مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 464
- پوائنٹ
- 209
جن کا انسانی بدن میں داخل ہونا
جن و شیاطین انسان کو طرح طرح سے ستاتے اور انہیں تکلیف دیتے ہیں ۔مثلا لوگوں کو خوف وہراس کا شکار بنانا، نفسیاتی اور اعصابی امراض(پاگل پن، غم، قلق، بے چینی ، مرگی ووسوسےوغیرہ) میں مبتلا کرنا، نگاہ اچک لینا، وہم میں مبتلا کرنا، دوآدمیوں کے درمیان تفریق پیدا کردینا، بعض جنسی اور بعض نسوانی امراض کا مریض بنانا، جانی اور مالی نقصان پہنچاناوغیرہ وغیرہ ۔ ان کے علاوہ بے شمار امراض ہیں جن کے ذریعہ شیطان اولاد آدم کو تکلیف دیتا ہے جیساکہ قرآن میں ارشاد ہے :
ثُمَّ لآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ وَلاَ تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ(سورهالاعرافآیه 17:)
ترجمہ :پھر ان کے پاس ان کے آگے ان کے پیچھے ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور تو اکثر کو ان میں سے شکر گزار نہیں پائے گا۔
مذکورہ بالا جنی تکالیف کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جنات انسانوں کو دو طرح سے تکلیف دیتے ہیں ۔
(1) اس کے جسم سے باہر رہتے ہوئے ۔
(2) اس کے جسم میں داخل ہوکر۔
پہلی قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں ، اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسری قسم پر نظر ڈالتے ہیں جو ہمارا موضوع ہے ۔
جنات کا انسانی بدن میں داخل ہونا:
یہ بات دلائل کی روشنی میں اظہر من الشمس ہے کہ جن انسان کے بدن میں داخل ہوتا ہے ۔ اسے عربی میں "الصرع "یعنی آسیب لگنا، سحرلگناکہتے ہیں اور اس آسیب زدہ شخص کو "المصروع"(پچھاڑاہوا) کہتے ہیں۔
مصروع کی وضاحت: جب انسانی عقل میں خلل واقع ہواور اسے یہ شعور باقی نہ رہے کہ وہ کیاکہہ رہاہے یا ابھی کیا کہا ہے اور آئندہ کیا کہے گا۔یعنی اس کے اقوال کے مابین کوئی ربط نہ ہویا اس کا حافظہ باقی نہ رہاہو، یا عقل میں خلل کے باعث اس کی حرکات و تصرفات میں خبطی پن پایا جائے ، یااس میں سیدھے قدم رکھنے کی قدرت موجود نہ رہے یا اس کے جسم کا توازن ختم ہوگیا ہو۔ (عالم الجن فی ضوء الکتاب والسنہ)
اردو میں اسے ہم آسیب زدہ یا سحرزدہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
انسان کو جن لگنے کی قرآنی دلیل :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔
اس آیت میں صریح دلیل ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہوکر اسے خبط الحواس بنا دیتا ہے ۔آئیے چند مشاہر علماء و مفسرین کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جن انسان کے بدن میں واقعتا داخل ہوجاتا ہے ۔
(1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سود خور کو روز قیامت اس مجنوں کی طرح اٹھایا جائے گا جس کا گلا گھونٹا جا رہاہو۔(ابن ابی حاتم)
عوف بن مالک ، سعید بن جبیر،سدی، ربیع بن انس ، قتادہ اور مقاتل بن حیان سے اسی طرح مروی ہے ۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر قرطبی)
(2) امام قرطبی فرماتے ہیں : اس آیت میں ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو جنات کے لگنے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے ، نیز شیطان انسان کے اندر نہ تو داخل ہوسکتا ہے ، نہ لگ سکتاہے ۔ (تفسیر قرطبی 3/255)
(3) حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: آیت کریمہ (الذین یاکلون الربا،،،،،) کا مطلب یہ ہے کہ سود خور اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ مریض کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان لگاہو اور اسے خبطی بنا دیاہو، یعنی وہ عجیب وغریب حالت میں کھڑا ہوتا ہے ۔ (تفسیرابن کثیر1/326)
(4) امام طبری ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود کھانے والے اس طرح حواس باختہ ہوکر اٹھیں گے جس طرح دنیا میں وہ شخص تھا جسے شیطان نے آسیب میں مبتلا کرکے مجنوں بنا دیاہو۔
(5) امام آلوسی فرماتے ہیں : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح دنیا میں جن زدہ شخص کھڑا ہوتا ہے ۔
لفظ "تخبط" تفعل کے وزن پر فعل (یعنی خبط) کے معنی میں ہے ۔ اور اس کی اصل مختلف انداز کی مسلسل ضرب ہے ۔ اور ارشاد الہی (من المس) کا مطلب جنون اور پاگل پن ہے ۔ کہاجاتا ہے "مس الرجل فھو ممسوس" یعنی وہ پاگل ہوگیا ، اور مس کا اصل معنی ہاتھ سے چھونا ہے ۔ (تفسیر قرطبی)
(6) امام شوکانی ؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے : یہ آیت ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جنہوں نے جن چڑھنے کا انکار کیا اور گمان کیا کہ اس فعل کا تعلق طبیعت سے ہے ۔
(7) ابوالحسن اشعری نے اپنی کتاب "مقالات اہل السنہ والجماعہ" میں ذکر کیا ہے : وہ کہتے ہیں کہ جن مصروع (آسیب زدہ) کے بدن میں داخل ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔ (مجموع الفتاوی 19/12)
(8) امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں : اللہ کا قول" کالذی یتخبطہ الشیطان من المس" میں مصروع میں شیطان کی تاثیر کا ذکر ہے اور یہ چھونے سے ہوتا ہے ۔
(9) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں : جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بھی اہل سنت و جماعت کے اتفاق سے ثابت ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورۃ البقرۃ : 275)
ترجمہ : سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے ۔
اور نبی ﷺ کی حدیث سے صحیح ثابت ہے ۔ "شیطان اولاد آدم کے رگ و پے میں خون کی جگہ دوڑتا ہے ۔ (مجموع الفتاوی 24/276)
اسی لئے شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں ہیں : ائمہ مسلمین میں کوئی ایسا نہیں جو مرگی والے انسان میں داخل ہونے کا انکار کرتا ہو ۔ اور جس نے اس کا انکار کیا اور یہ دعوی کیا کہ شریعت بھی اس کو جھٹلاتی ہے ، اس نے شرع پر جھوٹ بولا، اور شرعی دلائل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کی نفی کرتی ہو۔ (مجموع الفتاوی 24/277)