• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
اجسادِ اولیاء سے منسوب اشیاء سے تبرک

1۔ (امام شافعی کے تلمیذ) ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام شافعی مصر تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے کہا : میرا یہ خط سلامتی سے ابو عبداﷲ احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لا کر دو۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل سے میری ملاقات ہوئی پس جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے خط اُن کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط آپ کے بھائی شافعی نے آپ کو مصر سے بھیجا ہے۔ امام احمد نے مجھ سے کہا : کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟ میں نے کہا : نہیں! انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، میں نے پوچھا : ابو عبداﷲ کیا ہوا، اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا : امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے کہ ابو عبداﷲ کو خط لکھو، اسے سلام لکھ کر کہو کہ تمہیں عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن (کے باطل عقیدہ) کی دعوت دی جائے گی سو تم اسے قبول نہ کرنا، اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔ اس کے بعد ربیع بیان کرتے ہیں :

فقلت له : البشارة يا أبا عبداﷲ، فخلع أحد قميصه الذي يلي جلده فأعطانيه، فأخذت الجواب، فخرجت إلي مصر وسلمته إلي الشافعي. فقال : أيش الذي أعطاک. فقلت : قميصه. فقال الشافعي : ليس نفجعک به، ولکن بلّه وادفع إلي الماء لأ تبرک به.
’’میں نے اُن سے کہا : ابو عبد اﷲ! آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔ انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی، میں اُن سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : انہوں نے تمہیں کوئی چیز عطا کی ہے؟ میں نے کہا : اپنی قمیص، امام شافعی نے فرمایا : ہم تمہیں اس کے بارے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے، مگر اتنا کردو کہ اسے گیلا کرکے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اس سے برکت حاصل کریں۔‘‘
تاج الدين سبکي، طبقات الشافعية الکبري، 2 : 36

تاج الدین سبکی نے اس کی یہ سند زکر کی ہے۔

أَخْبَرَنَا الْحَافِظ أَبُو الْعَبَّاس بن المظفر بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ أخبرنَا عبد الْوَاسِع بن عبد الْكَافِي الْأَبْهَرِيّ إجَازَة أخبرنَا أَبُو الْحَسَن مُحَمَّد بْن أَبِي جَعْفَر بْن عَلِيّ الْقرظِيّ سَمَاعا أَخْبَرَنَا الْقَاسِم بْن الْحَافِظ أَبِي الْقَاسِم عَلِيّ بْن الْحَسَن بْن هبة اللَّه بْن عَلِيّ بْن عَسَاكِر أَخْبَرَنَا عَبْد الْجَبَّار بن مُحَمَّد بن أَحْمد الخواري إجَازَة وَحدثنَا عَنهُ بِهِ أَبِي سَمَاعا قَالَ ابْن المظفر وَأخْبرنَا يُوسُف بن مُحَمَّد الْمصْرِيّ إجَازَة أخبرنَا إِبْرَاهِيم بن بَرَكَات الخشوعي سَمَاعا أَخْبَرَنَا الْحَافِظ أَبُو الْقَاسِم إِجَازَةً أَخْبَرَنَا عَبْد الْجَبَّار الخواري حَدثنَا الإِمَام أَبُو سَعِيد الْقشيرِي إملاء حَدثنَا الْحَاكِم أَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بْن مُحَمَّد الصفار أَخْبَرَنَا عَبْد اللَّه بْن يُوسُف قَالَ سَمِعت مُحَمَّد بْن عَبْد لله الرَّازِيّ قَالَ سَمِعت أَبَا جَعْفَر مُحَمَّد الْمَلْطِي يَقُول قَالَ الرّبيع بْن سُلَيْمَان إِن الشَّافِعِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ۔۔۔

پہ درپہ مجھول رواہ ہیں۔ اس سند کو ثابت کرنا آپ کے زمہ قرض ہے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
صاحب الصحيح امام مسلم نے برکت حاصل کرنے کے لئے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر عرض کیا :
دعني حتي أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
’’اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔‘‘
ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 33

اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں أبو نصر أحمد بن الحسن الوراق کے حالات نہیں ملے۔
اس کی دوسری سند میں ابو نصر احمد بن محمد الوراق کے حالات بھی معلوم نہیں
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
۔ (امام شافعی کے تلمیذ) ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام شافعی مصر تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے کہا : میرا یہ خط سلامتی سے ابو عبداﷲ احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لا کر دو۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل سے میری ملاقات ہوئی پس جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے خط اُن کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط آپ کے بھائی شافعی نے آپ کو مصر سے بھیجا ہے۔ امام احمد نے مجھ سے کہا : کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟ میں نے کہا : نہیں! انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، میں نے پوچھا : ابو عبداﷲ کیا ہوا، اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا : امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے کہ ابو عبداﷲ کو خط لکھو، اسے سلام لکھ کر کہو کہ تمہیں عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن (کے باطل عقیدہ) کی دعوت دی جائے گی سو تم اسے قبول نہ کرنا، اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔ اس کے بعد ربیع بیان کرتے ہیں :
فقلت له : البشارة يا أبا عبداﷲ، فخلع أحد قميصه الذي يلي جلده فأعطانيه، فأخذت الجواب، فخرجت إلي مصر وسلمته إلي الشافعي. فقال : أيش الذي أعطاک. فقلت : قميصه. فقال الشافعي : ليس نفجعک به، ولکن بلّه وادفع إلي الماء لأ تبرک به.
’’میں نے اُن سے کہا : ابو عبد اﷲ! آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔ انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی، میں اُن سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : انہوں نے تمہیں کوئی چیز عطا کی ہے؟ میں نے کہا : اپنی قمیص، امام شافعی نے فرمایا : ہم تمہیں اس کے بارے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے، مگر اتنا کردو کہ اسے گیلا کرکے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اس سے برکت حاصل کریں۔‘‘
تاج الدين سبکي، طبقات الشافعية الکبري، 2 : 36

یہ تو جھوٹا واقعہ ہے۔ اس کی سند میں
(1) "محمد بن الحسین ابو عبد الرحمن السلمی راوی "متہم بالکذب" ھے۔
(2) گمراہ صوفی "ابوبکر محمد بن عبد الله بن عبد العزیزی بن شاذان رازی بھی "متہم" ہے۔
(3) علی بن عبد العزیز الطلحی کے حالات معلوم نہیں
الغرض یہ قصہ اپنی تمام تر سندوں سے جھوٹا ہی ہے۔

امام ذھبی ، ربیع بن سلیمان کے ترجمے میں لکھتے ہیں۔
ولم يكن صاحب رحله فاما ما يروي أن الشافعي بعثه إلى بغداد بكتابه إلى أحمد بن حنبل، فغير صحيح".
کہ ربیع بن سلیمان طلب علم کے لیئے زیادہ سفر کرنے والے نہیں تھے۔ لہذا یہ جوا واقعہ ذکر ہوا کہ امام شافعی نے اِن کو خط دے کر امام احمد بن حنبل کی طرف بغداد بھیجا۔ تو یہ صحیح نہیں"
[سير اعلام النبلاء: 587/12]

اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے۔ کہ امام خطیب نے تاریخ بغداد میں ربیع بن سلیمان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اگر وہ بغداد آتے تو تاریخ بغداد میں ضرور ان کا تذکرہ ہوتا۔ لہذا یہ واقعہ من گھڑت ہے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان ثوری (متوفی 161ھ) اپنے زمانہ کے اولیاء کے پاس تبرک کے لئے حاضر ہوئے، امام احمد بن عبداﷲ عجلی نے کوفہ کے ایک عبادت گزار محدّث عمرو بن قیس الملائی کوفی کے ترجمہ میں لکھا ہے :
کان سفيان يأتيه يسلّم عليه يتبرک به.
’’سفیان ثوری اُن کے پاس حاضر ہوتے، انہیں سلام کہتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘
عجلي، معرفة الثقات، 2 : 182

یہ سخت منقطع قول ہے۔ امام سفیان ثوری کی وفات 161ھ میں ہوئی۔
اور امام عجلی 182ھ میں پیدا ہوئے۔ تو انہوں نے سفیان ثوری سے کیسے سنا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ قول منقطع ومردود ہے۔
مدعی پر لازم ھے اس قول کی صحیح سند پیش کرے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
سلطان محمود غزنوی کو سومنات کی جنگ میں حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے جبے کی برکت سے اﷲتعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت عطا فرمائی تھی۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تذکرۃ الاولیاء کے صفحہ نمبر 344 پر بیان کرتے ہیں :
’’سلطان محمود غزنوی کے پاس حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا جبہّ مبارک تھا۔ سومنات کی جنگ میں ایک موقع پر خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی، سلطان محمود غزنوی اچانک گھوڑے سے اتر کر ایک گوشے میں چلے گئے اور وہ جبّہ ہاتھ میں لے کر سجدے میں گر گئے اور دعا مانگی :

