- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
آسیہ مسیح کیس اور علما اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ
8 اکتوبر 2018ء
ایک وقت تھا، جب کسی مسلمان مرد یا عورت کی توہین کی وجہ سے پوری کی پوری سلطنتیں حرکت میں آجاتی تھیں۔ وقت کے حکمران سب مشغولیات چھوڑ کر ’حرمت مسلم‘ کے تحفظ اور دفاع کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ اب ایک وقت یہ آیا جب مسلمان کی حرمت وخون تو رائیگاں ٹھہرا ہی ٹھہرا، آگے بڑھ کر مسلمانوں کی عقیدتوں پر حملے ہونا شروع ہوگئے۔ اللہ رب العالمین کی توہین، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین، قرآن مجید کی توہین ، اب بہت سارے لوگوں کے ہاں معمول کا کیس بن چکا ہے۔ اہل اسلام کی اسی غفلت و سستی سے شہ پاکر جس کا جب جی چاہے، اول فول بکنا شروع کردیتا ہے۔ چند سال پہلے آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے۔ شور مچا، بات تھانے سے ہوتی ہوئی ، عدالت تک پہنچی۔ قانونی کاروائی سے ثابت ہوا کہ اس خاتون نے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ اس خاتون نے بھی اس بات کا اقرار کیا۔ عدالت کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔ لیکن عالم کفر جس طرح ہمارے مقدسات کی توہین کرنے میں پیش پیش رہتا ہے، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی میں بھی آگے آگے ہے۔
گستاخ رسول کی سزا میں شریعت کے احکامات واضح ہیں۔ آئین پاکستان میں بھی اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ پھر فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ ممتاز قادری کے کیس کو تیزی سے نمٹایا گیا لیکن آسیہ بی بی کا کیس ابھی تک کیوں لٹکایا گیاہے؟
ملک پاکستان جس کے ’ریاست مدینہ‘ ہونے کا دعوی ہے، میں والی مدینہ کی توقیر و حرمت کے تحفظ کی بجائے اس کے گستاخوں کو تحفظ دیا جانا کیا افسوس ناک نہیں؟
کیا ایک بار پھر ثابت کردیا جائے گا کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں اسلامی تعلیمات ہی قابل نفاذ نہیں رہیں؟
ہم وطن عزیز میں رہنے والے تمام شہریوں ، اقلیتوں اور ان کے شرعی حقوق کی قدر کرتے ہیں، ہمیں کسی مرد یا خاتون کو سزا ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن یہاں معاملہ حرمت رسول کا ہے۔ یہ ناموس رسالت کے محافظوں اور ڈاکوؤں کی جنگ ہے۔ پاکستان کے مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ (بفضل اللہ تعالیٰ)
گستاخ رسول آسیہ مسیح کے کیس کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے، علمائے اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ درج ذیل نکات میں پیش کیا جاتا ہے۔ایک وقت تھا، جب کسی مسلمان مرد یا عورت کی توہین کی وجہ سے پوری کی پوری سلطنتیں حرکت میں آجاتی تھیں۔ وقت کے حکمران سب مشغولیات چھوڑ کر ’حرمت مسلم‘ کے تحفظ اور دفاع کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ اب ایک وقت یہ آیا جب مسلمان کی حرمت وخون تو رائیگاں ٹھہرا ہی ٹھہرا، آگے بڑھ کر مسلمانوں کی عقیدتوں پر حملے ہونا شروع ہوگئے۔ اللہ رب العالمین کی توہین، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین، قرآن مجید کی توہین ، اب بہت سارے لوگوں کے ہاں معمول کا کیس بن چکا ہے۔ اہل اسلام کی اسی غفلت و سستی سے شہ پاکر جس کا جب جی چاہے، اول فول بکنا شروع کردیتا ہے۔ چند سال پہلے آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے۔ شور مچا، بات تھانے سے ہوتی ہوئی ، عدالت تک پہنچی۔ قانونی کاروائی سے ثابت ہوا کہ اس خاتون نے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ اس خاتون نے بھی اس بات کا اقرار کیا۔ عدالت کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔ لیکن عالم کفر جس طرح ہمارے مقدسات کی توہین کرنے میں پیش پیش رہتا ہے، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی میں بھی آگے آگے ہے۔
