• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نماز میں مختلف قراء ات کی تلاوت
امام ابن صلاح رحمہ اللہ
دس منقول قراء ات کے علاوہ کسی قراء ت کی تلاوت کرنا مکروہ نہیں بلکہ حرام ہے خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں اور پڑھنے والا مصادر ومعانی سے واقف ہو یا ناواقف۔
’’ یجب منعہ وتاثیمہ بعد تعریفہٖ ثم ہو مستوجب تعزیرہ یمنع بالحیس والاہانۃ ونحو ذلک وعلی المتمکن من ذلک ان لا یہملہ‘‘(فتاویٰ ابن صلاح:۱؍۲۳۲)
(یعنی جو شخص قراء ات شاذہ کے (علاوہ عشرہ) کی تلاوت کرتا ہے) اسے روکنا اور اسے گنہگار قرار دینا ضروری ہے اور وہ پوری طرح جان لینے کے بعد بھی باز نہ آئے وہ مستوجب سزا ہے، اگر وہ اپنے اس فعل پر قائم رہے یا اصرار کرے تو اسے ذلیل کر کے جیل میں ڈال دیا جائے۔صاحب امر لوگ ایسے شخص کو کسی طرح بھی نظر انداز نہ کریں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فائدہ
اس فتویٰ سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ قراء عشرہ کی مرویات سے نماز جائز ہے، کیونکہ یہ قراء ات صحیح سند سے ثابت ہیں ساتھ ہی امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے قراء ات شاذہ پڑھنے والے کی سزا بھی متعین فرما دی اور اپنا مؤقف واضح لفظوں میں سب کے سامنے پیش کر دیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیے:
’’وتجوز القراء ۃ فی الصلوٰۃ وخارجہا بالقراء ات الثابتۃ الموافقۃ لرسم المصحف کما ثبتت ہذہ القراء ات ای العشر وغیرہا، ولیست شاذۃ حینئذ‘‘
’’نماز میں یا نماز کے علاوہ ہر دو حالت میں ان قراء ات کی تلاوت بلا شبہ جائز ہے جو ان مروجہ قراء ات عشرہ وغیرہ کی طرح صحیح سند سے ثابت ہیں اور مصاحف عثمانیہ کی رسم کے موافق ہیں اور وہ اب تک شاذ نہ بنی ہوں۔‘‘(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ،مسائل تفسیر، المراد بقولہ ان ہذا القرآن،النشر فی القراء ات العشر، لابن الجزری:۱؍۴۱)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’وأما من قرأ بقراء ۃ ابی جعفر ویعقوب ونحوہما فلا تبطل الصلوۃ بھا باتفاق الآئمۃ‘‘
’’جس نے نماز میں قراء ۃ ابو جعفر ویعقوب; اور ان جیسی کوئی قراء ت پڑھی تو باتفاق آئمہ اس کی نماز باطل نہ ہوگی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں:
سوال: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کسی قوم کی امامت کرواتا ہے وہ ’’امام ابوعمروبصری رحمہ اللہ‘‘ کی قراء ت پڑھتا ہے کیا وہ ورش رحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ کی قراء ت بھی ساتھ پڑھ سکتا ہے؟ یا وہ گنہگار ہوگا؟ اس کی نماز میں نقص آئے گا یا اسے نماز لوٹانا ہوگی؟
جواب: یجوز أن یقرأ بعض القرآن بحرف أبی عمرو،وبعضہ بحرف نافع،وسواء کان ذلک فی رکعۃ أو رکعتین وسواء کان خارج الصلوۃ أوداخلہا
’’جو شخص قرآن کا بعض حصہ ابو عمروبصری رحمہ اللہ کے حرف (یعنی قراء ت) پرپڑھتا ہے اور بعض حصہ حرف نافع یعنی قراء ت نافع رحمہ اللہ کے مطابق پڑھتا ہے اس کے لیے جائز ہے چاہے وہ ایک رکعت میں پڑھے یا دو رکعتوں میں اور چاہے وہ نماز میں ان کو پڑھے یا نماز کے علاوہ(یہ بھی جائز ہے) (فتاوی کبریٰ للشیخ الاسلام: مسئلہ نمبر۱۶۰)
امام بغوی رحمہ اللہ
امام بغوی رحمہ اللہ نے (نماز میں) قراء ات متواترہ کی تلاوت کے جواز پر امت کا اجماع ذکر کیا ہے۔(البحر المحیط،للزرکشی:۱؍۴۷۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام محمد بن الجزری شافعی رحمہ اللہ
