• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناصبیت

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

آجکل عالم اسلام میں جس طرح تکفیری و خارجی فتنے پنپ رہے ہیں اس طرح رافضیوں کی ہمنوائی میں اکثر اہل سنّت کی طرف سے ان محققین وتاریخ دانوں پر "ناصبی" ہونے کا فتنہ بھی عروج پر ہے- جنہوں نے شہادت عثمان رضی الله عنہ اور شہادت حسین رضی الله عنہ سے متعلق اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی جسارت کی-

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناصبی کبھی بھی کوئی منظم فرقہ نہیں رہا (جسطرح شیعان علی رضی الله عنہ یعنی رافضی ہر دور میں رہے ہیں)- بلکہ ناصبیت محض ایک رجحان تھا جو بنو امیہ دور میں بعض لوگوں میں جاری رہا۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے اقتدار کا خاتمہ کیا تو ان کے حامیوں کو بھی قتل کیا۔ اس میں ناصبی فرقہ بھی مٹ کر رہ گیا۔ بعد کی صدیوں میں ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے تاہم یہ منظم نہیں ہو سکے۔ ابن کثیر نے اپنے زمانے (آٹھویں صدی ہجری) کے بعض لوگوں کا ذکر کیا ہے جو سانحہ کربلا کی یاد میں دس محرم کو جشن منایا کرتے تھے۔ بہرحال امت میں ان لوگوں کو کبھی قبول عام حاصل نہیں ہوا- اس وجہ سے یہ گروہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آ سکا - زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بعض لوگوں کا انفرادی رجحان تھا۔ (واللہ عالم)-

اہل تشیع کے نزدیک ''ناصبیت'' کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔ ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، ان کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا موقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔

یزید بن ہارون سے کہا گیا: ''آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے کے شروع میں کہا ہے:
’’اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین سے محبت رکھنی "ناصبیت" ہو تو ثقلین گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں (الکافیہ الشافیہ)

حضرت علی رضی الله عنہ و حضرت فاطمه رضی الله عنہ اور دیگر اہل بیت رضوان الله اجمین سے مسلمانوں کی محبّت فطری ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے- لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام رضوان الله اجمین بہرحال انسان تھے - نبی کی طرح معصوم نہیں تھے کہ اجتہادی غلطیوں سے مبرّا ہوں- حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے ساتھ فتنوں کا عظیم سلسلہ شروع ہوا -ان فتنوں کی زد میں صحابہ کرام بھی آے -لیکن طرفین نے ان پاک ہستیوں کی معمولی اجتہادی غلطیوں کا اتنا پرچار کیا کہ ایک طرف رافضی گروہ وجود میں آیا تو دوسری طرف ناصبیت نے سر اٹھایا- البتہ بعد کی تاریخ حقائق سے ثابت ہے کہ ناصبیت کا وجود رافضیت کے دیوہیکل وجود کے سامنے چند صدیوں بعد ہی دم توڑ گیا - کیوں کہ رافضیت کو بہرحال ہمیشہ سے یہودیت کی سرپرستی جو حاصل رہی ہے-

