• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیت خاتم النبیینْ کا لغوی پہلو۔

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کنعان صاحب۔ جزاکم اللہ
قرآن کے کسی لغت کا حوالہ دئیے بغیر آپ کے اس طرح کہنے سے تو میں ماننے والا نہیں۔ میں نے مفردات امام راغبؒ کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ عربی میں خَتَم کے اصلی معانی 2 ہیں ۔
1) کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا خَتَمہ کا معنی ہے یا دوسرے
2) وہ نقش جو مہر کا کاغذ پر یا جس چیز پر لگایا جائے رہ جائے ۔
باقی سیل کر نے کے معانی بھی ہیں لیکن وہ مجازی ہیں اصلی نہیں۔ جو کسی لفافے پر لگائی جائے کہ نہ کوئی چیز اندر جائے نہ باہر آئے ۔
جزاکم اللہ
’’خَتَمَ  اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ  
اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی
«البقرة: 7 »
وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ
اسکے کانوں پر اور دل پر مہر لگا دی۔
«الجاثية: 23 »
1) کسی چیز پر مہر کی طرح نشان لگانا خَتَمہ کا معنی ہے یا دوسرے
2) وہ نقش جو مہر کا کاغذ پر یا جس چیز پر لگایا جائے رہ جائے ۔
آپ نے اتنی آیت پیش کی جتنی آپکی ضرورت تھی،
بقول آپ کے اگر مہر کا مطلب نشان یا نقش ہے تو کانوں اور دل پر مہر لگانے سے ہمیں کیا حاصل ہو گا اس پر تفصیل یا تفسیر پیش کریں، عبارت جہاں سے بھی اٹھائیں آپ اس پر اپنی رائے و علمی گفتگو سے نوازیں ورنہ صرف رٹہ لگانے پر ہم باہر ہیں۔

والسلام
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
السلام علیکم





آپ نے اتنی آیت پیش کی جتنی آپکی ضرورت تھی،
بقول آپ کے اگر مہر کا مطلب نشان یا نقش ہے تو کانوں اور دل پر مہر لگانے سے ہمیں کیا حاصل ہو گا اس پر تفصیل یا تفسیر پیش کریں، عبارت جہاں سے بھی اٹھائیں آپ اس پر اپنی رائے و علمی گفتگو سے نوازیں ورنہ صرف رٹہ لگانے پر ہم باہر ہیں۔

والسلام
کنعان صاحب !
رٹہ بازی میرا طریق نہیں۔آپ کو شائد یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی کہ میں نے لفظ با لفظ مفردات امام راغب ؒ کا حوالہ دیا ہے ۔ اور جو معانی میں نے پیش کئے ہیں وہ لفظ با لفظ امام راغبؒ کے بیان کردہ ہیں اور جو آیا ت ہیں وہ بھی امام نے ایسے ہی پیش کی ہیں اور اتنی ہی پیش کی ہیں۔ جا کر مفردات کا ملاحظہ فرمائیں اگر موجود نہیں تو بتائیں لنک بھجوا دیتا ہوں۔ اس لئے بقول میرے کچھ نہیں بقول قرآن کی سب سے مستند لغت کے یہی معانی بنتے ہیں۔
باقی سوال مجھ پر نہیں آپ پر پڑتا ہے کہ کانوں پر اور دل پر مہر لگانے کےمعانی سیلڈ کے ہیں کہ نہ کچھ اند ر جاتا ہے نہ باہر آتا ہے تو بتائیں کہ جو کفر کرتے ہیں کیا وہ بہرے ہو جاتے ہیں؟ یا ان کے دل بند ہو جاتے ہیں؟ کہ نہ خون اندر جائے نہ باہر جائے ۔ نہ آواز اندر جائے نہ؟ ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دوسرے سوال کا جواب:
میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے یہ سوال کیا ۔ کیونکہ اس سے لا نبی بعدی کی بھی تشریح ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ بخاری میں حدیث آئی ہے ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ) مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ( خواب میں ) سونے کے دوکنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے ۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا ، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں ۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑگئے ۔’’فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ، يَخْرُجَانِ بَعْدِي‘‘ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے ۔ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا ۔
اب یہاں لفظ ’بعد‘ استعمال ہوا ہے ۔ حالانکہ یہ مسلّمہ بات ہے کہ اسود عنسی نے بھی اور مسیلمہ نے بھی آنحضرتﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کیا اور آپؐ کو اسکی اطلاع بھی موصول ہوئی ۔چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے ’’انا بینھما‘‘ کہ میں ان دونوں کے درمیان ہوں۔ تو یہاں ’’بعد‘‘ کے معانی کیا ہوئے ؟؟۔
یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہو نا ہے ۔ یعنی مراد یہ ہوئی کہ کہ وہ دونوں میری مخالفت میں اور میرے مقابل نبوت کا جھوٹا دعویٰ کریں گے ۔ عربی زبان کے اس اسلوب کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے ۔ فرمایا:
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثیہ:6) ترجمہ :
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اَور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟
یہاں بھی بعد سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہے ۔
اب تاریخی حقائق کو دیکھیں تو دونوں نے آنحضرت ﷺ کی مدّ مقابل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے آنحضرت ﷺ کے خلاف فوج کھڑی کی ۔ حضور ؐ کے صحابی شہر بن باذان ؓ کو جو صنعاء پر حاکم مقرر کئے گئے تھے قتل کیا اور انکی بیوہ سے زبر دستی شادی کی ۔ حضر موت کے صحراء سے طائف اور بحرین تک اور دوسری طرف احساء سے عدن تک کے علاقہ پر تسلّط قائم کر لیا۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔
دوسری طرف مسلیمہ کو لے لیں۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن کریم کی نقل میں مسجع عبارتیں تشکیل دینے لگا۔ اسی طرح اپنے ماننے والوں کی نماز معاف کر دی ۔ شراب زنا وغیرہ جائز کر دیا۔یہ ساری تعلیمات جو عملاً حضرت رسول کریم ﷺ کی شریعت کے خلاف تھیں انکی تنشیر کی ۔

