• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت

شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت پر اہلِ علم کے تبصروں کے لیئے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت پر اہلِ علم کے تبصروں کے لیئے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس سے حصول تبرک
شروع از بتاریخ : 28 May 2013 02:32 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت اسماء (رض) نے ایک جبہ نکالا اور کہا: "یہ رسول اللہ کا جبہ ہے، یہ جبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا اس کے بعد میں نے اس پر قبضہ کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جبہ کو پہنتے تھے، ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس جبہ سے ان کے لیے شفا طلب کرتے ہیں۔"(صحیح مسلم، جلد نمبر:٣، حدیث:٥٣٧٦) اس حدیث کی اصل حقیقت کیا ہے اور اگر یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے تو اس کی شرعی حیثیت واضح کردیں۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم شریف میں موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس امت کے لئے باعث برکت تھی۔ آپ جس چیز کو چھو لیتے تھے ،اللہ تعالی اس میں برکت فرما دیتے تھے۔جب آپ اپنا ہاتھ مبارک پانی میں ڈبو دیتے تو آپ کی انگلیوں سے چشمے کی طرح پانی نکلنا شروع ہو جاتا،اگر آپ اپنا لعاب مبارک سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے کھانے میں ڈال دیتے تو وہ تمام اہل خندق کو کافی ہو جاتا،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے وضو کے پانی اور تھوک مبارک کو نیچے نہ گرنے دیتے اور اپنے جسموں پر مل لیتے تھے۔حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بال سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو دئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تقسیم کروا دئے۔
مذکورہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا ہو اس سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔
لیکن یاد رہے کہ تبرک حاصل کرنے کا یہ جواز صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لباس،بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا حرام اور شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے فرد سے ایسا تبرک حاصل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر ،سیدہ فاطمہ ،سیدہ عائشہ اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم سمیت کسی سے تبرک حاصل نہیں کیا۔اور نہ ہی امت سے ایسا کوئی عمل ثابت ہے۔
ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عصر حاضر میں مختلف مقامات پر (جیسے بادشاہی مسجد میں )نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اشیاء کی نسبت مشکوک ہے اور کوئی ایک بھی ثقہ روایت موجود نہیں ہے کہ یہ چیزیں واقعی آپﷺ کی ہیں۔ لہذا ان سے تبرک حاصل کرنا بھی شرک کے زمرے میں آئے گا۔ جس سے بچنا ضروری ہے ،ورنہ ضیاع اعمال کا اندیشہ ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی

 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت پر اہلِ علم کے تبصروں کے لیئے یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے، کسی اور کے آثار سے نہیں کیا جاسکتا

سوال: میرے اسلامی بھائیو! انٹر نیٹ پر میں نے ایک ویب سائٹ دیکھی مجھے کچھ ایسا مواد ملا جسے میں بدعت سمجھتا ہوں، لیکن حقیقت اللہ ہی جانتا ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے اس حدیث کی صحت کے بارے میں بتائیں، مجھے اس میں شک ہے، حدیث صحیح مسلم کتاب نمبر: 24، اور حدیث نمبر: 5149ہے، اسماء بنت ابو بکر کے غلام عبداللہ جو کہ عطاء کے بچوں کے ماموں بھی لگتے ہیں وہ کہتے ہیں: مجھے اسماء نے عبد اللہ بن عمر کی طرف بھیجا، اور کہلوایا کہ : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ(عبد اللہ بن عمر) تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں (1)کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار وغیرہ کو (2)سرخ زین کو(3)ماہ رجب کے پورے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے جواب میں کہا: تم نے جو رجب کے روزوں کا ذکر کیا ہے تو جو آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہو وہ ماہ رجب کے روزوں کو کیسے حرام قرار دے سکتا ہے؟ اور باقی جو تم نے کپڑوں پر نقش ونگار کا ذکر کیا تو اس بارے میں میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: (ریشم کا لباس وہی شخص پہنتا ہے جسکا -آخرت میں -کوئی حصہ نہ ہو) تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ریشمی نقش ونگار بھی اس حکم میں داخل نہ ہوں اور باقی رہا سرخ زین کا مسئلہ؛ تو عبداللہ کی بھی زین ہے جو کہ سرخ ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ اسماء سے جا کر ذکر کردیا تو اسماء نے کہا کہ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے،چنانچہ اسماء نے ایک طیالسی کسروانی جبہ نکالا جس کا گربیان دیباج –قدرتی ریشم کی ایک قسم ہے-کا تھا اور اس کے دامن اور کفیں دیباج سے بنی ہوئی تھی،اسماء کہتی ہیں: یہ جبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے انتقال تک انہی کے پاس تھا، پھر جب انکا انتقال ہوگیا تو یہ جبہ میں نے لے لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں"
مذکورہ بالا حدیث کس حد تک درست ہے؟

Published Date: 2014-04-21



الحمد للہ:

یہ حدیث مذکورہ بالا الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم (2069) میں ہے، جیسے کہ سائل نے ذکر کی ہے، اور امام احمد نے اپنی مسند میں (182) پر مختصراً ذکر کی ہے، اور بیہقی نے اپنی سنن میں (4381) پر عبدالملک بن ابو سلیمان کی سند سے روایت کی ہے۔

مذکورہ بالا حدیث کی سند متصل ہے، تمام راوی ثقہ ہیں، اور اس حدیث کی صحت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام مسلم نے اسے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے، اور ہم نے کسی سے اس حدیث کے بارے میں کوئی نقطہ چینی والی بات نہیں سنی، چنانچہ جس حدیث کا اتنا معیار بلند ہو تو کسی کو اس کے بارے میں نقطہ چینی اور صحت میں تردد نہیں کرنا چاہئے۔

