دھرنا اور مذاکرات ڈراما
تحریر: شَیخ حافظ ابویحییٰ نورپوری !!
تحریک لبیک کے حالیہ مذاکرات کے بعد یہ خدشہ تقویت پکڑ گیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کے مشن کو عشق رسالت کے بعض بلند بانگ دعوے داروں کی مدد سے ہائی جیک کر لیا ہے۔
چند ایک مخلص لوگوں (جنہیں #آسیہ_مسیح کیس کے سارے حقائق سے مکمل واقفیت نہ تھی اور وہ سپریم کورٹ کے چالبازی پر مبنی فیصلے سے متاثر ہو گئے) اور لبرلز وسیکولرز کے سوا سارے مسلمان ہی اس پر سراپا احتجاج تھے، لیکن ایک تحریک نے پوری منصوبہ بندی سے آگے بڑھ کر اس کی کمان سنبھال لی۔ یہ دراصل ان قوتوں کے مہرے تھے جنہیں تحفظ #ناموس_رسالت کیس کو برباد کرنا تھا۔ ناموس رسالت سے اپنا مضبوط تعلق ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے فوج میں بغاوت، #ججز کے قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے فساد فی الارض پر مبنی حکم صادر کر کے اپنی تحریک کی ابتدا کی۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بے وقوف بن کر نہ تو فوج میں کسی نے بغاوت کی کوشش کی، نہ ما ورائے عدالت قتل وغارت سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔
لیکن اس تحریک سے وابسطہ سیدھے سادھے بھکتوں سے سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی بڑی ڈینگوں کے بعد مذاکرات کے نکات دیکھ کر بھی آپ کو ہوش نہیں آیا؟
بتائیے کہ پیر افضل قادری صاحب کے فرمان اور #خادم_رضوی صاحب کی تائید سے جو جج واجب القتل بن چکے تھے، ان میں سے کوئی اپنے عہدے سے برطرف بھی ہوا؟ کیا معاہدے میں ایسی کوئی شرط منظور ہوئی؟
اس دھرنے سے پہلے کیا نظر ثانی اپیل پر حکومت یا عدالت نے پابندی لگا رکھی تھی، جو اب یہ معرکہ سر کر لیا گیا ہے؟
جن تین ججوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، ان کی برطرفی تو کجا، نظر ثانی اپیل سننے والے بینچ سے ان تینوں کی علیحدگی کی ہی شرط منوا لی ہوتی تو ہم سمجھتے کہ کوئی تیر مار لیا گیا ہے۔
رہی ای سی ایل میں نام ڈالنے کی بات تو اس کے حوالے سے بھی صرف قانونی کارروائی کا وعدہ کیا گیا ہے، قانون کے "رکھولے" قانون میں جو جو "کارروائیاں" کرتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اگر عاصیہ ملک میں موجود بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ "قانونی کارروائی" پوری ہو کر ای سی ایل میں نام ڈالنے تک عاصیہ ملک سے فرار ہو بھی چکی ہو۔
کچھ ذرائع کی بنیاد پر ایک قوی خدشہ یہ بھی ہے کہ عاصیہ کو پہلے ہی فرار کروایا جا چکا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ سے رہائی کا پروانہ تو کئی دنوں سے مل چکا ہے، جب کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کی قانونی کارروائی میں کچھ اور وقت بھی لگے گا، تب تک حکومت ہاتھ جھاڑ چکی ہو گی کہ "قانونی تقاضے" پورے کرتے کرتے عاصیہ بھاگ گئی، ہم "غیر قانونی" طور پر اسے کیسے روک سکتے تھے؟
اگرچہ آئی جی جیل کا بیان آیا ہے کہ جیل سے رہائی کی قانونی دستاویز ابھی مکمل نہیں، ان کے بغیر عاصیہ جیل سے کیسے نکل سکتی ہے؟ تو اس پر ہمارا تبصرہ یہی ہے کہ جب مغربی آقاؤں کا دباؤ آتا ہے تو ہمارا بے چارہ قانون پانی بھی نہیں مانگتا، اس کی کئی مثالیں ہماری ملکی تاریخ میں پہلے سے موجود ہیں۔
بہرحال اللہ کرے کہ عاصیہ ملک میں ہی ہو اور نظرثانی اپیل کے فیصلے تک یہیں رہے، یہی ملک وقوم کے لیے بہتر ہے۔
ہاں تو بات چل رہی تھی مذاکرات کی، کوئی ہمیں سمجھائے کہ کون سی ایسی کامیابی پا لی گئی جس کی بنا پر سر پر کفن باندھ کر بغاوت کا اعلان کرنے والوں نے دھرنا ختم کر دیا؟
البتہ سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ معاہدات تحریری اور کچھ زبانی ہوئے ہیں، یہ کون سے ایٹمی راز منتقل کیے گئے ہیں، جنہیں احاطہ تحریر میں لانا انہیں غیر محفوظ ہاتھوں میں لے جا سکتا تھا؟ سیدھی سی بات ہے کہ عوام کے دینی جذبات سے کھیل کر اس تحریک کے لیڈران نے ایسے فوائد حاصل کیے، جنہیں زبانی طے کرنا ہی مناسب تھا، تحریر کرنا شرمندگی کا باعث تھا۔ ظاہر ہے کہ ان معاہدات کا تعلق عوام سے تھا ہی نہیں، اسی لیے ان کی بھنک بھی انہیں نہیں پڑنے دی گئی۔
یوں تحفظ ناموس رسالت کے مخلص سپاہیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، کیونکہ ان میں سے اکثر اس خاص ایشو میں خادم رضوی صاحب کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے، بلکہ کئی جگہ عملا ان کے ساتھ شامل بھی ہو چکے تھے۔ اگرچہ تازہ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں نے خادم رضوی صاحب کے مذاکرات سے اعلان لا تعلقی کر کے اب بھی احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن ایک دفعہ تحریک تحفظ ناموس رسالت کی کمر چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔۔۔
اب ان لوگوں، خصوصا جوشیلے نوجوانوں کی آنکھیں اچھی طرح کھل جانی چاہییں جو تحفظ ناموس رسالت کے بلند بانگ نعرے سن کر لبھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنا امام مان لیتے ہیں، جو حقیقت میں خود اس مشن سے مخلص نہیں ہوتے، بلکہ اس مشن کو کمزور کرنے کے لیے پلانٹ کیے گئے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی مخلص ومدبر اور پرامن منہجی لوگوں کے ہاتھوں میں تحفظ ناموس رسالت تحریک کی کمان دے تا کہ محبان رسول کے سینے ٹھنڈے ہو سکیں۔ آمین