• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آداب کا بیان (مختصر صحیح مسلم سے ماخوذ۔یونیکوڈ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: مسلمان پر مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔

1417: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔ اس کے سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کا جواب دینا، دعوت کو قبول کرنا، بیمار کی خبرگیری کرنااور جنازے کے ساتھ جانا۔
1418: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے چھ حق ہیں۔ لوگوںن ے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کر، جب وہ تیری دعوت کرے تو قبول کر، جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اچھا مشورہ دے، جب چھینکے اور الحمدللہ کہے، تو تو بھی جواب دے (یعنی یرحمک اللہ کہہ)، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جا اور جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت اور راستے کا حق ادا کرنے کے بیان میں۔

1419: سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے کی مجبوری ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرتم نہیں مانتے تو راہ کا حق ادا کرو۔ انہوں نے کہا کہ راہ کا کیاحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آنکھ نیچے رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینااور اچھی بات کا حکم کرنااور بُری بات سے منع کرنا۔

باب: سوار کا پیدل کو اور کم لوگوں (کی جماعت) کا زیادہ لوگوں (کی جماعت) کو سلام کرنا۔​

1420: سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں پر سلام کریں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: اجازت طلب کرنے اور سلام کے بارے میں۔
1421: ابوبردہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا السلام علیکم عبداللہ بن قیس آیاہے تو انہوں نے ان کو اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ پھر انہوں نے کہا کہ السلام علیکم ابوموسیٰ ہے۔ السلام علیکم یہ اشعری آیا ہے (پہلے اپنا نام بیان کیا پھر کنیت بیان کی پھر نسبت تاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی شک نہ رہے)۔ آخر لوٹ گئے۔ پھر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں واپس میرے پاس لاؤ۔ وہ واپس آئے تو کہا: اے ابو موسیٰ تم کیوں لوٹ گئے، ہم کام میں مشغول تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اجازت مانگنا تین بار ہے، پھر اگر اجازت ہو تو بہتر نہیں تو لوٹ جاؤ۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر گواہ لا نہیں تو میں کروں گااور کروںگا(یعنی سزا دوں گا)۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) چلے گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ابوموسیٰ کو گواہ ملے تو وہ شام کو منبر کے پاس تمہیں ملیں گے، اگر گواہ نہ ملے تو ان کو ممبر کے پاس نہیں پاؤ گے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کو منبر کے پاس آئے تو سیدناابوموسیٰ رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ سیدنا عمر نے کہا کہ اے ابوموسیٰ! کیاکہتے ہو، کیا تمہیں گواہ ملا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ موجود ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ معتبر ہیں۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوالطفیل! (یہ ابن ابی کعب ص کی کنیت ہے) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں؟ سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، پھر انہوں نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کی تائید کی پھر کہا کہ اے خطاب کے بیٹے تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر عذاب مت بنو (یعنی ان کو تکلیف مت دو)۔ سیدنا عمر ص نے کہا کہ واہ سبحان اللہ، میں نے تو ایک حدیث سنی تو اس کی تحقیق کرنا زیادہ اچھا سمجھا۔ (اورمیری یہ غرض ہر گز نہ تھی کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تکلیف دوں اور نہ یہ مطلب تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں)۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: پردہ اٹھا لینا اجازت دینا (ہی) ہے۔
1422: سیدناا بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے میرے پاس آنے کی اجازت اس طرح ہے کہ پردہ اٹھایا جائے اور تو میری گفتگو بھی سن سکتا ہے۔ جب تک میں تجھے روک نہ دوں۔
باب: اجازت لیتے وقت ’’میں‘‘ کہنا مکروہ ہے (لہٰذا اپنا نام بتانا چاہیئے)۔
1423: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، توآ پ ا نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں میں‘‘ ۔ ایک روایت میں ہے کہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’میں‘‘ کہنے کو بُرا جانا۔
باب: اجازت لینے کے وقت (گھر میں) جھانکنا منع ہے۔
1424: سیدناسہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کی روزن (سوراخ)سے جھانکا اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لوہے کا آلہ (کنگھا) تھا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجا رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایاکہ اگر میں جانتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھ کو کونچتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذن اسی لئے بنایا گیا ہے کہ آنکھ بچے (یعنی پرائے گھر میں جھانکنے سے اور یہ حرام ہے)۔
باب: جو بغیر اجازت کسی کے گھر جھانکے اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی (تو کوئی گناہ نہیں)۔
1425: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص نے تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھانکے، پھر تو اس کو کنکری سے مارے اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تیرے اوپر کچھ گناہ نہ ہو گا۔
باب: اچانک نظر پڑ جانے اور نظر پھیر لینے کے بارے میں۔
1426: سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نگاہ پھیر لینے کاحکم دیا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: جو مجلس میں آیا، سلام کیا اور بیٹھ گیا (اس کی فضیلت)۔
1427: سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اتنے میں تین آدمی آئے، دو تو سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک چلاگیا۔ وہ دو جو آئے ان میں سے ایک نے مجلس میں جگہ خالی پائی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھا اور تیسرا تو پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں تم سے تین آدمیوں کا حال نہ کہوں؟ ایک نے تو اللہ کے پاس ٹھکانہ لیا تو اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرے نے (لوگوں میں گھسنے کی) شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔
باب: کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کی ممانعت۔
1428: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے لیکن پھیل جاؤ اور جگہ دو۔ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا کہ یہ جمعہ کے دن کا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ جمعہ ہو یا کوئی اور دن۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کیلئے کوئی آدمی اٹھتا تووہ اس جگہ نہ بیٹھتے (اگرچہ اس کی رضامندی سے بیٹھنا جائز ہے مگر یہ احتیاط تھی کہ شاید وہ دل میں ناراض ہو)۔
باب: جو اپنی مجلس (بیٹھنے کی جگہ) سے اٹھا، پھر لوٹا تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔​
1429: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مجلس میں سے (اپنی کسی حاجت کیلئے) کھڑا ہو (اور ابوعوانہ کی حدیث میں ہے کہ جوکھڑا ہو) لوٹ کر آئے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: تین آدمیوں میں سے دو آدمیوں کی الگ اور آہستہ بات چیت کی ممانعت۔
1430: سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو تم میں سے دو تیسرے شخص کو الگ کر کے آہستہ سے بات نہ کریں، یہاں تک کہ تم سے اور لوگ بھی ملیں۔ اس لئے کہ اس (تیسرے شخص کو) رنج ہو گا۔ (ممکن ہے کہ وہ ان دونوں سے بدگمان ہو جائے)۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: بچوں کو سلام (کرنا)۔
1431: سیار کہتے ہیں کہ میں ثابت بنانی کے ساتھ چل رہا تھا، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور حدیث بیان کی کہ وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے، بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے، بچوں کے پاس سے گزرے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: تم یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔
1432: سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود اور نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل مت کرو اور جب تم کسی یہودی یا نصرانی سے راہ میں ملوتو اس کو تنگ راہ کی طرف دبا دو۔
باب: اہل کتاب کے سلام کا جواب۔​
1433: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہودی کے چند لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، توکہا کہ السام علیکم یا اباالقاسم! (یعنی اے ابو القاسم تم پر موت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیکم۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا غصے ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سناکہ انہوں نے کیا کہا؟ آپ ا نے فرمایا کہ میں نے سنا اور اس کاجواب بھی دیا اور ہم ان پر جو دعا کرتے ہیں وہ قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا قبول نہیں ہوتی (ایسا ہی ہوا کہ الٹی موت یہود پر پڑی وہ مرے اور مارے گئے)۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: پردے کا حکم آجانے کے بعد عورتوں کے (کھلے منہ) نکلنے کی ممانعت۔

