• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آہ، مبلغ قرآن راہی ٴملک ِعدم ہوئے! پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی المناک شہادت

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
یادِرفتگاں

آہ، مبلغ قرآن راہی ٴملک ِعدم ہوئے!
پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی المناک شہادت
محمد اسلم صدیق​
جو بھی اس عالم کون ومکان میں آیا، اسے ایک نہ ایک دن ضرور موت کے حادثہ سے دوچار ہوناہے۔ تاہم زندگی اور موت کے انداز رنگا رنگ ہیں۔ کچھ لوگ اس انداز سے مرتے ہیں کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی اور کچھ اس شان سے رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ ان کی حسین یادیں مخلوقِ خدا کے دلوں میں ہمیشہ تابندہ رہتی ہیں۔ صادق و مصدوق حضرت رسولِ کریم ا کا ارشاد گرامی ہے :
إن الله يرفع بهذا الکتاب أقواما ويضع به آخرين… (صحیح مسلم: حدیث ۱۳۵۳)
”اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعہ ہی لوگوں کو حقیقی بلندیاں عطا فرماتا ہے تو اس سے روگردانی کرکے دوسرے ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ “
حال ہی میں قرآنِ کریم کی زبان کے خدام میں ایک نمایاں نام جناب عطاء الرحمن ثاقب کا شامل ہوا تھا کہ جواں عمر میں ہی اگلے جہاں سدھار گئے۔ گذشتہ چند سالوں سے جس طرح موصوف لغت قرآن کی تسہیل کرکے فہم قرآن عام کررہے تھے، اس سے امیدکی جارہی تھی کہ بہت جلد یہ مبارک سلسلہ ملک کے کونے کونے میں پھیل کر دین وشریعت کے لئے تقویت کا باعث ہوگا، لیکن افسوس کہ اسلام دشمن قوتوں کو یہ گوارا نہ ہوا اور ایک سازش کرکے ان ظالموں نے انہیں ۱۹/ مارچ ۲۰۰۲ء کو نہایت بے دردی سے شہید کردیا۔ انا لله وانا اليه راجعون! دکھ یہ ہے کہ یہ تابناک چراغ اس وقت اچانک گل ہوگیا جب کہ ہزاروں خواتین و حضرات اس سے اپنے دلوں کو منور کررہے تھے اور جس کی ضوافشانی روزافزوں تھی۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولد و مسکن
عطاء الرحمن ثاقب ۲۱/جون ۱۹۶۰ء کو ضلع فیصل آباد تحصیل سمندری کے ایک گاؤں ۴۷۴ گ ب کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ِگرامی مولوی عبدالرحمن حصاری اپنے گاؤں میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کی دینداری اور پختگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی بے نماز شخص مرتا تو اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار کردیتے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تعلیم و تربیت اور جامعہ رحمانیہ سے ان کی وابستگی
جناب عطاء الرحمن ثاقب نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد ِگرامی سے ہی حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لئے والد نے اپنے اس ہونہار بیٹے کو جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ فیصل آباد میں داخل کروا دیا۔ جہاں درسِ نظامی کی ابتدائی کلاسیں پڑھیں۔ کچھ عرصہ بعد جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ،فیصل آباد سے جامعہ لاہور الاسلامیہ (جامعہ رحمانیہ) میں داخلہ حاصل کرلیا۔ محترم حافظ ثناء اللہ مدنی سے حدیث پڑھی اور دیگر اساتذہ سے علومِ شریعہ میں دسترس حاصل کی۔ ان کا شمار جامعہ کے ذہین طلبا میں ہوتاتھا۔ آپ علومِ دینیہ وعربیہ کے ساتھ ساتھ جامعہ کے نظام کے مطابق دوسری شفٹ میں عصری علوم بھی حاصل کرتے رہے۔ اور ۱۹۸۲ء کے میٹرک امتحان میں لاہور بورڈ سے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس اِعزاز کو اُس وقت جامعہ کے آرگن ماہنامہ ’محدث ‘ میں بھی شائع کیا گیا۔
