• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابدال کے متعلق روایات کا جائزہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (2/ 905)
1726 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أنا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، وَقَالَ مَرَّةً: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ يَوْمَ صِفِّينَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ أَهْلَ الشَّامِ فَقَالَ: عَلِيٌّ «لَا تَسُبَّ أَهْلَ الشَّامِ جَمًّا غَفِيرًا فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ، فَإِنَّ بِهَا الْأَبْدَالَ» .

یہاں عبد اللہ بن صفوان کے ساتھ عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ کا اضافہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ اس سے مراد عبد اللہ بن صفوان بن امیہ ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
میں نے اسی کی بابت عرض کیا ہے کہ
فضائل کی روایت میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے نام کے ذکر میں تھوڑی غلطی ہو گئی ہے۔ ابن حجرؒ نے المطالب العالیہ میں اسحاق سے عن صفوان بن عبد اللہ او عبد اللہ بن صفوان کی سند سے یہ روایت ذکر کی ہے۔
امام احمد کے علاوہ جنہوں نے اس روایت کو ذکر کیا ہے انہوں نے دو نام ذکر کیے ہیں. عبد اللہ بن صفوان اور صفوان بن عبد اللہ
یہ نام جو امام احمد نے ذکر کیا ہے عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ یہ اور کسی نے ذکر نہیں کیا.
ابن حجر نے المطالب العالیہ میں اسحاق رح کے حوالے سے اوپر والے دو نام ذکر کر کے اس روایت کو ذکر کیا ہے. پھر اس کی نسبت امام احمد کی طرف بھی کی ہے اور اس میں بھی عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ سے متعلق کچھ ذکر نہیں کیا. اس سے یہی ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ کسی کاتب کی غلطی ہے. اصل وہ دو نام ہیں جو عبد الرزاق, ابن مبارک اور اسحاق نے ذکر کیے ہیں.
واللہ اعلم
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
چونکہ یہ علامہ حافظ ابن قیم ؒ کی کتاب " المنار المنیف " کے حوالے سے ہے ، اور مصنف نے اس کو
" حسن " بھی کہا ہے ، تواتنی گذارش ضروری ہے کہ :
جس طریق سے انہوں یہ روایت نقل کی ہے وہ وہی " مبہم راوی " کے حوالے سے ہی ہے
اور اس ابہام کی وضاحت کیلئے انہوں نے جو طریق نقل فرمایا ہے وہ یہ ہے :
۔۔۔۔۔۔۔
عمران بن داور عن قتادة عن أبي الخليل عن عبد الله بن
الحارث بن نوفل عن أم سلمة ‘‘
اور یہ عمران بن داور ابو العوام ضعیف ہے ،امام ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
ضعفه ۔۔۔۔
اسلئے علامہ ابن قیم ؒ کا اس حدیث کی تحسین کرنا صحیح نہیں ،یہ ضعیف ہے ،

اس حدیث کو مستدرک میں حاکم نے روایت کر کے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کو عمران القطان ہی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ اسی طرح مستدرک کی ایک اور حدیث جس میں ’’مہدی‘‘ کا ذکر ہے اس کی تلخیص میں بھی عمران کو ضعیف کہا ہے ۔
امام ذہبیؒ کو غالباََ اس کے متن سے اختلاف ہے بلکہ صرف اسی طریق میں ۔ ورنہ ابوداود کی سند میں مبہم ذہبی ؒ بھی اس کا تعین عبد اللہ بن حارثؒ سے ہی کرتے ہیں ۔ا ورعمران بن داورؒ ۔۔راوی بھی ان کے نزدیک مطلقاََ ضعیف نہیں ۔
سیر اعلام النبلا ۷۔۲۸۰ میں اس کے ترجمہ میں اسلوب سے یہ ظاہر ہوتا ہے ۔ جس میں توثیق غالب ہے ۔

