• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۱۵) قرآن میں نہ صرف گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات ہیں بلکہ کئی ایسی حقیقتوں کا ذکر بھی ہے جن سے اہل عرب بالکل نابلد تھے اور آج وہ ثابت شدہ ہیں۔پھر بھی کلام الٰہی کی بجائے یہ انسانی تصنیف ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۱۶) ہمارے دور میں انسان نے اپنی بات بہت تیزی اور مخفی انداز سے دوسرے تک پہچانے کے آلات ایجاد کر لیے ہیں۔ جو ہزاروں میل دور بیٹھے چند سیکنڈ میں آواز و تحریر کو دوسرے تک بآسانی پہنچا دیتے ہیں۔ان میں الیکٹرانک ویڈیومیل وکانفرنس اور FAX و سیٹلائٹ کمیونیکیشن، جی پی ایس، سیٹلائٹ فونز وغیرہ کا کردار نمایاں ہے۔کیا اللہ تعالی کے لئے اپنی بات تیزی سے رسول اللہ ﷺتک پہنچانے کا بندوبست کرنا ناممکن تھا۔ کہ جس کا بہت کم فہم صدیوں بعد انسان کو جاکر حاصل ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۱۷) وحی میں تضاد ملا اور نہ ہی آپ ﷺ کی گفتگو میں کہ جسے کسی نے آپ ﷺ کو باور کرایا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
(۱۸) اہل جاہلیت نے آپ ﷺ کو ساحر، کاہن، مجنون اور کذاب تک کہا۔ یہ تابڑ توڑ حملے آپ ﷺ کے خلاف ایک ایسا ماحول تیار کرنے کا حصہ تھے کہ کوئی بھی اسلام قبول نہ کرسکے۔مگر کیا وہ کسی ایک الزام پر خود قائم رہ سکے یا انہیں اپنے الزام پر یقین تھا؟ نہیں! اس کے برعکس آپ ﷺ کو یقین تھا اور آنکھوں دیکھی نزول وحی کی کیفیات نے ایمان صحابہ کو عین الیقین دلا دیا تھا۔مگر یہ نام اور پروپیگنڈے آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے۔ نہ ہی صحابہ کرام کا ایمان کو متزلزل ہوا۔کفار یہ بھی جانتے تھے کہ جو مجنون ہے اس کے کذاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو کذاب ہے اس کا مجنون ہونا بھی ناممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تجزیہ:
وہ وحی جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر توراۃ کی صورت میں اور سیدنا عیسیٰ ؑپر انجیل کی صورت میں اتری ان کا کیا حال ہوا؟ کس نے بنواسرائیل پر حملہ کیا؟ ان کے ہیکل کو مسمار کیا اور تورات کے اوراق تک پھاڑ ڈالے کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ پھر کیا غلامی سے نسلوں بعد نجات پانے کے بعد محض یادداشت سے کتاب تورات لکھ کر دعوی کرنا یہ اصل کتاب ہے؟ حدیث رسول ہی اس سے بھلی کہ جسے کم ازکم صحابہ نے لکھ تو لیا۔ مزید براں تورات وانجیل میں اضافہ شدہ ایسی حکایات جو نزول تورات وانجیل کے بعد پیش آئے بڑی مضحکہ خیز ہیں۔

تورات وانجیل کا حال: عیسائی سکالرز کی ایک ٹیم نے اپنی ایک نئی مشترکہ تحقیق میں:
The Five Gospels, What Did Jesus Really Say
جو مستند ارشادات عیسیٰ علیہ السلام پر مبنی ہے۔ اس میں (ص: ۶اور ۱۱) میں لکھتے ہیں:

The Temporal gap that separates Jesus from the first surviving copies of the Gospels..about one hundred and seventy five years..corresponds to the lapse in time from 1776..the writing of the Declaration of Independence.. to 1950.

What if the oldest copies of the founding document dated only from 1950?

Two Portraits of Jesus

The Synoptic Gospels The Gospel of John

Begins with Creation; no birth or childhood stories.


Begins with John the Baptist or birth and chidhood stories.

Baptism of Jesus presupposed but not mentioned.


Jesus is baptised by John.

Jesus speaks in long, involved discourses.