محدث ومقری امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ولھذا أئمۃ أہل العراق الذین ثبتت عندہم قراء ات العشر والاحد عشر کثبوت ہذہ السبعۃ یجمعون فی ذلک الکتب ویقرء ونہ فی الصلاۃ وخارج الصلوۃ وذلک متفق علیہ بین العلماء ولم ینکر أحد منہم‘‘ (النشر فی القراء ات العشر:۱؍۴۰)
’’اور آئمہ اہل عراق کے ہاں دس یا گیارہ (قراء کی)قراء ات بھی اسی طرح صحیح ہیں جس طرح قراء سبعہ کی مرویات، وہ ان قراء ات کو کتب میں جمع کرتے ہیں نماز اور غیر نماز میں ان کی تلاوت کرتے ہیں یہ بات علماء کے ہاں متفق علیہ ہے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فتویٰ شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ
سوال: کیا پہلی رکعت میں روایت حفص عن عاصم اور دوسری میں روایت ورش عن نافع پڑھنا صحیح ہے؟
جواب : اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ روایت حفص مشہور روایت ہے ۔ آج اسلامی ممالک میں اس روایت کے مطابق قرآن تیار کیے جارہے ہیں اور اسی طرح روایت ورش بھی ایک متواتر روایت ہے بہت سے افریقی ممالک میں اس روایت کے مطابق مصاحف طبع کیے گئے ہیں اور مالکیہ میں سے بھی اکثر اس روایت کو اپناتے ہیں جن قراء ات میں آپ کو آسانی لگے انہیں میں سے کسی ایک میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔(فتاویٰ ابن جبرین: مسائل نماز)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: لیبیا کے باشندے روایت قالون پڑھتے ہیں یا ورش ؟
جواب: لیبیا میں روایت قالون زیادہ مشہور ہے اسی وجہ سے وہاں پر اس روایت میں قرآن طبع کیے گئے ہیں مگر اس کے ساتھ وہ لوگ روایت ورش بھی اپناتے ہیں۔(فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ،باب قراء ات القرآنیۃ)
سوال: میں جزائر کا رہنے والا ہوں میرے پاس روایت ورش والا ایک قرآن بھی ہے کیا آپ کے پاس ایسے مدارس ہیں جو روایت ورش عن نافع کی تعلیم دیتے ہوں، کیونکہ میں وہاں پڑھنا چاہتا ہوں۔
جواب : آپ نے جو یہ سوال کیا کہ ایسے مدارس ہیں جو روایت ورش کی تعلیم دیتے ہوں۔ تو جی ہاں، بعض جامعات اس کی تدریس میں مشغول ہیں اور بعض معاھد (معھد کی جمع) میں تمام قراء ات کی تعلیم دی جاتی ہے۔(فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیۃ، رقم نمبر :۵۶۱۲۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال: مجھے وضاحت چاہئے ، میں نے کسی سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول سنا ہے، جس نے دوقراء تیں ایک نماز میں جمع کیں اس کی نماز باطل ہے،کیا یہ قول صحیح ہے؟ کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں ایک رکعت میں روایت قالون پڑھوں اوردوسری میں روایت ورش۔
جواب: ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی کیانسبت ہے معلوم نہیں البتہ آپ کے لیے یہ جائز ہے۔
أن تقرأ فی الرکعۃ الاولی بروایۃ قالون وفی الرکعۃ الثانیۃ بروایۃ ورش،ونحوھا من کل روایۃ صحت القراء ۃ بھا
’’ کہ آپ پہلی رکعت میں روایت قالون اور دوسری رکعت میں روایت ورش پڑھیں یا ان جیسی تمام وہ روایات توقراء ات صحیح ہے۔‘‘
ابن عربی مالکی نے کہا کہ ہر وہ قراء ات جو مثل نافع و عاصم ثابت; ہیں ان کے مطابق جائز ہے کہ فاتحہ میں مختلف قراء ات پڑھی جائیں کیونکہ یہ (قراء ات عشرہ)قرآن ہیں۔(فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیۃ،رقم نمبر ۵۶۱۳۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فقہاء کااتفاق
اتفق الفقھآء علی جواز القراء ات المتواترۃ فی الصلوٰۃ فی الجملۃ(الموسوعۃ الفقھیۃ، تحت حرف القاف القراء ات)
’’ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام نمازوں میں قرا ء ات متواترہ کی تلاوت جائز ہے۔‘‘
نبیﷺ کا نماز میں مختلف قراء ات کے مطابق نماز پڑھنا
اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺکی تلاوت کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ آپ1 پڑھتے تھے (بسم اﷲ الرحمن الرحیم،الحمدﷲ رب العلمین الرحمن الرحیم، ملک یوم الدین…) (سنن ابی داؤد، رقم نمبر ۴۰۰۳،ص۲۰۰)
کہ نبیﷺہر ایک آیت پروقف کرتے۔ نیز اُم سلمیٰ نے لفظ (ملک) بغیر الف کے روایت کیا ہے۔ یہ قراء ات آج بھی معمول بہا ہے۔
قراء عشرہ میں سے (نافع مدنی، ابوجعفر مدنی، ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، ابن عامر شامی اور حمزہ کوفی رحمہم اللہ کی قراء ت بغیرالف کے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری روایت
امام زہری رحمہ اللہ نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ نبیﷺاور ابوبکر وعمر اورعثمان رضی اللہ عنہم ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (بالالف) تلاوت کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد، ج۲ ص۲۰۰)
قراء عشرہ میں عاصم کوفی،علی الکسائی کوفی، یعقوب بصری اور خلف کوفی رحمہم اللہ کی قراء ات الف کے ساتھ ہے۔
معمولات ائمہ سے چند دلائل
تمام ائمہ قراء ات جو مختلف قراء ات اپنے شاگردوں کو پڑھاتے تھے وہ ان کے مطابق نماز میں بھی تلاوت کرتے تھے۔ خدا کی قدرت دیکھیں کہ ائمہ اربعہ (مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ رحمہم اللہ) مشہور قراء عشرہ میں سے بعض کے شاگرد ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے امام نافع مدنی رحمہ اللہ سے ، امام شافعی رحمہ اللہ نے امام ابن کثیر مکی رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے امام شبعہ رحمہ اللہ (راوی عاصم رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے امام عاصم کوفی رحمہ اللہ سے قراء ات پڑھیں، اسی طرح امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور شریک بن عبداللہ رحمہ اللہ نے امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ سے قراء ات سیکھیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’امام سفیان رحمہ اللہ نے امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ کو چار مرتبہ پورا قرآن مجید قراء ات میں سنایاتھا۔‘‘(جمال القراء للسخاوی:۲ ؍۴۷۶)
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کے اساتذہ میں امام ہشام بن عمار المقری رحمہ اللہ اور عبدالرحمن بن یزید المقری رحمہ اللہ کے نام آتے ہیں۔
مزید امام ہشام رحمہ اللہ (استاذ بخاری) جامع مسجد دمشق میں خطیب تھے اور جمعہ کی نماز بھی خود ہی پڑھاتے تھے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام ہشام رحمہ اللہ اور ابن ذکوان رحمہ اللہ اسی مسجد میں پانچوں نمازوں کے امام تھے۔ان دونوں راویوں کی منقول روایت میں کافی اختلاف پایا جاتاہے ان دونوں نے ایک دوسرے کی نمازیں باطل ہونے کے فتوے نہیں دیئے اور امام نسائی رحمہ اللہ امام سوسی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔
 
Top