السلام علیکم!
لاعلمی کاعلاج سوال ہے۔اسی لئے میں نے علمائے کرام سے رابطہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا موقف غلط اور محترم
شاکر اور
ابن بشیر الحسینوی کا موقف صحیح و درست ہے۔ میں ان دونوں حضرات کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری صحیح سمت میں رہنمائی فرمائی۔جزاک اللہ خیرا
اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہوئے میں نے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کے ساتھ ساتھ مضمون کا عنوان بھی تبدیل کیا ہے جو اب ’’ایک بھنگی، دیوبندیوں کا شیخ الحدیث‘‘ سے بدل کر ’’کیا یہ تقویٰ ہے؟‘‘ کر دیا گیا ہے۔
میں یہاں خصوصی طور پر
جمشید صاحب کا ذکر کرنا چاہونگا جنھوں نے سب سے پہلے اور بہت عرصہ قبل اردو مجلس پر میری اس غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جمشید صاحب سمیت تقریبا تمام دیوبندی حضرات اپنے مذہب کا اندھا دھند اور ناجائز دفاع کرتے ہوئے کثرت سے جھوٹ بولتے اور مغالطہ انگیزی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اس عادت کے سبب اگر یہ لوگ غلطی یا اتفاق سے کبھی کسی معاملے میں سچ بھی بول رہے ہوں تو عام طور پر اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور اسے جھوٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے بھی جمشید صاحب کی نشاندہی پر کوئی توجہ نہیں کی تھی۔ بہرحال جمشید صاحب آپکا بہت شکریہ۔
تبدیل شدہ مضمون دیکھئے:
کیا یہ تقویٰ ہے؟
شاہد نذیر
آپ نے ایک دیوبندی عالم کا قصہ لکھا ہے کہ اس نے ٹرین میں ٹوائلٹ کی صفائی کی اور صاحب کتاب نے اس کو تقوی سے جوڑا
آپ کو دو اعتراض ہیں
1- ٹوائلٹ کی صفائی
2- تقوی سے تعلق
پہلے میں اعتراض نمبر ایک کی طرف آتا ہوں ۔
یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں
حدثنا قتيبة، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في القبلة، فشق ذلك عليه حتى رئي في وجهه، فقام فحكه بيده فقال " إن أحدكم إذا قام في صلاته، فإنه يناجي ربه ـ أو إن ربه بينه وبين القبلة ـ فلا يبزقن أحدكم قبل قبلته، ولكن عن يساره، أو تحت قدميه". ثم أخذ طرف ردائه فبصق فيه، ثم رد بعضه على بعض، فقال " أو يفعل هكذا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا، جو آپ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص ( نماز میں اپنے ) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنادہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔
بلغم بلاشبہ ایسی چیز ہے جس کو ہاتھ لگانا دور کی بات دیکھنے سی ہی طبیعت خراب ہوتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جیسی پاک ہستی نے جب مسجد کی دیوار پر بلغم کو دیکھا تو وہ کسی بھی صحابی کو اس کا صاف کرنے کے لئیے کہ سکتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعین تو نبی اکرم کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم جیسی پاک ہستی نے خود وہ بلغم صاف کی تاکہ امتی کو کبھی ایسا کام کرنا پڑ جائے جس سے طبیعت خراب ہوتی ہے تو ان کے لئیے مثال ہو ۔
آپ قران و حدیث سے ثابت کریں کہ ٹوائلٹ کی صفائی اسلام میں ممنوع ہے
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ٹوائلٹ کی صفائی سے تقوی کا کیا تعلق ؟
یہاں محض ٹوائلٹ کی صفائی کو تقوی سے نہیں جوڑا بلکہ ان محترم نے صرف اس نیت صفائی کی تاکہ غیر مسلم کو پتا چل جائے مسلماں اپنے ساتھ سفر کرنے والوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں کہ اگر ان کو اپنے ہمسفر کی راحت کے لئیے ٹوائلٹ صاف کرنا پڑے تو وہ گریز نہیں کرتے ۔ اور یہ عمل اس لئیے کیا تاکہ وہ غیر مسلم اسلام کی طرف مائل ہو ۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں کسی شخص نے غیر مسلم کی راحت کو لئیے کام کیا تو مسلمانوں کا یہ طرز عمل دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوا ۔
یہ کام ثابت کرتا ہے کہ محترم میں تواضع ، کسر نفسی اور خشیت الہی اعلی درجہ کی تھی اور یہ امور تقوی سے تعلق رکھتے ہیں
شاہد نذیر آپ نے مجھے اس سوال کا بھی جواب دینا ہے جو میںنے آپ کے الزام اور بہتان "امام ابو حنیفہ کذاب ہے " کے سلسلے میں کیے تھے ۔
آپ کا تیسری مضمون جس موضوع کے متعلق ہے اس پر لب کشائی کی لئیے طبیعت مائل نہیں ہوتی لیکن ان شاء اللہ اس پر بھی جواب آپ کو دیا جائے گا لیکن پہلے آپ ذرا اپنے ان دو مضامیں کا تحفظ کر کے دکھادیں ۔
ایک دوسری بات جس طرح ہمارے ہاتھ ، پائوں اور دیگر اعضاء آذاد نہیں کہ جو جی چاہتے کرتے پھریں بلکہ اللہ کے احکام کے تابع ہیں اسی طرح لب بھی آزاد نہیں
ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد
کل کو ہم نے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے ۔ فرصت کے لمحوں میں سوچئیے گا ضرور ۔