اللّهم، انصرنا علي هؤلاء الکفّار ببرکة صاحب هذه الخرقة، وکل ما يحصل لي من أموال الغنيمة فهو صدقة علي الفقراء.
’’یا اللہ! اس جبّے والے کی برکت سے ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما اور جو کچھ مال غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب درویشوں پر صدقہ ہوگا۔‘‘
فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 344
اس کے بعد شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
’’اچانک دشمن کی طرف سے شور اُٹھا اور تاریکی چھا گئی اور کافر آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اور مختلف حصوں میں بٹ گئے۔ لشکرِ اسلام کو فتح حاصل ہو گئی۔ اس رات محمود غزنوی نے حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا :

يا محمود، لم تعرف مکانة خرقتنا في حضرة اﷲ سبحانه وتعالیٰ، لو سألت اﷲ د في تلک السّاعة إسلام جميع الکفار لأسلموا.
’’اے محمود! تم نے دربار الٰہی میں ہمارے جبّے کی قدر نہ کی۔ اگر تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اُس لمحے تمام کافروں کے لیے قبولیتِ اسلام کی درخواست کرتے تو (اس کی برکت سے) وہ سب اِسلام قبول کر لیتے۔‘‘
فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 345

یہ جھوٹی ابلیسی کہانی ہے۔ فرید الدین العطار شاعر، گمراہ بدعتی صوفی رافضی تھا
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
امام موسیٰ بن جعفر کاظم (متوفی 183ھ) کی قبر مبارک کے بارے میں ابو علی الخلال کہتے ہیں :
ما همّني أمر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت به إلا سهل اﷲ تعالي لي ما أحب.
’’جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں امام موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اُن کو وسیلہ بناتا تو جیسے میں چاہتا اﷲ تعالیٰ ویسے ہی میرے لئے راستہ نکال دیتا۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 120
یہ غیر ثابت قصہ ہے۔ اس کے راوی حسن بن ابراھیم کی توثیق کسی نے نہیں کی۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر صوفیہ و محدّثین میں ہوتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجعء اہلِ علم تھی۔ آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوة، يستشفي بقبره. يقول البغداديون : قبر معروف ترياق مجرّب.
’’آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہلِ بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔‘‘
1. قشيري، الرسالة القشيرية : 41
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 122
3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 214
یہ جھوٹا قول ہے۔ اس کا راوی احمد بن حسین بن یعقوب ابو الحسن العطار، غیر ثقہ اور مجروح ہے۔
ابو القاسم ازھری کہتے ہیں: کان کذاب
یہ انتہائی کذاب ہے۔ [تاریخ بغداد: 429/4]

خود امام خطیب نے کہا:
ولم یکن في الحدیث ثقة____
یہ روایت حدیث میں ثقہ نہیں". حوالہ مذکورہ بالا۔

امام السھمی کہتے ہیں:
حدث عن من لم یرو ومن مات قبل ان یولد__
یہ ان لوگوں سے روایت کرتا تھا جنہیں اس نے دیکھا تک نہ ہوتا تھا۔ اور ان سے بھی جو اس کی پیدائش سے پہلے ہی مرچکے ہوتے تھے".
[سوالات السھمی للدارقطنی: 157]
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت مجاہد بن جبیر فرماتے ہیں :
کانوا إذا أمحلوا کشفوا عن قبره، فمطروا.
’’جب بھی قحط پڑ جائے تو (حصولِ برکت کے لئے) لوگ قبر کھول دیتے ہیں، تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘
اس روایت میں
محمد بن عمر الواقدي کذاب،متروک
اور
إسحاق بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله بھی متروک ضعیف الحدیث ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
علامہ ابنِ عبد البر مزید فرماتے ہیں :
وقبر أبي أيوب قرب سورها معلوم. . . يستسقون به، فيسقون.
’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر قلعہ کی فصیل کے قریب ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہاں پہنچ کر لوگ اس کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘
ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 405

علامہ ابن عبد البر رحمه الله نے یہ بات روایت کے پیشِ نظر فرمائی۔ کیونکہ روایت میں ایسا ہی لکھا ہوا جو ابن عبد البر نے کہا۔
لیکن چونکہ وہ روایت ہی من گھڑت ہے۔ جسکی حقیقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
 
Top