• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسیہ مسیح کیس سے متعلق علمائے اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
(12) درحقیقت یہ فیصلہ سراسر عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس کا مطالبہ یورپی یونین، مسیحی پوپ اور امریکہ عرصہ دراز سے کر رہا تھا۔ یہ فیصلہ مغربی آقاؤں کو خوش کرنے اور لبرلزم واباحیت کو فروغ دینے کے لئے کیا گیا۔ مذکورہ ناقابل تردید حقائق کی بنا پر یہ فیصلہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اب ہمارا امتحان ہے کہ اپنی معمولی توہین یا اپنے باپ بہن کے بارے میں معمولی سخت زبان سننے پر لڑنے مرنے کو تیار ہونے والے سید المرسلین ﷺ سے کتنا گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ان کی توہین کو کتنا سنگین سمجھتے ہیں۔ اور اس کے تحفظ کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔
بالکل درست اور صحیح تجزیہ ہے ،
حقیقت واقعہ یہی ہے کہ عالمی طاقتوں کے حکم کی پیروی میں مقدمہ میں "لفظوں کی تکنیک سے قانونی سقم بنائے گئے " جن کی آڑ لے کراس عورت کو آزاد کیا گیا ،
اغیار کی غلامی کی ایسی بدنما مثالیں عالمی برادری میں پاکستان کی پہچان بن رہی ہیں ،
اور اہل پاکستان کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہی ہیں ،
لبرلز کا ایجنڈا پنپ رہا ہے،
عدالتوں سے عام آدمی کا اعتباراٹھتا دکھائی رہا ہے،
اور نتیجۃً بھیانک روپ کے ساتھ انارکی کا خطرہ محسوس ہونے لگا ہے ،
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108


کیا یہ معاہدہ اصلی ہے ۔کوئی بھائی بتا سکتا ہے ۔ ٹوئیٹر پر گردش کر رہا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دھرنا اور مذاکرات ڈراما♦


تحریر: شَیخ حافظ ابویحییٰ نورپوری !!

تحریک لبیک کے حالیہ مذاکرات کے بعد یہ خدشہ تقویت پکڑ گیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کے مشن کو عشق رسالت کے بعض بلند بانگ دعوے داروں کی مدد سے ہائی جیک کر لیا ہے۔
چند ایک مخلص لوگوں (جنہیں #آسیہ_مسیح کیس کے سارے حقائق سے مکمل واقفیت نہ تھی اور وہ سپریم کورٹ کے چالبازی پر مبنی فیصلے سے متاثر ہو گئے) اور لبرلز وسیکولرز کے سوا سارے مسلمان ہی اس پر سراپا احتجاج تھے، لیکن ایک تحریک نے پوری منصوبہ بندی سے آگے بڑھ کر اس کی کمان سنبھال لی۔ یہ دراصل ان قوتوں کے مہرے تھے جنہیں تحفظ #ناموس_رسالت کیس کو برباد کرنا تھا۔ ناموس رسالت سے اپنا مضبوط تعلق ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے فوج میں بغاوت، #ججز کے قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے فساد فی الارض پر مبنی حکم صادر کر کے اپنی تحریک کی ابتدا کی۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بے وقوف بن کر نہ تو فوج میں کسی نے بغاوت کی کوشش کی، نہ ما ورائے عدالت قتل وغارت سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔
لیکن اس تحریک سے وابسطہ سیدھے سادھے بھکتوں سے سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی بڑی ڈینگوں کے بعد مذاکرات کے نکات دیکھ کر بھی آپ کو ہوش نہیں آیا؟
بتائیے کہ پیر افضل قادری صاحب کے فرمان اور #خادم_رضوی صاحب کی تائید سے جو جج واجب القتل بن چکے تھے، ان میں سے کوئی اپنے عہدے سے برطرف بھی ہوا؟ کیا معاہدے میں ایسی کوئی شرط منظور ہوئی؟
اس دھرنے سے پہلے کیا نظر ثانی اپیل پر حکومت یا عدالت نے پابندی لگا رکھی تھی، جو اب یہ معرکہ سر کر لیا گیا ہے؟