گستاخ رسول کی سزا میں شریعت کے احکامات واضح ہیں۔ آئین پاکستان میں بھی اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ پھر فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ ممتاز قادری کے کیس کو تیزی سے نمٹایا گیا لیکن آسیہ بی بی کا کیس ابھی تک کیوں لٹکایا گیاہے؟
ملک پاکستان جس کے ’ریاست مدینہ‘ ہونے کا دعوی ہے، میں والی مدینہ کی توقیر و حرمت کے تحفظ کی بجائے اس کے گستاخوں کو تحفظ دیا جانا کیا افسوس ناک نہیں؟
کیا ایک بار پھر ثابت کردیا جائے گا کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں اسلامی تعلیمات ہی قابل نفاذ نہیں رہیں؟
ہم وطن عزیز میں رہنے والے تمام شہریوں ، اقلیتوں اور ان کے شرعی حقوق کی قدر کرتے ہیں، ہمیں کسی مرد یا خاتون کو سزا ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن یہاں معاملہ حرمت رسول کا ہے۔ یہ ناموس رسالت کے محافظوں اور ڈاکوؤں کی جنگ ہے۔ پاکستان کے مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ (بفضل اللہ تعالیٰ)
1۔ امت کے تمام علما و ججز کا اتفاق رہا ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کی سزا موت ہے۔ گستاخ کا تعلق جس مرضی دین و مذہب سے ہو۔
2- توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والا توبہ بھی کرے تو یہ اس کا اللہ کے ساتھ معاملہ ہے، دنیا میں اس کی سزا قتل ہی ہے۔
3۔ دنیا میں معافی صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے سکتے تھے، ان کے بعد معاف کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ کسی عام بندے کا حق کوئی دوسرا معاف نہیں کرسکتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تو سب سے اہم ہے۔
کیونکہ توہین رسالت سنگین ترین گناہ ہی نہیں بلکہ حد ہونے کے ناطے بدترین جرم بھی ہے، معاشرے کے خلاف دیگر جرائم مثلا چوری کی طرح اس میں معافی یا توبہ سے دنیا میں سزا ختم نہیں ہوسکتی بلکہ قاضی بھی حدود کا علم ہونے کے بعد معافی کا مجاز نہیں جیساکہ چوری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کو جائز نہیں کیا تھا، تو ہمارے قاضی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے بڑا استحقاق کیونکر رکھ سکتے ہیں۔
4۔ توہین رسالت کے الزام کی تحقیق کی جائے گی۔ اگرالزام درست ثابت ہوجائے، جیساکہ آسیہ مسیح کے متعلق ثابت ہوا، اور اس نے خود اعتراف بھی کیا، عدالت نے اس کے مطابق فیصلہ بھی دیا، اس کے باوجود اسے مجرم نہ سمجھنا، اس کے متعلق نرم گوشہ رکھنا، یا کسی دباؤ میں آکر غلط رائے قائم کرنا، یہ کسی مسلمان اور محب رسول کے شایان شان نہیں۔
5۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ خیر سگالی کے لیے اور کئی میدان ہیں، حرمت رسول یا ختم نبوت جیسے حساس معاملات میں ٹانگ اڑانے والوں کو دو ٹوک جواب دیا جائے، اور کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہ کیا جائے۔
6۔ اس کیس کو جلد از جلد مکمل کرکے، اس پر اثر انداز ہونےوالی طاقتوں اور افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے، اور انہیں سخت سزا دی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی اس قسم کی حرکت یا اس کی حوصلہ افزائی کرنےکی ہمت نہ کرے۔
7۔ کسی بھی وجہ سے توہین رسالت کے قانون کے نفاذ میں اگر سستی کا مظاہرہ کیا گیا، تو تمام اہل اسلام مل کر ملک گیر احتجاج کریں گے۔ ہر آئینی و قانونی طریقہ بروئے کار لائیں گے اور حرمت رسول کا دفاع کریں گے۔