جبکہ اس حدیث کی شرح میں نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ابن عمر نے رجب کے روزوں کا جواب اِنکے بارے میں پہنچنے والی خبر کا انکار کرتے ہوئے دیا، اور بتلایا کہ وہ خود ہی پورے رجب کا روزہ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ ابدی روزوں کا اہتمام کرتے تھے، ابدی روزوں سے مراد عیدین اور ایام تشریق کے علاوہ دنوں کے روزے مراد ہیں، یہ ابن عمر، انکے والد عمر بن خطاب، عائشہ ، ابو طلحہ اور انکے علاوہ دیگر سلف امت کا موقف ہے، اور شافعی وغیرہ علماء کا موقف ہے کہ پورا سال روزے رکھنا مکروہ نہیں ہے۔

جبکہ ریشمی نقش و نگار کے بارے میں انہوں نے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ وہ اسے حرام کہتے ہیں، بلکہ انہیں بتلایا کہ انہوں نے احتیاط سے کام لیا ہے کہ کہیں ریشم سے عام ممانعت کے تحت نقش ونگار بھی شامل نہ ہوں۔

اور سرخ زین کے بارے میں اسماء کو ملنے والی خبر کابھی انکار کیا اور کہا: یہ دیکھو میری زین ہے، جو کہ سرخ رنگ کی ہے، لیکن ریشم کی نہیں ہے، بلکہ اون وغیرہ سے بنی ہوئی ہے، پہلے-شرح نووی میں – گزر چکا ہے کہ زین کبھی کبھار ریشم کی بھی بنا لی جاتی تھی، اور کبھی اون کی، اور جن احادیث میں اس کی ممانعت ہے، وہ ریشمی زین کے متعلق ہیں۔

اور اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ریشمی کفوں والا جبہ نکال کر یہ بیان کرنا چاہا کہ ریشمی نقش ونگار بنوانا حرام نہیں ہے، امام شافعی وغیرہ کے ہاں یہی حکم ہے کہ قمیص یا جبہ، یا عمامہ وغیرہ کے کنارے اگر ریشمی ہوں تو چار انگلیوں کے برابرتک جائز ہے، اس سے زائد ہوگا تو حرام ہے۔

اور اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ خالص ریشمی یا جس میں زیادہ مقدار ریشم کی ہو ایسا کپڑا منع ہے، اوراس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ریشم کے ہر جزء کی حرمت مراد نہیں جیسے شراب اور سونے میں ہے، کہ شراب اور سونے کا چھوٹے سے چھوٹا جزء بھی حرام ہے" مختصراً

حدیث کے آخر میں اسماء رضی اللہ عنہا کا کہنا:


" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جبہ پہنا کرتے تھے اور ہم اس جبہ کو دھو کر(اس کا پانی) شفاء کے لئے بیماروں کو پلاتے ہیں" یہ تبرک کی ایسی قسم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی، چنانچہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے آثار سے تبرک حاصل نہیں کیا۔


مزید فائدے کیلئے سوال نمبر: (
10045)، اور(100105) کا مطالعہ بھی کریں۔

واللہ اعلم .
لنک
 
شمولیت
دسمبر 01، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
43
- في صحيح مسلم عن عبد الله بن كيسان مولى أسماء بنت أبي بكر قال: أخرجت إلينا جبة طيالسة كسروانية، لها لبنة ديباج وفرجاها مكفوفان بالديباج فقالت: هذه كانت عند عائشة حتى قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبَسُها فنحن نغسلها للمرضى نستشفي بها" ا.هـ.



قال الحافظ النووي في شرحه على صحيح مسلم: وفي هذا الحديث دليلٌ على استحباب التبرك بآثار الصالحين وثيابهم.
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
لیکن یاد رہے کہ تبرک حاصل کرنے کا یہ جواز صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے،آپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لباس،بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا حرام اور شرک ہے۔
کسی چیز کو حرام قرار دینے کے لئے نصوص سے دلیل درکار ہوتی ہے لہٰذا اس کی دلیل نصوص سے لکھ دیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کسی چیز کو حرام قرار دینے کے لئے نصوص سے دلیل درکار ہوتی ہے لہٰذا اس کی دلیل نصوص سے لکھ دیں۔
اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)

صحیح مسلم ہی میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے: (حمد وصلاۃ کے بعد: بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اس بارے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، چنانچہ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر پابند رہیں،
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کیا ہر وہ کام جس کی دلیل نہ ہو وہ چھوڑ دینا چاہیئے؟


تبرک عبادت نہیں ہے۔
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جب کعبہ کا طواف کیا تو انہوں نے بیت اللہ کے تمام ارکان کو چھونا شروع کر دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اسوئہ حسنہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دونوں یمانی رکنوں، یعنی حجر اسود اور رکن یمانی ہی کو چھوا کرتے تھے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کعبہ اور ارکان کعبہ کو چھونے کے بارے میں ہم صرف اسی پر عمل کریں جو سنت سے ثابت ہے اور سنت کے مطابق عمل ہی اسوئہ حسنہ کے مطابق عمل ہے۔ حجر اسود اور دروازے کے درمیان والی جگہ ملتزم کے بارے میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ انہوں نے یہاں کھڑے ہو کر اور ملتزم سے چمٹ کر دعا کی تھی۔
 
Top