• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کا دعوتی سرگرمیوں میں غلو

شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
میں نے علامہ البانی علیہ الرحمۃ کے علاوہ تین فتاویٰ نقل کئے ہیں حالانکہ اگر اسی موضوع پر سرچ کریں تو مزید آٹھ دس فتاویٰ ضرور ملیں گے۔ (جو میرے علم میں بھی ہیں مگر ابھی میں نے یہاں شئر نہیں کئے)۔
اگر ان فتاویٰ پر غور کیا جائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نے بھی "عورت کی جانب سے دعوتی سرگرمی" کا یکسر ردّ نہیں کیا ہے۔ بلکہ کچھ پابندیوں اور قید کے ساتھ اسے روا رکھا ہے۔ اور وہ پابندیاں وہی ہیں جن کی طرف خود آپ نے بھی یوں اشارہ کیا ہے :
اصل پیغام ارسال کردہ از: ابو الحسن علوی
اصل مسئلہ مردوزن کے اختلاط کا ہے ، وہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے
السلام علیکم باذوق بھائی!
آپ نے خود علوی بھائی کی بالا نقطہ نظر کو مان پر البانی رح کے فتوای کی مخلافت کی ہے۔
البانی رح کے فتوای کا مقصد وہ نہیں جو آپ نے اوپر کہا ہے بلکہ عورت کو بالکل گھر میں بند کرنا ہے جوکہ ان کی اپنی سوچ ہے اور اس پر متفق ہونا ہر کسی کے لیے حجت نہیں ہے۔
تقبل منا
والسلام علیکم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اصل مسئلہ مردوزن کے اختلاط کا ہے ، وہ نہیں ہونا چاہیے لیکن ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اوراس بارے بیسیوں روایات شاہد ہیں علاوہ ازیں امام ابن حجر اور کئی دوسرے ائمہ نے اس کے جواز اور مباح ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
کہنے سے مقصود یہ ہے کہ اس فتوی میں وضاحت سے نہ سہی لیکن اشارہ کنایہ میں تو یہ بات موجود ہی ہے کہ علامہ رحمہ اللہ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک مسئلہ ستر وحجاب کا نہیں ہے بلکہ گھر میں عورتوں کا بیٹھنے رہنا ایک مستقل حکم ہے۔ چونکہ راقم نے ستر وحجاب کے موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی تصنیف کی ہے تو اس لیے اس قسم کے فتاوی کی اصل تک رسائی ہے کہ ستر وحجاب تو ایک حکم ہے، اس کے علاوہ اہل علم کی ایک جماعت کے لیے عورت کا گھرسے باہر نکلنا بھی شرعا جائز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
عورت کا گھر میں بیٹھنا بھی دین اسلام کا ایک مستقل حکم ہے، یعنی اختلاط مرد وزن سے اجتناب اور ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ بھی عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنا صحیح نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ ... سورة الأحزاب: 33
’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔‘‘
امام ابن كثير﷫ نے اس آیت کریمہ کی تشریح میں لکھا ہے:
(الزمن بيوتكن فلا تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تَفِلات » وفي رواية: « وبيوتهن خير لهن »
’’اپنے گھروں ہی میں رہو اور ضرورت کے بغیر گھروں سے نہ نکلو، شرعی ضرورتوں میں سے مسجد میں نماز ادا کرنا بھی ہے، بشرطیکہ اس کی شرائط کو پورا کیا جائے، جیسا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں (میں جانے) سے منع نہ کرو، لیکن انہیں زیب وزینت کے بغیر نکلنا چاہئے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اور ان کے گھر ہی ان کیلئے بہت بہتر ہیں۔‘‘
اس آیت کریمہ کے پہلے جملے ﴿ وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ﴾ میں عورتوں کا اصل مقام بیان کیا گیا ہے، کہ وہ گھر ہے، لیکن دعوت وغیرہ کی غرض سے عورتوں کے باہر نکلنے کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اگلے ہی جملے ﴿ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى ﴾ میں حکم ہو رہا ہے کہ (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) کی طرح اظہار تجمّل نہ کرو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ زیب وزینب گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں ہی ہوگی، یعنی اگر ضرورت کے تحت نکلنا ہی پڑے تو پھر جاہلیت جیسا سنگھار کرکے نہ نکلو۔ سورۃ القصص میں باپ کے بڑھاپے کے باعث دو لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلانے کیلئے گھر سے نکلنے کا ذکر ہے، جن میں سے ایک سے سیدنا موسیٰ﷤ کی شادی ہوئی تھی۔ لہٰذا عورتیں اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے فارغ ہو کر دعوت الیٰ اللہ، تعلیم تعلّم وایسے اہم کام جو صرف عورتیں ہی سر انجام دے سکتی ہیں (مثلاً عورتوں کا علاج وغیرہ) اور دیگر ضروریات کیلئے گھر سے نکلنا جائز ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام ازواجِ مطہرات کی طرح صرف گھر میں ہی کرنا چاہئے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اگر گھر میں دروس وغیرہ رکھے جائیں گے تو اس کیلئے سامعات تو بہرحال باہر سے ہی تشریف لائیں گی۔
مزید تفصیل کیلئے یہ لنک ملاحظہ کریں!
موقع الإسلام سؤال وجواب - هل يلزمه طاعة والدته في إخراج زوجته للعمل؟
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
انٹرنیٹ اور خواتین کے حوالے سے یہاں ایک سوال پیش کیا گیا تھا۔
اس سوال کا ایک نکتہ علامہ البانی علیہ الرحمۃ کے ایک فتویٰ میں بیان ہوا ہے ، جسے اس تھریڈ کی اولین پوسٹ میں پیش کیا گیا ہے۔
علامہ البانی علیہ الرحمۃ کے اس فتویٰ کو پیش کرنے کی غرض و غایت وہ نہیں ہے جسے سمجھا یا سمجھایا جا رہا ہے۔ عربی فورمز پر بھی کچھ عرصہ قبل یہی فتویٰ پیش کیا گیا تھا۔ مگر شاید (بلکہ یقیناً) عربی داں حضرات و خواتین کی ذہنی استعداد ، برصغیری اردودانوں سے کافی کچھ برتر ہوتی ہے لہذا اس پر سیرحاصل بحث ہوئی اور مختلف مدلل و معقول نظریات سامنے آئے۔ اگر اردو شائقین بھی تھوڑی محنت کر کے گوگل سرچ کر لیں تو یہ سب انہیں مل جائے گا۔