اعلامیہ ہذا کی تائید کرنے والے علمائے کرام و مفتیان عظام کے اسمائے گرامی:2- توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والا توبہ بھی کرے تو یہ اس کا اللہ کے ساتھ معاملہ ہے، دنیا میں اس کی سزا قتل ہی ہے۔
3۔ دنیا میں معافی صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے سکتے تھے، ان کے بعد معاف کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ کسی عام بندے کا حق کوئی دوسرا معاف نہیں کرسکتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تو سب سے اہم ہے۔
کیونکہ توہین رسالت سنگین ترین گناہ ہی نہیں بلکہ حد ہونے کے ناطے بدترین جرم بھی ہے، معاشرے کے خلاف دیگر جرائم مثلا چوری کی طرح اس میں معافی یا توبہ سے دنیا میں سزا ختم نہیں ہوسکتی بلکہ قاضی بھی حدود کا علم ہونے کے بعد معافی کا مجاز نہیں جیساکہ چوری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کو جائز نہیں کیا تھا، تو ہمارے قاضی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے بڑا استحقاق کیونکر رکھ سکتے ہیں۔
4۔ توہین رسالت کے الزام کی تحقیق کی جائے گی۔ اگرالزام درست ثابت ہوجائے، جیساکہ آسیہ مسیح کے متعلق ثابت ہوا، اور اس نے خود اعتراف بھی کیا، عدالت نے اس کے مطابق فیصلہ بھی دیا، اس کے باوجود اسے مجرم نہ سمجھنا، اس کے متعلق نرم گوشہ رکھنا، یا کسی دباؤ میں آکر غلط رائے قائم کرنا، یہ کسی مسلمان اور محب رسول کے شایان شان نہیں۔
5۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ خیر سگالی کے لیے اور کئی میدان ہیں، حرمت رسول یا ختم نبوت جیسے حساس معاملات میں ٹانگ اڑانے والوں کو دو ٹوک جواب دیا جائے، اور کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہ کیا جائے۔
6۔ اس کیس کو جلد از جلد مکمل کرکے، اس پر اثر انداز ہونےوالی طاقتوں اور افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے، اور انہیں سخت سزا دی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی اس قسم کی حرکت یا اس کی حوصلہ افزائی کرنےکی ہمت نہ کرے۔
7۔ کسی بھی وجہ سے توہین رسالت کے قانون کے نفاذ میں اگر سستی کا مظاہرہ کیا گیا، تو تمام اہل اسلام مل کر ملک گیر احتجاج کریں گے۔ ہر آئینی و قانونی طریقہ بروئے کار لائیں گے اور حرمت رسول کا دفاع کریں گے۔
1) شیخ الحدیث عبد الستار الحماد حفظہ اللہ ،مرکز الدراسات الاسلامیہ ، میاں چنوں
2) فضیلۃ الشیخ محمود احمد حسن حفظہ اللہ، شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ کراچی
3) حافظ ابتسام الہی ظہیر مرکز اہل حدیث لارنس روڈ
4) حافظ ہشام الہی ظہیر قرآن و سنہ اسلامک سنٹر یو ای ٹی
5) ڈاکٹر حسن مدنی ، مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ، پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
6) مولانا یعقوب شیخ، مرکزی رہنما فلاح انسانیت فاؤنڈیشن
7) أبو عبد الله عبدالواجد سلفی
8) ابو معاذ حنیف،عفی اللّٰہ عنہ اسلامک سنٹر عنیزہ القصیم سعودیہ عرب
9) پروفیسر اعجاز بن حسن کالم نگار ، بہاولنگر
10)پروفیسر حافظ عثمان خالد شیخوپوری مدیر جامعہ محمدیہ شیخوپورہ
11) پروفیسر عبد الوکیل فہیم
12)پروفیسر ہاشم یزمانی، ریسرچ اسکالر پیغام ٹی وی لاہور
13) حافظ ارشد محمود مدیر مجموعہ علمائے اہل حدیث
14) حافظ اظہار الحق حفظہ اللہ مدرس مرکز الدعوۃ الاسلامیہ، لاہور
15) حافظ خضر حیات مدنی
16)حافظ سیف اللہ ارشد حفظہ اللہ
17) حافظ شاهد رفیق ، مدیر ام القری پبلیکیشنز، گوجرانوالہ
18) حافظ ضياء الحق نعيم حفظہ اللہ
19) حافظ عابد الہی حفظہ اللہ
20) حافظ عبد الماجد سلفی ، مترجم ،جدہ سعودی عرب
21)حافظ عبد الماجد سلفی مدیر مرکز القدس ٹاؤن شپ، لاہور
22) حافظ عبد الماجد سلفی، مدیر مرکز القدس ٹاؤن شپ لاہور