جامعہ سے فراغت کے بعد ایک عرصہ تک مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ/سیکرٹری رہے اور اس دوران جامعہ میں بعض اسباق کے علاوہ مدنی صاحب کی سرپرستی میں بعض کتابوں کے اُردو تراجم بھی کرتے رہے جس میں امام ابن تیمیہ کی کتاب الحسبة في الاسلام وغیرہ شامل ہیں۔ اسی دوران ان کی شدید خواہش کی تکمیل کی غرض سے مہتمم جامعہ نے انہیں جامعہ الملک سعود (ریاض یونیورسٹی) کے ’عریبک ٹیچر ٹریننگ کورس‘ میں داخلہ دلوایا۔ ریاض یونیورسٹی میں مختلف موضوعات پر مقابلے ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح کا ایک مقابلہ جس میں ابن تیمیہ کی کتاب الحسبة في الاسلام کو یاد کرکے سنانا تھا۔آپ نے بھی اس میں حصہ لیا اور اس میں اوّل پوزیشن حاصل کرکے اسی یونیورسٹی سے انعام حاصل کیا اور اس خوشی میں مولانا عبدالرحمن مدنی کی ریاض آمدپر’تنظیم برائے اہل حدیث طلبا‘ (ریاض یونیورسٹی) جس کے امیر حافظ عبدالسلام فتح پوری (موجودہ شیخ التفسیر جامعہ رحمانیہ)تھے، کی طرف سے انہیں عشائیہ دیا گیا۔
یہ تربیتی کورس چونکہ تین ماہ کے دورانئے کا تھا۔ اس لئے جامعہ رحمانیہ نے جناب عطاء الرحمن ثاقب کو ان کی ذہانت اور عربی زبان سے خصوصی لگاؤ کے پیش نظر انہیں دوبارہ اعلیٰ تعلیم کے لئے ریاض کی ایک دوسری اسلامی یونیورسٹی امام محمد بن سعود کے کلیہ اُصول الدین میں داخل کروا دیا۔ اس طرح عطاء الرحمن ثاقب وہ واحد طالب علم ہیں جنہیں جامعہ رحمانیہ نے دو دفعہ سعودی عرب میں تعلیم کے لئے بھیجا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علامہ احسان الٰہی ظہیر سے وابستگی
علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کو اپنی تحریکی اور سیاسی مصروفیات کی بنا پر کسی ایسے نوجوان ساتھی کی ضرورت تھی جو عربی کا اچھا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹائپ وغیرہ کا بھی ماہر ہو۔ یہ صلاحیتیں جناب عطا ء الرحمن ثاقب میں اعلیٰ ذہانت کے ساتھ بخوبی موجود تھیں، اس شدید ضرورت کے پیش نظر ان کا رابطہ رحمانیہ کے ایسے طلبا سے رہتا تھا جو عربی زبان کے ساتھ ساتھ ایسی تکنیکی مہارت بھی رکھتے ہیں۔
ابھی ثاقب صاحب کوجامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں بمشکل ایک سال ہی گزرا ہوگا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے اس وقت کے مدیر ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی سے خصوصی تعلقات کی بنا پر جامعة الامام ہی کے خرچ پر انہیں اپنے معاون کی حیثیت سے پاکستان لے آئے اور انہیں اپنے اشاعتی ادارہ ’ترجمان السنہ‘ کے ساتھ منسلک کرلیا۔ یہیں سے ثاقب مرحوم نے اپنی جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ساتھ ہی ساتھ علامہ شہید کے معاون کی حیثیت سے جہاں ان کی عربی کتابوں کی تدوین کی خدمات انجام دیتے رہے، وہاں بعضکتب کا سلیس اور رواں اُردو زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ان خوبیوں کااعتراف علامہ شہید اپنی نجی مجلسوں میں بارہا کرتے۔ چنانچہ ایک موقعہ پر کہا کہ
”مجھے اللہ نے ایسا ذہین نوجوان عالم عطا کردیا ہے کہ اس کے ذریعے قرآن و سنت کے ابلاغ میں بہت مدد لی جاسکتی ہے۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تدریسی خدمات … فہم القرآن انسٹیٹیوٹ کا قیام
