اتنی ٹھوکریں کھانے اور منہ کے بل گرنے کے بعد ۔۔۔آپ کو اعوذ باللہ ۔۔اور شرح صدر کی دعاء یاد آئی (۔۔۔۔۔تو خدا یاد آیا )
لیکن یہ حقیقت یاد رہے کہ (رب اشرح لی صدری ۔۔الخ) صرف علوم نبوت کیلئے ہے ،نہ کہ قیل ، اقوال کیلئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم! اس کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟
اہل علم صحیح کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861ھ):
فتح القدیر شرح الھدایہ میں تراویح کے باب میں لکھتے ہیں
(فصل في قيام رمضان)
التراويح جمع ترويحة أي ترويحة للنفس۔۔
فصل قیام رمضان ،(یعنی تراویح) اور تراویح ،ترویحہ کی جمع ہے ،
اس کے بعد حنفیہ کے اقوال و دلائل درج کرتے ہیں ،اور فرماتے ہیں :
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ‘‘
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔)
اور اس بحث کے خلاصہ میں کہتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدى عشرة ركعة بالوتر في جماعة فعله - صلى الله عليه وسلم - ثم تركه لعذر، أفاد أنه لولا خشية ذلك لواظبت بكم، ولا شك في تحقق الأمن من ذلك بوفاته - صلى الله عليه وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں :
بيان لصلاة التراويح وإنما لم يذكرها مع السنن المؤكدة قبل النوافل المطلقة لكثرة شعبها ولاختصاصها بحكم من بين سائر السنن والنوافل وهو الأداء بجماعة والتراويح جمع ترويحة
یعنی یہاں نماز تراویح کا بیان ہوگا ۔اور مصنف نے نماز تراویح کو ۔۔نوافل مطلقہ سے قبل سنن موکدہ کے ساتھ اس لئے بیان نہیں کیا کہ نوافل و سنن میں یہ ایک خاص نماز ہے،جوباجماعت پڑھی جاتی ہے،اور تراویح ،جمع ہے ترویحہ کی ۔۔۔
اور آگے جا کر لکھتے ہیں :
(وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