ہمارے معاشرے میں اہل تشیع تو الگ لیکن اہل سنّت میں آپس میں رافضیت و ناصبیت کا جگھڑا اصل میں اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے اکثر محققین نے واقعہ شہادت عثمان رضی الله عنہ اورخوصوصآ واقعہ کربلا کو اپنی اہل بیت سے جذباتی وابستگی کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے- جو کہ تاریخ دانی کا اصول نہیں ہے - جب کہ تاریخی واقعات کو غیر جانبداری سے پرکھنا ہی تاریخ کا صحیح اصول ونہج ہے- اس جذباتی پن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن تاریخ دانوں یا محققین نے ان واقعات سے متعلق اپنی حقیقت پر مبنی آراء بیان کیں اب چاہے وہ دور قدیم کے محقق ابن خلدون ، بلاذری یا ابن کثیر وغیرہ ہوں یا پھر دور جدید کے محققین محمود احمد عباسی ، یوسف صلاح الدین، زبیرعلی زئی، حبیب الرحمان کاندھلوی یا تمناعمادی وغیرہ ہوں ان پر رافضی نما اہل سنّت نے جھٹ سے "ناصبی" ہونے کا لیبل لگا دیا- یہ دیکھے بغیر کہ آخر حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ تاریخی اعتبار سے مذکورہ محققین کے بیان کردہ آراء کے ١٠٠ فیصد درست ہونے کا دعوی کرنا بھی بہرحال بے انصافی ہے-کیوں کہ اہم واقعات سے متعلق تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین کی صورت میں عینی شہادت ، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ کوئی آسان کام نہیں- لیکن بہرحال تاریخ اسلام کا افسوس ناک پہلوی یہ ہے کہ کچھ احباب اہل سنّت جن میں مولانا مودودی جیسے علماء سرفہرست تھے ان کی جانبداری اور جذباتیت نے تاریخ اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا- حتیٰ کہ اپنے آپ کو جھوٹا محب اہل بیت ثابت کرنے کے لئے کذاب و دجال راویان ابو مخنف ، واقدی ، ہشام کلبی کی روایات کو من و عن قبول کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا - یہ ان نام نہاد علماء کی اسی کج روی کا نتیجہ تھا کہ دور حاضر میں اہل سنّت بھی یزید بن معاویہ رح کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے- اب ظاہر ہے کہ جنہوں نے حقائق کا ساتھ دیا ان پر "ناصبی" کا لیبل لگانا رافضی نما اہل سنّت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں رہا-
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ویسے میں نے علامہ محمود احمد عباسی صاحب کی کتب کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ اسمیں جو باتیں پائی گئی اسکی تصدیق بہت سے دوسرے ذرائع سے بہت دفعہ ہوتی رہی ہے اور انکی لکھی ہوئی باتیں تھوڑی سی ریسرچ کی محنت کرنے کے بعد ساتھ اکثر سچ ہی ثابت ہوئی ہیں۔ لہذہ انہوں نے اگر سیدنا معاویہ رض اور امیر کا یزید کا دفاع کیا ہے تو میرے خیال سے کوئی "افسانہ" نہیں گھڑا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ویسے میں نے علامہ محمود احمد عباسی صاحب کی کتب کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ اسمیں جو باتیں پائی گئی اسکی تصدیق بہت سے دوسرے ذرائع سے بہت دفعہ ہوتی رہی ہے اور انکی لکھی ہوئی باتیں تھوڑی سی ریسرچ کی محنت کرنے کے بعد ساتھ اکثر سچ ہی ثابت ہوئی ہیں۔ لہذہ انہوں نے اگر سیدنا معاویہ رض اور امیر کا یزید کا دفاع کیا ہے تو میرے خیال سے کوئی "افسانہ" نہیں گھڑا ہے
بلکل صحیح فرمایا ہے آپ نے -

اصل میں ہمارے ہاں اکثر لوگوں میں یہ مسلہ ہے کہ ہم تاریخ اسلام سے متعلق کسی کی بات کو قبول یا رد کرنے سے پہلے اس کو بیان کرنے والے شخص کا جائزہ لیتے ہیں- اگر وہ انسان ہمارے مسلک کا پیروکار ہو تو سو بسم اللہ- لیکن اگر وہ ہمارے مخالف مسلک سے تعلق رکھتا ہو تو اس کی ہر بات ہمارے لئے قابل رد ہو جاتی ہے- ہماری نظر شخصیت پر ہوتی ہے - حقائق پر نہیں ہوتی-

محمود احمد عباسی چونکہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے محقق تھے- اس لئے اہل حدیث علماء اور عوام میں انھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا - خود دیو بندی علماء جو رافضیت کے زیر اثر اہل بیت کی جھوٹی محبّت میں مبتلا ہیں یا رہے ہیں- عباسی صاحب کو اپنی حد درجہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے- عباسی صاحب اگرچہ تیز زبان انسان تھے اور اپنے مخالفین کو تیر ہدف کی بنیاد پر مات دیتے تھے- لیکن اسلامی تاریخ میں خوصوصاً واقعہ کربلا سے متعلق ان کی حقائق پر مبنی آراء و کتب نے بہرحال رافضیت کے ایوانوں میں ایک کھلبلی پیدا کردی- اور مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ جو صدیوں سے واقعہ کربلا سے متعلق محبّت حسین رضی الله عنہ و اہل بیت کی آڑ میں دیگر اصحاب رسول رضی الله عنہ اور تابعین رح کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے- اس کی بنیاد صرف دھوکہ و فریب ہے- جب کہ اصل حقیقت کچھ اور تھی -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
13527 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


"کتاب و سنت کے صحیح فہم کی ضرورت "


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 06 ذو القعدہ1436 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان
"کتاب و سنت کے صحیح فہم کی ضرورت " ارشاد فرمایا !