ثاقب مرحوم نے علامہ شہید سے ایک طرف تحریکی اور سیاسی ذہن لیا تو دوسری طرف ہمیشہ ان کے سامنے حافظ عبدالرحمن مدنی کی ولولہ انگیز شخصیت رہی بالخصوص جامعہ رحمانیہ میں تعلیم او رمدنی صاحب کی معاونت کے دوران ان کے سامنے ادارہ کی وہ سرگرمیاں رہیں جن میں جامعہ کے انسٹیٹیوٹ آف ہائر سٹڈیز ان شریعہ اینڈ جوڈیشری کے زیر اہتمام وکلا اور جج حضرات کو قاضی کورس کروائے جاتے تھے جن میں جدید طریقوں پر مبنی عربی زبان کے کورس بھی تھے۔ ان کورسوں میں بیرونِ ملک تربیت یافتہ اساتذہ کے علاوہ سمعی و بصری آلات سے بھی مدد لی جاتی تھی اور یہ کوششیں اس جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر ہوتی تھیں جو قانون کی مہارت کے باوجود عربی زبان سے بالکل نابلد تھا۔ قدیم و جدید کے امتزاج پر مشتمل یہ سرگرمیاں نہایتعروج پر تھیں۔یہاں سے آپ کو جدید طبقہ میں کام کرنے کا تجربہ اور حوصلہ بھی ملا جس پر علامہ شہید کی رفاقت نے مہمیز کا کام دیا۔
علامہ صاحب کی شہادت کے بعدکچھ عرصہ آپ سیاسی سرگرمیوں سے وابستہ رہے اور مختلف تنظیموں میں فعال کردار ادا کیا، پھر پلٹا کھایا اور دوبارہ تدریس کی طرف رجوع کرلیا اور اس طرح آپ چند سال ڈاکٹر اسرار احمد کے قرآن کالج سے وابستہ رہے، جہاں عربی زبان کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر راشد رندھاوا کے قرآن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں سے آپ نے ایک خاص انداز پر فہم قرآن بذریعہ عربی زبان کورسز کا آغاز کیا۔ خدا داد ذہانت او رمنفرد طرز تدریس کی بدولت آپ کی کلاسوں میں حاضری روز بروز بڑھتی چلی گئی اورتجربے کے ساتھ ساتھ آپ کا طرزِ تدریس بھی مزید نکھرتا چلا گیا۔ قرآن انسٹیٹیوٹ کے بعد کچھ عرصہ آپ نے نوبل قرآن انسٹیٹیوٹ، جوہر ٹاؤن لاہور میں کام کیا، اس کے بعد اپنا مستقل ادارہ ’فہم قرآن انسٹیٹیوٹ‘ قائم کرلیا ۔ یہیں سے آپ کا وہ کارنامہ شروع ہوتا ہے جو آپ کی شہرت اور ہر دلعزیزی کا باعث ہوا۔ چنانچہ وہ اس کے قیام کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” مجھے ملک کے نامور خطیب اور سیاستدان اور بین الاقوامی دینی مصنف و سکالر علامہ احسان الٰہی ظہیر کی رفاقت کا موقعہ بھی ملا۔ اس دوران بہت سی ایسی شخصیات سے میری ملاقات ہوئی جنہوں نے عربی سیکھنے اور قرآن مجید سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ علامہ شہید کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ انفرادی سطح پر ان کی یہ خواہش پوری کرسکتے۔ اس وقت سے مجھے یہ احساس تھا کہ اس شعبے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علامہ صاحب کے المناک سانحہ کے بعد مجھے ڈاکٹر اسرار احمد کے قرآن کالج میں تعلیم یافتہ طبقہ کو عربی زبان کی تدریس کا موقع ملا۔
میں چونکہ ریاض یونیورسٹی سے عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ عربی زبان کی تدریس کا کورس بھی مکمل کرچکا تھا، اس لئے الحمدللہ مجھے فہم قرآن کے موضوع کی تدریس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور وسیع سطح پر اس کام کے آغاز کا خیال دل میں پیدا ہوا۔“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
چنانچہ اپنے اس خیال ، تڑپ اور لگن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دسمبر ۱۹۹۵ء میں ڈاکٹر راشد رندھاوا کے ساتھ مل کر سول سیکرٹریٹ پنجاب سے متصل المسلمین بلڈنگ میں قرآن عربی کونسل کے آفس میں اس کی باقاعدہ کلاس کا آغاز کیا۔ پھر یہاں سے یہ کلاس ۹/ شاہراہ فاطمہ جناح روڈ پرواقع ایک بلڈنگ میں منتقل ہوگئی اور پھر وہاں سے اے جی آفس کے آڈیٹوریم ہال میں منتقل ہوگئی۔ ان تمام مقامات پر فی سبیل اللہ آپ باقاعدہ سادہ اور عام فہم زبان میں قرآن کا ترجمہ اور تشریح کرتے۔ کلاس میں عام افراد، اور کالجز یونیورسٹیز کے طلبا کے علاوہ بڑے بڑے سرکاری و غیر سرکاری افسران بھی قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے․