یہ سوال غیرضروری ہے کہ ہم میں سے کون کون اس فتویٰ کی کتنی اور کیسی مخالفت کرتا ہے۔ ضروری چیز تو یہ ہے کہ : یہ معلوم کیا جائے کہ امام البانی علیہ الرحمۃ کے ہمعصر علماء و مشہور مذہبی شخصیتوں نے اس موضوع پر کیا تاثر اور رائے دی ہے؟
اگر ہم تھوڑا سا سرچ کرنے کی زحمت کر لیں تو یہ سب سامنے آ جائے گا اور پتا چلے گا کہ اکثر و بیشتر علمائے کرام نے اس موضوع پر اگر چند ایک نکات پر علامہ البانی سے بالکل اتفاق کیا ہے تو بیشتر نکات پر ان کی سراسر مخالفت کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دور حاضر کے ان زمینی حقائق پر علمائے کرام کی تحریروں کے مدلل حوالوں سے گفتگو کرنا صرف عربی فورمز کے عربی دانوں کا حق ہے؟
اردو فورمز پر اگر یہ معاملہ ڈسکس کیا جائے تو علمائے کرام کی تحقیقات اور ان کے استدلال سے صرف نظر کر کے اسے "پرسنلی" لیا جائے اور "غیرضروری اعتراضات" کے ساتھ مرد و خواتین کے تقابل اور دعوت دین کے کاز کی اہمیت کی بات تو ضرور کی جائے مگر اس دعوتی جہاد میں جو جو پابندیاں شریعت ہم پر لاگو کرتی ہے ، اسے نظرانداز کر دیا جائے؟؟