جس کے اہم نکات یہ تھے:

٭ فہم کتاب و سنت عظیم نعمت
٭ فہم اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ
٭ شریعت اور بارش کی مثال
٭ فہم قرآن و سنت سے دوری سنگین گمراہی
٭ امت میں فرقہ واریت کی جڑ کتاب و سنت کی غلط تشریحات
٭ تکفیری سوچ کیسے پیدا ہوئی
٭ صحابہ کرام اور فکری انحراف کی سرکوبی
٭ قرون اولی کے بدعتی معاصر بدعتیوں سے قدرے بہتر
٭ فتوی نویسی کی حساسیت
٭ خارجی لوگ دجال کے ہمنوا
٭ خارجیوں کی سنگین غلطی
٭ خوارج کے اوصاف
٭ خوارج کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار
٭ سلف صالحین کے ہاں فہم کتا ب و سنت کا معیار
٭ فرقہ واریت سے بچنے کا شرعی نسخہ
٭ نوجوانوں کیلئے نصیحتیں
٭ فتنوں سے تحفظ کتاب و سنت کے فہم میں پوشیدہ ہے۔


پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، وہی غالب اور عطا کرنیوالا ہے، نہایت رحم اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہی نیکیاں قبول اور گناہوں کو معاف ، اور اپنی طرف رجوع کرنے والوں کی رہنمائی کرتا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، میری گواہی اخلاص سے بھر پور اور شکوک و شبہات سے خالی ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ پر ہی کتاب نازل کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرما۔


حمد و صلاۃ کے بعد!

تقوی الہی اختیار کرو، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو تھامو؛ کیونکہ جو بھی کتاب و سنت کو تھامے تو وہ فتنوں ، بدعات ، اور گمراہی سے بچ جاتا ہے، اور رضائے الہی حاصل کر کے جنت حاصل کر لیتا ہے، نیز دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران رہتا ہے۔

اللہ کے بندو!

انسان کو حاصل ہونے والی سب سے بڑی نعمت اور عظیم ترین بھلائی یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فہم اور خیر القرون کے سلف صالحین کے مطابق عمل کرے، کیونکہ عمل صالح کے بغیر فہم و علم کا کوئی فائدہ نہیں ، اور اسی طرح سنت، اور وحی کی دلیل کے بغیر کوئی عمل مفید بھی نہیں ۔

مہلک گناہوں سے نجات یافتہ اور بھلائی پانے والا وہی ہے جو علم نافع و عمل صالح کیلئے کوشش کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{أَفَمَنْ يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَى إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (19) الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنْقُضُونَ الْمِيثَاقَ (20) وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (21) وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (22) جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ (23) سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (24)}

بھلا جو شخص یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف اپنے پروردگار سے اتارا گیا ہے وہ حق ہے اس شخص جیسا ہی ہے جو (اس حقیقت سے) اندھا ہے؟ مگر نصیحت تو دانشمند ہی قبول کرتے ہیں [19] جو اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرتے ہیں اور مضبوط کئے ہوئے عہد کو توڑ نہیں ڈالتے [20] اور جن روابط کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے؛ انھیں ملاتے ہیں، اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور بری طرح حساب لئے جانے سے خوف کھاتے ہیں [21] اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی رضا کے لئے صبر کیا، نماز قائم کی اور اللہ نے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا اور برائی کا بھلائی سے جواب دیا یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے [22] وہ گھر جو ہمیشہ قائم رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباء و اجداد، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے [23] (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم (دنیا میں مصائب پر) صبر کرتے رہے۔ سو یہ آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے ۔ [الرعد : 19 - 24]

اسی طرح فرمایا:

{اَلَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ}

جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانشمند ہیں ۔ [الزمر : 18]

اور ایک جگہ فرمایا:

{أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ }

یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے؟ آپ ان سے پوچھئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ [الزمر : 9]

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:

(یا اللہ! میں تجھ سے علم نافع، پاکیزہ رزق، اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں) ابن ماجہ نے اسے صحیح سند کیساتھ روایت کیا ہے۔

اور ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(جس ہدایت و علم کیساتھ مجھے اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال زمین پر آنیوالی ایک بارش جیسی ہے، جو اچھی زمین پر ہو تو پانی جذب کر کے بہت زیادہ ہریالی پیدا کرتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی روک لیتی ہے ، تو لوگ اس سے خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی بلاتے ہیں، اور کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، جبکہ کوئی زمین بالکل چٹیل میدان ہوتی ہے جو نہ پانی روکتی ہے اور نہ ہی ہریالی اگاتی ہے، یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کا دین سمجھ لے، اور میری لائی ہوئی شریعت کو قبول کرے، اور اس شخص کی مثال بھی ہے جو اس کی طرف توجہ نہ دے اور اللہ کی رہنمائی قبول نہ کرے) بخاری و مسلم

چنانچہ علم نافع اور عمل صالح کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندے کیلئے ہر خیر یکجا فرماتا ہے، اور ہمہ قسم کے شر سے تحفظ دیتا ہے، اسی کی وجہ سے صراطِ مستقیم پر قدم بھی ثابت فرماتا ہے۔

قرآن و سنت کی تعلیمات سے اعراض عظیم ترین گمراہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ}

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اپنے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے اور پھر بھی وہ اعراض کرے! بیشک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔[السجدة : 22]

چنانچہ قرآن و سنت سے اعراض ہی واضح گمراہی ہے، اسی طرح قرآن و سنت کی فاسد تاویل بھی وحی الہی سے اعراض کے مترادف ہے۔

حقیقت میں اسی باطل تاویل نے لوگوں کی سوچ کو خراب کیا، امت کو فرقوں میں تقسیم ، اور مسلمانوں کو کمزور کیا، دلوں میں کھوٹ پیدا کی ، اور اسلام میں بدعات ایجاد ہوئیں، جس کی وجہ سے ایک خوشگوار دین کے ماننے والوں میں عداوت اور بغض پیدا ہوا۔

باطل تاویل کرنے والوں نے معصوم جانوں کے قتل ، اور ان کے اموال کو اپنے لئے جائز سمجھ لیا، پھر انہوں نے اپنی مرضی سے لوگوں کو کافر قرار دیا ، من چاہے لوگوں کو اپنے قریب کیا، اور جسے چاہا اسی کو اپنا دشمن بنا لیا، باطل تاویل پوری امت کے خلاف کھلنے والا فتنوں کا دروازہ ہے۔

فکری انحراف، اور خود ساختہ بدعات حقیقت میں قرآن و حدیث کی فاسد و باطل تفسیر پر ہی مبنی ہیں، چنانچہ صحابہ اور تابعین سے تصادم رکھنے والے فرقے تاویل میں ہی اختلاف کرتے ہیں، نزولِ وحی کے بارے میں اختلاف نہیں کرتے، لہذا باطل تاویل ہی بدعات و گمراہی کی جڑ ہے، یہی وجہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل فاسد تاویل کی بنا پر ہوا، علی رضی اللہ عنہ کا قتل فاسد تاویل کی بنا پر ہوا، اور خوارج نے صحابہ کرام کے مال و جان کو حلال فاسد تاویل کی بنا پر ہی سمجھا ، ذو الخویصرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض فاسد تاویل کی بنا پر ہی کیا تھا۔