گویا ان دونوں نے عملاً بھی اور قولاً بھی آنحضرت ﷺ کی شریعت کے خلاف دعویٰ نبوت کیا ۔
جن علماء کرام کے حوالہ جات خاکسار نے پہلے بھجوائے تھے ان کا یہی مؤقف ہے کہ کوئی ایسا نہیں آ سکتا جو آنحضرت ﷺ کی شریعت کو کلّی یا اسکے چند حصو ں کو بھی منسوخ کر دے ۔ جیسا کہ نواب حسن خان صاحب نے لانبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کوئی نہ آئے گا جو آپؐ کی نبوت و شریعت کے مخالف ہو اور اسکا ناسخ ہو۔
جزاکم اللہ
آپ نے "بعد" کا معنی "مخالف" کیا ہے:
یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہو نا ہے ۔
اس پر آپ نے آیت سے دلیل پیش کرنے کی کوشش بھی فرمائی ہے:
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثیہ:6) ترجمہ :
پس اللہ اور اس کی آیات کے بعد پھر اَور کس بات پر وہ ایمان لائیں گے؟
یہاں بھی بعد سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہے ۔

لیکن کیا آپ اس معنی یعنی "مخالفت" کو کسی لغت کی کتاب یا تفسیر سے ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟
اگر نہیں ثابت کر سکتے تو پھر میں قرآن کریم کی کئی آیتیں دکھا سکتا ہوں جہاں "بعد" کا معنی کسی چیز کا دوسرے کے مخالف ہونا نہیں بلکہ زمان یا مکان میں دوسرے کے بعد ہونا ہے۔

رہ گئی بات آپ کی پیش کردہ آیت کی کہ اس میں "بعد" کا معنی پھر کیا ہوگا؟ تو عرض ہے کہ اس كا مطلب حقیقتاً "بعد" میں ہونا ہے۔ "بعد اللہ" سے مراد ہے اللہ کے کلام کے بعد یعنی جو شخص اللہ کی ان آیات اور کلام سے فائدہ نہیں اٹھا پایا تو اس کے بعد کس چیز سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ اس کے لیے ان کے بعد (یعنی ان کو سننے کے بعد) کسی چیز سے نفع اٹھانا ممکن نہیں ہے۔
ومعنى الآية أن من لم ينتفع بهذه الآيات، فلا شيء بعده يجوز أن ينتفع به.
(اللباب فی علوم الکتاب)
ثم قال تعالى: فبأي حديث بعد الله وآياته يؤمنون يعني أن من لم ينتفع بهذه الآيات فلا شيء بعده يجوز أن ينتفع به
(تفسیر الرازی)
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآياتِهِ يُؤْمِنُونَ أي بعد آيات اللهِ، وتقديم اسم اللَّهِ للمبالغة والتعظيم كما في قولك أعجبني زيد وكرمه أو بعد حديث اللَّهِ وهو القرآن كقوله تعالى: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ وآياتِهِ دلائله المتلوة أو القرآن
(تفسیر البیضاوی)

اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی مخالفت" والی بات درست نہیں ہے اور "بعد" اپنے اصلی لغوی معنی میں ہے۔

اب جب یہ مخالفت والا معنی نہ درست ہے اور نہ ہی لغت میں موجود ہے تو پھر مسیلمہ اور اسود عنسی کے بارے میں آپ کی تمام تفصیل بھی (مخالفت کی بنیاد پر ان کے جھوٹے ہونے والی) درست نہیں ہوئی لہذا ہمارا سوال وہیں آ جاتا ہے کہ مسیلمہ اور اسود عنسی تشریعی نبی تھے یا غیر تشریعی؟
نیز طلیحہ اسدی اور اس کے بعد تاریخ میں دعوائے نبوت کرنے والے کئی افراد (مثلاً ابو الطیب متنبی، نوح وغیرہ) کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ تشریعی تھے یا غیر تشریعی؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کنعان صاحب !
رٹہ بازی میرا طریق نہیں۔آپ کو شائد یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی کہ میں نے لفظ با لفظ مفردات امام راغب ؒ کا حوالہ دیا ہے ۔ اور جو معانی میں نے پیش کئے ہیں وہ لفظ با لفظ امام راغبؒ کے بیان کردہ ہیں اور جو آیا ت ہیں وہ بھی امام نے ایسے ہی پیش کی ہیں اور اتنی ہی پیش کی ہیں۔ جا کر مفردات کا ملاحظہ فرمائیں اگر موجود نہیں تو بتائیں لنک بھجوا دیتا ہوں۔ اس لئے بقول میرے کچھ نہیں بقول قرآن کی سب سے مستند لغت کے یہی معانی بنتے ہیں۔

باقی سوال مجھ پر نہیں آپ پر پڑتا ہے کہ کانوں پر اور دل پر مہر لگانے کےمعانی سیلڈ کے ہیں کہ نہ کچھ اند ر جاتا ہے نہ باہر آتا ہے تو بتائیں کہ جو کفر کرتے ہیں کیا وہ بہرے ہو جاتے ہیں؟ یا ان کے دل بند ہو جاتے ہیں؟ کہ نہ خون اندر جائے نہ باہر جائے ۔ نہ آواز اندر جائے نہ؟ ۔
پوسٹ آپ لائے ہیں تو پہلے آپ کی بات تو جان لیں پھر آپ کو اپنی کیمسٹری بیان کریں گے۔

بقول آپ کے اگر مہر کا مطلب نشان یا نقش ہے تو کانوں اور دل پر مہر نشان و نقش سے کیا ہو گا شکریہ کے ساتھ اپنے قلم سے اس کی کیمسٹری بیان فرمائیں۔

والسلام
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
السلام علیکم



پوسٹ آپ لائے ہیں تو پہلے آپ کی بات تو جان لیں پھر آپ کو اپنی کیمسٹری بیان کریں گے۔

بقول آپ کے اگر مہر کا مطلب نشان یا نقش ہے تو کانوں اور دل پر مہر نشان و نقش سے کیا ہو گا شکریہ کے ساتھ اپنے قلم سے اس کی کیمسٹری بیان فرمائیں۔

والسلام
کنعان صاحب
میرا مؤقف وہی ہے جو امام راغب ؒ نے ان آیا ت سے لیا ہے ۔ آپ اسکا مطالعہ فرمائیں پھر مجھے بتائیں کہ آپ کیا فرماتے ہیں ۔ فالأمر الیکم۔

اصل بحث محترم اشماریہ صاحب کے ساتھ ہے آپ اپنا ہومورک کریں پھر انشاء اللہ بات ہو گی ۔
والسلام
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔

آپ نے پہلی بات تشریعی و غیر تشریعی نبی کی حیثیت کے بارے میں فرمائی۔ اور اس پر جو اعتراض ہے، مجھے امید واثق ہے کہ آپ کو اس کا بھی اندازہ ہوگا۔ آپ کی تشریح یہ ہے:

اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عیسیؑ کو غیر تشریعی نبی قرار دیا ہے:

جب کہ حضرت عیسیؑ نے خود فرمایا ہے:
ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم وجئتكم بآية من ربكم (آل عمران۔50)
"اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں۔"
حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا "نسخ" ہے۔
اس کی تاویل بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ چیزیں یہود کے علماء نے حرام کر دی تھیں۔ قرآن کریم میں اس کے خلاف موجود ہے:
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا (160) وأخذهم الربا وقد نهوا عنه وأكلهم أموال الناس بالباطل وأعتدنا للكافرين منهم عذابا أليما (161) (النساء)
"یہود کی طرف سے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جب کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ حرام کردہ چیزیں اللہ پاک کی طرف سے تھیں۔
بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حرام کردہ چیزیں "ظلم" کی وجہ سے تھیں تو عیسیؑ نے انہیں ان کی اصل یعنی حلت پر واپس کر دیا۔ یہ تاویل تو واضح طور پر غلط ہے کہ یہود کے جو افعال اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ تو آج تک ان میں موجود ہیں، عیسیؑ کے وقت تو بہت شدت سے تھے۔ جب تحریم کی علت موجود تھی تو وہ احکام حلت پر واپس کیسے کردیے گئے؟
معلوم یہ ہوا کہ عیسیؑ نے ان احکام کی حرمت کو باقاعدہ نئے احکام خداوندی سے منسوخ کر دیا تھا۔
آپ نے صاحب تشریع نبی کی تعریف یہ کی کہ جو پرانی شریعت کے تابع تھے اور انہوں نے کوئی حکم منسوخ نہیں کیا، مثال میں عیسیؑ کو ذکر کیا حالانکہ انہوں نے احکام کو منسوخ کیا ہے۔ اب یا تو آپ کی تعریف غلط ہے اور یا مثال۔ تعیین آپ خود فرما دیں۔

دوسرا مسئلہ اس میں ہے مرزا قادیانی کی نبوت کا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ قادیانی ہیں یا مسلمان لیکن چونکہ یہ ابحاث آج کل عموماً قادیانی چھیڑتے ہیں تو میں اس پر بات کرتا ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو جہاد کو منسوخ کرنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ و قتال

ایک چیز جس کے وجوب و عدم وجوب کی بحث کی جا سکتی تھی اسے مرزا قادیانی نے "حرام" کر دیا۔
دونوں میں فرق سمجھیے! حرمت کے لیے دلیل قطعی چاہیے ہوتی ہے:
الخامس: التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا، أو هو طلب الترك مع المنع عن الفعل، لترتب العقاب على الفاعل، وأثره الحرمة، والمطلوب تركه والكف عن فعله هو الحرام۔۔۔
التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا بدليل قطعي الثبوت قطعي الدلالة، مثل قتل النفس والزنا.
(الوجيز في اصول الفقه)

تحریم کی بھی دو قسمیں ہیں: تحریم لعینہ (جو خود کسی دلیل قطعی کی وجہ سے حرام ہو) اور تحریم لغیرہ (جو خود تو مباح ہو لیکن کسی اور چیز کی وجہ سے اس میں حرمت آ جائے)
جو چیز قرآن کریم کی دلیل قطی سے ثابت ہو اسے کسی وجہ سے وقتی طور پر منع تو کیا جا سکتا ہے لیکن مطلقاً حرام تب ہی کیا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف کوئی دلیل قطعی (یعنی قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ) موجود ہو۔ ایسی کوئی دلیل قطعی جہاد کی حرمت پر تو مرزا قادیانی اور قادیانی مذہب کے پیروکار کہیں سے بھی پیش نہیں کر سکتے تو پھر اسے مرزا نے "حرام" کیسے کر دیا؟ وہ یہ بحث کرتا کہ اس کے اسباب آج کل موجود نہیں ہیں، اس میں مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے، مسائل بہت ہیں وغیرہ اور ان وجوہات کی بنا پر اس قرآنی حکم پر اس زمانے میں عمل مشکل ہے یا نامناسب ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے کہ چلو یہ بشری کمزوری ہے یا کم از کم اجتہادی مسئلہ ہے۔
لیکن ایک جانب دعوائے نبوت اور دوسری جانب فعل تحریم! حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا نسخ ہوتا ہے تو یہ نسخ کا فعل مرزا نے بھی کیا۔ اب اگر وہ صاحب تشریع نبی تھا تو قادیانی حضرات کی تاویلات کے خلاف ہے اور اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے اللہ پاک پر جھوٹ بول دیا کہ "دین کے لیے حرام ہے۔" نیز اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے قرآن کریم کے واضح حکم کی بھی مخالفت کر لی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (المائدہ۔ 87)