یہ فتویٰ اصلی اہل سنت ویب سائیٹ پر ایک عرصہ سے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں موجود ہے مگر کسی نے اسے قابل مطالعہ نہیں جانا۔ مگر جب گوگل کی افادیت کے پیش نظر اسے یونیکوڈ میں منتقل کیا جائے تو چاہئے تھا کہ اس کے مقابل علامہ البانی (رحمۃ اللہ علیہ) کے ہمعصر علمائے کرام نے جو جو وضاحتیں اور فتاویٰ پیش کئے ہیں وہ تمام بھی اردو یونیکوڈ میں سامنے لا کر علم کی اشاعت و ترویج میں حصہ لیا جائے۔
مگر ۔۔۔۔ خیر
اردو فورمز کے شائقین کی "ترجیحات" اور خیالات و تحفظات کچھ اور ہوتے ہیں لہذا یہ کچھ غیرفطری ردّعمل نہیں :)
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
عورت کا گھر میں بیٹھنا بھی دین اسلام کا ایک مستقل حکم ہے، یعنی اختلاط مرد وزن سے اجتناب اور ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ بھی عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنا صحیح نہیں۔
اس حکم کی تاویل تو بہت آسانی سے ممکن ہے۔
آج انٹرنیٹ نے اتنی سہولت دے دی ہے کہ ۔۔۔۔ عورت "گھر میں بیٹھنے" کے حکم پر بھی عمل کر لیتی ہے ، "ستر وحجاب کی پابندی" کا بھی خیال کر لیتی ہے اور "دعوت دین" کے نام پر بغیر ضرورت گھر سے باہر بھی نہیں نکلتی بلکہ سب کچھ "انٹرنیٹ" سے ممکن ہو جاتا ہے ، شاپنگ بھی ، غیر محرموں سے گفتگو بھی ، دعوت دین وغیرہ بھی۔
تو پھر کیا خیال ہے؟ جب اتنے سارے اہم شرعی احکام پورے ہو جاتے ہیں تو اختلاط مرد وزن سے اجتناب جیسا حکم بالا بیان کردہ صورتحال میں شاید کوئی خاص اہمیت نہیں رکھے گا!

ہمارے ایک روشن خیال دوست فرماتے ہیں ۔۔۔۔
دراصل اختلاط مرد وزن سے وہ مراد ہرگز نہیں جو کٹر مولوی طبقہ بیان کرتا اور اس پر زور دیتا ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ زنا سے بچا جائے اور بےراہ روی کا شکار نہ ہوا جائے۔ آن لائن اختلاط سے "زنا یا فحاشی" بھلا کہاں ممکن ہے؟ جو اختلاط پال ٹاک یا گوگل ٹاک یا آن لائن ڈسکشن بورڈز پر ہوتا ہے وہ آن لائن دینی محفلوں میں بھی جاری و ساری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک طرف اسے "وقت ضائع کرنے والی گپ شپ" کا نام دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اسی اختلاط پر "علمی دینی گفتگو" کا شرعی پردہ ڈال کر اسے مشرف بہ شریعت کر لیا جاتا ہے۔
خواہش ہوئی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ یاد دلایا جائے کہ مسجد کے دروازے پر بھی آپ نے اپنے دو صحابہ کو پکار کر بلایا اور کہا کہ : یہ میری زوجہ ہے۔
اور کہا : شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے!

مگر میں نے جواب میں خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ کیونکہ ۔۔۔۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے جو فیکٹ ہمارے دوست بتا رہے ہیں وہ گو کہ ایک تلخ حقیقت سہی مگر ۔۔۔ بہرحال ایک گراؤنڈ ریلیٹی ہے۔
 
شمولیت
اپریل 03، 2011
پیغامات
101
ری ایکشن اسکور
661
پوائنٹ
0
باذوق بھائی! میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟!!