صحابہ کرام کے آخری دور میں جب سے کتاب و سنت کی باطل تفسیر رونما ہوئی ہے اسی وقت سے صحابہ کرام اس بدعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، چنانچہ انہوں نے خوارج کا علمی محاکمہ کیا، ان سے جنگیں بھی لڑیں، الغرض جب کبھی بھی کسی باطل تاویل اور فاسد تفسیر کی بنا پر کسی فتنے نے سر اٹھایا تو صحابہ و تابعین اور ان کے بعد آنے والے علمائے کرام نے اس کی سرکوبی کی، ایسے لوگوں کی خوب خبر گیری کیلئے حکمرانوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا، تا کہ امت کے عقائد کو تحفظ ملے اور دنیاوی مصلحتیں حاصل ہوں، امت کا امن و امان اور استحکام مضبوط ہو، مال و جان اور عزت آبرو کی حفاظت کی جا سکے، راستے اور عبادت کی جگہیں پر امن رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [40] الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ}

اگر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مساجد جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، مسمار کر دی جاتیں، اور اللہ ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں ۔ اللہ یقینا بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے۔ [40] یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین پر اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکاۃ ادا کریں، اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں ، اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ [الحج :40- 41]

کوئی بدعت بانجھ نہیں ہوتی اور بدعتی لوگوں کے ورثاء ہر دور میں موجود ہوتے ہیں، اور آج کل کے وارثین بدعات گزشتہ بدعتی لوگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں؛ کیونکہ یہ لوگ عہد نبوت سے اُن کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں، ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے اہل علم نے ان سے قطع تعلقی ، ان کی محفلوں و مجلسوں ، ان کے تعلیمی مراکز و جامعات سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔

چونکہ انہوں نے اپنا سربراہ گمراہ اور جاہل لوگوں کو بنایا ہوا ہے اس لیے وہ لا علمی کے باوجود فتوے صادر کرتے ہیں، اور لوگوں کو گمراہی میں دھکیل رہے ہیں، قدیم خارجی کبھی بھی دھوکہ دہی، غلط بیانی، اور خیانت نہیں کرتے تھے، وہ مساجد کا احترام کرتے تھے، لیکن آج کل کے خوارج دھوکہ دہی، خیانت کاری کیساتھ ساتھ مساجد میں رکو ع و سجدہ کی حالت میں مسلمانوں کو قتل بھی کرتے ہیں، یہ لوگ امن و امان کے محافظین کو بھی قتل کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، ان کے ان سنگین جرائم اور خطرناک عزائم کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

(خوارج جہنم کے کتے ہیں)

احمد اور حاکم نے اسے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس کی شاہد ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلایا کہ یہ لوگ یکے بعد دیگرے رونما ہوتے رہیں گے ، لیکن جب بھی ظاہر ہونگے انہیں کاٹ دیا جائے گا، چنانچہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یہ ایسے ہی رونما ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری فرد دجال کیساتھ رونما ہوگا) نسائی

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خوارج صرف دنیا حاصل کرنے کیلئے جد و جہد کرتے ہیں، کیونکہ دجال بھی لوگوں کو دنیا کے ذریعے ہی فتنے میں ڈالے گا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ:

"خوارج نے مشرکین کے بارے میں نازل شدہ آیات نکال کر مسلمانوں پر لاگو کر دی ہیں"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

(وہ قران پڑھتے ہوئے سمجھیں گے کہ یہ ان کے حق میں ہے، حالانکہ وہ انہی کے خلاف ہوگا، ان کی نمازیں ہنسلی سے بھی اوپر نہیں جائیں گی، اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان سے لڑائی لڑنے والا لشکر اگر یہ جان لے کہ ان کیلئے ان کے نبی کی زبانی کیا کچھ انعامات کی شکل میں رکھا گیا ہے تو وہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) مسلم، ابو داود

دشمنی شرک اور مشرکین سے ہو، اور دوستی عقیدہ توحید اور موحدین سے ہونی چاہیے،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ [26] إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ}

اور جب ابراہیم نے اپنے والد اور قوم سے مخاطب ہو کر کہا: میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں [26] ماسوائے میرے پروردگار کے؛ بیشک وہی میری رہنمائی کریگا۔ [الزخرف :26- 27]

لیکن یہ لوگ دشمنی رکوع و سجود کرنے والوں سے کرتے ہیں، انہیں مساجد یا جہاں کہیں بھی موقع ملے قتل کر دیتے ہیں، اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، جبکہ دوستی گنتی کے ہم نظریہ بھٹکے ہوئے لوگوں سے رکھتے ہیں ، جو کہ قرآن و سنت سے گمراہ ہو چکے ہیں اور اسی گمراہی میں فتوے بھی دے رہے ہیں۔

