• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم! تراویح کو صرف باجماعت پڑھانا چھوڑامطلقا تراویح پڑھنا نہیں چھوڑا۔
محترمی! کیا کوئی دلیل ہے کہ نبی ﷺ بعد میں بھی بیس رکعات تراویح ہی ادا فرماتے رہے؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بیس سنت موکدہ ہے یا آٹھ۔ یہ مسئلہ نہیں کہ باجماعت سنت موکدہ ہے یا بلا جماعت۔
باقی باتوں کو ہم بعد میں چھیڑتے ہیں۔ پہلے اس پر بات ہو جائے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترمی! کیا کوئی دلیل ہے کہ نبی ﷺ بعد میں بھی بیس رکعات تراویح ہی ادا فرماتے رہے؟ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بیس سنت موکدہ ہے یا آٹھ۔ یہ مسئلہ نہیں کہ باجماعت سنت موکدہ ہے یا بلا جماعت۔
باقی باتوں کو ہم بعد میں چھیڑتے ہیں۔ پہلے اس پر بات ہو جائے۔
محترم! کیا آٹھ تراویح کا کوئی ثبوت ہے جو متواتر اور متصلا بیس کے عدد میں شکوک و شبہات پیدا ہوں؟
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
محترم ابن داود بھائی حفظہ اللہ نے بڑی تفصیل سےآپ کے سوال کا جواب دے دیا ،جزاہ اللہ تعالی خیر الجزاء
ہم انہی کے دلائل کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتے ہیں :
حدیث کی مشہور کتاب صحیح ابن خزیمہ ،جو مشہور دیوبندی عالم جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق اور تعلیق سے شائع ہے اور مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتی ہے
اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی آٹھ رکعت تراویح کی حدیث موجود ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اسی ’’ صحیح ابن خزیمہ ‘‘ جو مشہور دیوبندی عالم جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق اور تعلیق سے شائع ہے،اس میں تراویح کی رکعات کی تعداد کا خصوصی باب درج ذیل الفاظ سے باندھا ہے ‘‘
باب ذكر عدد صلاة النبي - صلى الله عليه وسلم - بالليل في رمضان. والدليل على أنه لم يكن يزيد في رمضان على عدد الركعات في الصلاة بالليل ما كان يصلي من غير رمضان
پیارے نبی ﷺ کی نماز (تراویح ) کی رکعات کے عدد کا بیان ،اور اس بات کی دلیل کہ رمضان کی تراویح کی تعداد،، غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کی تعداد سے زیادہ نہ ہوتی تھی ‘‘ پھر اس کے تحت حدیث لاتے ہیں کہ :
2213 - حدثنا أبو هاشم زياد بن أيوب، حدثنا سفيان، عن ابن أبي [لبيد] (1)؛
ح وحدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا سفيان، حدثنا عبد الله بن أبي لبيد، سمع أبا سلمة يقول:
سألت عائشة، فقلت: أي أمه، أخبريني عن صلاة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بالليل. فقالت:
كانت صلاته بالليل في شهر رمضان وفيما سوى ذلك ثلاث عشرة ركعة.
هذا حديث عبد الجبار.
وقال أبو هاشم: أتيت عائشة فسألتها عن صلاة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -[226 - أ] في شهر رمضان فقالت: كانت صلاته ثلاث عشرة ركعة، منها ركعتا الفجر.

