• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔ وحی جو الہام ہو:
الہام اس صورت میں کہ اللہ تعالی اپنے نبی یا رسول کے دل میں یہ چیز جما دے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ضروری علم ہے جسے وہ نہ رد کرے اور نہ اس میں شک۔جیسے آپ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِیْ رُوْعِیْ أن نَفْساً لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَہَا، أَلاَ فَاتَّقُوا اللہَ وَأَجْمِلُوا فِی الطَّلَبِ۔
روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ کوئی جی بھی اپنا رزق مکمل کئے بغیر مر نہیں سکتا، سنو! اللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور مطالبہ میں جمال پیدا کرو۔ (عن ابن مسعود: مشکاۃ المصابیح ۳؍۱۴۵۸)

انبیاء سابقین کی تعلیمات بھی وحی کی ان تمام صورتوں میں نازل ہوئی ہیں اس لئے وحی کا معنی و مفہوم تمام انبیاء کے درمیان مشترکہ چلا آتا ہے۔اس میں جبریل امین قاصد یعنی پیغام لانے والے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْ إِلَیْْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ¢}( الأنبیاء : ۲۵)
آپ سے قبل کسی رسول کو ہم نے نہیں بھیجا مگر یہ کہ ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ کوئی معبود نہیں سوائے میرے پس تم میری ہی عبادت کرو۔

{قُلْ إنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی إلَیَّ مِنْ رَّبِّيْ}(الأعراف: ۲۰۳)
’’آپ فرما دیں کہ میں تو اسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘

فرشتوں پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرشتوں پروحی کرنے کا ذکر بھی کیا ہے۔
{إذ یوحی ربک إلی الملئکۃ أنی معکم فثبتوا الذین آمنوا۔۔}
جب تمہارے رب نے فرشتوں کو وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تو اہل ایمان کو ذرا ثابت قدم رکھو۔

{وإذ قال ربک للملئکۃ إنی جاعل فی الأرض خلیفۃ}
جب تمہارے رب نے فر شتوں سے فرمایا میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

مگر یہ وحی فرشتوں کو کیسے ہوتی ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إذا قَضَی اللّٰہ الأَمْرَ فِی السَّمائِ ضَرَبتَِ الْمَلائِکۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خَضْعاناً لِقَولِہِ، کَأَنَّہُ سِلْسِلَۃٌ عَلَی صَفْوَانٍ، فَإذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِم قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّکُم؟ قَالُوا لِلَّذِی قَالَ: اَلْحَقَّ۔ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ۔ (صحیح البخاری ،تفسیر سورۃ سبأ)
جب اللہ تعالی آسمان میں کوئی حکم نافذ کرتے ہیں فرشتے اپنے پروں کو یہ حکم سنتے ہی جھکادیتے ہیں گویا کہ یہ آواز زنجیر کی ہوتی ہے جو کسی چٹان پر پڑ رہی ہو۔پھر جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہوتا ہے وہ پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا۔ اسے وہ کہتے ہیں: حق کہا ہے وہ بالا وبرتر ہے۔(صحیح بخاری ۶؍۲۸) تفسیر سورہ سبأ)

امام ابن شہاب زہریؒ کا قول ہے کہ اس حدیث میں وحی کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ (الفتاوی الکبری: ۶؍۵۹۳)

اس کی مزید وضاحت سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہوتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا تَکَلَّمَ اللہُ سَمِعَ أَہْلُ السَّمَائِ صَلْصَلَۃً کَجَرِّ السِّلْسِلَۃِ عَلَی الصَّفَا، قَالَ: فَیَصْعَقُوْنَ فَلاَ یَزَالُوْنَ کَذَلِکَ حَتّٰی یَأتِیَہُمْ جَبْرِیْلُ، فَإِذَا أَتَاہُمْ جِبْرِیْلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ ، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا جِبْرِیْلُ: مَاذَ قَالَ رَبُّکَ؟ قَالَ : یَقُوْلُ الحَقَّ۔ قَالَ: فَیُنَادُوْنَ: الحَقَّ الحَقَّ۔(سنن ابی داود: ۲؍۵۳۶، صحیح بخاری تعلیق وموقوف علی ابن مسعود ۸؍۱۹۴)
جب اللہ تعالی کلام فرماتے ہیں تو آسمان والے ایک ایسی آوازسنتے ہیں جوچٹان پر زنجیر کو کھینچنے سے آتی ہے۔ پھروہ بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہیں حتی کہ جبریل امین ان کے پاس آجاتے ہیں۔ جب جبریل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کے دلوں سے خوف جاتا رہتا ہے پھر وہ پوچھتے ہیں جبریل! آپ کے رب نے کیا کہا؟ وہ فرماتے ہیں: وہ حق ہی فرماتے ہیں۔ تو سب فرشتے پکارتے ہیں: حق فرمایا اللہ تعالی نے، حق فرمایا اللہ تعالی نے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ابلاغ وحی دو انداز سے ہوتا ہے:

۱۔ وہ وحی جو جبریل ِامین نے حروف وحرکات سمیت بغیر کسی کمی و بیشی کے آپ ﷺ کو پہنچائی ۔ جسے آپ ﷺ نے بھی جبریلِ امین سے حاصل کرنے کے بعد من وعن آگے پہنچایا۔اسے وحی متلو کہتے ہیں ۔اس سے مراد قرآن مجید کی وحی ہے کیونکہ اسے تلاوت کیا جاتا ہے۔اسے وحی جلی بھی کہتے ہیں۔

۲۔ دوسرا انداز وحی یہ ہے کہ جبریل امین نے آپ ﷺ تک اسے بالمعنی پہنچا یا یا براہ راست آپ ﷺ کو کر دی گئی ،جیسے جبریل امین کا انسانی شکل میں حاضر خدمت ہونا یا خواب والہام کی صورت میں آپ کو براہ راست وحی کردینا۔وحی کی یہ تمام صورتیں آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات میں ملتی ہیں جنہیں وحی غیر متلو کہتے ہیں۔ ان کی تلاوت تونہیں کی جاتی البتہ ان پر عمل ضروری ہے مسلم فقہاء نے اس لئے حدیث کو شریعت کا دوسرا مصدر قرار دے کر احکام خمسہ کو متعارف کرایا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے سے بہت سے احکام کی وضاحت کی گئی جیسے نماز وروزہ کی تفاصیل اور حلال وحرام کے مسائل۔ یہ وحی تمام تر سنت رسول کی عملی صورت ہے اسے وحی خفی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وحی غیر متلو کی متعدد صورتیں:
اوپر ہم جان چکے کہ قرآن کریم وحی متلو کی صورت میں آپ ﷺ پر نازل ہوا ۔ مگر اس کی تمام تر تشریحات وحی غیر متلو میں نازل ہوئیں۔ جسے وحی خفی بھی کہتے ہیں۔اس کے دو انداز ہوا کرتے۔ جبریل امین کا خود تشریف لانا یا آپ ﷺ کو خواب یا الہام کی صورت میں وحی کا ہوجانا۔ جبریل علیہ السلام نزول وحی کے لئے جب حاضر ہوتے تو ان کی درج ذیل تین صورتوں میں کوئی ایک صورت ہوا کرتی۔

۱۔ بعض دفعہ جبریل علیہ السلام نظر نہ آتے بلکہ ان کی آمد پرآپ ﷺگھنٹی کی یا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنتے۔امام ابن حجر ؒ کا کہنا ہے: جبریل امین ایک فرشتہ اور رسول اللہ ﷺایک بشرتھے ۔دونوں کے درمیان اتصال کا نام دراصل وحی ہے۔ جب دو افراد عربی اور عجمی کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو تفاہم کے لئے ہر ایک دوسرے کی زبان جاننے کا محتاج ہوتا ہے۔ جب دو کے مابین وحی میں اتصال ہوتا ہے تو یہاں یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ بشر کا غلبہ ملک پر ہو، تاکہ بشر اس کی بات سمجھ سکے۔یا بشر پر ایسا روحانی غلبہ ہو کہ فرشتہ کے لئے اللہ تعالی کی بات پہنچا نااسے آسان ہو۔(فتح الباری ۱؍۲۸)۔ یہ وحی جلی کہلاتی ہے(الاتقان ۲؍ ۴۲) ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے :
{أوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِيَ بإذْنِہِ مَا یَشَائُ}(الشوری : ۵۱ )
یا وہ کوئی فرستادہ بھیجے جو اسی کے حکم سے جو چاہے وحی کرے۔

عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں:
میں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ! آپ وحی محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں زنجیرکی آوازیں سنتا ہوں پھر خاموش ہوجاتا ہوں۔ جب بھی مجھ پر وحی ہوتی ہے تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری جان ابھی ختم ہوحائے گی۔

اس اشد وحی میں آپ ﷺ کو سخت پسینہ بھی آتا۔ ام المؤمنین فرماتی ہیں: سخت سردی کے موسم میں میں آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ پھوٹتا دیکھتی۔
زید بن ثابت فرماتے ہیں:
میں وحی لکھا کرتا۔ آپ پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو اس کی سخت ترین شدت گھیرے میں لے لیتی۔ اور آپ چھوٹے چھوٹے موتیوں کے پسینہ سے شرابور ہوتے پھر آپ سے وحی ختم ہوجاتی۔(مجمع الزوائد ۸؍۲۵۷)

۲۔ کبھی جبریل امین اپنی اصل شکل میں نمودار ہوتے جیسے آپ ﷺ نے فترۃ الوحی کے بعدجبریل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ۔ پھرمعراج کی رات آپ ﷺ نے انہیں سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔

۳۔ جبریل ِامین عموماً ایک صحابی سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے۔ اس صورت میں فرشتہ جو وحی آپ ﷺ پرکرتا اسے وحی ملکی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… مطالعہ سیرت کے دوران نبی ﷺ کی زندگی کے مختلف روشن پہلوؤں سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وحی صرف قرآن مجیدپرمنحصر نہیں تھی بلکہ وحی خفی کے ذریعے بھی بہت سے احکامات دئے گئے جو درج ذیل ہیں۔

۱۔ تشریعی امور :
جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قضاء، نکاح، طلاق، خلع اور صلح و جنگ کے قواعد اور ان کی تفصیلات جو قرآن مجید میں نہیں -ایسے تمام امور آپ کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے۔ خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبریل ؑ انسانی شکل میں آپ کو سامنے آکر بتائیں۔ عرف عام میں یہ وحی خفی کہلاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ تدبیری امو ر :
آپﷺ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر کے بعض امور نمٹاتے تھے۔ جس کا "وشاورھم فی الأمر"کے ذریعے آپ کو حکم دیا گیا تھا۔ مثلا جنگ کے لئے کون سا مقام زیادہ مناسب ہے؟ قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ دعوت دین کو کیسے منظم کیا جائے؟وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت اور تجربہ سے ہے جن میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں مشورہ کے بعد اگر فیصلہ میں کوئی غلطی ہو جائے تو وحی کے ذریعے اس کی اصلاح کر دی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں سے متعلق وحی نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۳۔ اجتہادی امور:
ایسے دینی معاملات جن میں کسی مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔علم دین کا ماہر صاحب بصیرت ہی اسے معلوم کرسکتا ہے۔ آپﷺ نئے امور کو اسی طرح نمٹاتے تھے۔ مثلاً ایک خاتون نے دریافت کیا کہ میری والدہ پر حج فرض تھامگر وہ ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہوگئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے اب حج کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بھلا یہ بتاؤاگر تمہاری والد ہ کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی: جی ہاں ضرور کرتی ۔آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ تو زیادہ حق دار ہیں کہ اس کا حق ادا ہو۔

آپ کے ایسے اجتہادات کی فہرست بہت طویل ہے۔ مگر جب بھی ایسی کوئی لغزش ہوئی تو بذریعہ وحی جلی یا خفی اس امر کی اصلاح کر دی گئی۔ صرف ایک تشریعی امر یعنی اذان کی مثال ایسی ملتی ہے جس میں آپ نے تشریعی امر ہونے کے باوجود مشورہ کیا۔ لیکن بالآخر یہ مسئلہ بھی وحی کے ذریعہ ہی انجام پایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔ طبعی امور:
اس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے لوگوں سے معاملات وغیرہ آ جاتے ہیں۔ ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے وحی نے یہاں بھی رہنمائی فرمائی۔انسان کھانے پینے میں آزاد ہے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیز ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، داہنے ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔وہ اپنے لباس کے انتخاب میں آزاد ہے۔ لیکن ستر ڈھانکنا اور عورت کے لئے حجاب کرنا ضروری ہے۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو کرنے میں آزاد ہے لیکن اپنے والدین اور اہل خانہ سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا پابند ہے۔ وہ اپنے کاروبار کو اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن سود یاحرام طریقہ سے مال نہیں کما سکتا۔ ناپ تول میں کمی نہیں کر سکتا کسی دوسرے سے دھوکہ اور فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ وغیرہ۔

ان تصریحات سے واضح ہو جاتا ہے کہ شریعت کے تمام امور کا سارا انحصار وحی پر ہے ۔نیز انسانی بصیرت پر بھی اکتفاء نہیں کیا گیا کہ وہ اجمال قرآن کی وضاحت کرے کیونکہ ان معاملات کا تعلق وحی خفی سے ہے جو اس کے بغیر انجام پاہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان پہلوؤں پر بھی وحی نے ہدایات دی ہیں۔ جن میں اکثر کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ، بلکہ ان کی رہنمائی وحی خفی سے کی گئی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نزول وحی کی ابتداء :
جب آپ کی عمرمبارک چالیس سال ہو گئی تو رمضان دوشنبہ کی اکیسویں شب یعنی لیلۃ القدرمیں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کونبوت سے سرفراز فرمایا۔ جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپﷺ کے پاس غار حراء میں تشریف لائے۔ نزول وحی کی پہلی تاریخ یہی ہے پھر بتدریج آپ ﷺکی آخری عمر تک اس وحی کا سلسلہ تقریباً ۲۳سال تک رہا ہے (جس کا زمانہ ۲۲سال ۵ماہ اور ۱۴دن بنتا ہے) یہاں تک کہ پورا قرآن مجید نازل ہوگیا۔

ابتداء میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس کے بعدمشہور قول کے مطابق تین برس تک کوئی وحی نہیں آئی۔اسے ’’ فترۃ الوحی‘‘کازمانہ کہا جاتا ہے۔ لیکن ابن عباسؓ کی روایت کے مطابق وحی کی یہ بندش تقریباً دس دن تھی۔پھر بعدمیں آپ پر سورہ المدثر یآیھا المدثر قم فأنذر نازل ہوئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۳سال کے عرصہ میں قرآن مجید اس طرح نازل ہوا کہ کبھی ایک چھوٹی آیت یاکبھی آیت کا ایک جزو نازل ہوتا اور کبھی کئی کئی آیتیں بیک وقت نازل ہو تیں۔ سب سے چھوٹا حصہ قرآن مجید میں جونازل ہوا وہ غیر أولی الضررہے۔یہ ایک طویل آیت کا جزو ہے۔ دوسری طرف سورہ الانعام مکمل ایک ہی وقت میں نازل ہوئی جو ۶۵آیات پر مشتمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امام بخاریؒ نے ام المومنین عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے وہ مفصل سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت و جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے قلوب میں اسلام نے گھر کر لیا تو حلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے۔ ورنہ اگر چھوٹتے ہی یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر حکم ہوتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے کہ ہم سے زنا ترک نہیں ہو سکتا۔(صحیح بخاری ۱/۱۸۵)

احادیث صحیحہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حسب ضرورت پانچ او ر دس سے زیادہ یا کم آیات نازل ہوا کرتیں۔ چنانچہ واقعہ افک میں دس آیتوں کا اور سورہ المؤمنون کی ابتدائی دس آیات کا نزول یکبارگی ثابت ہے۔ نزول قرآن کے لحاظ سے سورۃ البقرۃ کی درج ذیل آیت آخری ہے :
{وَاتَّقُواْ یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہِ إِلَی اللّہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون}(البقرۃ:۲۸۱)
اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر نفس کو پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کمائی کی اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔

امام رازی (م۶۰۶ھ؁) نے سیدنا ابن عباس کا یہ قول (فتوح الغیب ۲/۵۴۵)ذکر کیا ہے کہ آیت مذکورہ بالا ہی وہ آخری آیت ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس طرح کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے جب حج فرمایا تو آیت کلالہ نازل ہوئی۔ آپﷺ نے وقوف عرفات کیا تو آیات
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔(المائدۃ : ۳)
نازل ہوئیں۔اور اس کے بعد یہ آیت
وَاتَّقُواْ یَوْماً تُرْجَعُونَ فِیْہ
تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ اس کو سورہ البقرہ کے۲۸۱آیت کے سرے میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ اکیاسی دن زندہ رہے۔بعض اکیس دن اور ایک قول سات دن کا بھی ہے۔ اورکچھ نے یہ کہا کہ آپ ﷺ کی وفات سے صرف تین گھنٹے قبل یہ آیت نازل ہوئی تھی۔بہر حال اسی آیت کے نزول کے آخری ہونے کی تائید بے شمار تفاسیر سے ملتی ہے۔
 
Top