تجزیہ:
وہ وحی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کی صورت میں اور سیدنا عیسیٰ ؑپر انجیل کی صورت میں اتری ان کا کیا حال ہوا؟ کس نے بنواسرائیل پر حملہ کیا؟ ان کے ہیکل کو مسمار کیا اور تورات کے اوراق تک پھاڑ ڈالے کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ پھر کیا غلامی سے نسلوں بعد نجات پانے کے بعد محض یادداشت سے کتاب تورات لکھ کر دعوی کرنا یہ اصل کتاب ہے؟ حدیث رسول ہی اس سے بھلی کہ جسے کم ازکم صحابہ نے لکھ تو لیا۔ مزید براں تورات وانجیل میں اضافہ شدہ ایسی حکایات جو نزول تورات وانجیل کے بعد پیش آئے بڑی مضحکہ خیز ہیں۔
تورات وانجیل کا حال: عیسائی سکالرز کی ایک ٹیم نے اپنی ایک نئی مشترکہ تحقیق میں:
The Five Gospels, What Did Jesus Really Say
جو مستند ارشادات عیسیٰ علیہ السلام پر مبنی ہے۔ اس میں (ص: ۶اور ۱۱) میں لکھتے ہیں:
The Temporal gap that separates Jesus from the first surviving copies of the Gospels..about one hundred and seventy five years..corresponds to the lapse in time from 1776..the writing of the Declaration of Independence.. to 1950.
What if the oldest copies of the founding document dated only from 1950?
Two Portraits of Jesus
The Synoptic Gospels The Gospel of John
Begins with Creation; no birth or childhood stories.
Begins with John the Baptist or birth and chidhood stories.
Baptism of Jesus presupposed but not mentioned.
Jesus is baptised by John.
Jesus speaks in long, involved discourses.
Jesus speaks in parables and aphorisms.
Jesus is a philosopher and mystic.
Jesus is a sage.
Jesus performs no exorcisms
Jesus is an exorcist.
Jesus himself is the theme of his own teaching.
God's imperial rule is the theme of Jesus teaching.
Jesus reflects extensively on his own mission and reason.
Jesus has little to say about himself.
Jesus has little or nothing to say about the poor and oppressed.
Jesus espouses the causes of the poor and oppressed.
The public ministry lasts three years.
The public ministry lasts one year.
The temple incident is early.
The temple incident is late.
Foot washing replaces last supper.
Jesus eats last supper with his disciples.
کتنا تضاد ہے ان دونوں انجیلوں کے بیانات میں!!!۔ سیدنا عیسیٰ ؑکی شخصیت کے یہ دو رخ ہیں جو بائیبل پڑھنے والوں کے سامنے آتے ہیں۔ کیا ایسی کوئی متضاد شے قرآن مجید کے بیانات میں ملتی ہے؟ اس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کا ہر رخ بغیر کسی گنجلک کے انتہائی واضح ہے۔ اللہ کا یہ کلام تحریف سے پاک ہے اور بائیبل مقدس اپنوں ہی کے ہاتھوں تبدیلی کا شکار ہوگئی جس کا اشارہ قرآن مجید پہلے سے ہی کرچکا ہے۔
قرآن جیسے مقدس اور خالص عربی کلام کو آپ ﷺ نے کس غیر عرب سے سیکھا؟ سب غیر مطمئن تحقیقات ہیں۔قرآن مجید نے ایسے اعتراضات کا جواب اس وقت کی جاہلیت کو دے دیا تھا:
{فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ں أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْْبَ الْمَنُونِ ں قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ ں أَمْ تَأْمُرُہُمْ أَحْلَامُہُم بِہَذَا أَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُون َ ں أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَہُ بَل لَّا یُؤْمِنُون َ ں فَلْیَأْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہِ إِن کَانُوا صَادِقِیْنَ ں} (الطور: ۲۹۔۳۴)
آپ نصیحت کرتے جائیے آپ اپنے رب کی انعام وکرم سے نہ کا ہن ہیں نہ پاگل۔کیا یہ کہہ رہے کہ ایک شاعر ہے جس کے گردش ایام کے ہم منتظر ہیں؟ ان سے کہئے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔کیا ان کے جھوٹے خواب انہیں اس بات کا حکم دیتے ہیں یا وہ ہیں ہی سرکش لوگ؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اس نے خود گھڑا ہے!! نہیں بلکہ یہ ماننا نہیں چاہتے۔تو لے آئیں وہ اس جیسی کوئی بات اکر وہ سچوں میں سے ہیں۔