مرزا قادیانی نے اس کام کے لیے حدیث میں واقع "یضع الحرب" کے الفاظ سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے کہ مسیح جنگ کو ختم کردے گا (یعنی دشمنوں کو ختم کر کے جنگ کے مواقع ختم کر دے گا) لیکن اس کا مطلب یہ کیسے بن گیا کہ مسیح جہاد کو "حرام" کر دے گا؟ حضرت مسیحؑ (اوریجنل والے، قادیان مارکہ نہیں) شریعت مصطفوی کو منسوخ نہیں کریں گے۔

دوسرے سوال کے جواب سے متعلق بات ان شاء اللہ رات کو کرتا ہوں۔
محترم اشماریہ صاحب
مفصل جواب کے لئے جزاکم اللہ ۔
خاکسار اپنے کالج کی تدریسی سر گرمیوں میں کچھ مصروف ہے۔ انٹر ول امتحان نیز مقالہ وغیرہ چھوڑیے کیا بتاؤں ۔کچھ وقت عنایت فرمائیں آپکی اس کامنٹ کا مفصل با حوالہ جواب لکھ کر بھجواتا ہوں۔

لیکن سرِ دست کچھ وضاحتیں آپ فرما دیں تو جواب دینے میں آسانی ہو گی ۔ کیوں مسئلہ تعریف تشریعی و غیر تشریعی فروعی ہے وہ جو بھی ہو، بات آنحضرتﷺ کی خاتمیت کی چل رہی تھی۔
1) آپکو امام راغبؒ کی بیان کر دہ لفظ خاتم کی تشریح پر تو اعتراض نہیں ؟
2) جو حوالا جات خاکسار نے علمائے سلف کے بھجوائے ہیں جن میں انہوں نے خاتمیت سے مراد تشریعی نبوت لی ہے نہ کہ مقام نبوت ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟۔
3) علماء نے (ابن عربی ؒ، نواب حسن خان صاحب وغیرہ ) نے جو معانی لا نبی بعدی کے کئے ہیں ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟

باقی رہا بار جو میرے کندھوں پر ہے ۔ حضرت عیسی ٰ ؑ شرعی نبی ہیں یا نہیں ۔ آپؑ نے شیعت موسوی کو نسخ کیا یا نہیں ۔ قرآن کریم سے خاکسار مدلل جواب آپکو بھجوا دے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ صاحب
مفصل جواب کے لئے جزاکم اللہ ۔
خاکسار اپنے کالج کی تدریسی سر گرمیوں میں کچھ مصروف ہے۔ انٹر ول امتحان نیز مقالہ وغیرہ چھوڑیے کیا بتاؤں ۔کچھ وقت عنایت فرمائیں آپکی اس کامنٹ کا مفصل با حوالہ جواب لکھ کر بھجواتا ہوں۔

لیکن سرِ دست کچھ وضاحتیں آپ فرما دیں تو جواب دینے میں آسانی ہو گی ۔ کیوں مسئلہ تعریف تشریعی و غیر تشریعی فروعی ہے وہ جو بھی ہو، بات آنحضرتﷺ کی خاتمیت کی چل رہی تھی۔
1) آپکو امام راغبؒ کی بیان کر دہ لفظ خاتم کی تشریح پر تو اعتراض نہیں ؟
2) جو حوالا جات خاکسار نے علمائے سلف کے بھجوائے ہیں جن میں انہوں نے خاتمیت سے مراد تشریعی نبوت لی ہے نہ کہ مقام نبوت ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟۔
3) علماء نے (ابن عربی ؒ، نواب حسن خان صاحب وغیرہ ) نے جو معانی لا نبی بعدی کے کئے ہیں ۔ان پر آپکو اعتراض تو نہیں ؟۔ ان کے بارہ میں آپکا کیا خیال ہے ؟

باقی رہا بار جو میرے کندھوں پر ہے ۔ حضرت عیسی ٰ ؑ شرعی نبی ہیں یا نہیں ۔ آپؑ نے شیعت موسوی کو نسخ کیا یا نہیں ۔ قرآن کریم سے خاکسار مدلل جواب آپکو بھجوا دے گا۔
محترمی نجیب اللہ صاحب! ان شاء اللہ آپ کی پوسٹ کے ہر جزو پر بات کریں گے۔ امام راغب کی تشریحات پر بھی، دیگر مفسرین کے اقوال پر بھی اور ہر چیز پر۔
تعریفات تمہید اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں اس لیے پہلے ان پر بات کرنا چاہتا ہوں تاکہ جب ہم آگے بات کریں تو آسانی ہو۔ اسی لیے تشریعی و غیر تشریعی کی بات چھیڑی ہے۔ یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد تشریعی نبی کوئی نہیں آ سکتا اور آپ بھی، اختلاف یہ ہے کہ غیر تشریعی نبی آ سکتا ہے یا نہیں؟ اور آپ ﷺ غیر تشریعی نبی کے لیے کیا خاتمیت کی صفت رکھتے ہیں؟ تو اس کے لیے پہلے یہ علم ہونا ضروری ہے تشریعی و غیر تشریعی ہے کیا؟
آپ اطمینان سے اپنا جواب بھجوا دیجیے گا، مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
آپ نے "بعد" کا معنی "مخالف" کیا ہے:

اس پر آپ نے آیت سے دلیل پیش کرنے کی کوشش بھی فرمائی ہے:
لیکن کیا آپ اس معنی یعنی "مخالفت" کو کسی لغت کی کتاب یا تفسیر سے ثابت کر سکتے ہیں؟؟؟
اگر نہیں ثابت کر سکتے تو پھر میں قرآن کریم کی کئی آیتیں دکھا سکتا ہوں جہاں "بعد" کا معنی کسی چیز کا دوسرے کے مخالف ہونا نہیں بلکہ زمان یا مکان میں دوسرے کے بعد ہونا ہے۔

رہ گئی بات آپ کی پیش کردہ آیت کی کہ اس میں "بعد" کا معنی پھر کیا ہوگا؟ تو عرض ہے کہ اس كا مطلب حقیقتاً "بعد" میں ہونا ہے۔ "بعد اللہ" سے مراد ہے اللہ کے کلام کے بعد یعنی جو شخص اللہ کی ان آیات اور کلام سے فائدہ نہیں اٹھا پایا تو اس کے بعد کس چیز سے فائدہ اٹھا سکے گا؟ اس کے لیے ان کے بعد (یعنی ان کو سننے کے بعد) کسی چیز سے نفع اٹھانا ممکن نہیں ہے۔
ومعنى الآية أن من لم ينتفع بهذه الآيات، فلا شيء بعده يجوز أن ينتفع به.
(اللباب فی علوم الکتاب)
ثم قال تعالى: فبأي حديث بعد الله وآياته يؤمنون يعني أن من لم ينتفع بهذه الآيات فلا شيء بعده يجوز أن ينتفع به
(تفسیر الرازی)
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآياتِهِ يُؤْمِنُونَ أي بعد آيات اللهِ، وتقديم اسم اللَّهِ للمبالغة والتعظيم كما في قولك أعجبني زيد وكرمه أو بعد حديث اللَّهِ وهو القرآن كقوله تعالى: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ وآياتِهِ دلائله المتلوة أو القرآن
(تفسیر البیضاوی)

اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی مخالفت" والی بات درست نہیں ہے اور "بعد" اپنے اصلی لغوی معنی میں ہے۔

اب جب یہ مخالفت والا معنی نہ درست ہے اور نہ ہی لغت میں موجود ہے تو پھر مسیلمہ اور اسود عنسی کے بارے میں آپ کی تمام تفصیل بھی (مخالفت کی بنیاد پر ان کے جھوٹے ہونے والی) درست نہیں ہوئی لہذا ہمارا سوال وہیں آ جاتا ہے کہ مسیلمہ اور اسود عنسی تشریعی نبی تھے یا غیر تشریعی؟
نیز طلیحہ اسدی اور اس کے بعد تاریخ میں دعوائے نبوت کرنے والے کئی افراد (مثلاً ابو الطیب متنبی، نوح وغیرہ) کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ تشریعی تھے یا غیر تشریعی؟
محترم اشماریہ صاحب
مفصّل جواب کے لئے شکریہ۔
سب سے پہلے تو خاکسار چاہتا ہے کہ آپ فاوّلتھما کذابین یخرجان بعدی میں بعدی کی تشریح فرما ویں جو کہ اصل مرجع بحث تھی جس کی دلیل میں قرآنی آیت پیش کی گئی ۔ نیز اذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ میں جو بعد آیا ہے اسکی بھی تشریح فرما ویں۔ پھر لا ھجرۃ بعد الفتح میں جو بعد آیا ہے اسکی تشریح بھی فرماویں یا ابن حجرؒ کی تشریح سے اتفاق ہے ؟۔