اسی طرح الکاشف۲۔۹۳میں مختصر الفاظ میں بھی توثیق غالب ہے ۔
ضعفه النسائي ومشاه أحمد وغيره۔
مشاہ ۔۔ان کی توثیق کی اصطلاح ہے۔دیکھیے مقدمہ تحقیق کاشف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر تلخیص مستدرک میں اس راوی کی احادیث میں ۴،۵ جگہہ انہوں نے تصحیح میں حاکم کی موافقت کی ہے مثلاََدیکھیں مستدرک (العلمیہ)۲۔۵۴۰ ،۴۔۱۰۵ ۔
اور اسی طرح سیر اعلام النبلا ۱۳۔۴۳۹میں بھی ان کی حدیث کو اسنادہ جید کہا ہے ۔
حاکمؒ مستدرک میں فرماتے ہیں ۔
عِمْرَانَ الْقَطَّانِ ۔۔ صَدُوقٌ فِي رِوَايَتِهِ، وَقَدِ احْتَجَّ بِهِ الْبُخَارِيُّ فِي الْجَامِعِ الصَّحِيحِ
حافظ ابن حجر
ؒ نے امام ترمذیؒ سے نقل کیا ہے کہ امام بخاریؒ نے اس راوی کو صدوق یھم قرار دیا ہے ۔
ان کی روایت صحیح میں استشہاداََ ہے ۔

اور حافظ ابن حجرؒ نے تهذيب میں ان کی ثقاہت ہی زیادہ بیان کی ہے ۔اور ان پر حروری ہونے کی جرح کو بھی صحیح نہیں قرار دیا ۔ تقریب میں بھی صدوق يهم کہا ہے ۔
اور کئی ائمہ نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔

عمران القطان کی جس حدیث کو ذہبیؒ نے سیر میں اسنادہ جید کہا وہ امام بخاریؒ نے بھی ادب المفرد ۱۔۲۸۷میں روایت کی ہے ۔
اور اس کی تعلیق میں شیخ البانیؒ نے بھی حسن کہا ہے ۔
اورسلسلہ صحیحہ ۲۔ ۶۸۶ میں سنن ابن ماجہ سے ان کی ایک روایت بیان کر کے حافظ بوصیریؒ سے نقل کرتے ہیں۔

قال في " الزوائد ": " إسناده صحيح۔۔۔۔وأبو العوام القطان اسمه عمران بن داور وثقه الجمهور ۔۔۔
. قلت: عمران متكلم فيه من جهة حفظه، وفي التقريب: " صدوق يهم "، فحديثه
لا يبلغ درجة الصحيح،
بل هو حسن فقط. غير أن حديثه هذا صحيح، لأن له شاهدا

اور سنن ترمزی میں جہاں بھی ان کی احادیث ہیں ۸ سے زیادہ مقام ہیں غالباََ۔۔ ان میں امام ترمزیؒ کی عمران کی احادیث کی تصحیح و تحسین میں شیخ البانیؒ نے بھی ہر جگہہ موافقت کی ہے ۔
یعنی وہ مجروح ہونے کے باوجود شیخ البانیؒ کے نزدیک حسن الحدیث ہے ۔
اسی طرح شیخ شعیب بھی اس کو حسن الحدیث مانتے ہیں۔
معلوم نہیں پھر اس مبہم کے تعین کے کیوں قائل نہیں ۔ جبکہ بڑے بڑے ائمہ اس کے قائل ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ذہبیؒ نے مستدرک میں اس حدیث کی عمران والی سند میں اس راوی کو ضعیف کہا ہے ۔

اس کے باوجود انہوں نے ابوداود کی پہلی سند میں موجود مبہم کو بالجزم عبد اللہ بن حارث ؒ ہی قرار دیا ہے ۔

صالح أبو الخليل عن صاحب له هو عبد الله بن الحارث
الکاشف
۲۔۴۹۹
ابن خلدونؒ نے اپنے مقدمہ میں احادیث مہدیؓ سے متعلق ایک سخت موقف اپنایا جو مشہور ہے ۔ اس پہ ان پر تنقید بھی ہوئی۔ انہوں نے تمام احادیث مہدی پر جرح کی ۔
اسی ضمن میں انہوں نے قتادہؒ کے مدلس ہونے کا اعتراض جو اس حدیث میں کسی نے بھی نہیں کیا ۔ نقل کیا ہے ۔ اس کا جواب صاحب عون المعبود نے دے دیا ہے ۔

قُلْتُ لَا شَكَّ أَنَّ أَبَا دَاوُدَ يَعْلَمُ تَدْلِيسَ قَتَادَةَ بَلْ هُوَ أَعْرَفُ بِهَذِهِ القاعدة
من بن خَلْدُونَ وَمَعَ ذَلِكَ سَكَتَ عَنْهُ ثُمَّ الْمُنْذِرِيُّ وبن القيم ولم يَتَكَلَّمُوا عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ فَعُلِمَ أَنَّ عِنْدَهُمْ عِلْمًا بِثُبُوتِ سَمَاعِ قَتَادَةَ مِنْ أَبِي الْخَلِيلِ لِهَذَا الْحَدِيثِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ (عون المعبود ۱۱
۔۲۵۶)

