• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وحی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نزول وحی کے وقت آپ ﷺ کی کیفیت :
نزول وحی کے وقت آپ ﷺبکمال ہوش و حواس اور روحانی طور پر نہایت چاق و چوبند اور چوکس ہوا کرتے ۔ حاضرین سوائے چند ظاہری آثار کے اسے محسوس نہ کرپاتے ۔ مثلاً آپ ﷺ کے جسم مبارک کا بھاری ہوجانا، پسینہ بہنا خواہ سردی ہو۔جب وحی آتی تو آپ ﷺ کسی عصبی تکلیف میں مبتلا ہوتے نہ بیماری کا دورہ پڑتا۔اس کا مبدأ اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس وحی میں کلام نفسی کا شبہ تک نہ ہو تا اور نہ دوسرے احتمالات کا اس میں دخل ۔ فرشتہ جب وحی نازل کرکے چلا جاتا تو آپ ﷺ تھوڑی دیر بعد اپنی طبعی حالت میں لوٹ آتے۔ قرآن مجید میں بھی ان احتمالات کا دفاع کیا گیا ہے۔
{وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلاً مَا تُؤْمِنُونَ¢ وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلًا مَاتَذَکَّرُوْنَ}(الحا قۃ : ۴۱۔۴۲ )
یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے ،تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہواور نہ ہی کسی کاہن کا،تم بہت ہی کم نصیحت پکٹرتے ہو۔

احادیث صحیحہ میں رسول اللہﷺ نے وحی کے نزول کی کیفیت کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

بعض اوقات نزول وحی کے وقت مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ میرے لئے بہت سخت ہوتی ہے۔ جب یہ کیفیت دور ہوتی ہے تو جو کچھ مجھے بتایا گیا ہوتا ہے یاد ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات فرشتہ انسانی صورت میں آ کر بات کرتا ہے جسے سن کر میں یاد کر لیتا ہوں۔ (صحیح بخاری ۱؍ ۶)

وحی کی پہلی صورت واقعی زیادہ گراں اور دشوار ہوا کرتی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہے۔
{إِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً } (المزمل: ۵ )
ہم آپ پر ایک گراں بار قول القاء کریں گے۔

اسی کیفیت کو دیکھ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
وَلَقَدْ رَأَیْتُہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ الْوَحْیُ فِی الْیَوْمِ الشَّدِیْدِ الْبَرْدِ فَیَفْصِمُ عَنْہُ وَإِنَّ جَبِیْنَہُ لَیَتَفَصَّدُ عَرَقًا( صحیح بخاری : ۲)
میں نے سخت سردی کے دن آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتے دیکھی تو پیشانی سے پسینہ بہ رہا تھا۔

حالت سواری میں نزول وحی شروع ہوتی تو جانور بوجھ تلے دب کر بیٹھ جاتا(زاد المعاد ۱/۲۵)۔ زید ؓ بن ثابت پر بھی اس کیفیت کا جب بوجھ پڑا تو ان کی ران ٹوٹنے لگی۔ صحابہ کرام ؓ اس وحی کی آواز کو شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دیا کرتے کیونکہ انہیں اس کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دیتی تھی۔( مسند أحمد) وحی کی اس حالت میں آپ ﷺ نیند کرنے والے کی طرح سانس لیا کرتے۔ایسی بات نہیں تھی کہ آپ پر غنودگی کی ایسی کیفیت طاری ہوجاتی گویا کہ آپ بے ہوش ہوجاتے یاآپ پر کوئی پردہ ڈال دیا گیاہو۔سیدنا عمر ؓ نے صفوان بن یعلی کو یہی حالت دکھائی کہ کپڑے سے آپ پر سایہ کیا گیا تھا انہوں نے اپنا سر اندر ڈال کر دیکھا تو آپ کا چہرہ مبارک انتہائی سرخ تھا اور آپ ﷺ سونے والے کی طرح بلند سانسیں لے رہے تھے۔
وحی کی دوسری صورت پہلی سے ہلکی اور آسان تھی۔ اس میں نہ آوازوں کا تسلسل ہوتا اور نہ پیشانی سے پسینہ بہتا۔ جبریل انسانی شکل میں آتے اور وحی کرجاتے۔ یہ صوری مشابہت دونوں کے کام میں آسانی پیدا کر دیا کرتی تھی۔وحی کی ان دونوں صورتوں میں آپﷺ کے ہوش و حواس بالکل بجا ہوتے تھے۔ اس حالت وحی میں آپﷺ کے فہم و ادراک میں کوئی فرق نہ آتا تھا خواہ وحی کیسی ہی ہوتی۔