اب سنیے اہل علم کیا کہتے ہیں ۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الاستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است ‘‘
ترجمہ : جاننا چاہیے کہ اس حدیث (لانبی بعدی) کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون ؓ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسیٰؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور ’’ بعدی‘‘ کے معنی اس جگہ ’’ غیری‘ ‘ ہیں نہ کہ بعدیت زمانی ۔‘‘
(غیری کے لغوی معانی :- سوا ، علاوہ ، نفی ، مخالفت ، مغایرت ، مقابل ، غیر موجودگی وغیرہ ہیں تفصیل کے لئے دیکھو مفردات القرآن ، اما م راغبؒ)
پھر حضرت شاہ محدّث دہلوی ؒ اس کی مثال قرآن سے بیان فرماتے ہوئے اُس آیت (جو ہم نے بیان کی ہے جاثیہ 5)سے ملتی جلتی آیت کی تفسیر بھی انہیں معانوں میں فرماتے ہیں :
’’چنانچہ در آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ (الجاثیہ : 23) گفتہ اند نہ بعدیّتِ زمانی ‘‘ (قرّۃ العینین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
آیت فمن یھدیہ من بعد اللہ کے معنی بھی غیری ہی کہ ہیں نہ کہ بعدیت زمانی ۔
لہذا ثابت یہ ہو کہ اہل علم کے نزدیک بعد کے معانی صرف زمانی مکانی نہیں بلکہ ان سے زائد ہیں۔
باقی آئندہ انشاء اللہ اور حوالا جات بھی بھجوا دوں گا سرِ دست اس پر تبصرہ فرمائیے ۔
باقی احادیث کی تشریح ضرور بھجوا دی جئے گا ۔ انتظار رہے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ صاحب
مفصّل جواب کے لئے شکریہ۔
سب سے پہلے تو خاکسار چاہتا ہے کہ آپ فاوّلتھما کذابین یخرجان بعدی میں بعدی کی تشریح فرما ویں جو کہ اصل مرجع بحث تھی جس کی دلیل میں قرآنی آیت پیش کی گئی ۔ نیز اذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ میں جو بعد آیا ہے اسکی بھی تشریح فرما ویں۔ پھر لا ھجرۃ بعد الفتح میں جو بعد آیا ہے اسکی تشریح بھی فرماویں یا ابن حجرؒ کی تشریح سے اتفاق ہے ؟۔
پہلی فرصت میں اس کا جواب شراح حدیث سے دیتا ہوں۔ فی الحال ذرا سا مصروف ہوں۔

اب سنیے اہل علم کیا کہتے ہیں ۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الاستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است ‘‘
ترجمہ : جاننا چاہیے کہ اس حدیث (لانبی بعدی) کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون ؓ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسیٰؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور ’’ بعدی‘‘ کے معنی اس جگہ ’’ غیری‘ ‘ ہیں نہ کہ بعدیت زمانی ۔‘‘
محترمی! اگر آپ کی عبارت کی نقل درست ہے تو پھر آپ کا ترجمہ شاید غلط ہے۔
’’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الاستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است ‘‘
"چاہیے کہ جان لیا جائے کہ اس آیت کا مدلول نہیں ہے علی رضی اللہ عنہ کو مدینے پر خلیفہ بنانا غزوہ تبوک میں اور اس خلیفہ بنانے کو تشبیہ دینا موسی کے ہارون کو خلیفہ بنانے سے ان کے طور کی جانب سفر کے وقت، اور یہاں "بعدی" کا معنی "غیری" ہے۔"
غلطی سے آج سے بارہ سال پہلے ٹوٹی پھوٹی فارسی ہم نے بھی سیکھ لی تھی۔ اس میں "الاستخلاف" نہ "الا استخلاف" اور آخر میں "نہ کہ بعدیت زمانی" کے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ ممکن ہے یہ آپ سے عبارت نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہو۔
بہر حال چونکہ یہ کتاب نیٹ پر بھی آسانی سے نہیں ملتی اور ہمارے پاس بھی نہیں ہے اس لیے فورم کے اصول کے مطابق اس صفحے کا اسکین عنایت فرمائیے تاکہ ہم اصل عبارت اور اس کا سیاق و سباق دیکھ سکیں۔

پھر حضرت شاہ محدّث دہلوی ؒ اس کی مثال قرآن سے بیان فرماتے ہوئے اُس آیت (جو ہم نے بیان کی ہے جاثیہ 5)سے ملتی جلتی آیت کی تفسیر بھی انہیں معانوں میں فرماتے ہیں :
’’چنانچہ در آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ (الجاثیہ : 23) گفتہ اند نہ بعدیّتِ زمانی ‘‘ (قرّۃ العینین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
آیت فمن یھدیہ من بعد اللہ کے معنی بھی غیری ہی کہ ہیں نہ کہ بعدیت زمانی ۔
لہذا ثابت یہ ہو کہ اہل علم کے نزدیک بعد کے معانی صرف زمانی مکانی نہیں بلکہ ان سے زائد ہیں۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے کہ آپ کی فارسی عبارت میں "غیری" والے معنی کا دور دور تک پتا نہیں ہے۔ اس کا بھی اسکین عنایت فرمائیے۔ میں ممنون ہوں گا۔