1434: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رات کو حاجت کے لئے ان مقامات کی طرف (قضاء حاجت کیلئے)جاتیں، جو مدینہ کے باہر تھے اور وہ صاف اور کھلی جگہ میں تھے۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ کا حکم نہ دیتے۔ ایک دفعہ اُمّ المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا رات کو عشاء کے وقت نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ا ن کو آواز دی اور کہا کہ اے سودہ بنت ِزمعہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ اور یہ اس واسطے کیا کہ پردہ کاحکم اترے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا پھر اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرما دیا۔
باب: عورتوں کو اپنی ضروریات کیلئے باہر نکلنے کی اجازت۔
1435: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہمیں پردے کا حکم ہوا، اس کے بعد سودہ رضی اللہ عنہا حاجت کونکلیں اور وہ ایک موٹی عورت تھیں، جو سب عورتوں سے موٹاپے میں نکلی رہتیں اور جو کوئی ان کو پہچانتا تھا، اس سے چھپ نہ سکتیں تھیں (یعنی وہ پہچان لیتا) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھااور کہا کہ اے سودہ! اللہ کی قسم تم اپنے آپ کو ہم سے چھپا نہیں سکتیں، اس لئے سمجھو کہ تم کیسے نکلتی ہو؟ یہ سن کر وہ لوٹ کر آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں رات کاکھانا کھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی اتنے میں سودہ آئیں اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نکلی تھی تو عمر ص نے مجھے ایسے ایسے کہا۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی حالت ہوئی، پھر وہ حالت جاتی رہی اور ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہی میں تھی، آ پ ا نے اس کو رکھا نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں حاجت کے لئے نکلنے کی اجازت ملی ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
باب: محرم عورت کو اپنے پیچھے بٹھانا۔
1436: سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا اور نہ کوئی غلام تھا اور نہ کچھ اور سوائے ایک گھوڑے کے۔ میں ہی ان کے گھوڑے کو چراتی اور سارا کام گھوڑے کا اور سدھائی بھی کرتی اور ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں بھی کوٹتی اور اس کو چراتی بھی اور اس کوپانی بھی پلاتی اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی لیکن میں روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھی تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاں پکا دیتیں اوروہ بہت محبت کی عورتیں تھیں۔ اسماء نے کہا کہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوجاگیر کے طور پر دی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں لایا کرتی تھی اور وہ جاگیر مدینہ سے دو میل دور تھی۔ (ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگلی کا اور انگلی چھ جَو کی اور فرسخ تین میل کا) ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی کہ راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، پھر اونٹ کے بٹھانے کو اخ اخ بولا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں۔ مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گواراکرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی؟) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک خادمہ دے دیی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی، گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
 
Top