السلام علیکم ورحمۃاللہ میرے خیال میں باذوق بھائی خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کو ممنوع بتا رہے ہیں اور وہ اپنی جگہ کافی حد تک صحیح بھی کہہ رہے ہیں کیوں کہ اسلام میں مرد سے زیادہ عورت کو ستر و حجاب اور پردہ داری کا حکم دیا گیا ہے ہاں البتہ ایک بات میں میرا باذوق بھائی سے اختلاف ہے برائی یا گناہ چاہے مرد کرے یا عورت کرے اسلام میں دونوں کی سزا ایک ہی ہے فرض کریں عورت کو جس خاص پردے کا حکم ہے وہ تو اس نے پورا کرلیا اب اگر وہ اس کے بعد بھی کسی برائی کی مرتکب ہوتی ہے تو اسکا حکم عام مرد کی طرح ہے کیوں کہ حکم خاص کو تو اس نے پورا کرلیا اور پھر اگر اس نے کوئی غلط کام کرلیا تو جس طرح اس گناہ کی سزا ایک عورت کو ملے گی اسی طرح ایک مرد کو بھی ایسا بھی نہیں کہ گناہ صرف عورت پہ ہے مرد پہ نہیں جس طرح عورت کو برائی سے بچنے کا حکم ہے اسی طرح ایک مرد پہ بھی وہی حکم ہے
چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت ہو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے سورۃ المائدہ آیت 38
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
میرے خیال میں باذوق بھائی خواتین کے انٹرنیٹ استعمال کو ممنوع بتا رہے ہیں
بہتر ہوگا کہ ترجمانی سے قبل مراسلہ نگار سے ہی براہ راست دریافت کر لیا جائے کیونکہ عین ممکن ہے کہ دانستہ یا نادانستہ ایسی ترجمانی کر دی جائے جو مراسلہ نگار کا مقصود ہی نہ ہو، جیسا کہ یہی غلطی بالا اقتباس میں موجود ہے۔
ہاں البتہ ایک بات میں میرا باذوق بھائی سے اختلاف ہے برائی یا گناہ چاہے مرد کرے یا عورت کرے اسلام میں دونوں کی سزا ایک ہی ہے فرض کریں عورت کو جس خاص پردے کا حکم ہے وہ تو اس نے پورا کرلیا اب اگر وہ اس کے بعد بھی کسی برائی کی مرتکب ہوتی ہے تو اسکا حکم عام مرد کی طرح ہے کیوں کہ حکم خاص کو تو اس نے پورا کرلیا اور پھر اگر اس نے کوئی غلط کام کرلیا تو جس طرح اس گناہ کی سزا ایک عورت کو ملے گی اسی طرح ایک مرد کو بھی ایسا بھی نہیں کہ گناہ صرف عورت پہ ہے مرد پہ نہیں جس طرح عورت کو برائی سے بچنے کا حکم ہے اسی طرح ایک مرد پہ بھی وہی حکم ہے
میرے متذکرہ مراسلے میں مرد و عورت کا جب کوئی تقابل ہے ہی نہیں تو ان کے گناہ یا ثواب کا موازنہ بھی غیرضروری ہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
باذوق بھائی! میں سمجھ نہیں سکا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟!!
انس بھائی ، آپ نے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔
عورت کا گھر میں بیٹھنا بھی دین اسلام کا ایک مستقل حکم ہے، یعنی اختلاط مرد وزن سے اجتناب اور ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ بھی عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نکلنا صحیح نہیں۔
یعنی ، عورت کی طرف سے دعوت دین کے متعلق کوئی چار اصول آپ کے بالا اقتباس میں کچھ یوں موجود ہیں :
  • عورت کا گھر میں بیٹھنا
  • ستر وحجاب کی پابندی
  • عورت کا بغیر ضرورت کے گھر سے نہ نکلنا
  • اختلاط مرد وزن سے اجتناب
کوئی روشن خیال net-savvy (جو بہت ممکن ہے کہ احادیث کو اتنی اہمیت نہ دے جو کہ دینا چاہئے) ، اگر ان اصولوں پر ایک نظر ڈالے تو اس کے ردّعمل میں وہ وہی کچھ کہے گا جو میں نے اپنے بالا مراسلے (نمبر:14) میں ، ایسے ہی ایک روشن خیال کرم فرما کے نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر بیان کیا ہے۔ جو حقیقت یہ صاحب بتا رہے ہیں وہ ایک فیکٹ (fact) ہے چاہے ہمارا اس سے لاکھ اختلاف ہو۔

انٹرنیٹ کے استعمال میں مرد و زن کا جو اختلاط ہوتا ہے ، اس میں کون کتنا ملوث ہوتا ہے اور کون کتنی سزا کا مستحق ہے ، یہ سوال بھی ہمارے نزدیک زیربحث نہیں۔
اللہ نے عورت کو پردے کا حکم دیا اور مرد کو غص بصر کا۔ اب اس پر عمل کیلئے "مکس گیدرنگ" سے اجتناب کا اصول بھی سلف الصالحین سے معروف ہے۔ اور "دعوتِ دین" کے کاز کے تحت اس اصول کو انٹرنیٹ جیسے میڈیم پر کس طرح لاگو کیا جانا چاہئے ، یہ موضوع علمائے کرام کی تشریحات کا متقاضی ہے۔ اور شاید اس کی طرف بھی اس سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔

آج کے دور کے کچھ آزاد خیال (یا وسیع الذہن ہی کہہ لیں :) ) کہہ سکتے ہیں کہ دعوت دین یا فروغ دین کی خاطر "علمی و دینی گفتگو" کی "حد" تک اختلاط مرد وزن کا جواز ممکن ہے۔
اگر کچھ حدود کے ساتھ "اختلاط مرد وزن" کے جواز کا فتویٰ دینا اتنا ہی آسان ہے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "شیطان کے بدن میں خون کی طرح دوڑنے" کا قول مبارک عرض کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین تو وہ مبارک شخصیات تھیں جن کے تقویٰ کی گارنٹی خود اللہ نے قرآن کریم میں بیان کر رکھی ہے۔
آج جس مسلمان کو کہہ دیا جائے کہ بھائی نیٹ استعمال کرنا ہو تو مخالف صنف کیساتھ اختلاط سے اجتناب کرو اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی ٹھہرا تو پھر اپنے ربط و ضبط کو "علمی و دینی گفتگو" تک محدود رکھنا ۔۔۔ تو یہ سن کر وہ کہنے والے کا مذاق ہی اڑائے گا یا نہ بھی اڑائے تو اس بات کی قطعاً کوئی گارنٹی نہیں کہ اس کی طرف سے ایسی حدود و قیود کا خیال رکھا جائے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون سی صنف نیٹ کو کیسے استعمال کرتی ہے؟ کون دین کی خدمت کرتا ہے ، کون علم کے حصول میں مگن ہے یا کون محض وقت بتانا یا گپ شپ کرنا یا ایک دوسرے سے سماجی ربط و ضبط استوار کرنا یا کسی خاص ویب سائیٹ یا ملتقی/منتدیات کو مشہور و مقبول بنانا چاہتا ہے ۔۔۔ اس سے بلاشبہ ہمیں کوئی مطلب نہیں۔
لیکن ۔۔۔۔
اعتراض اس وقت ضرور ہوگا جب کوئی " دعویٰ " دائر کیا جائے گا۔ اور اپنے دعویٰ کے جواز میں دین کے قائم شدہ بنیادی اصول و ضوابط میں کمی بیشی کو جائز سمجھ لیا جائے گا۔
(جیسا کہ مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے فاطمہ جناح کے وقت اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بےنظیر بھٹو کے وقت ، عورت کی سربراہی کے بنیادی اصول کو بھلا کر اس کے جواز کا دعویٰ پیش کیا تھا)

اس کی ایک اور مثال یوں سمجھیں ۔۔۔۔۔
12/ربیع الاول کو ایک طبقہ کیا کیا ہنگامہ برپا کرتا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اعتراض اس پر ہرگز نہیں کہ وہ جلسے جلوس برپا کریں ، آیات کریمہ و درود نعت کی محفلیں منعقد کریں یا ناچ بھنگڑا ڈالیں ۔۔۔ ہاں ، ہم اس وقت ضرور اعتراض کریں گے جب اس چیز (میلاد النبی) کو دین یا دین کا کوئی حصہ باور کرایا جائے۔

بالکل اسی طرح جب کوئی اختلاط مرد و زن کو نیٹ کی مجبوری ہی سمجھ کر اپنا کام کرے تو وہ اس کو یا تو مسلم سوشل نیٹ ورکنگ کہہ لے یا انجمن باہمی اخوت یا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن دین کے قائم شدہ بنیادی اصول و ضوابط کی پامالی کے ساتھ کوئی اس کو "دعوتِ دین" جیسا جاذب نظر شرعی عنوان دینا چاہے تو شریعت کا تھوڑا سا بھی علم رکھنے والے کو اس قسم کی "آزاد خیالی" پر ضرور احتجاج کرنا چاہئے۔ ورنہ اللہ نہ کرے کہ کل کلاں کو "دعوتِ دین" جیسے اہم بنیادی اسلامی فریضے کا حشر نشر بھی "میلاد النبی" جیسی خودساختہ عید کے ہنگاموں کی طرح بدنام ہو جائے۔
 
Top