باقی "بعد" کے معنی تو تاج العروس میں "مع" بھی لکھے ہیں لیکن وہ آپ کو نافع نہیں ہیں۔ اگر ایک بار تاج العروس کا مطالعہ فرمالیں اس لفظ کے تحت تو اس میں اس کے تمام حقیقی و مجازی معانی مذکور ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
پہلی فرصت میں اس کا جواب شراح حدیث سے دیتا ہوں۔ فی الحال ذرا سا مصروف ہوں۔


محترمی! اگر آپ کی عبارت کی نقل درست ہے تو پھر آپ کا ترجمہ شاید غلط ہے۔
’’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الاستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است ‘‘
"چاہیے کہ جان لیا جائے کہ اس آیت کا مدلول نہیں ہے علی رضی اللہ عنہ کو مدینے پر خلیفہ بنانا غزوہ تبوک میں اور اس خلیفہ بنانے کو تشبیہ دینا موسی کے ہارون کو خلیفہ بنانے سے ان کے طور کی جانب سفر کے وقت، اور یہاں "بعدی" کا معنی "غیری" ہے۔"
غلطی سے آج سے بارہ سال پہلے ٹوٹی پھوٹی فارسی ہم نے بھی سیکھ لی تھی۔ اس میں "الاستخلاف" نہ "الا استخلاف" اور آخر میں "نہ کہ بعدیت زمانی" کے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ ممکن ہے یہ آپ سے عبارت نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہو۔
بہر حال چونکہ یہ کتاب نیٹ پر بھی آسانی سے نہیں ملتی اور ہمارے پاس بھی نہیں ہے اس لیے فورم کے اصول کے مطابق اس صفحے کا اسکین عنایت فرمائیے تاکہ ہم اصل عبارت اور اس کا سیاق و سباق دیکھ سکیں۔


یہاں بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے کہ آپ کی فارسی عبارت میں "غیری" والے معنی کا دور دور تک پتا نہیں ہے۔ اس کا بھی اسکین عنایت فرمائیے۔ میں ممنون ہوں گا۔

باقی "بعد" کے معنی تو تاج العروس میں "مع" بھی لکھے ہیں لیکن وہ آپ کو نافع نہیں ہیں۔ اگر ایک بار تاج العروس کا مطالعہ فرمالیں اس لفظ کے تحت تو اس میں اس کے تمام حقیقی و مجازی معانی مذکور ہیں۔
میں نے حوالہ کو دو حصوں پر پیش کیا تھا اور اس درمیان اپنا تبصرہ شامل کیا تھا ۔تاہم لگتا ہے کہ آپ کے لئے مضمون واضح نہیں ہو پایا۔

اپنی فارسی دانی پر معذرت خواہ ہوں پورا حوالہ یہ ہے ۔ میں ترجمہ لکھتا ہوں ۔لیکن آپ خود بھی اسکا ترجمہ فرما لیں۔ اور بتائیں کہ کیا سمجھے ہیں؟۔
’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الااستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است چنانچہ در آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ (الجاثیہ : 23) گفتہ اند نہ بعدیّتِ زمانی ‘‘ (قرّۃ العینین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
’’جاننا چاہیے کہ اس حدیث (لانبی بعدی) کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون ؓ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسیٰؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور ’’ بعدی‘‘ کے معنی اس جگہ ’’ غیری‘ ‘ ہیں جیسا کہ آیت
فمن یھد یہ من بعد اللہ میں ہے نہ کہ بعدیت زمانی ‘‘۔
( یہ کتاب نایاب ہے خاکسار نے اس کا حوالہ لکھا تھا ۔ کوشش کرتا ہوں لائبریری سے اسکین یا تصویر مل جائے تو بھجواتا ہوں۔)

دوسرا حوالہ بھی پیش خدمت ہے ۔
2)لغات القرآن مصنفہ غلام احمد پرویز میں ’بعد ‘کے معانی ملاحظہ ہوں۔
’’ بعد کے معنی ’غیر‘ کے بھی آتے ہیں ۔ فمن یھد یہ من بعد اللہ‘‘
(لغات القرآن صفحہ 331)



 
Top