آسیہ مسیح کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم
ڈاکٹر حسن مدنی
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مذکور نکات کے تفصیلی جائزے کے بعد درج ذیل قانونی اعتراضات سامنے آتے ہیں:
(1) قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ بیک وقت تحقیق وتفتیش Investigation اور اس کا فیصلہ Decision ایک ہی شخص نہیں کرسکتا، بلکہ یہ دو علیحدہ شعبے ہیں، اور دونوں کو علیحدہ ہی رکھنا چاہئے۔
(2) اپیل کا اصول ہے کہ اس میں واقعات کی بجائے قانونی پہلو پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ واقعات کی تفتیش پولیس کی ذمہ داری ہے، پھر سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی اس پر اپنا تفصیلی موقف دے دیا ہے۔ یہاں جج حضرات اپیل میں اٹھائے گئے نکات سے تجاوز کرتے ہوئے ابھی تک واقعات کی تفتیش کرکے ان دونوں اصولوں کو توڑ رہے ہیں۔
(3) وقوعہ کی تصدیق میں گواہی پر انحصار کرنا ہوتا ہے، اور جج اپنے ذاتی علم وتجربے Perception کی بنا پر کوئی موقف اختیار نہیں کرسکتا۔ جبکہ اس فیصلہ میں ذاتی رجحان کی بنا پر جج نے آسیہ مسیح کے مطالبے کے بغیر ہی اس کو ’مجبوری کا اعتراف‘ بنا لیا جو قانونا غلط ہے۔
(4) آسیہ مسیح نے مجمع میں اعتراف کے علاوہ ایس پی سید امین بخاری کے سامنے بھی علیحدگی میں اعتراف کیا تھا، جس کو اس نے اپنی رپورٹ میں درج کیا ہے، اس کو تو جبر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (5) پہلے سے فیصلہ دے چکنے والا جج غیر جانبدار نہیں ہوتا، چنانچہ آصف کھوسہ کا ممتاز قادری کا فیصلہ موت کر دینا، اس کی اس فیصلے میں شرکت کو غیر قانونی بنا دیتا ہے۔
(6) ثاقب نثار کا خود مئی 18ء میں اس کیس کو سماعت کے لئے طلب کرنا، پرامید رہنے کی نوید سنانا، عین 79 سال بعد غازی علم دین کی شہادت کے دن تک فیصلہ کو مؤخر کرنا اور پھر باضابطہ طور پر اعلان کرکے اسے کلیتًا بری کرنا، اس معاملے میں اس کی جانبداری کو کھلے قرائن ہیں۔ عاصمہ جہانگیر جیسی گستاخان رسول کی وکیل عورت کی شان میں قصیدے پڑھنا بھی اسے انہی رجحانات پر عمل پیرا بتاتا ہے۔
(7) جو جج اپنی توہین پر 10 سال کی سزا دینے سے نہیں چوکتے، اپنے نبی ﷺ کی توہین کے وقت ان کے پاس بہانے اور جواز ختم نہیں ہوتے۔
(8) ججوں نے ثبوت کے لئے ارد گرد کے سارے سوال دہرا دیے اور 9 سال گزر جانے کے بعد ان میں معمولی اختلاف کو، جو تضاد کی بجائے تنوع کا اختلاف واضطراب ہے، ہوا بنا کر پیش کر دیا، جبکہ اصل سوال کہ توہین ہوئی یا نہیں؟ اور ’اعترافی اجتماع‘ ہوا تھا کہ نہیں، اس کو سرے سے موضوع بحث ہی نہیں بنایا، یہ بھی جانبداری واضح کرتا ہے۔ 100 سے زائد افراد کو تو یہ بات سمجھ نہیں آئی، پہلی تین عدالتوں کو پتہ بھی نہیں چلا، اب وقوعہ کے اتنے سال گزر جانے کے بعد، جب کہ بہت سی واقعاتی شہادتیں محو ہوچکیں، ایک نیا ہی اضطراب بلکہ بحران ڈال دیا گیا۔
(9) جرم کو ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے اور اس میں کسی رعایت کو لینے کے لئے گنجائش کا ثبوت مدعا علیہ کے ذمے ہے، چنانچہ استغاثہ نے جرم توہین ثابت کردیا لیکن آسیہ مسیح نے جھگڑے کو اس کی بنیاد ثابت کرنا تھا، اس رعایت کے لئے مجرمہ نے، نہ تو خود حلف لیا اور نہ ہی کوئی عینی گواہی پیش کی، اس کا بار بھی استغاثہ پر ڈال دینا سنگین قانونی سقم ہے۔