جن تین ججوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، ان کی برطرفی تو کجا، نظر ثانی اپیل سننے والے بینچ سے ان تینوں کی علیحدگی کی ہی شرط منوا لی ہوتی تو ہم سمجھتے کہ کوئی تیر مار لیا گیا ہے۔
رہی ای سی ایل میں نام ڈالنے کی بات تو اس کے حوالے سے بھی صرف قانونی کارروائی کا وعدہ کیا گیا ہے، قانون کے "رکھولے" قانون میں جو جو "کارروائیاں" کرتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اگر عاصیہ ملک میں موجود بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ "قانونی کارروائی" پوری ہو کر ای سی ایل میں نام ڈالنے تک عاصیہ ملک سے فرار ہو بھی چکی ہو۔
کچھ ذرائع کی بنیاد پر ایک قوی خدشہ یہ بھی ہے کہ عاصیہ کو پہلے ہی فرار کروایا جا چکا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ سے رہائی کا پروانہ تو کئی دنوں سے مل چکا ہے، جب کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کی قانونی کارروائی میں کچھ اور وقت بھی لگے گا، تب تک حکومت ہاتھ جھاڑ چکی ہو گی کہ "قانونی تقاضے" پورے کرتے کرتے عاصیہ بھاگ گئی، ہم "غیر قانونی" طور پر اسے کیسے روک سکتے تھے؟
اگرچہ آئی جی جیل کا بیان آیا ہے کہ جیل سے رہائی کی قانونی دستاویز ابھی مکمل نہیں، ان کے بغیر عاصیہ جیل سے کیسے نکل سکتی ہے؟ تو اس پر ہمارا تبصرہ یہی ہے کہ جب مغربی آقاؤں کا دباؤ آتا ہے تو ہمارا بے چارہ قانون پانی بھی نہیں مانگتا، اس کی کئی مثالیں ہماری ملکی تاریخ میں پہلے سے موجود ہیں۔
بہرحال اللہ کرے کہ عاصیہ ملک میں ہی ہو اور نظرثانی اپیل کے فیصلے تک یہیں رہے، یہی ملک وقوم کے لیے بہتر ہے۔
ہاں تو بات چل رہی تھی مذاکرات کی، کوئی ہمیں سمجھائے کہ کون سی ایسی کامیابی پا لی گئی جس کی بنا پر سر پر کفن باندھ کر بغاوت کا اعلان کرنے والوں نے دھرنا ختم کر دیا؟
البتہ سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ معاہدات تحریری اور کچھ زبانی ہوئے ہیں، یہ کون سے ایٹمی راز منتقل کیے گئے ہیں، جنہیں احاطہ تحریر میں لانا انہیں غیر محفوظ ہاتھوں میں لے جا سکتا تھا؟ سیدھی سی بات ہے کہ عوام کے دینی جذبات سے کھیل کر اس تحریک کے لیڈران نے ایسے فوائد حاصل کیے، جنہیں زبانی طے کرنا ہی مناسب تھا، تحریر کرنا شرمندگی کا باعث تھا۔ ظاہر ہے کہ ان معاہدات کا تعلق عوام سے تھا ہی نہیں، اسی لیے ان کی بھنک بھی انہیں نہیں پڑنے دی گئی۔
یوں تحفظ ناموس رسالت کے مخلص سپاہیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، کیونکہ ان میں سے اکثر اس خاص ایشو میں خادم رضوی صاحب کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے، بلکہ کئی جگہ عملا ان کے ساتھ شامل بھی ہو چکے تھے۔ اگرچہ تازہ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں نے خادم رضوی صاحب کے مذاکرات سے اعلان لا تعلقی کر کے اب بھی احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن ایک دفعہ تحریک تحفظ ناموس رسالت کی کمر چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔۔۔
اب ان لوگوں، خصوصا جوشیلے نوجوانوں کی آنکھیں اچھی طرح کھل جانی چاہییں جو تحفظ ناموس رسالت کے بلند بانگ نعرے سن کر لبھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنا امام مان لیتے ہیں، جو حقیقت میں خود اس مشن سے مخلص نہیں ہوتے، بلکہ اس مشن کو کمزور کرنے کے لیے پلانٹ کیے گئے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی مخلص ومدبر اور پرامن منہجی لوگوں کے ہاتھوں میں تحفظ ناموس رسالت تحریک کی کمان دے تا کہ محبان رسول کے سینے ٹھنڈے ہو سکیں۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
دھرنا اور مذاکرات ڈراما♦


تحریر: شَیخ حافظ ابویحییٰ نورپوری !!