Jesus speaks in parables and aphorisms.

Jesus is a philosopher and mystic.


Jesus is a sage.

Jesus performs no exorcisms


Jesus is an exorcist.

Jesus himself is the theme of his own teaching.


God's imperial rule is the theme of Jesus teaching.

Jesus reflects extensively on his own mission and reason.


Jesus has little to say about himself.

Jesus has little or nothing to say about the poor and oppressed.


Jesus espouses the causes of the poor and oppressed.

The public ministry lasts three years.


The public ministry lasts one year.

The temple incident is early.


The temple incident is late.

Foot washing replaces last supper.


Jesus eats last supper with his disciples.


کتنا تضاد ہے ان دونوں انجیلوں کے بیانات میں!!!۔ سیدنا عیسیٰ ؑکی شخصیت کے یہ دو رخ ہیں جو بائیبل پڑھنے والوں کے سامنے آتے ہیں۔ کیا ایسی کوئی متضاد شے قرآن مجید کے بیانات میں ملتی ہے؟ اس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کا ہر رخ بغیر کسی گنجلک کے انتہائی واضح ہے۔ اللہ کا یہ کلام تحریف سے پاک ہے اور بائیبل مقدس اپنوں ہی کے ہاتھوں تبدیلی کا شکار ہوگئی جس کا اشارہ قرآن مجید پہلے سے ہی کرچکا ہے۔

قرآن جیسے مقدس اور خالص عربی کلام کو آپ ﷺ نے کس غیر عرب سے سیکھا؟ سب غیر مطمئن تحقیقات ہیں۔قرآن مجید نے ایسے اعتراضات کا جواب اس وقت کی جاہلیت کو دے دیا تھا:
{فَذَکِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ ں أَمْ یَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہِ رَیْْبَ الْمَنُونِ ں قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ ں أَمْ تَأْمُرُہُمْ أَحْلَامُہُم بِہَذَا أَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُون َ ں أَمْ یَقُولُونَ تَقَوَّلَہُ بَل لَّا یُؤْمِنُون َ ں فَلْیَأْتُوا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہِ إِن کَانُوا صَادِقِیْنَ ں} (الطور: ۲۹۔۳۴)
آپ نصیحت کرتے جائیے آپ اپنے رب کی انعام وکرم سے نہ کا ہن ہیں نہ پاگل۔کیا یہ کہہ رہے کہ ایک شاعر ہے جس کے گردش ایام کے ہم منتظر ہیں؟ ان سے کہئے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔کیا ان کے جھوٹے خواب انہیں اس بات کا حکم دیتے ہیں یا وہ ہیں ہی سرکش لوگ؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اس نے خود گھڑا ہے!! نہیں بلکہ یہ ماننا نہیں چاہتے۔تو لے آئیں وہ اس جیسی کوئی بات اکر وہ سچوں میں سے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مستشرقین اور وحی :
ڈاکٹر جارج پوسٹ نے قرآن مجید کی ایک ڈکشنری لکھی۔ جو بیروت میں ۱۸۹۴ء؁ میں طبع ہوئی۔ اس میں انہوں نے وحی کی تعریف یہ لکھی ہے:

’’وحی کا مطلب ہے کہ لکھنے والے کو کسی بات کا اس طرح الہام ہو کہ خدا کی روح اس میں حلول کر جائے اور وہ روحانی حقائق اور غیبی خبروں سے بخوبی آگاہ و آشنا ہو جائے۔ مگر اس وحی کے باوصف اس کی شخصیت بھی قائم رہے اور وہ اپنے اسلوب و انداز کے مطابق کام کرتا رہے۔ ‘‘