ان کے عام فہم انداز اور عمدہ اسلوبِ تعلیم کو انتہائی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اور کئی لوگوں نے جگہ مہیا کرکے ان سے فہم قرآن کورس شروع کرنے درخواست کی اور یوں فہم قرآن کی کلاسوں میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اور اس طرح ابتدائی طور پر تین جگہوں سے اٹھنے والی قرآن کی اس آواز کی بازگشت پورے لاہور میں سنائی دینے لگی اور ثاقب صاحب کی طرز پر لاہور کے ۵۰سے زائد مقامات پر قرآن کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس سے مختلف مکاتب ِفکر کے ہزاروں خواتین و حضرات نے استفادہ کیا۔ ان مختلف مقامات میں سے زیادہ مشہور ڈیفنس، ڈلی ہال، گلنار کالونی ملتان روڈ، جامع مسجد محمدی سمن آباد، ۲۳۵ بدر بلاک علامہ اقبال ٹاؤن، گرلز کالج وحدت روڈ، اقرا سنٹر چوبرجی، سید سکول گلشن راوی، اے جی آفس، محمدی مسجد راوی روڈ، اندرون لوہاری دروازہ، قائداعظم پبلک لائبریری باغِ جناح، گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے علاوہ کئی دیگر مقامات پر قرآن کی اس تعلیم کا سلسلہ جاری تھا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ان میں سے بہت سے مقامات پر آپ خود لیکچر دیتے اور ترجمہ کی کلاس لیتے تھے۔ صبح سوا سات بجے سے لے کر ساڑھے ۹ بجے تک آڈیٹوریم ہال اے جی آفس میں فہم قرآن کی دو کلاسیں لیتے۔ جس میں درسِ حدیث کے علاوہ مطالعہ قرآن و حدیث اور ان کی لغوی تشریح کی بھی کلاس لیتے۔ اس کے بعد پنجاب سول سروس میں ایک کلاس لیتے ۔ یہاں سے فراغت کے بعد لطیف پلازہ اچھرہ میں واقع مجلہ فہم قرآن کے دفتر میں ادارتی خدمات انجام دیتے۔ پھر مغرب سے پہلے قائداعظم لائبریری باغِ جناح میں ترجمہ اور تیسیر القرآن کی کلاس پڑھاتے۔ نمازِ مغرب کے بعد ۹پی گلبرگ میں کلاس لیتے۔ اس کے علاوہ آپ نے قرآن کی تعلیم پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے ترجمہ اور تیسیر القرآن کا کیسٹوں پر مشتمل ایک آڈیو سیٹ ترتیب دیا اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں یہ کیسٹیں اندرون اور بیرونِ ملک مقیم مسلمانوں تک پہنچائیں۔ اسی طرح لاہور کے متعددمقامات کے علاوہ نہ صرف ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس کورس کا آغاز ہوا بلکہ بیرونی ممالک امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ وغیرہ میں بھی یہ کورس باقاعدہ شروع ہوگیا۔
اس کے علاوہ فہم قرآن کا یہ کورس تین ماہ تک ریڈیو پاکستان پر بھی باقاعدہ نشر ہوتا رہا۔ جس سے ملک اور بیرونِ ملک کے ہزاروں مسلمانوں نے استفادہ کیا۔
ان کی اس سارے دن کی نورِ قرآنی کو پھیلانے کے لئے مسلسل تگ و تاز سے یہ اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ اپنے جذبہ اور لگن میں کس قدر مخلص تھا۔ گویا اس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدمت قرآن و سیرت کے لئے وقف کررکھا تھا۔ انہوں نے فہم قرآن کی صورت ایک پودا لگایا۔ پھر انتہائی محنت اور لگن سے اس کی آبیاری کی اور اب وہ پودا ایک تناور درخت بن چکا تھا کہ ظالموں نے اس درخت کو جڑ سے اکھیڑنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ مذموم کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ان شاء اللہ
قرآن اللہ کا نور ہے اور اس نور کو روئے ارض پر پھیل کر رہنا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے
﴿يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِه وَلَوْکَرِهَ الْکَافِرُوْنَ﴾
”یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پھونکیں مارمار کر اللہ کی روشنی کو بجھا دیں ، حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کئے بغیررہنے والانہیں ہے، اگرچہ کافروں کو برا لگے۔“ (سورة الصف)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
تصنیفی و تالیفی خدمات
