باذوق بھائی! میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟!!
انس بھائی ، آپ نے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔
عورت کا گھر میں بیٹھنا بھی دین اسلام کا ایک مستقل حکم ہے، یعنی اختلاط مرد وزن سے اجتناب اور ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ بھی عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنا صحیح نہیں۔
یعنی ، عورت کی طرف سے دعوت دین کے متعلق کوئی چار اصول آپ کے بالا اقتباس میں کچھ یوں موجود ہیں :
- عورت کا گھر میں بیٹھنا
- ستر وحجاب کی پابندی
- عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نہ نکلنا
- اختلاط مرد وزن سے اجتناب
کوئی روشن خیال net-savvy (جو بہت ممکن ہے کہ احادیث کو اتنی اہمیت نہ دے جو کہ دینا چاہئے) ، اگر ان اصولوں پر ایک نظر ڈالے تو اس کے ردّعمل میں وہ وہی کچھ کہے گا جو میں نے اپنے بالا مراسلے (نمبر:14) میں ، ایسے ہی ایک روشن خیال کرم فرما کے نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر بیان کیا ہے۔ جو حقیقت یہ صاحب بتا رہے ہیں وہ ایک فیکٹ (fact) ہے چاہے ہمارا اس سے لاکھ اختلاف ہو۔
انٹرنیٹ کے استعمال میں مرد و زن کا جو اختلاط ہوتا ہے ، اس میں کون کتنا ملوث ہوتا ہے اور کون کتنی سزا کا مستحق ہے ، یہ سوال بھی ہمارے نزدیک زیربحث نہیں۔
اللہ نے عورت کو پردے کا حکم دیا اور مرد کو غص بصر کا۔ اب اس پر عمل کیلئے "مکس گیدرنگ" سے اجتناب کا اصول بھی سلف الصالحین سے معروف ہے۔ اور "دعوتِ دین" کے کاز کے تحت اس اصول کو انٹرنیٹ جیسے میڈیم پر کس طرح لاگو کیا جانا چاہئے ، یہ موضوع علمائے کرام کی تشریحات کا متقاضی ہے۔ اور شاید اس کی طرف بھی
اس سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔
آج کے دور کے کچھ آزاد خیال (یا وسیع الذہن ہی کہہ لیں :) ) کہہ سکتے ہیں کہ دعوت دین یا فروغ دین کی خاطر "علمی و دینی گفتگو" کی "حد" تک اختلاط مرد وزن کا جواز ممکن ہے۔
اگر کچھ حدود کے ساتھ "اختلاط مرد وزن" کے جواز کا فتویٰ دینا اتنا ہی آسان ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "
شیطان کے بدن میں خون کی طرح دوڑنے" کا قول مبارک عرض کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین تو وہ مبارک شخصیات تھیں جن کے تقویٰ کی گارنٹی خود اللہ نے قرآن کریم میں بیان کر رکھی ہے۔
آج جس مسلمان کو کہہ دیا جائے کہ بھائی نیٹ استعمال کرنا ہو تو مخالف صنف کیساتھ اختلاط سے اجتناب کرو اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی ٹھہرا تو پھر اپنے ربط و ضبط کو "علمی و دینی گفتگو" تک محدود رکھنا ۔۔۔ تو یہ سن کر وہ کہنے والے کا مذاق ہی اڑائے گا یا نہ بھی اڑائے تو اس بات کی قطعاً کوئی گارنٹی نہیں کہ اس کی طرف سے ایسی حدود و قیود کا خیال رکھا جائے گا۔
یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون سی صنف نیٹ کو کیسے استعمال کرتی ہے؟ کون دین کی خدمت کرتا ہے ، کون علم کے حصول میں مگن ہے یا کون محض وقت بتانا یا گپ شپ کرنا یا ایک دوسرے سے سماجی ربط و ضبط استوار کرنا یا کسی خاص ویب سائیٹ یا ملتقی/منتدیات کو مشہور و مقبول بنانا چاہتا ہے ۔۔۔ اس سے بلاشبہ ہمیں کوئی مطلب نہیں۔
لیکن ۔۔۔۔
اعتراض اس وقت ضرور ہوگا جب کوئی " دعویٰ " دائر کیا جائے گا۔ اور اپنے دعویٰ کے جواز میں دین کے قائم شدہ بنیادی اصول و ضوابط میں کمی بیشی کو جائز سمجھ لیا جائے گا۔
(جیسا کہ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے فاطمہ جناح کے وقت اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بےنظیر بھٹو کے وقت ،
عورت کی سربراہی کے بنیادی اصول کو بھلا کر اس کے جواز کا دعویٰ پیش کیا تھا)
اس کی ایک اور مثال یوں سمجھیں ۔۔۔۔۔
12/ربیع الاول کو ایک طبقہ کیا کیا ہنگامہ برپا کرتا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اعتراض اس پر ہرگز نہیں کہ وہ جلسے جلوس برپا کریں ، آیات کریمہ و درود نعت کی محفلیں منعقد کریں یا ناچ بھنگڑا ڈالیں ۔۔۔ ہاں ، ہم اس وقت ضرور اعتراض کریں گے جب اس چیز (میلاد النبی) کو دین یا دین کا کوئی حصہ باور کرایا جائے۔
بالکل اسی طرح جب کوئی اختلاط مرد و زن کو نیٹ کی مجبوری ہی سمجھ کر اپنا کام کرے تو وہ اس کو یا تو
مسلم سوشل نیٹ ورکنگ کہہ لے یا
انجمن باہمی اخوت یا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن دین کے قائم شدہ بنیادی اصول و ضوابط کی پامالی کے ساتھ کوئی اس کو "
دعوتِ دین" جیسا جاذب نظر شرعی عنوان دینا چاہے تو شریعت کا تھوڑا سا بھی علم رکھنے والے کو اس قسم کی "آزاد خیالی" پر ضرور احتجاج کرنا چاہئے۔ ورنہ اللہ نہ کرے کہ کل کلاں کو "دعوتِ دین" جیسے اہم بنیادی اسلامی فریضے کا حشر نشر بھی "میلاد النبی" جیسی خودساختہ عید کے ہنگاموں کی طرح بدنام ہو جائے۔