(10) آصف کھوسہ کا آسیہ مسیح کو مجرم کی بجائے جرم کا شکار بتانا دراصل غمازی کرتا ہے کہ آسیح مسیح کی بریت کے بعد مدعیان پر ہاتھ ڈالا جائے گا، جیساکہ فیصلہ میں باضابطہ طور پر توہین رسالت کے جھوٹے الزام کو برابر جرم قرار دیتے ہوئے ریاست کو اپنی ذمہ داری انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ بریت کے کچھ دنوں بعد 9 سال قید میں رکھنے کی سزا مدعیان اور ممتاز اہل محلہ کو بھگتنا ہوگی۔ مناسب ہوگا کہ اس سزا میں ایس پی، سیشن جج اور ہائیکورٹ کے جج کو سرفہرست رکھا جائے۔
(11) عدالت نے توہین رسالت کے جرم کے لئے جس قدر کڑے ثبوت کا مطالبہ کیا ہے کہ توہین کرنے والا اگر عدالت کے سامنے توہین کرے تب ہی اس کا اعتبار کیا جائے، اگر کسی اور مقام پر پہلے اعتراف موجود ہو تو اس میں ذاتی رجحان پر مبنی شکوک پیدا کرکے ملزم کو بری کردیا جائے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اگر برقرار رہتا ہے تو پھر مستقبل میں نہ تو عوام توہین رسالت کے مسئلے پر عدالتوں پر اعتماد کریں گے، بلکہ یہ فیصلہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوں گے۔ اور اس کی شکایت درج کروانے والے اصل مجرم ہوں گے جیسا کہ کھوسہ نے قرار دیا ہے۔ بلکہ آئندہ کے لئے بھی حسب ماضی اس جرم کی سزا ناممکن ہو جائے گی اور یہ ایک نمائشی قانون کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔ مناسب ہوتا کہ عدالت یہ بھی قرار دے دیتی کہ آئندہ صرف اسی قتل اور زنا کی سزا دی جائے گی جو عدالت کے رو برو کیا جائے گا، کیونکہ مجرم اعتراف تو کرتے نہیں اور واقعاتی گواہی میں کئی احتمال پیش کئے جاسکتے ہیں۔
(12) درحقیقت یہ فیصلہ سراسر عالمی دباؤ کا نتیجہ ہے، جس کا مطالبہ یورپی یونین، مسیحی پوپ اور امریکہ عرصہ دراز سے کر رہا تھا۔ یہ فیصلہ مغربی آقاؤں کو خوش کرنے اور لبرلزم واباحیت کو فروغ دینے کے لئے کیا گیا۔ مذکورہ ناقابل تردید حقائق کی بنا پر یہ فیصلہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اب ہمارا امتحان ہے کہ اپنی معمولی توہین یا اپنے باپ بہن کے بارے میں معمولی سخت زبان سننے پر لڑنے مرنے کو تیار ہونے والے سید المرسلین ﷺ سے کتنا گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ان کی توہین کو کتنا سنگین سمجھتے ہیں۔ اور اس کے تحفظ کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت ناموس رسالت اور ختم نبوت کا ووٹ لیتی اور ن لیگ کو اس پر مطعون کرتی رہی، جب موقع آیا تو نہ صرف حکومت نے اس پر اپیل نہیں کی بلکہ فیصلہ کو آئینی قرار دے کر، اس کے دفاع کے لئے میدان میں اتر آئی اور احتجاج کرنے والوں کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ ایک طرف عمران خاں کہتا ہے کہ ہمارا عدالت کے فیصلوں سے کیا لینا دینا اور دوسری طرف اس کے فیصلوں کے تحفظ کے لئے سب سے پہلے میدان میں کودتا اور عدالت کے تحفظ کے نعرے لگا کر اپنی جانبداری ثابت کرتا ہے۔ الله كا فرمان بالکل درست ہوا کہ ما کان اللہ لیذر المؤمنین علی ما أنتم عليه حتی یمیز الخبیث من الطیب۔