محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم و رحمت الله -
آجکل عالم اسلام میں جس طرح تکفیری و خارجی فتنے پنپ رہے ہیں اس طرح رافضیوں کی ہمنوائی میں اکثر اہل سنّت کی طرف سے ان محققین وتاریخ دانوں پر "ناصبی" ہونے کا فتنہ بھی عروج پر ہے- جنہوں نے شہادت عثمان رضی الله عنہ اور شہادت حسین رضی الله عنہ سے متعلق اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی جسارت کی-
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناصبی کبھی بھی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا (جسطرح شیعان علی رضی الله عنہ یعنی رافضی ہر دور میں رہے ہیں)- بلکہ ناصبیت محض ایک رجحان تھا جو بنو امیہ دور میں بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔ بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا- اس وجہ سے یہ گروہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا - زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان تھا۔ (واللہ عالم)-
اہل تشیع کے نزدیک ''ناصبیت'' کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ''آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے کے شروع میں کہا ہے:
’’اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین سے محبت رکھنی "ناصبیت" ہو تو ثقلین گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں (الکافیہ الشافیہ)
حضرت علی رضی الله عنہ و حضرت فاطمه رضی الله عنہ اور دیگر اہل بیت رضوان الله اجمین سے مسلمانوں کی محبّت فطری ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے- لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام رضوان الله اجمین بہرحال انسان تھے - نبی کی طرح معصوم نہیں تھے کہ اجتہادی غلطیوں سے مبرّا ہوں- حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے ساتھ فتنوں کا عظیم سلسلہ شروع ہوا -ان فتنوں کی زد میں صحابہ کرام بھی آے -لیکن طرفین نے ان پاک ہستیوں کی معمولی اجتہادی غلطیوں کا اتنا پرچار کیا کہ ایک طرف رافضی گروہ وجود میں آیا تو دوسری طرف ناصبیت نے سر اٹھایا- البتہ بعد کی تاریخ حقائق سے ثابت ہے کہ ناصبیت کا وجود رافضیت کے دیوہیکل وجود کے سامنے چند صدیوں بعد ہی دم توڑ گیا - کیوں کہ رافضیت کو بہرحال ہمیشہ سے یہودیت کی سرپرستی جو حاصل رہی ہے-
ہمارے معاشرے میں اہل تشیع تو الگ لیکن اہل سنّت میں آپس میں رافضیت و ناصبیت کا جگھڑا اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے اکثر محققین نے واقعہ شہادت عثمان رضی الله عنہ اورخوصوصآ واقعہ کربلا کو اپنی اہل بیت سے جذباتی وابستگی کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے- جو کہ تاریخ دانی کا اصول نہیں ہے - جب کہ تاریخی واقعات کو غیر جانبداری سے پرکھنا ہی تاریخ کا صحیح اصول ونہج ہے- اس جذباتی پن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن تاریخ دانوں یا محققین نے ان واقعات سے متعلق اپنی حقیقت پر مبنی آراء بیان کیں اب چاہے وہ دور قدیم کے محقق ابن خلدون ، بلاذری یا ابن کثیر وغیرہ ہوں یا پھر دور جدید کے محققین محمود احمد عباسی ، یوسف صلاح الدین، زبیرعلی زئی، حبیب الرحمان کاندھلوی یا تمناعمادی وغیرہ ہوں ان پر رافضی نما اہل سنّت نے جھٹ سے "ناصبی" ہونے کا لیبل لگا دیا- یہ دیکھے بغیر کہ آخر حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ تاریخی اعتبار سے مذکورہ محققین کے بیان کردہ آراء کے ١٠٠ فیصد درست ہونے کا دعوی کرنا بھی بہرحال بے انصافی ہے-کیوں کہ اہم واقعات سے متعلق تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین کی صورت میں عینی شہادت ، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ کوئی آسان کام نہیں- لیکن بہرحال تاریخ اسلام کا افسوس ناک پہلوی یہ ہے کہ کچھ احباب اہل سنّت جن میں مولانا مودودی جیسے علماء سرفہرست تھے ان کی جانبداری اور جذباتیت نے تاریخ اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا- حتیٰ کہ اپنے آپ کو جھوٹا محب اہل بیت ثابت کرنے کے لئے کذاب و دجال راویان ابو مخنف ، واقدی ، ہشام کلبی کی روایات کو من و عن قبول کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا - یہ ان نام نہاد علماء کی اسی کج روی کا نتیجہ تھا کہ دور حاضر میں اہل سنّت بھی یزید بن معاویہ رح کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے- اب ظاہر ہے کہ جنہوں نے حقائق کا ساتھ دیا ان پر "ناصبی" کا لیبل لگانا رافضی نما اہل سنّت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں رہا-
