے جہنم کا ٹھکانا دکھایا جا تا ہے اور اسے کہا جاتا ہے : جب اللہ قیامت کے دن تجھے دوبارہ اٹھائے گا تو یہ تیرا ٹھکانا ہوگا

سندہ صحیح
متفق عليه

«207- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 239/1 ح 567 ، ك 16 ب 16 ح 47) التمهيد 103/14 ، الاستذكار : 521
و أخرجه البخاري (1379) ومسلم (2866) من حديث مالك به »
------------------
208- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان ، فقال : ( (لا تصوموا حتى تروا الهلال ، ولا تفطروا حتى تروه ، فإن غم عليكم فاقدروا له) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا : جب تک تم (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک تم ( عید کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ افطار ( یعنی عید) نہ کرو اور اگر موسم ابر آ لود ہو تو ( تیس کی) گنتی پوری کرو

سندہ صحیح
متفق عليه

«208- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 286/1 ح 639 ، ك 18 ب 1 ح 1) التمهيد 337/1 ، الاستذكار : 589
و أخرجه البخاري (1906) ومسلم (1080) من حديث مالك به»
------------------
209- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الوصال ، فقالوا : يا رسول الله فإنك تواصل ، فقال : ( (إني لست كهيئتكم ، إني أطعم وأسقي) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو لوگوں نے پوچھا: یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تمھارے جیسا نہیں ہوں ، مجھے ( وصال کے روزوں کے دوران میں) کھلایا اور پلایا جاتا ہے

سندہ صحیح
متفق عليه

«209- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 300/1 ح 676 ، ك 18 ب 13 ح 38) التمهيد 361/14 ، الاستذكار : 626
و أخرجه البخاري (1962) ومسلم (1102) من حديث مالك به»
قال الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
209moatta.jpg

------------------
210- وبه : أن رجالاً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر في المنام في السبع الأواخر ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إني أرى رؤياكم قد تواطأت في السبع الأواخر ، فمن كان متحريها فليتحرها في السبع الأواخر) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ) روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلتہ القدر ( رمضان کے ) آ خری سات دنوں میں ہے تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب لگاتار ایک دوسرے کے موافق ہیں کہ آ خری سات دنوں میں لیلتہ القدر ہے پس جو شخص اسے تلاش کر نا چاہے تو آ خری سات دنوں میں تلاش کرے

سندہ صحیح
متفق عليه

«210- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 321/1 ح 714 ، ك 19 ب 6 ح 14) الاستذكار : 663
و أخرجه البخاري (2015) ومسلم (1165) من حديث مالك به»
------------------
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
211- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر في رمضان على الناس ، صاعاً من تمرٍ ، أو صاعاً من شعيرٍ ، على كل حرٍ أو عبدٍ ، ذكرٍ أو أنثى من المسلمين.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں لوگوں پر مسلمانوں میں سے ہر آ دمی پر کھجور کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع فرض قرار دیا ہے ، چاہے آ زاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت

سندہ صحیح
متفق عليه
« 211- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 284/1 ح 633 ، ك 17 ب 28 ح 52) التمهيد 312/14 ، الاستذكار : 584
و أخرجه البخاري (1504) ومسلم (984) من حديث مالك به »
------------------
212- وبه : أنه قال : نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يسافر بالقرآن إلى أرض العدو.
قال مالكٌ : أراه مخافة أن يناله العدو.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسلام کے) دشمنوں کے علاقے میں قرآن لے کر سفر کر نے سے منع کیا ہے ۔
(امام) مالک نے کہا: میرا خیال ہے کہ اس میں یہ خوف ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«212- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 446/2 ح 992 ، ك 21 ب 2 ح 7) التمهيد 253/15 ، الاستذكار : 931
و أخرجه البخاري (2990) ومسلم (1869) من حديث مالك به »
------------------
213- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجدٍ ، فغنموا إبلاً كثيرةً ، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيراً أو أحد عشر بعيراً ونفلوا بعيراً بعيراً.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ( مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آ دمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«213- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 450/2 ح 1000 ، ك 21 ب 6 ح 15) التمهيد 35/14 ، الاستذكار : 939
و أخرجه البخاري (3134) ومسلم (1749/35) من حديث مالك به »
------------------
214- وبه : أن عمر بن الخطاب حمل على فرسٍ عتيقٍ في سبيل الله ، فوجده يباع ، فأراد أن يبتاعه فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك ، فقال : ( (لا تبتعه ولا تعد في صدقتك) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں ایک بہترین گھوڑا صدقہ کیا تھا پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنے کا ارادہ کیا پھر انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«214- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 282/1 ح 630 ، ك 17 ب 26 ح 50) التمهيد 74/14 ، الاستذكار : 581
و أخرجه البخاري (2971) ومسلم (1621) من حديث مالك به »
------------------
215- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (الخيل في نواصيها الخير إلى يوم القيامة) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر لکھی گئی ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«215- الموطأ الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 467/2 ح 1031 ، ك 21 ب 19 ح 44) التمهيد 96/14 ، الاستذكار : 968
و أخرجه البخاري (2849) ومسلم (1871/96) من حديث مالك به »
------------------
216- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التي قد أضمرت من الحفياء ، وكان أمدها ثنية الوداع ، سابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريقٍ ، وأن عبد الله بن عمر كان ممن سابق بها.

