- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,588
- پوائنٹ
- 791
بسم اللہ الرحمن الرحیميكونُ اختلافٌ عندَ موتِ خليفةٍ فيخرُجُ رجُلٌ مِن قُرَيشٍ مِن أهلِ المدينةِ إلى مكَّةَ فيأتيه ناسٌ مِن أهلِ مكَّةَ فيُخرِجونَه وهو كارهٌ فيُبايِعونَه بيْنَ الرُّكنِ والمَقامِ فيبعَثونَ إليه جيشًا مِن أهلِ الشَّامِ فإذا كانوا بالبَيْداءِ خُسِف بهم فإذا بلَغ النَّاسَ ذلك أتاه [ أبدالُ ] أهلِ الشَّامِ وعِصابةُ أهلِ العِراقِ فيُبايِعونَه وينشَأُ رجُلٌ مِن قُرَيشٍ أخوالُه مِن كَلْبٍ فيبعَثُ إليهم جيشًا فيهزِمونَهم ويظهَرونَ عليهم فيقسِموا بيْنَ النَّاسِ فَيْئَهم ويعمَلُ فيهم بسُنَّةِ نبيِّهم صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ويُلقي الإسلامَ بجِرانِه إلى الأرضِ يمكُثُ سَبْعَ سِنينَ
الراوي : أم سلمة | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان
یہ حدیث سنن ابی داود میں بھی ہے اور مزید تفصیل سے ہے اسلئے ہم وہاں سے ترجمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں :
امام ابو داود فرماتے ہیں :
(حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام حدثني أبي عن قتادة عن صالح أبي الخليل عن صاحب له
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ، فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ، فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَيُخْسَفُ [ص:108] بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ، وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ، فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا، فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ، وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ، وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ، فَيَقْسِمُ الْمَالَ، وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ فِي الْأَرْضِ، فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ، ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: قَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ: «تِسْعَ سِنِينَ»، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: «سَبْعَ سِنِينَ»
(سنن ابی داود، 4286 ۔۔صحیح ابن حبان 6757 ، مسند إسحاق بن راهويه ۱۹۵۴ ۔ مسند الامام احمد 26689 ۔ مسند ابی یعلی 6940 )
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا ، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے ، اسے یہ پسند نہ ہو گا ، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے ، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے ، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں اس کے پاس آئیں گی ، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی ، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال قبیلہ بنی کلب میں ہو گا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا ، وہ اس پر غالب آئیں گے ، یہی کلب کا لشکر ہو گا ، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے ، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا ، اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا (یعنی مستحکم ہوگا )، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا ، پھر وفات پا جائے گا ، اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : بعض نے ہشام سے ” نو سال “ کی روایت کی ہے اور بعض نے ” سات “ کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخریج : علامہ حافظ زبیر علی زئی ؒ نے سنن ابی داود کی تخریج میں اسے دو علتوں کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے
ایک ابو صالح جس سے روایت نقل کر رہا ہے وہ مجہول ہے ، اور دوسری علت یہ کہ ’’ قتادہ رحمہ اللہ ‘‘ مدلس ہیں اور یہاں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی بلکہ ’’ عنعنہ ‘‘ سے نقل کیا ہے ،(سنن ابی داود معہ انگلش ترجمہ طبع دار السلام جلد چہارم صفحہ ۵۱۰ )
اور علامہ ناصر الدین الالبانی ؒ نے ’’ سلسلہ احادیث ضعیفہ ‘‘ (رقم 1965 ) میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ، لکھتے ہیں :
( ورجاله كلهم ثقات غير صاحب أبي خليل، ولم يسم، فهو مجهول ) یعنی ویسے تو اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں ،سوائے ابو خلیل کے ساتھی کے ، جس کی تصریح نہیں کہ وہ کون ہے ،لہذا مجہول ہوا )
اور دوسری علت انہوں نے یہ بتائی کہ اس کی اسناد میں قتادہ پر چار وجوہ سے اختلاف واقع ہے ،
(ولكنهم قد اختلفوا في إسناده على قتادة على وجوه أربعة: ۔۔۔۔ ) آگے انہوں نے اس کی تفصیل بتائی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مسند احمد کی تخریج میں علامہ شعیب الارناؤط نے اس حدیث کو دو وجہ سے ضعیف کہا ہے ،
( حديث ضعيف لإبهام صاحب أبي خليل، ولاضطراب قتادة فيه )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