23) حافظ عبد المنان ثاقب، نگران جامعہ ریاض القرآن والحدیث فیصل آباد
24) حافظ عبدالغفار ریحان رئیس جامعہ حرمین ظفروال ضلع نارووال
25) حافظ عبدالقيوم سلفى اسلامک سنٹر جدہ
26) حافظ محسن جاوید
27) حافظ محمد عرفان اسعد مدیر جامعہ اسلامیہ سلفیہ اڈا جہان خان بھکر
28) حافظ محمود عبد الرشید اظہر ، ناظم جامعہ سعیدیہ خانیوال
29) حافظ مسعود عبد الرشید اظہررئیس الجامعة السعیدیة السلفیة خانیوال
30) حافظ معتصم الہی ظہیر
31) ڈاکٹر جواد حیدر پروفیسر گورنمنٹ کالج رینالہ خورد
32) ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی مدیر جامعہ اسلامیہ بیت العتیق لاهور
33) ڈاکٹر زکریا زاہد پنجاب یونیورسٹی لاہور
34) ڈاکٹر عبید الرحمن محسن، مدیر دار الحدیث راجوال
35) ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ چیئر مین اسوہ فاونڈیشن
36) سید علی ہاشمی ، وائس چانسلر بلال اسلامک یونیورسٹی
37) شاہ فیض الابرار صدیقی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی
38) شیخ احسان اللہ امام و خطیب دیجن اسلامک سنٹر جنوبی کوریا
39) شیخ الحدیث مولانا عبد الصمد رفیقی منڈی واربٹن
40) شیخ حماد الحق نعیم
41) شیخ حمیداللہ خان عزیز،ایڈیٹر ماھنامہ”تفہیم الاسلام“ احمدپور شرقیہ
42) شیخ راشد حسن جامعہ بحرالعلوم السلفیہ میر پور خاص سندھ
43) شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ
44) شیخ زبیر بن خالد مرجالوی نائب مدیر: اللجنة العلمية، پاکستان
45) شیخ شفیق الرحمن دراوی حفظہ اللہ اسلام آباد
46) شیخ عبد المنان راسخ ادارہ کتاب و حکمت فیصل آباد
47) عثمان بن خالد مرجالوی مدیر: اللجنة العلمية، پاکستان
48) قاری اکمل شاہین لاہور
49) قاری فرخ مہتاب، امام مسجد احمد بن حنبل شارقہ
50) محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی مہتمم جامعہ امام احمد بن حنبل قصور
51) محمد احمد صدیق کلیۃ القران الکریم و التربيه الاسلاميه پھول نگر
52) پروفیسرمحمد صارم اسلامیہ کالج گوجرانوالہ
53) مولانا یحی عارفی ، مدرس، مناظر، خطیب، مصنف ، لاہور
54) مولانا ابو القاسم محمد عبد الله منير
55) مولانا احسان الحق شہباز گوجرانوالہ
56) مولانا اختر صديق حفظہ اللہ اسلامک سنٹر ریاض
57) مولانا انور شاہ راشدی جامعہ دار الرشاد پیر آف جھنڈا،سندھ
58) مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
59) مولانا حبيب الرحمن اسلامک سنٹر ریاض سعودی عرب
60) مولانا حفيظ الرحمن ، استاد پھول نگر کالج
61)مولانا خاور رشید بٹ ، اسپیشلسٹ تقابل ادیان و مذاہب
62) مولانا خبيب احمد فیصل آباد
63) مولانا شاکر محمود حفظہ اللہ
64) مولانا شفیق عاجز ، ناظم مدرسہ دار القرآن والحدیث ، سندھ
65) مولانا صدیق رضا ریاض سعودی عرب
66) مولانا ضیاء اللہ برنی روپڑی مدیر مرکز اہل حدیث پونچھ روڈ سمن آباد
67) مولانا طارق جاويد عارفی
68) مولانا طاہر طیب بھٹوی
69) مولانا عبد الحفیظ روپڑی کراچی
70) مولانا عبد الحنان حامد حفظہ اللہ
71) مولانا عبدالرحمن ثاقب ،مرکزی جامع مسجد اہل حدیث مارچ بازار سکھر
72) مولانا عبدالستار معراج دين
73) مولانا عبید اللہ ارشد
74) مولانا محمد امین محمدی حفظہ اللہ شیخ الحدیث گوجرانوالہ
75) مولانا محمد رفیق مدنی، ملتان
76) مولانا محمد سعید طیب بھٹوی حفظہ اللہ ،خطیب جامع مسجد محمدی PWD کالونی اسلام آباد
77) مولانا محمد عثمان حفظہ اللہ امیر جماعت، ضلع سکھر
78) مولانا محمد عرفان حفظہ اللہ
79) مولانا موہب الرحیم
80) مولانا نديم ظہیر حفظہ اللہ مدیر ماہنامہ الحدیث
81) مولانا منير قمر، مترجم عدالت،خُبر سعودی عرب،مصنف کتب کثیرہ
82) مولانا طالب الرحمن شاہ، مشہور مقرر و مصنف
وما علينا إلا البلاغ المبين
وما علينا إلا البلاغ المبين
Last edited: