محترم عابد صاحب،
آپ نے جس انداز سے میرے جملے کو چمکا کر لکھا ہے اس سے لگتا ہے کہ نعوذ باللہ میں نے ہارون علیہ السّلام کی شان میں کوئی گستاخی کردی ہے۔ محترم میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے سیاق و سباق کے بغیر ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی کا معاملہ قرآن کریم سے بطور ڈاڑھی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ وہاں مقصد ڈاڑھی تھا ہی نہیں بلکہ موسی علیہ السلام،اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پر غصہ ہورہے تھے کہ انہوں نے قوم کو شرک سے روکا کیوں نہیں؟ اس کے باوجود اگرمیرے کسی بھائی کو میرے الفاظ سے رنج ہواہو تو میں اسکے لیے معذرت خواہ ہوں۔
میرے بھائی چلیے مان لیا ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی تھی، لیکن اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ دیگر تمام انبیاءعلیہم السلام کی بھی ڈاڑھیاں تھیں، یا خود حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ڈاڑھی تھی، یا اس کا کوئی جواز ہی تھا ؟ ہمیں قرآن کریم میں انبیاء علیھم السلام کے کردار کے بارے میں بڑی وضاحت سے دلائل ملتے ہیں، لیکن ظاہری حلیہ یا لباس اور وضع قطع کسی نبی کی بھی نہیں ملتی، کیونکہ قرآن کریم کی نظر میں اسکی چنداں کوئی اہمیت نہیں، تاہم وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ اچھا لباس پہنو، شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو وغیرہ وغیرہ۔
آپ کا ایک اور متوقع سوال اور اسکا جواب،قرآن کریم سے کہیں نہیں ثابت ہوتا کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ڈاڑھی مبارک تھی یا نہیں، اس لیے میں اس ضمن میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ انکی ڈاڑھی تھی یا نہیں۔قرآن کریم جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، انبیائے کرام اور بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر بحث کرتا ہے، انکے ظاہری حلیہ پر نہیں۔
ثم تتفکروا!
وما علینا الابلاغعمران علی