ابتداََ جب آپﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آیت کا کچھ حصہ ضائع ہوجانے کے خوف سے وحی مکمل ہونے سے پہلے آپ ﷺ اسے جلدی جلدی پڑھنا شروع کر دیا کرتے تھے تا کہ وہ الفاظ نہ بھول جائیں۔ جبریل علیہ السلام جو الفاظ پڑھاتے آپﷺ اپنی زبان مبارک او ر لبوں کو ہلاتے جاتے اوران کے ساتھ ساتھ پڑھتے۔ دوسری طرف قرآن مجید کا یاد کرنا آپ ﷺ پرآسان کر دیا گیا تھا۔ اس لئے یہ وعدہ فرما کے آپ کو مطمئن کر دیا:
{لَاتُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ ¢ إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْاٰنَہُ¢فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہُ ¢ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا بَیَانَہ} (القیامۃ:۱۶۔۱۹)
قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلائیں۔ اس کو آپﷺ کے سینہ میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ اور پھر اس کو بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔

وحی کے بعد نازل شدہ قرآن کی آیت یا آیات دوبارہ پڑھوانے کی ذمہ داری کو غالباً یوںسمجھا جا سکتا ہے کہ(Hard Disk) میں کچھ(Upload) کر دیا جائے۔ جسے بعد میں جب اورجیسے چاہیں سن لیں یا CD میں مختلف فائلز سننے کے لئے ایک بار اسے Backکیا جائے یا جس طرح ایک آڈیو کیسٹ کو کسی کاپئیر پر ٹرانسفر کیا جائے تو وہ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں ۶۰یا ۹۰منٹ کا کیسٹ دونوں طرف سے کاپی کر دیتا ہے۔ کاپی کرنے کے اس دورانئے میں اگر ہم آواز سنیں تو وہ ناقابل فہم ہوتی ہے۔ شاید نزول وحی کی کیفیت اس طرح کی تیزی میں ہوتی ہوگی جسے بہت ہی جلد سینے میں اتار دیا جاتا ہوگا اور جس کی آواز کو صحابہ رسول نے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آواز جیسا سنا یا اس سے تشبیہ دی۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نزول وحی کا دارو مدار :
نزول وحی کی آمد اور اس کے رک جانے کا سارا دارومداراللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر تھا۔اللہ تعالی چاہتے تو وحی جاری رہتی اور اگر چاہتے تو رک جاتی۔ قرآن کے نزول یا عدم نزول میں آپ کے اختیار کوکوئی دخل نہ تھا۔واقعہ افک میں ایک ماہ وحی کا سلسلہ منقطع رہا۔ آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو سخت پریشانی رہی۔اور آپ ﷺ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ رہے تھے:
إِنِّیْ لاَ أَعْلَمُ عَنْہَا إِلاَّ خَیْراً۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دلی آرزو رہی کہ آپ ﷺ کا قبلہ خانہ کعبہ کی جانب تبدیل ہو جائے۔ سولہ سترہ ماہ تک نہایت بے قرار رہے مگر ہوا وہی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چاہا۔
نبی کریم ﷺ اس امر کے واحد شاہد تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ آپ کا ذاتی یقین و اطمینان بھی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ آپ اپنی ذات کو وحی کی تعلیمات میں مدغم نہیں کرتے تھے۔ بعض اوقات وحی اس کثرت سے نازل ہونے لگتی کہ آپ بیمار پڑ جاتے اور بعض اوقات شدید ضرورت کے وقت وحی رک جایا کرتی تھی۔وحی ہمہ وقت آپﷺکے قلب مبارک پر نازل ہوتی رہتی تھی۔ کوئی وقت مستثنٰی نہ تھا۔ آپ بستر پر لیٹے ہیں اور ابھی سو بھی نہ پائے تھے کہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سر اٹھا کر مسکرانے لگے اور فرماتے ہیں کہ مجھ پر سورہ الکوثر نازل ہوئی ہے۔گھر پر استراحت فرمارہے ہیں رات کا ایک تہائی حصہ باقی ہے کہ آپ پر سورہ التوبہ کی وہ آیت اتری جس میں غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے صحابہ کرام ؓ کا ذکر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کی زبان:
اللہ تعالی کایہ اصول رہا ہے کہ مخاطب قوم کی زبان میں ہی وحی نازل کی جائے تاکہ قوم وحی الٰہی کو سمجھنے، اس پر ایمان لانے یا نہ لانے کا فیصلہ کر سکے۔ اس لئے جس قوم میں بھی رسول آیا وحی بھی اسی قوم کی زبان میں نازل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کبھی عبرانی میں آئی، کبھی سریانی میں اور کبھی عربی میں ، اور کبھی دوسری قوم کی زبان میں۔ آپﷺ کے مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کی حقیقت:
انسانی حواس کے لئے اولا ً اس کی حقیقت کو پانا ممکن نہیں کیونکہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی حقیقت کا ادراک ہمارے حواس کے بس میں نہیں مگر وہ بلاشبہ موجودہیں۔ہاں انسانی حواس ایک حد تک ان کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ آج جدیدآلات کے ذریعے بغیر کسی تگ ودو کے دنیا کے دوسرے کنارے بیٹھے شخص سے بآسانی ویڈیو گفتگو کرنا، ان کی تصادیر دیکھنا ممکن ہوگیا ہے جس کا بظاہر کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح حشرات الارض اور بعض جانور وں کو انسان سے بڑھ کر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مثلاً انسان کے مقابلے میں کتے کے سونگھنے کی صلاحیت سات سو گنا زیادہ ہے، دیمک کی ملکہ کئی میل پھیلے اپنے کارکنوں کو بغیر کسی ظاہری واسطے کے پیغام دیتی ہے جو اس پیغام کو سننے کے بعد اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں جبکہ دیمک اندھی ہوتی ہے۔ پتنگوں کی سینکڑوں اقسام کئی فرلانگ سے اپنے نرومادہ کی مخصوص آواز یا بو سونگھ لیتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ مانا جاتا ہے تو اس بات کے ماننے میں کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالی بھی اپنے پیغام کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے ان سے بھی زیادہ مخفی طریقہ استعمال کرنے پر قادر ہے جسے وحی کہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی عالم الغیب سے تعلق رکھتی ہے۔ عالم الشہادہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی طرح عالم الغیب پر بھی ہمارا ایمان ہے۔ کچھ عقل مند ، صاحب دانش وبینش جو انہیں نظر آتا ہے اسے تو مانتے ہیں مگر جو ان کے خیال ، تصور یا دید سے باہر ہے اس کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی غیبی اشیاء پر ان کا اندھا ایمان ہوتا ہے جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے۔ مثلاً: عقل کولیجئے۔ کیا اسے کسی نے آج تک دیکھا ہے مگر اس کے وجود کا انکار کوئی نہیں کرتا۔روح جو ہمارے جسم میں دوڑتی پھرتی ہے سبھی جانتے ہیں مردہ اور زندہ میں فرق اسی روح کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔مگر کیا ہمارے ترقی یافتہ وسائل اس کی یافت کرسکے ہیں؟ عالم شہادہ کے علاوہ یہ عالم بھی ماننا پڑتا ہے جسے عالم الغیب کہتے ہیں۔ وحی کا تعلق بھی اسی عالم سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کے سچ ہونے کے دلائل:
وحی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ آپﷺ پر وحی آنے کا کوئی امکان نہیں اور جو بھی آپﷺ نے وحی کے نام پر کہا وہ آپ ﷺ کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں تھیں(نعوذ باللہ)۔ یہ الزام و نظریہ بالکل غلط ہے جس کے خلاف بہت سے دلائل موجود ہیں:

(۱) نبی اکرم ﷺ پہلے نبی نہ تھے کہ جس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ بلکہ آپﷺ انبیاء کے طویل سلسلے کی آخری کڑی تھے اگر پہلے انبیاء پر وحی آ سکتی ہے تو آپ ﷺ پرکیوں نہیں آ سکتی؟
{ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ۔۔۔۔۔}(ابراہیم :۴)
ہم نے جو رسول بھی بھیجا اس قوم کی زبان میں ہی بھیجا تا کہ وہ انہیں وحی کی باتیں واضح کر دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۲) عرب نزول وحی کے منکر نہ تھے بلکہ یہ کہتے کہ قرآن آپﷺ کی بجائے کسی اور پر کیوں نہ اتارا گیا۔
{وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْْنِ عَظِیْم¢}(الزخرف:۳۱)
اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن دو بستیوں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہ نازل ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۳) امکان وحی کی تیسری دلیل سچے خواب ہوا کرتے ہیں جو بارشاد نبوی نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔اگر یہ خواب تسلیم کئے جا سکتے ہیں تو وحی کو تسلیم کیا جانا چائیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۴) امکان وحی کی دلیل خود قرآن پاک کا معجزہ ہونا ہے کیونکہ اس جیسی مثال کوئی بھی نہ لا سکا۔ لہذا یہ ایک انسانی تخلیق نہیں بلکہ کلام الٰہی ہے جو بذریعہ وحی نبی اکرم ﷺکو دیا گیا۔
 
Top