جناب ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ سے سوال کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے بتایئے ؛
انہوں نے فرمایا : کہ نبی کریم ﷺ۔رمضان اور اس کے علاوہ رات کو تیرہ ۱۳ رکعت نماز ہی پڑھتے تھے ۔ان تیرہ رکعات میں در رکعت صبح کی سنت ہوتی تھیں؛
اس حدیث کی تعلیق (جو علامہ ناصر الدین الالبانی نے لکھی ہے ) میں لکھا ہے :
(( [2213] (إسناده صحيح. على شرط الشيخين - ناصر) )کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ؛
اور جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب دیوبندی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر دیوبندی فتوی میں تو دعوی کیا گیا ہے کہ ۔
۔آٹھ رکعت تراویح ۔کسی حدیث میں سرے سے موجود ہی نہیں ۔
لیکن اس کے برعکس ۔۔نہ صرف احادیث موجود ہیں ،بلکہ دیوبندی علماء کو ان احادیث کا اقرار بھی ہے ؛
اللہ آپکو دنیا اور آخرت دونوں میں بہترین جزا عطا فرمائے۔آمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم! کیا آٹھ تراویح کا کوئی ثبوت ہے جو متواتر اور متصلا بیس کے عدد میں شکوک و شبہات پیدا ہوں؟
اس کو پڑھیے گا ذرا۔
محترم ابن داود بھائی حفظہ اللہ نے بڑی تفصیل سےآپ کے سوال کا جواب دے دیا ،جزاہ اللہ تعالی خیر الجزاء
ہم انہی کے دلائل کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتے ہیں :
حدیث کی مشہور کتاب صحیح ابن خزیمہ ،جو مشہور دیوبندی عالم جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق اور تعلیق سے شائع ہے اور مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتی ہے
اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی آٹھ رکعت تراویح کی حدیث موجود ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس کو پڑھیے گا ذرا۔
محترم! دیوبندی تو مقلد ہیں ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان کی کتاب میں تو ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ ہی ہو سکتی ہے حدیث تو نہیں!!!
کیوں جی ”لا مذہبوں“ کا ایسا ہی خیال ہے نا؟
یہ خود کو احادیث کا جو ٹھیکیدار سمجھتے ہیں براہِ راست حدیث سے اپنے مستدل کو پیش کرتے ہوئے کیا شرم آتی ہے۔
میرا مقصد ان سے کتب احادیث سے ان کا اپنا مستدل لکھوانا ہے تاکہ بات کو خواہ مخواہ گماتے نہ رہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اعِوذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي (27) يَفْقَهُوا قَوْلِي (28) سورہ طٰہٰ
اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
الْحَمْدُ لِلَّهِ و بعون الٰہی؛
اور پھر صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس 20 رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ 8 پڑھیں ہیں
محترم! اس آٹھ کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا اور یہ واقعہ رمضان کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابی! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے گھر میں چند عورتیں تھیں ان عورتوں نے کہا ہم نے قرآن نہیں پڑھا۔، ہم آپ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھیں گی، چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نہ فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی بناء پر یہ سنت ہوئی۔
محترم! اس میں تراویح کس کا ترجمہ ہے؟ اور اس کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟

اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی آٹھ رکعت تراویح کی حدیث موجود ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)
محترم! اس آٹھ کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟

پیارے نبی ﷺ کی نماز (تراویح ) کی رکعات کے عدد کا بیان ،اور اس بات کی دلیل کہ رمضان کی تراویح کی تعداد،، غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کی تعداد سے زیادہ نہ ہوتی تھی ‘‘ پھر اس کے تحت حدیث لاتے ہیں کہ :
جناب ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ سے سوال کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے بتایئے ؛
انہوں نے فرمایا : کہ نبی کریم ﷺ۔رمضان اور اس کے علاوہ رات کو تیرہ ۱۳ رکعت نماز ہی پڑھتے تھے ۔ان تیرہ رکعات میں در رکعت صبح کی سنت ہوتی تھیں؛
اس حدیث کی تعلیق (جو علامہ ناصر الدین الالبانی نے لکھی ہے ) میں لکھا ہے :
(( [2213] (إسناده صحيح. على شرط الشيخين - ناصر) )کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ؛
اور جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب دیوبندی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا؛
محترم! اس کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟

علامہ طحطاوی فتح القدیر سے خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔ ))
محترم! آٹھ رکعات کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟

اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
محترم! آٹھ رکعات کا تراویح ہونا ثابت کر دیں اور مستحب کی تعریف بھی درج فرمادیں؟؟؟؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اتنی ٹھوکریں کھانے اور منہ کے بل گرنے کے بعد ۔۔۔آپ کو اعوذ باللہ ۔۔اور شرح صدر کی دعاء یاد آئی (۔۔۔۔۔تو خدا یاد آیا )
لیکن یہ حقیقت یاد رہے کہ (رب اشرح لی صدری ۔۔الخ) صرف علوم نبوت کیلئے ہے ،نہ کہ قیل ، اقوال کیلئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم! اس کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟
اہل علم صحیح کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861ھ):فتح القدیر شرح الھدایہ میں تراویح کے باب میں لکھتے ہیں
(فصل في قيام رمضان)
التراويح جمع ترويحة أي ترويحة للنفس۔۔

فصل قیام رمضان ،(یعنی تراویح) اور تراویح ،ترویحہ کی جمع ہے ،
اس کے بعد حنفیہ کے اقوال و دلائل درج کرتے ہیں ،اور فرماتے ہیں :

وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ‘‘
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔)
اور اس بحث کے خلاصہ میں کہتے ہیں :
فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة إحدى عشرة ركعة بالوتر في جماعة فعله - صلى الله عليه وسلم - ثم تركه لعذر، أفاد أنه لولا خشية ذلك لواظبت بكم، ولا شك في تحقق الأمن من ذلك بوفاته - صلى الله عليه وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ ابن نجیم البحر الرائق میں لکھتے ہیں :
بيان لصلاة التراويح وإنما لم يذكرها مع السنن المؤكدة قبل النوافل المطلقة لكثرة شعبها ولاختصاصها بحكم من بين سائر السنن والنوافل وهو الأداء بجماعة والتراويح جمع ترويحة
یعنی یہاں نماز تراویح کا بیان ہوگا ۔اور مصنف نے نماز تراویح کو ۔۔نوافل مطلقہ سے قبل سنن موکدہ کے ساتھ اس لئے بیان نہیں کیا کہ نوافل و سنن میں یہ ایک خاص نماز ہے،جوباجماعت پڑھی جاتی ہے،اور تراویح ،جمع ہے ترویحہ کی ۔۔۔
اور آگے جا کر لکھتے ہیں :
(وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
اور یہ (وتر سمیت گیارہ رکعت صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اہل علم صحیح کہتے ہیں کہ تقلید اور جہالت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں :
محترم! آپ نے بالکل صحیح کہا میں نے ”چولی“ بھی دیکھ لی اور ”دامن“ بھی مگر ”لا مذہب“ کا قرآن و حدیث کا دعویٰ کہاں ہے؟
محترم! میں نے کہا تھا؛
محترم! اس آٹھ کا تراویح ہونا ثابت کر دیں؟؟؟؟؟؟؟
محترم! آپ براہِ راست وہ حدیث لکھیں جو آپ کی مستدل ہے اِدھر اُدھر چھلانگیں نہ لگائیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم! دیوبندی تو مقلد ہیں ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان کی کتاب میں تو ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ ہی ہو سکتی ہے حدیث تو نہیں!!!
کیوں جی ”لا مذہبوں“ کا ایسا ہی خیال ہے نا؟
یہ خود کو احادیث کا جو ٹھیکیدار سمجھتے ہیں براہِ راست حدیث سے اپنے مستدل کو پیش کرتے ہوئے کیا شرم آتی ہے۔
میرا مقصد ان سے کتب احادیث سے ان کا اپنا مستدل لکھوانا ہے تاکہ بات کو خواہ مخواہ گماتے نہ رہیں۔
محترمی! میں سو فیصد دیوبندی ہوں۔
میری سمجھ میں یہ مسئلہ نہیں آتا کہ ایک علمی معاملہ میں آپ اس طرح کی بحث کیوں کر رہے ہیں؟ ابن ہمامؒ نے یہ مسلک اختیار کیا ہے اور وہ حنفی ہیں۔ اگر آپ کو ان کے اس مسلک سے اختلاف ہے تو آپ وہ بیان کر سکتے ہیں۔
آپ نے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح کی حدیث مخالفین پیش کریں۔ اور آپ کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے آپ کو وہ روایت چاہیے جس میں تراویح کا لفظ ہو۔ میرے محترم یہ تو بعض جہال کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ایک حنفی ہونے کی وجہ سے میں اگر آپ کو بے شمار مقامات دکھا دوں جہاں کوئی خاص لفظ نہیں تھا پھر بھی احناف نے کسی خاص چیز پر استدلال کیا ہے تو وہاں آپ کا کیا جواب ہوگا؟؟ اس کی بنیاد دیگر دلائل یا سیاق و سباق وغیرہ پر ہوتی ہے۔

عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)

آپ بالکل صحیح فرماتے ہیں کہ اس قسم کی روایات میں تراویح کا لفظ نہیں ہے۔ لیکن ایک تو یہ معروف ہے کہ یہ واقعہ تراویح کے سلسلہ میں ہوا تھا۔
دوسرا کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کی یہ بات آپ کے اپنے مسلک کو کہاں مجروح کر رہی ہے؟ اگر یہ تراویح نہ تھیں تو پھر زیادہ سے زیادہ چار رکعات عشاء کی نماز کی تھیں اور باقی چار کیا تھیں؟ ظاہر ہے نفل یا سنت تھیں۔
اور کیا آپ کے مسلک میں نفل کی جماعت ثابت ہے؟؟؟؟
 
Top