لیکن اس راوی کے تعین میں ابن خلدونؒ کو بھی انکار نہیں ۔

رواه أبو داود من رواية أبي الخليل عن عبد الله بن الحارث عن أمّ سلمة فتبيّن بذلك المبهم في الإسناد الأوّل ورجاله رجال الصّحيحين لا مطعن فيهم ولا مغمز۔۔۔.
تاریخ ابن خلدون
۱۔۳۹۲

اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ نے بھی بالجزم مبہم کا تعین عبد اللہ بن حارثؒ سے کیا ہے ۔

امام ابن أبي حاتم ۔۔۔العلل ۶۔۵۴۴
المنذریؒ۔۔۔۔۔مختصر سنن ابوداود ۶۔۱۶۱
جمال الدین المزیؒ ۔۔۔۔تہزیب الکمال ۳۵ ۔۸۰
ابن کثیر ؒ ۔۔۔۔۔التکمیل فی الجرح و التعدیل۔۔۴۔۱۶۰
العراقیؒ۔۔۔۔ المستفاد من مبهمات ۳۔۱۶۰۸
ابن حجرؒ ۔۔۔التقریب (باب المبھمات) ۱۔۷۳۳

جب راوی کے تعین میں اختلاف نہیں تو پھر اضطراب بھی نہیں ۔ اس لئے امام ابن قیمؒ کا اس حدیث کو حسن کہنا صحیح ہے ۔