فتوی نویسی بہت ہی حساس معاملہ ہے، اسی لئے فتوی نویسی وہی کر سکتا ہے جو سلف صالحین کے فہم کے مطابق دلائل کی روشنی میں گفتگو کرے،

چنانچہ خالد بن خداش کہتے ہیں کہ :

"میں اپنے زمانے کے مفتی مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس چالیس مسائل لیکر آیا ، تو انہوں نے ان میں سے صرف پانچ کے جواب دیے"

کچھ اہل علم ایسے بھی گزرے ہیں جو مرتے دم تک کچھ فقہی مسائل کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رہے، حالانکہ انہوں نے اپنی ساری عمر حصول علم میں گزاری تھی۔

ایسے مفتی کا جرم کتنا سنگین ہے جو معصوم مال و جان لوٹنے کا فتوی صادر کرے؟ حقیقت میں اسلامی فرقوں کی گمراہی کا اصل سبب ہی یہی ہے کہ وہ نصوص کو سلف صالحین کے انداز سے نہیں سمجھتے۔

حالانکہ سلف صالحین قرآن و سنت کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ، تفسیر بالقرآن، اقوال صحابہ کے ذریعے تفسیر ، پھر تابعین کے اقوال سے تفسیر بیان کرتے ہیں، اس کے بعد عربی لغت سے دلالت مطابقت یا دلالت تضمین کے ذریعے تفسیر کرتے تھے ، اسی طرح راسخ العلم علمائے کرام سے منقول اقوال کی روشنی میں تفسیر بیان کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اتباع کرنے والے تھے بدعتی نہیں تھے،

فرمانِ باری تعالی ہے:

{اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ}

تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے جو کچھ بھی نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو، اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع نہ کرو، تم بہت تھوڑی نصیحت پکڑتے ہو۔[الأعراف : 3]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔


دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی جزا کے دن کا مالک ہے، میں اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی سے توبہ مانگتا ہوں اور بخشش طلب کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ بر حق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہی طاقتور اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر آپکی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔


حمدو صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو، اسی کی اطاعت کرو، اسی کی طرف رجوع کرو، اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، امن و امان ، جسمانی صحت، اور ملکی خوشحالی پر اسی کا شکر ادا کرو۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی کی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد کرو، اور مستقبل میں آنے والی سختیوں کیلئے نیک اعمال کرو، کیونکہ موت اپنے بعد والی سختیاں ساتھ لیکر آتی ہے، یہی موت تمہیں عالیشان محلات سے قبر کے گڑھے میں منتقل کر دے گی، وہاں پر انسان کو اپنے اعمال ہی ملیں گے، یا تو انسان وہاں پر با مراد ہوگا یا نا مراد، نیز گمراہ کن فتنوں اور فتنہ پرور لوگوں سے بچو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ امت میں اختلاف ہوگا، چنانچہ آپ نے اپنی سیرت پر کار بند رہنے کی تلقین فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، عیسائی بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی، ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے) کہا گیا: "یا رسول اللہ! وہ کون سا فرقہ ہے؟ " آپ نے فرمایا: (جو اس منہج پر ہوا جس پر آج میں اور میرے صحابہ کرام ہیں)

اور اللہ تعالی نے بھی ہمیں اختلافات، فرقہ واریت سے خبر دار کیا اور فرمایا:

{وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ}

نیز تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آجانے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جنہیں بہت بڑا عذاب ہوگا [آل عمران : 105]

اسی طرح فرمایا:

{إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ}

جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں ۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے [الأنعام : 159]

اپنے آپ کو مسلمانوں کی جماعت کیساتھ منسلک رکھو، کیونکہ جماعت کیساتھ اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے، اور جو بھی شذوذ اختیار کریگا وہ جہنم میں بھی اکیلا ہی ہو گا۔