یہ تعریف ، قرآن مجید کی اس اصطلاحی تعریف سے مختلف ہے جو پہلے کی گئی ہے۔ قرآن مجید کو آپ ﷺ نے لکھا ہی نہیں۔ یہ تو آپ کے قلب اطہر پر نازل ہوا ہے۔ نیز یہ تعریف تو شعراء اور اور غلام احمد قادیانی کے دعووں میں ملتی ہے کہ خدا ان میں حلول کرجاتا ہے ۔ اور اس کی مزید بدترین انواع و اقسام جو شیطان کے زیر اثر ہو کر حاصل ہوتی ہیں وہ کاہنوں اور نجومیوں کے ہاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ جو جھوٹے اور دجال لوگ ہیں وہ غیبی خبروں میں چکنی چپڑی باتیں لگانے کے عادی ہوتے ہیں اور اسی اسلوب وانداز سے کام کرنے میں غرق ہوتے ہیں۔جب کہ وحی اللہ تعالی سے اخذ واستفادہ کی صورت ایسی ہے جو کشف و الہام میں ممکن ہی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کشف و الہام:
کشف، یہ خالصتا ًصوفیانہ اصطلاح ہے۔ جس کا تعلق حسیات سے ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز یا واقعہ کو آنکھوں کے لئے کھول دینا۔ متا خرین نے اس کی دو قسمیں بنالی ہیں۔

۱۔ کشف القلوب:
اس سے مراد کسی کے دل کا ارادہ و نیت دوسرے پر کھل جانا۔ صوفیاء اس کے قائل ہیں۔

۲۔ کشف القبور:
اس سے مراد کسی کی قبر میں کیا ہورہا ہے اور مردہ کس عالم میں ہے، اس کا انکشاف کسی بزرگ پر ہو جائے۔اس کا دعوی بھی صوفیاء کرتے ہیں۔

ہر انسان کا وجدان اور اس کی قلبی واردات دوسرے سے مختلف ہے۔ نیز عقل کابھی۔ ایک عقل مند کسی واقعہ سے جو نتیجہ نکال سکتا ہے اسے ایک کم زور ذہن والا نہیں نکال سکتا۔ یہی حال وجدان کا ہے عقل، انسان کے میلانات ، تصورات اور تجربات کو متعین کرتی ہے۔ اسی طرح صاحب کشف کے میلانات و تصورات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ کشف میں اصحاب کشف کا اتفاق ناممکن ہے۔ اس کی مثال چار اندھوں کا ہاتھی کو ٹٹول کر یہ بتانا ہے کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ کشف کے یہ دعوے تو صرف اللہ تعالیٰ کوزیب دیتے ہیں کہ وہ علیم بذات الصدور ہے اور ولکن لا تشعرون کہے۔ خدائی میں ضم ہونے اور أنا الحق جیسی گمراہ کن کیفیات اسی وجہ سے تو پیدا ہوتی ہیں۔ مگر اس قسم کے دعوے رسول اکرمﷺ نے کئے اور نہ ہی آپﷺ کو زیبا تھے۔ یہود یہ نے آپﷺ کو زہردیا مگر آپﷺ کے لئے اس کا کشف القلب نہ ہوسکا۔ منافق آتے آپﷺ ان کی دلی حالت نہ جان سکتے۔اسی طرح میدان بقیع میں آپ ـﷺجاتے توسب کے لئے دعائے مغفرت فرماتے مگر کسی کے لئے آپ ﷺنے دعویٰ نہیں کیا کہ اس کی قبر ایسی ہے یا یہ اس عالم میں ہے۔ وغیرہ۔ الا یہ کہ فرشتہ آپﷺ کو بتا دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الہام :
اس کا تعلق وجدانیات سے ہے یعنی دل میں کوئی بات بغیر کسی چیز دکھائے ڈال دی جاتی ہے۔ یہ الہام جانوروں کو بھی حاصل ہے اور انسانوں میں مسلم وغیر مسلم کوبھی۔ جیسا کہ ہم اوپر وحی کے لغوی معنی میں پڑھ آئے ہیں۔اس لئے بعض عیسائی حضرات بھی وحی، کشف اور الہام میں فرق کو جاننے کے بعد یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ مگر آپﷺ کی رسالت نہ صرف اہل عرب کے لئے تھی بلکہ تمام دنیا کے لئے۔ یہودی بھی آپ ﷺکی رسالت کا انکار اس وحی کی بنیاد پر نہیں کرتے تھے بلکہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ آپﷺ کی رسالت امیوں کے لئے ہے۔ ہم تو خواندہ اور پڑھے لکھے اہل کتاب ہیں۔ لہذا اس رسالت کی ہمیں ضرورت نہیں۔

٭٭٭٭٭

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Top