تحریک لبیک کے حالیہ مذاکرات کے بعد یہ خدشہ تقویت پکڑ گیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کے مشن کو عشق رسالت کے بعض بلند بانگ دعوے داروں کی مدد سے ہائی جیک کر لیا ہے۔
چند ایک مخلص لوگوں (جنہیں #آسیہ_مسیح کیس کے سارے حقائق سے مکمل واقفیت نہ تھی اور وہ سپریم کورٹ کے چالبازی پر مبنی فیصلے سے متاثر ہو گئے) اور لبرلز وسیکولرز کے سوا سارے مسلمان ہی اس پر سراپا احتجاج تھے، لیکن ایک تحریک نے پوری منصوبہ بندی سے آگے بڑھ کر اس کی کمان سنبھال لی۔ یہ دراصل ان قوتوں کے مہرے تھے جنہیں تحفظ #ناموس_رسالت کیس کو برباد کرنا تھا۔ ناموس رسالت سے اپنا مضبوط تعلق ظاہر کرنے کے لیے انہوں نے فوج میں بغاوت، #ججز کے قتل اور حکومت کا تختہ الٹنے جیسے فساد فی الارض پر مبنی حکم صادر کر کے اپنی تحریک کی ابتدا کی۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بے وقوف بن کر نہ تو فوج میں کسی نے بغاوت کی کوشش کی، نہ ما ورائے عدالت قتل وغارت سے ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا۔
لیکن اس تحریک سے وابسطہ سیدھے سادھے بھکتوں سے سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی بڑی ڈینگوں کے بعد مذاکرات کے نکات دیکھ کر بھی آپ کو ہوش نہیں آیا؟
بتائیے کہ پیر افضل قادری صاحب کے فرمان اور #خادم_رضوی صاحب کی تائید سے جو جج واجب القتل بن چکے تھے، ان میں سے کوئی اپنے عہدے سے برطرف بھی ہوا؟ کیا معاہدے میں ایسی کوئی شرط منظور ہوئی؟
اس دھرنے سے پہلے کیا نظر ثانی اپیل پر حکومت یا عدالت نے پابندی لگا رکھی تھی، جو اب یہ معرکہ سر کر لیا گیا ہے؟
جن تین ججوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، ان کی برطرفی تو کجا، نظر ثانی اپیل سننے والے بینچ سے ان تینوں کی علیحدگی کی ہی شرط منوا لی ہوتی تو ہم سمجھتے کہ کوئی تیر مار لیا گیا ہے۔
رہی ای سی ایل میں نام ڈالنے کی بات تو اس کے حوالے سے بھی صرف قانونی کارروائی کا وعدہ کیا گیا ہے، قانون کے "رکھولے" قانون میں جو جو "کارروائیاں" کرتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اگر عاصیہ ملک میں موجود بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ "قانونی کارروائی" پوری ہو کر ای سی ایل میں نام ڈالنے تک عاصیہ ملک سے فرار ہو بھی چکی ہو۔
کچھ ذرائع کی بنیاد پر ایک قوی خدشہ یہ بھی ہے کہ عاصیہ کو پہلے ہی فرار کروایا جا چکا ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ سے رہائی کا پروانہ تو کئی دنوں سے مل چکا ہے، جب کہ ای سی ایل میں نام ڈالنے کی قانونی کارروائی میں کچھ اور وقت بھی لگے گا، تب تک حکومت ہاتھ جھاڑ چکی ہو گی کہ "قانونی تقاضے" پورے کرتے کرتے عاصیہ بھاگ گئی، ہم "غیر قانونی" طور پر اسے کیسے روک سکتے تھے؟