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس حدیث کو مستدرک میں حاکم نے روایت کر کے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص میں اس کو عمران القطان ہی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ اسی طرح مستدرک کی ایک اور حدیث جس میں ’’مہدی‘‘ کا ذکر ہے اس کی تلخیص میں بھی عمران کو ضعیف کہا ہے
امام حاکم نے مستدرک میں اسے ’’ صحیح ‘‘ نہیں کہا ،بلکہ اس پر سکوت کیا ہے ،
میرے پاس المستدرک کے دو نسخے پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہیں ،ایک نسخہ مصر کا مطبوعہ ہے جس پر علامہ مقبل بن ھادی الوداعی کی تحقیق و تعلیق ہے ،اور دوسرا نسخہ دار الکتب العلمیہ بیروت کا شائع کردہ ہے ، جس کی دراسہ و تحقیق مصطفی عبد القادر نے کی ہے ،
ان دونوں نسخوں میں حاکم کا سکوت ہی ہے ،
اور علامہ الالبانی ؒ نے بھی ’’سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ‘‘ ۱۹۶۵ ۔ میں اس حدیث کی تخریج میں لکھا ہے :
(وسكت عليه الحاكم، وقال الذهبي: " أبو العوام عمران ضعفه غير واحد، وكان خارجيا "
کہ امام حاکم تو اس پر ساکت ہیں ، لیکن امام الذہبی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ابو العوام عمران کو کئی ایک محدثین نے ضعیف کہا ہے ،اور وہ خارجی تھا ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
مشاہ ۔۔ان کی توثیق کی اصطلاح ہے۔دیکھیے مقدمہ تحقیق کاشف۔
جی نہیں ، مقدمہ کاشف میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ :
’’مشاہ ‘‘ مطلق توثیق کی نہیں ، بلکہ انتہائی کمزور توثیق کا اشارہ ہے ، لکھتے ہیں :
’’ ويبدو أن غالب استعمالاته لهذه الكلمة يكون للدلالة على أن كلمة التوثيق التي قيلت فيه من التوثيق الخفيف اليسير ‘‘
اور کاشف میں ۔۔عمران ۔۔کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
(ضعفه النسائي ومشاه أحمد وغيره )امام نسائی نے اسے ضعیف کہا ہے ، جبکہ امام احمد وغیرہ نے ’’ مشاہ ‘‘ یعنی بہت ہی کمزور توثیق کی ہے
اس کی وضاحت امام احمد کے اصل قول سے ہوتی ہے جو موسوعۃ ااقوال الامام احمد فی رجال الحدیث میں (بحوالہ العلل ) موجود ہے کہ :
’’ قال عبد الله: قال أبي: أرجوا أن يكون صالح الحديث. «العلل»
بلکہ اسی مصدر میں امام احمد ؒ کا عمران القطان کو ضعیف کہنا بھی موجود ہے ، لکھتے ہیں :
(وقال المروذي: سألته (يعني أبا عبد الله) عن عمران القطان، فقال: ليس بذاك، وضعفه. «سؤالاته» (166)
اس لئے امام ذہبی کا (مشاہ احمد ) کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد کمزور سی توثیق ہی لی جاسکتی ہے ، فافہم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں نے اسی کی بابت عرض کیا ہے کہ
امام احمد کے علاوہ جنہوں نے اس روایت کو ذکر کیا ہے انہوں نے دو نام ذکر کیے ہیں. عبد اللہ بن صفوان اور صفوان بن عبد اللہ
یہ نام جو امام احمد نے ذکر کیا ہے عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ یہ اور کسی نے ذکر نہیں کیا.
ابن حجر نے المطالب العالیہ میں اسحاق رح کے حوالے سے اوپر والے دو نام ذکر کر کے اس روایت کو ذکر کیا ہے. پھر اس کی نسبت امام احمد کی طرف بھی کی ہے اور اس میں بھی عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ سے متعلق کچھ ذکر نہیں کیا. اس سے یہی ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن صفوان بن عبد اللہ کسی کاتب کی غلطی ہے. اصل وہ دو نام ہیں جو عبد الرزاق, ابن مبارک اور اسحاق نے ذکر کیے ہیں.
واللہ اعلم
اگر زہری کے بعد کوئی علت نہ ہو تو روایت سندا درست ہے ، گویا ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اگر زہری کے بعد کوئی علت نہ ہو تو روایت سندا درست ہے ، گویا ایسی صورت میں کہا جاسکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ شام میں ابدال ہونا کیا قیاس یا عقل سے سمجھ میں آنے والی چیز ہے؟ یا یہ ان اخبار غیب میں سے ہے جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر کے بغیر مطلع ہونا ممکن نہیں ہے؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
امام حاکم نے مستدرک میں اسے ’’ صحیح ‘‘ نہیں کہا ،بلکہ اس پر سکوت کیا ہے ،
جی نہیں ، مقدمہ کاشف میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ :
’’مشاہ ‘‘ مطلق توثیق کی نہیں ، بلکہ انتہائی کمزور توثیق کا اشارہ ہے ۔۔۔
حاکم ؒ کی بات کی آپ نے صحیح توجہ دلائی۔یہ میری غلطی ہے ۔جزاک اللہ
بیشک انہوں نے اس پر سکوت ہی کیا ہے ۔
مجھے اس لئے وہم ہوگیا کہ ۔انہوں نے ۹ سے زیادہ مقامات پر ان کی تصحیح و توثیق ہی کی ہے ۔اور کہیں تضعیف نہیں کی ۔
اور ابھی میرے پیش نظر اس راوی کے بارے میں تمام ائمہ کے توثیقی اقوال بیان کرنا نہیں تھا ۔ اس لئے حاکم کی تصحیح میں نے اس تناظر میں نہیں نقل کی ۔بلکہ اصل تو ذہبیؒ کی اس طریق کی تضعیف نقل کرنے کے لئے لکھا تھا۔
اور میں نے صاف صاف لکھا کہ ان دو مقامات پر امام ذہبیؒ نے ان کو ضعیف کہا۔
باقی ’’مشاہ ‘‘ کی تشریح ۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام احمد ؒ کے اصل قول سے وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔
ابھی جیسا کہ میں نے پہلے کہا اس راوی کی توثیق کے سارےاقوال بیان نہیں کئے ایک دو کا ضمنی طور پہ ذکر ہوا۔
اور امام احمدؒ کے قول سے بھی مختلف فیہ ہی ثابت ہوتا ہے ۔ انتہائی کمزور نہیں ۔
ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ امام ذہبیؒ نےاور دوسرے ائمہ نے اپنی کتب میں ان کا توثیق والا قول لیا ہے ۔یا تجریح والا۔
پھر مشاہ فلان توثیق خفیف ہو نہ ہو البتہ ضعفہ النسائی بہت کمزور جرح ہے ۔اور یہ بات تو صراحتاََ ذہبیؒ سے بھی ثابت ہے اور نسائیؒ سے بھی ۔
کیونکہ عمران القطان کی سنن نسائی میں تقریباََ ۴ روایات ہیں ۔اور انہوں نے ۲ جگہہ اس کو لیس بالقوی کہا ہے ۔
اور ذہبیؒ الموقظۃ ۱۔۸۲ میں لکھتے ہیں اور نسائی ؒ سے نقل کرتے ہیں۔