آجکل عالم اسلام میں جس طرح تکفیری و خارجی فتنے پنپ رہے ہیں اس طرح رافضیوں کی ہمنوائی میں اکثر اہل سنّت کی طرف سے ان محققین وتاریخ دانوں پر "ناصبی" ہونے کا فتنہ بھی عروج پر ہے- جنہوں نے شہادت عثمان رضی الله عنہ اور شہادت حسین رضی الله عنہ سے متعلق اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی جسارت کی-
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناصبی کبھی بھی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا (جسطرح شیعان علی رضی الله عنہ یعنی رافضی ہر دور میں رہے ہیں)- بلکہ ناصبیت محض ایک رجحان تھا جو بنو امیہ دور میں بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔ بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا- اس وجہ سے یہ گروہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا - زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان تھا۔ (واللہ عالم)-
اہل تشیع کے نزدیک ''ناصبیت'' کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ''آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے کے شروع میں کہا ہے:
’’اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین سے محبت رکھنی "ناصبیت" ہو تو ثقلین گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں (الکافیہ الشافیہ)
حضرت علی رضی الله عنہ و حضرت فاطمه رضی الله عنہ اور دیگر اہل بیت رضوان الله اجمین سے مسلمانوں کی محبّت فطری ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے- لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام رضوان الله اجمین بہرحال انسان تھے - نبی کی طرح معصوم نہیں تھے کہ اجتہادی غلطیوں سے مبرّا ہوں- حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے ساتھ فتنوں کا عظیم سلسلہ شروع ہوا -ان فتنوں کی زد میں صحابہ کرام بھی آے -لیکن طرفین نے ان پاک ہستیوں کی معمولی اجتہادی غلطیوں کا اتنا پرچار کیا کہ ایک طرف رافضی گروہ وجود میں آیا تو دوسری طرف ناصبیت نے سر اٹھایا- البتہ بعد کی تاریخ حقائق سے ثابت ہے کہ ناصبیت کا وجود رافضیت کے دیوہیکل وجود کے سامنے چند صدیوں بعد ہی دم توڑ گیا - کیوں کہ رافضیت کو بہرحال ہمیشہ سے یہودیت کی سرپرستی جو حاصل رہی ہے-
ہمارے معاشرے میں اہل تشیع تو الگ لیکن اہل سنّت میں آپس میں رافضیت و ناصبیت کا جگھڑا اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے اکثر محققین نے واقعہ شہادت عثمان رضی الله عنہ اورخوصوصآ واقعہ کربلا کو اپنی اہل بیت سے جذباتی وابستگی کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے- جو کہ تاریخ دانی کا اصول نہیں ہے - جب کہ تاریخی واقعات کو غیر جانبداری سے پرکھنا ہی تاریخ کا صحیح اصول ونہج ہے- اس جذباتی پن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن تاریخ دانوں یا محققین نے ان واقعات سے متعلق اپنی حقیقت پر مبنی آراء بیان کیں اب چاہے وہ دور قدیم کے محقق ابن خلدون ، بلاذری یا ابن کثیر وغیرہ ہوں یا پھر دور جدید کے محققین محمود احمد عباسی ، یوسف صلاح الدین، زبیرعلی زئی، حبیب الرحمان کاندھلوی یا تمناعمادی وغیرہ ہوں ان پر رافضی نما اہل سنّت نے جھٹ سے "ناصبی" ہونے کا لیبل لگا دیا- یہ دیکھے بغیر کہ آخر حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ تاریخی اعتبار سے مذکورہ محققین کے بیان کردہ آراء کے ١٠٠ فیصد درست ہونے کا دعوی کرنا بھی بہرحال بے انصافی ہے-کیوں کہ اہم واقعات سے متعلق تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین کی صورت میں عینی شہادت ، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ کوئی آسان کام نہیں- لیکن بہرحال تاریخ اسلام کا افسوس ناک پہلوی یہ ہے کہ کچھ احباب اہل سنّت جن میں مولانا مودودی جیسے علماء سرفہرست تھے ان کی جانبداری اور جذباتیت نے تاریخ اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا- حتیٰ کہ اپنے آپ کو جھوٹا محب اہل بیت ثابت کرنے کے لئے کذاب و دجال راویان ابو مخنف ، واقدی ، ہشام کلبی کی روایات کو من و عن قبول کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا - یہ ان نام نہاد علماء کی اسی کج روی کا نتیجہ تھا کہ دور حاضر میں اہل سنّت بھی یزید بن معاویہ رح کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے- اب ظاہر ہے کہ جنہوں نے حقائق کا ساتھ دیا ان پر "ناصبی" کا لیبل لگانا رافضی نما اہل سنّت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں رہا-