اگرچہ آئی جی جیل کا بیان آیا ہے کہ جیل سے رہائی کی قانونی دستاویز ابھی مکمل نہیں، ان کے بغیر عاصیہ جیل سے کیسے نکل سکتی ہے؟ تو اس پر ہمارا تبصرہ یہی ہے کہ جب مغربی آقاؤں کا دباؤ آتا ہے تو ہمارا بے چارہ قانون پانی بھی نہیں مانگتا، اس کی کئی مثالیں ہماری ملکی تاریخ میں پہلے سے موجود ہیں۔
بہرحال اللہ کرے کہ عاصیہ ملک میں ہی ہو اور نظرثانی اپیل کے فیصلے تک یہیں رہے، یہی ملک وقوم کے لیے بہتر ہے۔
ہاں تو بات چل رہی تھی مذاکرات کی، کوئی ہمیں سمجھائے کہ کون سی ایسی کامیابی پا لی گئی جس کی بنا پر سر پر کفن باندھ کر بغاوت کا اعلان کرنے والوں نے دھرنا ختم کر دیا؟
البتہ سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ معاہدات تحریری اور کچھ زبانی ہوئے ہیں، یہ کون سے ایٹمی راز منتقل کیے گئے ہیں، جنہیں احاطہ تحریر میں لانا انہیں غیر محفوظ ہاتھوں میں لے جا سکتا تھا؟ سیدھی سی بات ہے کہ عوام کے دینی جذبات سے کھیل کر اس تحریک کے لیڈران نے ایسے فوائد حاصل کیے، جنہیں زبانی طے کرنا ہی مناسب تھا، تحریر کرنا شرمندگی کا باعث تھا۔ ظاہر ہے کہ ان معاہدات کا تعلق عوام سے تھا ہی نہیں، اسی لیے ان کی بھنک بھی انہیں نہیں پڑنے دی گئی۔
یوں تحفظ ناموس رسالت کے مخلص سپاہیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا، کیونکہ ان میں سے اکثر اس خاص ایشو میں خادم رضوی صاحب کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے، بلکہ کئی جگہ عملا ان کے ساتھ شامل بھی ہو چکے تھے۔ اگرچہ تازہ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں نے خادم رضوی صاحب کے مذاکرات سے اعلان لا تعلقی کر کے اب بھی احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن ایک دفعہ تحریک تحفظ ناموس رسالت کی کمر چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔۔۔
اب ان لوگوں، خصوصا جوشیلے نوجوانوں کی آنکھیں اچھی طرح کھل جانی چاہییں جو تحفظ ناموس رسالت کے بلند بانگ نعرے سن کر لبھ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اپنا امام مان لیتے ہیں، جو حقیقت میں خود اس مشن سے مخلص نہیں ہوتے، بلکہ اس مشن کو کمزور کرنے کے لیے پلانٹ کیے گئے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی مخلص ومدبر اور پرامن منہجی لوگوں کے ہاتھوں میں تحفظ ناموس رسالت تحریک کی کمان دے تا کہ محبان رسول کے سینے ٹھنڈے ہو سکیں۔ آمین
یہ احتجاج یا دھرنا مخالف موقف بھی اس بار عجیب وغریب رہا ہے۔