وقد قيل في جَمَاعاتٍ: "ليس بالقويّ، واحتُجَّ به". وهذا النَّسائيُّ قد قال في عِدَّةٍ: "ليس بالقويّ"، ويُخرِجُ لهم في كتابه. قال: "قولُنا: (ليس بالقوي) ليس بجَرْحٍ مُفْسِد".
اور منهج النسائی فی الجرح و التعدیل
۱۸۳۳ میں ہے ۔

فأما كلمة : "ليس بالقوي" وما شابهها فإن أبا عبد الرحمن يستعملها غالباً في الصدوقين ومن دونهم من أهل العدالة

نوٹ ۔ شیخ البانیؒ نے سنن نسائی کی ان چاروں روایات کو صحیح کہا ہے ۔
مشاہ کے لئے مقدمہ تحقیق کاشف کی طرف اس لئے رجوع کرنے کا کہا کہ یہ ایک غیر معروف اصطلاح ہے ۔
بس یہ معلوم ہو جائے کہ یہ توثیق کی اصطلاح ہے ۔اگرچہ عبارت سے بھی محسوس ہو جاتا ہے ۔
ایک اور محقق ’’مشاہ‘‘ کی تشریح کس طرح کرتے ہیں۔
مشّاه :
يستعمل بعض النقاد كالذهبي عبارة (مشّى فلانٌ فلاناً) أو (مشّى أحاديثَه) ، بمعنى أنه قَبل ذلك الراوي أو كتب عنه أو عدَّله رغم ما فيه من كلام ،
لسان المحدثين
۵۔۱۱۴

اور کاشف کے محققین کی بھی عبارت میں یہ الفاظ ’’ غالب استعمالاته لهذه الكلمة‘‘قابل غور ہیں۔
انہوں نے ہر راوی کے بارے میں تتبع نہیں کیا ۔
اور مطلق توثیق تو میں نے بھی نہیں کہا۔ میں نے تو یہ لکھا تھا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک وہ مطلقاََ ضعیف نہیں۔ اور میں نے اسی جملہ کہ ’’مشاہ ان کی توثیق کی اصطلاح ہے ‘‘ سے قبل ہی لکھا ہے کہ توثیق غالب ہے ۔۔ ۔ اور مشاہ احمدؒ کے ساتھ ’’وغیرہ‘‘ بھی اس کی تائید میں ہے ۔ اور ضعفہ نسائی بھی بہت کمزور جرح ہے جیسا کہ گزرا۔


اور اس کے لئے ایک اور تائید یہ بھی ہےجس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا کہ مستدرک کی تلخیص میں انہوں نے تقریباََ ۷ مقامات پر اس کی حدیث کی تصحیح میں حاکم کی موافقت کی ہے
اس کے لئے ط العلمیۃ کے ان احادیث نمبرز پر دیکھیں۔

3838۔ 3874۔ 7026۔ 7732۔ 8288 ۔ 8506 ۔ 8574
بعض جگہوں پر سکوت بھی کیا ۔ جو کہ بعض کے نزدیک تصحیح ہی ہے ۔
صرف ۲ جگہوں پہ اس کی تضعیف ہے ۔
تو پھر توثیق ہی غالب ہوئی ۔
اور سیر اعلام النبلا میں بھی ان کی حدیث کو اسنادہ جید کہا۔
اور اس سب کے ساتھ ۔۔نتیجہ تو ان کا بھی مبہم راوی کے تعین کا وہی ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ایسی کمزور اور نادر الوجود روایات سے کسی دینی بات کا ثبوت اورکوئی عقیدہ نہیں بنایا جاسکتا ،

مسند احمد کے محقق علامہ شعیب ارناؤط اور انکے رفقاء نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ابدال کے موضوع پر ایک روایت کے ذیل میں لکھا ہے کہ :
قلنا: وأحاديث الأبدال التي رويت عن غير واحد من الصحابة، أسانيدها كلها ضعيفة لا ينتهض بها الاستدلال في مثل هذا المطلب‘‘
اورعلامہ شعیب ارناوط کہتے ہیں : ابدال کے وجود پر کئی ایک صحابہ سے روایات مروی تو ہیں ،لیکن ان میں سے کوئی بھی اس مطلب کی دلیل بننے کے لائق نہیں ۔۔سب ضعیف ہیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عاشقان تصوف نے ایسی روایات سے " عقائد کا ایک جہان " تعمیر کر رکھا ہے ،
اور کائنات کے امور نمٹانے کے مختلف محکمے بنا کر کچھ قطب ابدال افراد کو یہ محکمے سونپ رکھے ہیں ،
اور ان کو بشری کمزوریوں سے پاک اعلی درجہ کا منتظم جہاں منوانے پر کمر بستہ ہیں ،
درج ذیل فتوی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