ہماری نوجوان نسل کو جہنم اور بدعات کی طرف بلانے والوں سے خبر دار رہنا چاہیے، اسی طرح چکا چوند کر دینے والے ناموں سے بھی بچیں کیونکہ صرف نام رکھنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، چنانچہ اللہ تعالی نے منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو اصلاح کار کہتے تھے، اسی طرح کچھ لوگوں نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے اپنے آپ کو "رسول اللہ " بھی کہلوایا، لہذا صرف نام رکھنے سے اللہ کے ہاں مقام بلند نہیں ہوتا، بلکہ نبوی سیرت کے مطابق حقائق ، افعال و اقوال ہی قابل اعتبار ہوتے ہیں۔

جہنم کی طرف بلانے والوں اور فتنوں سے تحفظ کتاب و سنت پر کار بند رہنے اور کتاب و سنت کو سمجھنے کیلئے علمائے کرام کے فہم کا سہارا لینے سے ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}

اہل علم سے پوچھو، اگر تمہیں علم نہیں ہے۔[النحل : 43]

اللہ کے بندو!


}إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

{ یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]،

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔


اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! ہدایت یافتہ اور عدل و انصاف کیساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ، سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کفر اور کفار کو ذلیل و رسوا فرما، شرک اور مشرکین کو رسوا فرما، یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کا خاتمہ فرما، یا اللہ! قیامت کی دیواروں تک بدعات کا خاتمہ فرما، یا اللہ! ہم سب کو تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند رہنے والے ، انہیں کی سیرت پر چلنے والے بنا۔

یا اللہ! تمام مسلمانوں کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں تمام بدعتی لوگوں کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! بدعتی لوگوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! بدعتی لوگوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! قیامت تک کیلئے بدعات کو ذلیل و رسوا فرما دے، یا قوی! یا متین!

یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، آپس میں ناچاقی رکھنے والوں کی صلح فرما دے، نہیں سلامتی کا راستہ دکھا، اور انہیں اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لا کھڑا فرما، نیز ان کی دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی کتاب اور سنت نبوی کا بول بالا فرما، یا ذا الجلال والاکرام!

یا اللہ! تمام مسلمانوں کے معاملات آسان فرما، مقروض لوگوں کے قرضے چکا دے، بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمان مریضوں کو شفا یاب فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری نسل کو ابلیس اور شیطانی چیلوں ، اور لشکروں سے محفوظ فرما ، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کو ابلیس اور شیطانی چیلوں ، اور لشکروں سے محفوظ فرما ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم سب خارجیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم سب خارجیوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا اللہ! ہم سب بدعتی اور منافق لوگوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم شریر لوگوں کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، ہم تیری پناہ میں ان کے شر سے تحفظ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمیں حق بات صحیح انداز میں سمجھا اور پھر اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں برائی کو برائی سمجھنے کی توفیق عطا فرما، اور پھر اس سے بچنے کی ہمت بھی عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے ملکوں میں امن و امان نصیب فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے اور دیگر تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما، اور انہیں ہر قسم کے شر اور منفی اثرات سے تحفظ عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما ، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلئے مختص فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! یا ذو الجلال والاکرام! انہیں تمام اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ خادم الحرمین کے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، اور کلمہ توحید کو بلند فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے دونوں ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں بھی صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جس میں اسلام اور مسلمانو ں کیلئے خیر و بھلائی ہو، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! انکی قبروں کو ان کیلئے منور فرما، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، اور ان کے گناہوں سے در گزر فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!

اللہ کے بندو!


}إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

{ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔ [النحل: 90، 91]

اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔

والله اعلم. .

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 06 ذو القعدہ1436 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ

https://www.facebook.com/kmnurdu/photos/a.520124531357110.1073741827.476230782413152/895863100449916/?type=1&theater
 
Last edited:

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
پھر دور جدید کے محققین محمود احمد عباسی ، یوسف صلاح الدین، زبیرعلی زئی، حبیب الرحمان کاندھلوی یا تمناعمادی وغیرہ ہوں ان پر رافضی نما اہل سنّت نے جھٹ سے "ناصبی" ہونے کا لیبل لگا دیا- یہ دیکھے بغیر کہ آخر حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں-
ان ناموں میں حافظ صلاح الدین صاحب یوسف حفظہ اللہ اور محدث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ بے شبہہ اہل سنت اور اہل حدیث علما میں شامل ہیں لیکن باقی لوگوں کا شمار ارباب بدعت میں ہوتا ہے۔
  • ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’منکرین حدیث میں سے محموداحمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہؓ کوقرار دیا۔‘‘(ماہنامہ’محدث‘، لاہور، ۱۰جنوری ۲۰۱۰ء، ص۴۹)
  • حبیب الرحمان کاندھلوی کے بارے میں مولانا ارشادالحق محدث اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ‘‘ ملاحظہ فرمائی جائے جس میں ونھوں نے واضح کیا ہے کہ کاندھلوی صاحب صحیحین کی احادیث کا انکار کرتے تھے۔
  • تمنا عمادی کے متعلق بھی اسی کتاب کے آخر میں ایک مضمون ہے جس میں صحیح نخاری کی ایک حدیث پر ان کی جرح و تنقید کا جائزہ لیا گیا ہے؛اس سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ وہ احادیث کے باب میں اہل سنت کے مسلک پر نہیں ہیں؛اسی طرح امام ابن جریر طبری اور امام زہری رحمھما اللہ پر بھی انھوں نے ناروا تنقید کر رکھی ہے؛نیز وہ قراءات سبعہ متواترہ کے بھی منکر تھے۔
  • اس لیے یہ کہنا کہ ان پر’’ رافضی نما اہل سنت‘‘ نے ناصبی ہونے کا لیبل لگایا ،یک سر غلط بات اور علماے اہل حدیث پر کھلا بہتان ہے!!
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
محترم ڈاکٹر دامانوی صاحب رقم طراز ہیں:
یزید بن معاویہ کے جنتی ہونے کا نظریہ پاک و ہند میں سب سے پہلے محمو داحمد عباسی نے پیش کیا۔ یہ شخص کٹر ناصبی عقائد کا حامل تھا اور اس نے اپنی کتاب ’خلافت ِمعاویہ و یزید‘ اس زمانے میں تحریر کی کہ
جب وہ چینی سفارتخانہ میں ملازم تھا۔ میں بھی جب اس کی اس تحقیق جدید سے متاثر ہوا تھا تو اس سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا اور میں نے دورانِ گفتگو اس سے کہا کہ آپ نے سیدنا حسینؓ کے سر کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے متعلق تمام روایات وضعی ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حسینؓ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا۔
عباسی صاحب نے کہا: ’’ہاں! بخاری گدھے نے یہ بات لکھی ہے۔‘‘ (معاذ اللہ)
میں نے جب اُس سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ گستاخی سنی تو مجھے سخت صدمہ پہنچا اور عباسی صاحب کی عقیدت کاسارا نشہ اسی وقت اُتر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے تحقیق کی توفیق عنایت فرمائی۔ وللہ الحمد
دراصل محمود احمد عباسی نے یہ سب کچھ تحقیق کے نام سے پیش کیا تھا جس سے عام تعلیم یافتہ طبقہ کافی متاثر ہوا اور بعض علماء کرام بھی ان کی تحقیق سے متاثر ہوکر ان کے دامن گرفتہ ہوگئے اور پھر ان کی تحقیق ایسی بلند ہوئی کہ
انہوں نے صحیح بخاری پربھی ہاتھ صاف کردیا جیسا کہ جناب حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’مذہبی داستانیں‘ لکھیں اور جناب محمد عظیم الدین صدیق صاحب نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنی کتب میں سیدنا علی ؓ اور خاندانِ اہل بیت رسول اللہﷺسے بغض و عداوت کا کھل کر اِظہار کرکے اپنے چھپے ہوئے گندے ناصبی عقیدہ کو بھی ظاہر کیا۔ ایک طرف یہ سیدنا علیؓ کی خامیاں نکالتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو ’سیدنا‘ یزید اور ’رحمتہ اللہ علیہ‘ لکھتے ہیں۔
(حوالہ)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حافظ صلاح الدین صاحب یوسف حفظہ اللہ
کیاحافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنی تالیف رسومات محرم اور سانحہ کربلا میں پیش کردہ حقائق سے رجوع کا اعلان کر دیا ہے ؟
 
Top