جناب پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب جہاں ایک کہنہ مشق مدرّس اور مفسر قرآن تھے، وہاں آپ ایک کامیاب قلمکار بھی تھے۔ آپ نے علامہ احسان الٰہی ظہیر کی مختلف فرقوں پر مشتمل عربی کتب البریلویة، الشیعة والسنة، القادیانیة وغیرہ کا سلیس اور رواں اُردو میں ترجمہ کیا۔ بعض ازاں جب انہوں نے ادارہٴ فہم قرآن قائم کیا تو قرآن کی آواز کو مزید موٴثر بنانے کے لئے زبان کے ساتھ ساتھ قلم کا بھی سہارا لیا۔ اس کے لئے انہوں نے ترجمہ قرآن کو آسان بنانے کے لئے تیسیر القرآن ڈکشنری کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جس میں ہر لفظ کی لغوی، نحوی اور صرفی تشریح کے علاوہ اس کا اصطلاحی مفہوم بھی واضح کیا۔ پھر تیسیر القرآن لیکچرز کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں نحو و صرف کے بنیادی قواعد کو عام فہم انداز میں پیش کیا۔ بعد ازاں ستمبر ۱۹۹۹ء میں مجلہ فہم القرآن کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ کا اجرا کیا۔ جس کا اداریہ آپ خود لکھتے۔ اس کے علاوہ اس میں تیسیر القرآن لیکچرز، دروسِ حدیث، تیسیر القرآن ڈکشنری اور قرآن کی لغوی تشریح کے لئے لغة القرآن کے عنوان سے ایک مستقل سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی موضوعات پرآپ لکھتے رہے۔ آپ تیسیر القرآن ڈکشنری، حروفِ تہجی کے اعتبار سے ایک لغت اور سورئہ توبہ تک قرآن کریم کا تحت اللفظ ترجمہ مکمل کرچکے تھے جوعنقریب چھپنے والا تھا۔
جامعہ رحمانیہ میں کام کے دوران ’محدث‘ میں بھی آپ کے بعض تراجم شائع ہوئے، اسی طرح دیگر رسائل میں شائع ہونے والے تراجم کی ایک فہرست مضمون کے آخر میں دے دی گئی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت
اس طرح پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب اپنی انتھک محنت، جہد ِمسلسل سے ایک انقلاب برپا کرنے کے سلسلہ میں اپنی بے لوث خدمات کی بنا پر ایک ممتاز مذہبی سکالر کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ پھر انہیں اکتوبر ۲۰۰۰ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا۔ جس میں وہ اپنی ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برآ ہوتے رہے۔ انہوں نے کونسل کے سامنے بھی فہم قرآن کے سلسلہ میں کئی تجاویز پیش کیں جن پر مناسب پیش رفت بھی ہوئی۔
دریں اثنا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جو خود بھی پاکستان میں عربی زبان کے کہنہ مشق استاد رہے ہیں، نے ان کی علمی استعداد ، قرآن و سنت سے ان کے شغف سے متاثر ہوکر انہیں تعلیمی کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردیا اور انہیں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک اسلامیات کا جدید نصاب تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی۔ شنید ہے کہ وہ پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک کا نصاب مرتب کرچکے تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان صاحب نے ہمددرد ہال میں ان کی شہادت کے حوالہ سے ایک تعزیتی پروگرام میں ان کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ذاتی خصوصیات
مرحوم قدرت کی طرف سے بڑا اچھا ذہن لے کر پیدا ہوئے تھے۔ اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ایک نمایاں طالب علم کی حیثیت سے ابھرے۔ جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو پہلے ایک سیاستدان کی حیثیت سے پھر عربی زبان کے ایک کامیاب مدرّس کے طور پر مشہور ہوئے۔ مرحوم قرآن فہمی کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ اللہ نے انہیں فن تدریس سے بھی نوازا تھا۔ ان کی چند امتیازی خصوصیات کاتذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :
 
Top