احتجاج شروع ہوا، ان لوگوں نے طعن وتشنیع اور تنقید کرنا شروع کردی، حتی کہ وہ پراپیگنڈہ جو در حقیقت لبرلز اور دین دشمنوں کی طرف سے تھا، یعنی جعلی ویڈیوز وغیرہ شیئر کرنا، یہ ’مخلص لوگ‘ بھی اس کا حصہ بن گئے، مطلب رضوی سے مخالفت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا، جب رضوی نے معاہدہ کرلیا، تو یہ لوگ پھر دوسرے انداز سے اس پر برسنا شروع ہوگئے، کہ یہ دین فروش نکلا، مطالبات منوائے بغیر اٹھ گیا وغیرہ۔
مطلب آپ نے دھرنے میں اسے سپورٹ کیا تھا کہ اب مطالبات منوائے بغیر اٹھنے پر طعنہ زنی کر رہے ہیں؟ آپ چوکڑی مار کر اس کی پشت تھپتھپا رہے تھے کہ رضوی دوسری طرف سے ’پرکشش آفر‘ دیکھتے ہی آپ کو بیچ میدان مین چھوڑ گیا؟
حقیقت یہ ہے کہ اہل حدیث میں سے بھی جس نے چھوٹے موٹے احتجاج کا تجربہ کرکے دیکھا، ان میں سے کوئی بھی رضوی صاحب پر تنقید نہیں کر رہا ۔
کیونکہ دھرنے یا احتجاج جاری رکھنا، کوئی آسان کام نہیں، یہ کوئی واٹس ایپ یا فیس بک تو نہیں، کہ کمرے میں بیٹھ کر جب چاہا، لکھنا شروع ہوگئے، جب چاہا، آرام کرنا شروع کردیا۔
گھر سے یا اپنے مرکز و مدرسہ سے باہر نکل پر سڑک پر بیٹھنا، یہ آسان کام نہیں، اور رضوی جس طرح دھرنا دیتا ہے، اس کے انتظامات بتارہے ہوتے ہیں، کہ اس کی جماعت اور انتظامیہ نے سارے وسائل جھونک دیے ہیں۔
اس طرح کے ایمرجنسی کاموں اور عارضی انتظامات کو لمبی دیر تک جاری رکھنا آسان کام نہیں، اس لیے دھرنوں کا یہی انجام دیکھا ہے، کہ کچھ عرصہ بیٹھ کر، جب انتظامات ختم ہوتے نظر آتے ہیں، شریک ہونے والوں کا دھرنا مخالفین کے پراپیگنڈے سے حوصلے پست ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے، تو ہر سمجھدار وہی کرتا ہے، جو رضوی صاحب نے اس دفعہ یا اس سے پہلے کیا۔
بلکہ رضوی صاحب جو دو چار دن نکال جاتے ہیں، اس میں اصل راز یہی ہے کہ دھرنا کے آس پاس بریلوی خانقاہوں کے متعلقین ان کی سپورٹ کرتے ہیں۔
اگر دھرنے کامیاب کرنے ہیں، تو سب مولوی ایک دوسرے کو سپورٹ کریں، مالی اور افرادی ہر طرح کا تعاون مہیا کریں، کوئی آفر دینے آئے، تو اس سے زیادہ حوصلہ افزائی ہم دین والوں کی طرف سے ہونی چاہیے۔ پھر اگر دھرنا دینے والے کسی لالچ میں آئیں تو جی بھر کے اسے گالیاں دینی چاہییں۔
رضوی صاحب گو دھرنے کے مقاصد حاصل کرنےمیں کامیاب نہیں ہوتے، لیکن پھر بھی ان کی طرح کے دھرنے کا انتظام شاید کوئی مذہبی لیڈر یا اس کی جماعت نہ کرسکے۔
میری نظر میں مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے دھرنا مخالفین کو دھرنے کے خلاف دھرنا دینے کی بجائے، مثبت طریقے سے آسیہ مسیح کیس کے حوالے سے پیش رفت کرنی چاہیے تھی، اور ثابت کردینا چاہیے تھا کہ دھرنے کی بجائے ان کا معتدل و متوازن طرز عمل ہی مسئلے کااصل حل ہے۔