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھوڑے جنہیں دبلا کرکے جہاد کے لئے تیار کیا گیا تھا ، حفیاء ( ایک مقام) سے ثنیة الوداع ( دوسرے مقام) تک دوڑائے اور جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا وہ ثنیہ سے لے کر بنوزریق کی مسجد تک دوڑائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«216- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 467/2 ، 468 ح 1032 ، ك 21 ب 19 ح 45) التمهيد 78/14 ، الاستذكار : 969
و أخرجه البخاري (420) ومسلم (1870/95) من حديث مالك به »
------------------
217- وبه : أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( (من حمل علينا السلاح فليس منا) ) .
اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«217- الموطأ (رواية محمد بن الحسن الشيباني ص 370 ح 866)
متفق عليه
و أخرجه البخاري (7070) ومسلم (98) من حديث مالك به »
------------------
218- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدرك عمر بن الخطاب وهو يسير في ركبٍ وهو يحلف بأبيه ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( (إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم ، فمن كان حالفاً فليحلف بالله أو ليصمت) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا : سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک قافلے میں سفر کر تے ہوئے اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تمہیں تمہارے والدین کی قسمیں کھانے سے منع کر تا ہے لہذٰا جو شخص قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے ۔

سندہ صحیح

«218- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 480/2 ح 1056 ، ك 22 ب 9 ح 14) التمهيد 366/14 ، الاستذكار : 990
و أخرجه البخاري (6646) ومسلم (1646/3) من حديث نافع به »
------------------
219- وبه : أن رجلاً سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما يلبس المحرم من الثياب؟ فقال صلى الله عليه وسلم : ( (لا تلبسوا القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الأخفاف ، إلا أحداً لا يجد نعلين فليلبس خفين وليقطعهما أسفل من الكعبين ، ولا تلبسوا من الثياب شيئاً مسه الزعفران ولا الورس) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ ایک آ دمی نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: احرام باندھنے والا کون سے کپڑے پہنے گا؟ تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( حالتِ احرام میں) نہ قمیصیں پہنو اور نہ عمامے ( پگڑیاں باندھو) ، نہ شلواریں پہنو اور نہ ٹوپیاں ( یا سر کے رومال) اور نہ بند جوتے ( موزے) پہنو سواسئے اس کے اگر کسی کے پاس کھلے جو تے نہ ہوں تو موزے( بوٹ) پہن لے اور ٹخنوں سے نیچے والے حصے کو کاٹ دے کپڑوں میں سے ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جس پر زعفران یا ورس ( ایک خوش بودار بوٹی) لگی ہو ئی ہو ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«219- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 324/1 ، 325 ح 724 ، ك 20 ب 3 ح 8 ، وعنده : وَلَا الْخِفَافَ) التمهيد 103/15 ، الاستذكار : 673
و أخرجه البخاري (1542) ومسلم (1177) من حديث مالك به»
---------
220- وبه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (يهل أهل المدينة من ذي الحليفة ، وأهل الشام من الجحفة ، وأهل نجدٍ من قرنٍ) ) .
قال عبد الله : وبلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( (ويهل أهل اليمن من يلملم) ) .

اور اسی سند کے ساتھ ( سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں( لبیک کہیں) اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل یمن یلَملَم سے احرام باندھیں ۔

سندہ صحیح
متفق عليه
«220- الموطأ (رواية يحيٰ بن يحيٰ 330/1 ح 740 ، ك 20 ب 8 ح 22) التمهيد 137/15 ، الاستذكار : 689
و أخرجه البخاري (1525) ومسلم (1182) من حديث مالك به»
------------------
 
Top