’’
سوال # 41793
حضرت براہ کرم مجھے یہ بتائیے کہ قطب ابدال کے متعلق ہمارے علماء دیوبند کا کیا موقف ہے ؟
1۔کیا کتاب اللہ یا حدیث رسول سے یہ بات ثابت ہے ؟
2۔ اگر احادیث میں کہیں پر قطب و ابدال کا ذکر ملتا ہے تو ایسی احادیث کی صحت کیسی ہے ؟
3۔ کیا رسو ل اللہ نے کسی صحابی کے متعلق کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ فلاں صحابی قطب ہے یا فلاں صحابی ابدال ہے ؟
4۔کیا قطب و ابدال معصوم علی الخطاء ہوتے ہیں ؟ اگر یہ ہستیاں نظام عالم کو سنبھالے ہوئے ہیں اور بشریت کی بناء پر ان کے درمیان کسی معاملہ میں اختلاف ہو جائے تو کیا نظام عالم متاثر نہ ہو جائیگا ؟

Published on: Nov 14, 2012
جواب # 41793
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1626-594/L=12/1433

قطب ابدال کے متعلق علمائے دیوبند کا موقف یہ ہے کہ یہ اولیاء اللہ کے مختلف مراتب ہیں۔
(۱، ۲) ان کا ثبوت احادیث سے ہے، علامہ سیوطی نے تقریباً بیس کتب وروات سے ایسی حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ابدال وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے، اور تمام حدیثوں کو صحیح وحسن فرمایا ہے۔ (دلائل السلوک: ۹۳)
(۳) علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی میں حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے غلام کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ان سات میں سے ایک ہے۔ جن کے ذریعے اللہ تعالی زمین والوں کو محفوظ رکھتے ہیں (الحاوی للفتاوی: ۲/۲۴۹)
(۴) یہ ہستیاں معصوم عن الخطاء نہیں ہوتی ہیں البتہ اللہ تعالیٰ ان کو بشری کمزوریوں سے پاک کردیتے ہیں، عالم کی وجود وبقاء کے لیے جو امور من جانب اللہ ان کے سپرد ہوتے ہیں وہ اس کو بجالاتے ہیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کرتے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
میں ابدال وغیرہ کے موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔ میں صرف سنن ابی داود کی روایت کی تحقیق کی وجہ سے اس میں شامل ہوا ہوں ۔ دین کا کوئی عقیدہ یا عمل ابدال وغیرہ کو جاننے ماننے پر موقوف نہیں ۔۔اور صرف لفظ ابدال سے کیسے کوئی مرضی کا عقیدہ نکالا جا سکتا ہے ۔ جو بھی کرے گا غلط استدلال ہی کرے گا۔۔
مثال کے طور پہ اہل تصوف کے ہاں بعض اور مناصب بھی ہیں جن میں سے ایک صدیق بھی ہے ، اب ظاہر ہے یہ لفظ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ لیکن اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرے تو پھر کیا کیا جائے ؟۔
اس کے لئے پھر اصطلاح کو نہیں بلکہ غلط استدلال کو توڑنا چاہیے۔
اور آج کل کا بیشتر نام نہادتصوف جس میں باطنیت ، اور ہندوازم کے ایسے اجزا مکس ہو گئے ہیں کہ بہت غلط عقائد پیدا کر لئے گئے ہیں ۔ اور ہر دربار کا مجاور قطب ، غوث وقت ہونے کے مدعی ہے ۔ اور مریدین شرک میں مبتلا ہیں ۔ اور ایسے بعض کی مجالس میں صحابہ ؓ کے ذکر پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔لیکن کسی بڑے ولی اللہ کا نام آئے تو اونچے نعرے لگ جاتے ہیں ۔
اس لئے ایسے مسائل یا فتوی بتانے میں بھی احتیاط ضروری ہے جس سے جاہل عوام کے گمراہ ہونے کا خطرہ ہو۔ واللہ اعلم
 
Top