اس حقیقت کی گواہی ہربندے کا ضمیر دے گا، کہ ایشو اسی وقت تک گرم رہتا ہے، جب رضوی میدان میں ہو، جونہی رضوی پیچھے ہٹتا ہے، معاملہ یوں ٹھنڈا ہوجاتاہے، گویا کہ تھا ہی نہیں۔ رضوی کی اس تاثیر اور قوت کو مخالفین کو کھلے دن سے تسلیم کرلینا چاہیے۔
دھرنا مذہبی ہو یا سیاسی، جب اس کی ابتدا ہوتی ہے، تو بڑے بڑے دعوے اور نعرے ہوتے ہیں، کیونکہ کارکنان کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے، لیکن دھرنوں کی انتہا عموما اسی قسم کی ہوتی ہے، جیسا کہ رضوی کے دھرنے کی ہوئی۔ اس میں قابل تنقید جو پہلو ہے، وہ مبالغہ آرائی ہے، جو کارکنان اکٹھے کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ لوگون کی توجہ کے لیے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اور دھرنے کی ابتدا ان اہداف کے پیش نظر ہونی چاہیے، جن کے بارے امید ہو کہ حاصل بھی ہوسکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
اتحاد وقت کی ضرورت

بین المسالک اختلافات ایک حقیقت ہیں، انہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن بین المسالک اتفافات اس سے بھی بڑی حقیقت ہیں۔
اس وقت اہل مسالک کو اپنے اختلافات و اتفاقات پر نظرثانی کرنے اور اتفاقی مسائل کے لے مل کر جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر کوئی متفقہ مسائل کو دلیل بناکر اختلافی مسائل میں غفلت و سستی کا مظاہرہ کرے تو یہ غلط رویہ ہے، اسی طرح اتفاقی رائے کے لیے جدوجہد کے وقت اختلافی مسائل کو ابھارنا یہ بھي درست روش نہیں۔
بین المسالک اتحاد کے لیےکچھ بنیادی باتیں عرض کرتا ہوں.
1۔اگر ہر کوئی اپنے مخصوص نظریات کی نمائش چاہے تو پھر اتحاد کسی صورت نہیں ہوسکتا.
2۔ مل بیٹھنے کی کوشش کی جائے، تو ایک دوسرے کے قریب ہوا جاسکتا ہے، اور متنازعہ باتوں سے رکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
3۔ اگر ہم نے کسی کے ساتھ اتحاد کرنا ہے، تو متفقہ کاز کے لیے کرنا ہے، اگر کوئی کسی غلطی میں مبتلا ہے، اور اسے چھوڑ بھی نہیں رہا، تو ہم خود اس غلطی سے گریز کریں، لیکن اتحاد چھوڑنا ، یہ ایک اور غلطی ہوگا.
دوسرے کو کفرو شرک، بدعتی اور گستاخ ہونے کے طعنے دے کر کبھی اتحاد نہیں ہوسکتا، ذرا خود کوان کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں، تو معاملے کی نوعیت کو سمجھنا آسان ہوگا۔
4۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ قادیانیوں وغیرہ کے خلاف ہمارے اسلاف نے بین المسالک اتحاد کیا، حالانکہ اہل مسالک میں یہ سب خرابیاں اس وقت بھی موجود تھیں، اور جنہوں نے اتحاد کیا، ان کی مسلکی غیرت کسی سے کم نہیں تھی۔
آج ہم اختلافی باتوں کو ایک غلط موقعہ پر ہوا دے کر اتحاد میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں.
