اس پر ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے
لا نورث ماترکنا صدقه
اس قول کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب نے اس طرح بیان کی ہے
لا نورث ماترکنا صدقه
اس قول کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب نے اس طرح بیان کی ہے
اور اس پر کلیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہوفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه ﷺ إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق
'' رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہﷺ اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کانفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں او رناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔'.حجۃ اللہ البالغہ: 2؍46
ترکہ نبویﷺ میں وراثت جاری نہ ہونے کی حکمتیں
ان سب باتوں سے بھی یہی معلوم ہوا کہ رسول اللہٖﷺ کا چھوڑا ہوا ترکہ رسول اللہﷺ کی آل کے لئے حرام ہے کیونکہ یہ صدقہ ہے اور صدقہ آل محمدﷺ پر حرام ہے لیکن امام بخاری کے بقول حضرت ابو بکر نے آل محمدﷺ کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلانے کی ترغیب دی ۔ یعنی اس کو آل محمدﷺ کے لئے حلال جانا !!!!!!انبیاء کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