5۔یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جن کے خلاف ہمیں اتحاد کی ضرورت ہے، قادیانی، لبرلز و ملحدین، خود ان میں آپس میں شدید اختلافات ہیں، لیکن یہ اپںے مشترکہ کاز کے لیے ہمیں ایک نظر آتے ہیں.
6۔ یہ سوچ بہت غلط ہے کہ دوسرا آپ سے اتحاد کرنے کی درخواست دے تو آپ قبول کریں گے، ورنہ نہیں. ہر چیز کو مسلک، جماعت یا وطن کی نظر سے دیکھنا درست نہیں ہوتا، بطور مسلمان بھي دوسرے کو دیکھیں، اور امت کے فائدہ کے لیے ہر ممکنہ کردار ادا کریں۔
7۔افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے، کہ کچھ لوگ اپنے دنیاوی مفادات میں کبھی بین المسالک تفریق نہیں کریں گے، جہاں سے جو فائدہ ملے، حاصل کرلیں گے، لیکن جب دین کی باری آتی ہے، اسلام کی باری آتی ہے، اس وقت تمام ’اختلافیات‘ نکال کر باہر لے آتے ہیں۔
یہ ہماری سوچ ہے کہ ہم مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے اتحاد کی کوشش کیسے کرسکتے ہیں۔
جو ان باتوں سے اختلاف رکھتے ہیں، انہیں اتحاد کے لیے لائحہ عمل دینا چاہیے، یا پھر کھل کر اعتراف کرنا چاہیے کہ اب ہم متحد نہیں ہوسکتے، اور بین المسالک اختلافات کی حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ اتحاد کے جذبے سے کی جانے والی ہر کوشش اور سوچی جانے والی ہر سوچ جل کر خاکستر بن جائےگی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آسیہ نے جانا ہی تھا
ابوبکر قدوسی
ایسے ہی بلاوجہ کا رونا نہ رویا کیجئے - حقائق کو سمجھئے ، ان کا ادراک کیجئے - حقیقتوں کی دنیا میں جو درد ہوتے ہیں وہ الگ ضرور ہوتے ہیں لیکن خوابوں کے دردوں سے تلخ نہیں ہوتے - حقیقت یہ ہے کہ آج مسلمان ایک محکوم قوم ہیں - یہ حقیقت آپ نہ بھی تسلیم کریں گے تو بدل نھیں جائے گی -
اور ایک بات یاد رکھیے ، مغرب اور امریکہ کی حکومتیں کوئی لبرل وبرل نہیں ، مکمل مذہبی حکومتیں ہیں ، مکمل مذہبی - لبرل ازم کا ناٹک انہوں نے کسی اور ضرورت کے تحت رچا رکھا ہے -
آسیہ کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کوئی اچنبے کی بات نہیں - یہ ہونا ہی تھا - کیا آپ ریمنڈ ڈیوس کو بھول گئے کہ جس نے روشن دن ، کھلی شاہراہ پر پاکستانی قتل کر دیے اور تمام پاکستان دیکھتا رہ گیا اور وہ چلا گیا -
سپریم کورٹ کا جس روز فیصلہ آیا تھا یہ سب اسی روز طے تھا - بلکہ سپریم کورٹ میں منعقد شدہ " ناٹک " نے ہی سب عیاں کر دیا تھا ..کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جس مقدمے میں آپ کی لوئر کورٹ ، اور ہائی کورٹ نے برسوں صرف کیے ہوں ، ہر طرح سے بحث کی ہو ، فریقین نے دلائل کے انبار لگا دیے ہوں ...اس کو آپ کی سپریم کورٹ محض ایک پیشی میں بھگتا دے ؟
جو دوست بہت "عقل مند " بنتے ہیں ، بزرجمہر بن کے کہتے ہیں کہ جی عدالت کا فیصلہ ہے ، وہ صرف اسی بات کا جواب دے دیں کہ یہ جج کب سے ایسے با صلاحیت ہو گئے کہ محض ایک پیشی میں ، گواہوں کو سنے بغیر ، فریقین کے وکلاء کو مکمل سنے بغیر ، فیصلہ کرنے پر قادر ہو گئے ؟
اس لیے یہ واضح بات ہے کہ آسیہ کا فیصلہ پاکستان میں لکھا ہی نہیں گیا ..یہ فیصلہ باہر سے آیا اور یہاں کی کٹھ پتلیوں نے اس کو صرف سنایا ہے -
ایک بات آپ بھی یاد رکھیے کہ جو قومیں محکوم ہوتی ہیں وہ فیصلے سنایا نہیں کرتیں ، سنا کرتی ہیں - آپ سب مسلمان ایک محکوم قوم ہیں - یہ بات آپ کو سمجھ لینی چاہیے - جتنا جلدی سمجھ جائیں گے اتنی جلدی من شانت ہو جائے گا - ورنہ بے قراری بیماری میں بدل جائے گی - بیماری کہ جو خون تھوک تھوک کے تب دق ہو جاتی ہے
اور ہاں جو دوست اس معاملے کو تحریک انصاف اور نون لیگ کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں ، ان کو بھی چاہیے کہ اپنی اپنی اوقات یاد رکھیں - یہ ذلت ہر کسی کون حصے میں آ چکی ہے - یہ نوکری ہے جو سب نے کی ہے اور کرتے رہیں گے -
ایمل کانسی کو پکڑ کے امریکہ کے حوالے کسی نے کیا تھا ؟
عافیہ صدیقی کو اغوا کر کے امریکہ کو کس نے دیا تھا ؟
آسیہ کو رہا کس نے کیا ہے ؟
آپ نواز شریف ، مشرف ، عمران خان کا نام لیں گے ؟
آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں ...ارے بھائی یہ محض کٹھ پتلیاں ہیں ، کٹھ پتلیاں - ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو آسیہ نے جانا ہی تھا .....ابوبکر قدوسی
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اسلام آباد: دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی سے متعلق خبر میں کوئی صداقت نہیں اور وہ پاکستان میں ہی موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گزشتہ روز آسیہ بی بی کو ملتان جیل سے رہا کیا گیا تھا جس کے بعد خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہوچکی ہیں۔
تاہم ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ آسیہ بی بی پاکستان میں محفوظ جگہ پر موجود ہیں اور ان کی بیرون ملک روانگی سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی اب آزاد شہری ہیں اور عدالتی فیصلے کے بعد جہاں جانا چاہتی ہیں جا سکتی ہیں، آزاد شہری کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست عدالت میں ہے اور قانونی طور پر اگر انہیں باہر جانے سے روکا جا سکتا ہے تو وزارت داخلہ اس حوالے سے بتا سکتی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی کی خبروں پر کہا کہ میڈیا اس طرح کی خبروں سے پہلے تصدیق کر لیا کرے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کے وطن چھوڑنے کی خبر بغیر تصدیق شائع کرنا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے، ہیڈ لائن بنانے کے لیے جعلی خبریں بنانے کا رواج چل پڑا ہے۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کا کیس انتہائی حساس ہے اور میڈیا کے بعض حلقوں پر زور دوں گا کہ وہ اس معاملے پر ذمہ داری کا احساس کریں۔

حوالہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کا کیس انتہائی حساس ہے اور میڈیا کے بعض حلقوں پر زور دوں گا کہ وہ اس معاملے پر ذمہ داری کا احساس کریں۔
جی واقعی بہت حساس ہے ،
کیونکہ یورپی یونین اور امریکہ جیسے ممالک اس ملعونہ کی رہائی کی تگ و دو میں جو لگے ہیں ،
اور یہ ممالک ہمارے اصلی آقا ہیں ،ان کی بات بڑی " حساس " ہوتی ہے ،
 
Top