• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابلیس کا پڑپوتا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا

(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.

علامہ ابن اثیر رحمہ اسد الغابة میں اس روایت کو کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
وتركه أولى من إخراجه، وإنما أخرجناه اقتداء بهم، لئلا نترك ترجمة
یعنی اسکو ذکر کرنے سے بہتر اسکو ترک کر دینا بہتر ہے اور ہم نے اسکو باقی لوگوں کے ذکر کی وجہ سے اقتداءا اسکو ذکر کر دیا تاکہ اسکا ترجمہ نہ رہ جاۓ. انتہی.

ایک بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ کیسے پہونچ گۓ؟؟؟ حالانکہ وہ تو انصاری صحابی ہیں.

اس روایت کی سند میں تین مجہول الحال راوی ہیں:
(1) أبو العباس أحمد بن مُحَمَّد الرزاز
(2) أحمد بن الْحُسَيْن بن أحمد الْبَصْرِيّ
(3) الْحَسَن بن رضوان الشيباني

اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے. اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
إسناده غير ثابت ولا يرجع منه إلى صحة
(الضعفاء الكبير: 4/96)

امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روي بإسنادين كلاهما باطل
(ميزان الاعتدال: 3/599)

مزید لکھتے ہیں:
الحمل فيه على إسحاق بن بشر الكاهلي، لا بارك الله فيه
(ميزان الاعتدال: 1/186)

مزید امام ذہبی رحمہ اللہ ترتیب الموضوعات میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم
(ترتیب الموضوعات: 51)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري ضعيف جداً وقال العقيلي: ليس للحديث أصل
(لسان المیزان: 2/49)

مزید الاصابة میں لکھتے ہیں:
طريق أبي سلمة محمد بن عبد الله الأنصاري أحد الضعفاء
(الاصابة: 3/594)

ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے. (موضوعات ابن الجوزي: 1/333)

امام شوکانی اس روایت کو موضوع کہتے ہیں. (الفوائد المجموعة: 498)

اسکے علاوہ ابن کثیر، امام بیہقی، امام ابن قیم، ابن حبان، اور القاوقجی رحہم اللہ نے اس روایت پر کلام کیا ہے. کسی نے موضوع تو کسی نے منکر تو کسی نے کچھ اور کہا ہے.

خلاصہ کلام یہ ہیکہ یہ روایت جتنی بھی سندوں سے آئ ہے سب پر کلام ہے. لہذا اسکی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز اور درست نہیں چہ جائیکہ اس سے عقیدہ ثابت کیا جاۓ. کچھ لوگ اس حدیث سے عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب.

غلطی کی صورت میں نشاندہی کریں.
ربنا لا تؤاخذنا ان نسينا أو أخطأنا.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا

(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.

علامہ ابن اثیر رحمہ اسد الغابة میں اس روایت کو کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
وتركه أولى من إخراجه، وإنما أخرجناه اقتداء بهم، لئلا نترك ترجمة
یعنی اسکو ذکر کرنے سے بہتر اسکو ترک کر دینا بہتر ہے اور ہم نے اسکو باقی لوگوں کے ذکر کی وجہ سے اقتداءا اسکو ذکر کر دیا تاکہ اسکا ترجمہ نہ رہ جاۓ. انتہی.

ایک بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ کیسے پہونچ گۓ؟؟؟ حالانکہ وہ تو انصاری صحابی ہیں.

اس روایت کی سند میں تین مجہول الحال راوی ہیں:
(1) أبو العباس أحمد بن مُحَمَّد الرزاز
(2) أحمد بن الْحُسَيْن بن أحمد الْبَصْرِيّ
(3) الْحَسَن بن رضوان الشيباني

اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے. اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
إسناده غير ثابت ولا يرجع منه إلى صحة
(الضعفاء الكبير: 4/96)

امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روي بإسنادين كلاهما باطل
(ميزان الاعتدال: 3/599)

مزید لکھتے ہیں:
الحمل فيه على إسحاق بن بشر الكاهلي، لا بارك الله فيه
(ميزان الاعتدال: 1/186)

مزید امام ذہبی رحمہ اللہ ترتیب الموضوعات میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم
(ترتیب الموضوعات: 51)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري ضعيف جداً وقال العقيلي: ليس للحديث أصل
(لسان المیزان: 2/49)

مزید الاصابة میں لکھتے ہیں:
طريق أبي سلمة محمد بن عبد الله الأنصاري أحد الضعفاء
(الاصابة: 3/594)

ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے. (موضوعات ابن الجوزي: 1/333)

امام شوکانی اس روایت کو موضوع کہتے ہیں. (الفوائد المجموعة: 498)

اسکے علاوہ ابن کثیر، امام بیہقی، امام ابن قیم، ابن حبان، اور القاوقجی رحہم اللہ نے اس روایت پر کلام کیا ہے. کسی نے موضوع تو کسی نے منکر تو کسی نے کچھ اور کہا ہے.

خلاصہ کلام یہ ہیکہ یہ روایت جتنی بھی سندوں سے آئ ہے سب پر کلام ہے. لہذا اسکی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز اور درست نہیں چہ جائیکہ اس سے عقیدہ ثابت کیا جاۓ. کچھ لوگ اس حدیث سے عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب.

غلطی کی صورت میں نشاندہی کریں.
ربنا لا تؤاخذنا ان نسينا أو أخطأنا.
جزاک اللہ خیرا عمر بهائی اور آپ کی دعاء پر عمیق قلب سے آمین۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے اور خدمت دین کا حصہ بنائے اور ہر شر سے محفوظ رکهے ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا عمر بهائی اور آپ کی دعاء پر عمیق قلب سے آمین۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے اور خدمت دین کا حصہ بنائے اور ہر شر سے محفوظ رکهے ۔
وانت فجزاک اللہ خیرا یا اخی الکریم!
آمین ثم آمین.
تقبل یا رب العالمین.

بارک اللہ فیک
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
جزاک اللہ خیرا۔
بہت حیرت انگیز واقعہ ہے ۔
لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس سے کیا عقیدہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں ایسی کون سی بات ہے ؟
ان ائمہ کا کلام عموماََ دو احادیث کے طرق پر ہے ۔ جن میں ایک حدیث انسؓ ، اور ایک حدیث عمرؓ ہے ۔
حضرت انسؓ کی حدیث میں أبو سلمة الأنصاري پر مدار ہے ۔
اور حضرت عمرؓ کی حدیث میں إسحاق بن بشر الكاهلي پر شدید کلام ہے ۔
جن کی وجہ سے اوپر جو آپ نے ائمہ کا کلام نقل کیا وہ انہی کی وجہ سے ہے ۔۔جیسا کہ آپ نے نقل بھی کیا۔
لیکن امام بیہقیؒ نے ایک طریق ذکر کیا ہے جیسا کہ حافظؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ۔۔۔۔وہ باقیوں کی نسبت اچھا ہے ۔اور اس میں ایسا راوی نہیں ہے جس سے روایت موضوع ہو ۔اس کا دارومدار ابومعشرؒ پر ہے جو ضعیف تو ہیں ۔لیکن بعض ائمہ نے ان کی توثیق بھی کی ہے ۔۔۔البتہ مغازی کے وہ امام ہیں۔ اور یہ روایت سیر کے باب میں ہی ہے ۔۔
اور یہ طریق حضرت عمرؓ کی حدیث کا ہے ۔۔۔یعنی اس میں ابو معشرؒ کے بیٹے محمدؒ جو صدوق ہیں انہوں نے اسحاق بن بشر کاہلی متہم بالوضع کی متابعت کی ہے ۔
اور ان ائمہ نے اس کی ذمہ داری بھی اسحاق پہ ڈالی ہے ۔کسی نے غالباََ ابو معشر ؒ پر کلام نہیں کیا۔۔۔
کیونکہ بعض کے پیش نظر بیہقیؒ کی سند نہیں ہے ۔
البتہ حافظ ابن حجرؒ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔
اورابن کثیرؒ کے پیش نظر بھی بیہقیؒ کا طریق ہے ۔۔اور ان کواس کا متن منکر بلکہ موضوع بھی لگتا ہے ۔
متن اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سند کےبارے میں وہ بھی یہی فرماتے ہیں اس کا مخرج عزیز ہے ۔ان کا کلام یہ ہے ۔
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا ولكن مخرجه عزيز أحببنا أن نورده كما أورده والعجب منه فإنه قال في كتابه دلائل النبوة۔۔۔​

اس کے طرق پر حافظ نے اصابہ میں اشارہ کیا ہے ۔اور ذیل موضوعات میں سیوطیؒ نے اور توسع سے تخریج کی ہے ۔
ایسی روایت سیر و غیرہ میں تو قابل قبول ہی نظر آتی ہے ۔ مجھے تو نہیں نظر آتا کہ اس سے کوئ باطل عقیدہ نکالا جاسکتا ہے ۔
واللہ اعلم۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا۔
وأنت فجزاك الله خيراً
لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس سے کیا عقیدہ اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں ایسی کون سی بات ہے ؟
مجھے تو نہیں نظر آتا کہ اس سے کوئ باطل عقیدہ نکالا جاسکتا ہے ۔
فی الحال اس ویڈیو سے کام چلائیں:
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
وہ باقیوں کی نسبت اچھا ہے
یہ آپ کہ رہے ہیں؟؟؟ یا حافظ رحمہ اللہ کا قول نقل کر رہے ہیں؟؟؟
اور ان ائمہ نے اس کی ذمہ داری بھی اسحاق پہ ڈالی ہے ۔کسی نے غالباََ ابو معشر ؒ پر کلام نہیں کیا۔۔۔
کیونکہ بعض کے پیش نظر بیہقیؒ کی سند نہیں ہے ۔
البتہ حافظ ابن حجرؒ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔
اسکی وضاحت کر دیں.
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا ولكن مخرجه عزيز أحببنا أن نورده كما أورده والعجب منه فإنه قال في كتابه دلائل النبوة۔۔۔
اسکا ترجم کر دیں.

جزاک اللہ خیرا.
بارک اللہ فی علمک
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
یہ روایت ایسی نہیں ہے کہ اس سے کسی عقیدہ پر استدلال کیا جاسکے ۔۔
بہرحال اس وڈیو کو میں نے سنا ہے ۔ اس میں روایت بیان کرنے کے علاوہ دو باتیں ایسی ہیں جو خطیب صاحب نے بیچ میں خطیبانہ طرز میں اپنی طرف سے بیان کی ہیں ۔
ایک یہ کہ جن کی بولی حضورﷺ جانتے ہیں ۔تو پھر اردو بھی جانتے ہیں ، انگلش بھی جانتے ہیں ۔۔۔سب کی بولی جانتے ہیں۔۔تم دل سے پکارو۔۔۔۔
اب اس بات کا اس روایت سے کیا استدلال ۔۔۔۔یہ تو خطیب صاحب کا مخصوص طرز ہے ۔ جنات سے کلام تو قرآن و حدیث سے صراحتاََ ثابت ہے ۔۔۔باقی باتیں خطیب صاحب کی اپنی ہیں ۔۔۔روایت میں تو نہیں ہیں ۔
یا دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پہ
یہ کہا کہ ۔۔۔۔
لوگ کہتے ہیں نبیوں کو مستقبل کا علم نہیں ہوتا ۔ وہ نہیں جانتے کون کب تک زندہ رہے گا۔
حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے بعد نبیوں کا سردار آئے گا۔
عیسیٰ ؑ کے علم کا یہ عالم ہے تو ہمارے نبی ؑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اگر مستقبل کے علم پر استدلال کرنا ہے تو یہ جملے اس روایت میں کہاں ہیں کہ میرےبعد نبیوں کا سردار آئے گا۔۔یہ غالباََ تورات کی پیش گوئی کا جملہ خطیب صاحب نے بول دیا ہے ۔
اور اس سے مستقبل کے علم ہونے کا استدلال اگر ہوسکتا ہے تو یہ تو قرآن مجید میں بھی ان کی پیش گوئی آئی ہے ۔
دراصل خطیب صاحب انباء الغیب کو علم غیب سے مکس کر رہے ہیں ۔
یہ مشہور مسئلہ ہے اور اس پہ ۱۰۰ سال گزر چکے بحث ہوتے ۔
لیکن روایت میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے اس بات پہ استدلال ہوسکے ۔
بلکہ اس روایت میں تو یہ بھی ہے کہ ’’اگر تمہاری ملاقات ان سے ہو۔۔۔‘‘یعنی ان کو جن کے زندہ رہنے کا معلوم نہیں ہے ۔
اور کوئی بات ہو جس کی طرف میری توجہ نہیں جاسکی تو آگاہ کریں۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
وہ باقیوں کی نسبت اچھا ہے
یہ آپ کہ رہے ہیں؟؟؟ یا حافظ رحمہ اللہ کا قول نقل کر رہے ہیں؟؟؟
یہ اگرچہ میرے ہی الفاظ ہیں ۔ لیکن الذہبیؒ ، ابن حجرؒ (لسان میں)، السیوطیؒ نے بھی یہ لکھا ہے ۔
وهذا الحديث قد رواه البيهقي بإسناد أصلح من هذا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان ائمہ نے اس کی ذمہ داری بھی اسحاق پہ ڈالی ہے ۔کسی نے غالباََ ابو معشر ؒ پر کلام نہیں کیا۔۔۔
کیونکہ بعض کے پیش نظر بیہقیؒ کی سند نہیں ہے ۔
البتہ حافظ ابن حجرؒ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔

اسکی وضاحت کر دیں.
اس کی وضاحت کے لئے پہلے ان ائمہ کا کلام ملاحظہ کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
العقیلیؒ۔ الضعفاء ۱۔۹۸
ترجمہ ۔
إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ الْكَاهِلِيُّ
حدثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حدثنا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ الْكَاهِلِيُّ، قَالَ: حدثنا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ
وَلَا يَحْتَمِلُ أَبُو مَعْشَرٍ مِثْلَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ لِينٌ. وَالْحَمْلُ فِيهِ عَلَى إِسْحَاقَ
اور ۴۔۹۶ پہ
ترجمہ۔
مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ حَمَّادٍ الْبَرْبَرِيُّ،: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ النَّطَّاحِ،: حدثنا أَبُو سَلَمَةَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ,: حدثنا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ
إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ الْكَاهِلِيُّ , عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكِلَا هَذَيْنِ الْإِسْنَادَيْنِ غَيْرُ ثَابِتٍ، وَلَا يَرْجِعُ مِنْهُمَا إِلَى صِحَّةٍ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن حبانؒ ۔ مجروحین ۱۔۱۳۵،۱۳۶
ترجمہ۔
إِسْحَاق بْن بشر الْكَاهِلِي
رَوَى عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ بن عُمَرَ عَنْ عُمَرَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن جوزیؒ۔ الموضوعات ۲۰۷۔۱

حَدِيث هَامة بن الهيم أَنبأَنَا عبد الْوَهَّاب بن الْمُبَارك قَالَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ بْنِ بَكْرَانَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَتِيقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يُوسُف بن الدخيل قَالَ حَدثنَا أَبُو جَعْفَر الْعقيلِيّ قَالَ حَدثنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ الْكَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ الْعُقَيْلِيُّ: وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ حَمَّادٍ الْبَرْبَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن صَالح ابْن النَّطَّاحِ قَالَ حَدَّثَنَا
أَبُو سَلَمَةَ مُحَمَّد بن عبد الله الأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ أَنَسٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ " وَذَكَرَ نَحْوًا مِنَ الَّذِي قَبْلَهُ.
أَنْبَأَنَا ابْنُ نَاصِرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو طَالِبٍ الْعُشَارِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَخِي مِيمِي قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ صَفْوَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الدُّنْيَا قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا
أَبُو سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ أَنَسٍ وَذَكَرَ نَحْوًا مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ.
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع لَا يشك فِيهِ.
فَأَما
طَرِيق ابْن عمر فالحمل فِيهِ عَلَيْهِ إِسْحَاق بن بشر كَذَلِك قَالَ الْعقيلِيّ، وَقد اتَّفقُوا على أَنه كَانَ كذابا يضع الحَدِيث.
وَأما
طَرِيق أنس فالحمل فِيهِ على مُحَمَّد بن عبد الله الانصاري.
ابْن حبَان: يرْوى عَن الثقاة مَا لَيْسَ مِنْ حَدِيثِهِمْ، لَا يحوز الِاحْتِجَاج.
بِهِ قَالَ الْعقيلِيّ: مُحَمَّد بن عبد الله عَن مَالك بن دِينَار مُنكر الحَدِيث.
قَالَ: و
كلاهذين الإسنادين غير ثَابت وَلَا يرجع مِنْهُمَا إِلَى صِحَة وَلَيْسَ للْحَدِيث أصل.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذہبیؒ ، میزان الاعتدال ۳۔۵۹۸

ترجمہ۔
محمد بن عبد الله الأنصاري، أبو سلمة
وقال العقيلي: حدثنا محمد بن موسى البربري، حدثنا محمد بن صالح بن النطاح، حدثنا أبو سلمة محمد بن عبد الله، حدثنا مالك بن دينار، عن أنس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وروى نحوه إسحاق بن بشر الكاهلى - وهو متهم به - عن أبي معشر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر - وهو باطل بالإسنادين.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ج۱ص ۱۸۷
ترجمہ ۔ اسحاق الکاہلی

لاأعلم له أشنع من الحديث الذي رواه العقيلي: حدثنا علي بن عبد العزيز، حدثنا إسحاق بن بشر الكاهلي، حدثنا أبو معشر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والحمل فيه على الكاهلي، لا بارك الله فيه، مع أن عبد العزيز بن بحر أحد المتروكين قد رواه بطوله عن أبي معشر.
وهذا الحديث قد رواه البيهقي بإسناد أصلح من هذا، فقال: حدثنا محمد بن الحسن بن داود العلوي، حدثنا أبو نصر محمد بن حمدويه المروزى، حدثنا عبد الله ابن محمد الآملي، حدثنا محمد بن أبي معشر، أخبرني أبي فذكره، ولم يطوله

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن حجر العسقلانیؒ ۔ لسان المیزان ۱۔۳۵۷

ترجمہ۔ اسحاق الکاہلی
ذہبیؒ کی عبارت پوری نقل کی ہے ۔

اس کے بعد حافظؒ فرماتے ہیں۔
وحديث هامة إذا كان محمد بن أبي معشر وغيره قد
تابع الكاهلي عليه فكيف يكون الحمل فيه علي الكاهلي
فالحمل فيه حينئذ على أبي معشر
وقد أخرج العقيلي للحديث طريقا آخر من رواية محمد بن صالح بن النطاح ثنا أبو سلمة محمد بن عبد الله الأنصاري ثنا مالك بن دينار عن أنس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وذكر نحو الأول وكذا أخرجه بن أبي الدنيا عن ابن النطاح وأبو سلمة ضعيف جدا سيأتي ذكره قال العقيلي كلا هذين الإسنادين غير ثابت ولا يرجع منهما إلى صحة وليس للحديث أصل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اصابہ ۶۔۴۰۷ میں پورا ترجمہ لکھا ہے ۔
هامة بن الهيم
بن لا قيس بن إبليس «1» .
ذكره جعفر المستغفريّ في «الصّحابة» ، وقال: لا يثبت إسناد خبره. وأخرج عبد اللَّه بن أحمد في زيادات الزهد، والعقيلي في الضّعفاء، وابن مردويه في التفسير،
من طريق
أبي سلمة محمد بن عبد اللَّه الأنصاريّ أحد الضّعفاء، عن مالك بن دينار، عن أنس بن مالك، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقد أخرج أبو موسى في- الذّيل- طرقا أخرى.
وأخرجه أبو علي بن الأشعث- أحد المتروكين في كتاب السّنن له من هذا الوجه،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وأخرجه من طريق أبي معشر، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر بنحوه.
والرّاوي عن أبي معشر متروك، وهو إسحاق بن بشر الكاهليّ، وهو عند العقيلي في الضّعفاء، وفي الطيوريات انتخاب السلفي من روايات المبارك بن عبد الجبّار الصّيرفيّ من هذا الوجه.
قال العقيليّ: ليس له أصل،
ولا يحتمل أبو معشر هذا، والحمل فيه على إسحاق.
قال ابن عساكر: قد تابع إسحاق بن بشير عن أبي معشر محمد بن أبي معشر، عن أبيه،
أخرجه البيهقيّ في الشّعب،
وأخرجه جعفر المستغفريّ، وإسحاق بن إبراهيم المنجنيقيّ من طريق أبي محصن الحكم بن عمار، عن الزّهري، عن سعيد بن المسيّب، قال: قال عمر
... فذكره مطولا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وله طريق أخرى، من رواية عبد الحميد بن عمر الجندي، عن شبل بن الحجاج، عن طاوس، عن ابن عبّاس، عن عمر- بطوله.
وأخرجه الفاكهيّ في «كتاب مكّة» ، من طريق عزيز الجريجيّ، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفي كتاب السّنن لأبي علي بن الأشعث- أحد المتروكين- من حديث عائشة- أن النبيّ صلّى اللَّه عليه وآله وسلّم قال: «إنّ هامة بن هيم بن لاقيس في الجنّة»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابن قیمؒ المنار المنیف

وَمِنْهَا: 12- أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ مِمَّا تَقُومُ الشَّوَاهِدُ الصَّحِيحَةُ عَلَى بِطْلانِهِ
وَمِنْ هَذَا حَدِيثِ هَامَةَ بْنِ الْهَيْمِ بن لا قيس بْنِ إِبْلِيسَ الْحَدِيثُ الطَّوِيلُ وَنَحْوُهُ.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوکانیؒ ۔ فوائد المجموعہ ۱۔۴۹۸

رَوَاهُ الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عمر مرفوعًا، وهو موضوع، وفي إسناده: إسحاق ابن بشر الكاهلي: وضاع بالاتفاق.
وقال العقيلي: ليس للحديث أصل.
وقال في الميزان: هو باطل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحب تنزیہ الشریعہ ۱۔۲۳۹ نے تعقب میں یہ کلام کیا ہے ۔

(تعقب) بِأَن الْكَاهِلِي قد تَابعه مُحَمَّد بن أبي معشر نَحوه رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي الدَّلَائِل وَقَالَ عقب إِخْرَاجه: أَبُو معشر. روى عَنهُ الْكِبَار إِلَّا أَن أهل الحَدِيث ضَعَّفُوهُ، قَالَ: وَقد روى من وَجه آخر هَذَا أقوى مِنْهُ
وَجَاء أَيْضا من حَدِيث عمر أخرجه أَبُو نعيم فِي الدَّلَائِل من طَرِيق عَطاء الْخُرَاسَانِي عَن ابْن عَبَّاس عَن عمر،
وَأخرجه الفاكهي فِي أَخْبَار مَكَّة عَن ابْن عَبَّاس لم يذكر عمر
وَأخرجه أَبُو جَعْفَر المستغفري فِي الصَّحَابَة عَن سعيد ابْن الْمسيب، قَالَ قَالَ عمر،
وَلِحَدِيث أنس طَرِيق ثَان لَيْسَ فِيهِ أَبُو سَلمَة الْأنْصَارِيّ أخرجه أَبُو نعيم فِي الدَّلَائِل،
وَجَاء عَن عَائِشَة مَرْفُوعا: " إِن هَامة بن هيم بن لاقيس فِي الْجنَّة " أخرجه عَليّ بن الْأَشْعَث أحد المتروكين المتهمين فِي كتاب السّنَن.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السیوطیؒ ۔ اللآلی المصنوعۃ ۱۔۱۶۱

انہوں نے ابن الجوزیؒ ، میزان ، لسان ، اصابہ وغیرہ سے سب کا کلام نقل کیا ہے ۔

اور ایک اور طریق کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
وَقَالَ ابْن عَسَاكِر فِي تَارِيخه نقلت من خطّ تَمَّام بن مُحَمَّد أَنْبَأنَا أَبُو الْحَسَن عَلِيّ بْن الْحَسَن عَن علام الحوراني الْحَافِظ أَنْبَأنَا أَبُو عرُوبَة حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن وهب حَدثنَا أصبغ بن عُثْمَان الْبَابلُتِّي حَدثنَا عَبدة بْن عَبْد القدوس الدِّمَشْقِي عَن أنس بْن أَبِي اللَّيْث أَن رَسُول الله كَانَ فِي بعض جبال مَكَّة أتاهُ شيخ فَذكر حَدِيث هَامة بْن الهيم كَذَا قَالَ وَالله أعلم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان حفاظ کے کلام کے بعد آپ دیکھیں کہ العقیلیؒ ، ابن حبانؒ ، ابن الجوزیؒ ، الشوکانیؒ کے سامنے بیہقی ؒ کا طریق نہیں ہے ۔ اسی لئے انہوں نے
وَالْحَمْلُ فِيهِ عَلَى إِسْحَاقَ الكاهلي
اور
۔۔۔۔۔
طَرِيق أنس فالحمل فِيهِ على مُحَمَّد بن عبد الله الانصاري۔۔
یہ کہہ کر ان دونوں راویوں پر ذمہ داری ڈالی ہے ۔ بلکہ العقیلیؒ نے تو یہ تک لکھا ہے ۔
وَلَا يَحْتَمِلُ أَبُو مَعْشَرٍ مِثْلَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ لِينٌ. وَالْحَمْلُ فِيهِ عَلَى إِسْحَاقَ

اور اس کا قرینہ یہ بھی ہے ان سب نے یہ سارا کلام انہی دونوں کے ترجمہ میں ہی کیا ہے ۔
حافظ ابن قیمؒ کا کلام بہت مختصر ہے اس پر تبصرہ ممکن نہیں ۔ لیکن ان کا بھی وہی نظریہ معلوم ہوتا ہے جو ابن کثیرؒ کا ہے کہ اس روایت کا متن منکر اور عجیب ہے ۔واللہ اعلم

البتہ ذہبیؒ ، ابن حجرؒ ، سیوطیؒ ، ابن عراقؒ ، ابن عساکرؒ کے پیش نظر بیہقیؒ کا طریق ہے ۔ اسی لئے حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا۔
محمد بن أبي معشر وغيره قد
تابع الكاهلي عليه فكيف يكون الحمل فيه علي الكاهلي
فالحمل فيه حينئذ على أبي معشر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا ولكن مخرجه عزيز أحببنا أن نورده كما أورده والعجب منه فإنه قال في كتابه دلائل النبوة۔۔۔
اسکا ترجم کر دیں.
اس کا حاصل میں نے لکھ دیا تھا ۔ لیکن پھر بھی البدایۃ مترجم سے اس کا ترجمہ بتغیر یسیر لکھتا ہوں۔
وَقَدْ أَوْرَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ هَاهُنَا حَدِيثًا غَرِيبًا جِدًّا بَلْ مُنْكَرًا أَوْ مَوْضُوعًا، وَلَكِنَّ مَخْرَجَهُ عَزِيزٌ أَحْبَبْنَا أَنْ نُورِدَهُ كَمَا أَوْرَدَهُ، وَالْعَجَبُ مِنْهُ ; فَإِنَّهُ قَالَ فِي كِتَابِهِ " دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ ": بَابُ قُدُومِ هَامَةَ بْنِ هَيْمِ بْنِ لَاقِيسَ بْنِ إِبْلِيسَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِسْلَامِهِ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثُمَّ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ: أَبُو مَعْشَرٍ قَدْ رَوَى عَنْهُ الْكِبَارُ، إِلَّا أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ يُضَعِّفُونَهُ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ هُوَ أَقْوَى مِنْهُ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
’’ اور اس موقع پر حافظ بیہقیؒ نے ایک نہایت غریب بلکہ منکر یاموضوع حدیث بیان کی ہے ۔ لیکن اس کا مخرج عزیز ہے ۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہم اسے اسی طرح بیان کریں جیسے حافظ بیہقیؒ نے اسے بیان کیا ہے ۔ اور قابل تعجب بات یہ ہے کہ وہ دلائل النبوۃ میں هامة بن هيم بن لاقيس بن إبليس کے نبیﷺ کے پاس آنے اور اسلام لانے کے باب میں بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر بیہقیؒ بیان کرتے ہیں کہ ابو معشر سے کبار نے روایت کیا ہے ۔ مگر محدثین ان کی تضعیف کرتے ہیں اور یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی مروی ہے جو اس سےزیادہ قوی ہے ۔ واللہ اعلم
البدایہ والنہایۃ ۔(اردوترجمہ ۔نفیس اکیڈمی) ۔ج ۵۔ص۱۴۰۔باب ۔۔جنات کے وفد
جزاک اللہ خیرا.
بارک اللہ فی علمک
آمین۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ اگرچہ میرے ہی الفاظ ہیں ۔ لیکن الذہبیؒ ، ابن حجرؒ (لسان میں)، السیوطیؒ نے بھی یہ لکھا ہے ۔
وهذا الحديث قد رواه البيهقي بإسناد أصلح من هذا
محترم!
اصلح من ھذا کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ سند صحیح ہی ہو. اسکی مثال آپکو ترمذی میں بہت ساری مل جائیں گی. کئ بار اصح کہنے کے باوجود حدیث ضعیف ہوتی ہے. ترمذی کی مثال اس وجہ سے دی کہ فی الحال وہی ذہن میں ہے.
وَقَدْ أَوْرَدَ الْحَافِظُ أَبُو بَكْرٍ الْبَيْهَقِيُّ هَاهُنَا حَدِيثًا غَرِيبًا جِدًّا بَلْ مُنْكَرًا أَوْ مَوْضُوعًا، وَلَكِنَّ مَخْرَجَهُ عَزِيزٌ أَحْبَبْنَا أَنْ نُورِدَهُ كَمَا أَوْرَدَهُ، وَالْعَجَبُ مِنْهُ ; فَإِنَّهُ قَالَ فِي كِتَابِهِ " دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ ":
حافظ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر کلام کیا اور اسکو موضوع تک کہ دیا تو مخرجہ عزیز کا کیا مطلب؟؟؟
آپ کہ رہے ہیں کہ حافظ رحمہ اللہ نے اسکے متن کے بارے میں کلام کیا ہے جیسا کہ آپ نے کہا:
اور ان کواس کا متن منکر بلکہ موضوع بھی لگتا ہے ۔
لیکن محترم جب سند صحیح ہے تو حدیث کو موضوع ومنکر کہنا؟؟؟ بات سمجھ میں نہیں آئ.
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
محترم!
اصلح من ھذا کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ سند صحیح ہی ہو. ۔۔۔۔۔. کئ بار اصح کہنے کے باوجود حدیث ضعیف ہوتی ہے. ۔۔۔۔
عمر بھائی ۔ میں نے بھی اتنے جزم سے صحیح نہیں کہا ۔
بلکہ میں تو یہ کہا۔۔۔
امام بیہقیؒ نے ایک طریق ذکر کیا ہے جیسا کہ حافظؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ۔۔۔۔وہ باقیوں کی نسبت اچھا ہے ۔اور اس میں ایسا راوی نہیں ہے جس سے روایت موضوع ہو ۔
اس کا دارومدار ابومعشرؒ پر ہے جو ضعیف تو ہیں ۔لیکن بعض ائمہ نے ان کی توثیق بھی کی ہے ۔۔۔البتہ مغازی کے وہ امام ہیں۔ اور یہ روایت سیر کے باب میں ہی ہے ۔۔
اور۔۔۔۔ یہ روایت ایسی نہیں ہے کہ اس سے کسی عقیدہ پر استدلال کیا جاسکے
اور۔۔۔۔ایسی روایت سیر و غیرہ میں تو قابل قبول ہی نظر آتی ہے۔۔۔
اور امام بیہقیؒ کا بھی یہی نظریہ ظاہر ہوتا ہے ۔

قُلْتُ أَبُو مَعْشَرٍ الْمَدَنِيُّ قَدْ رَوَى عَنْهُ الْكِبَارُ إِلَّا أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ يُضَعِّفُونَهُ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَقْوَى مِنْهُ وَاللهُ اعلم

کسی بھی حدیث کی تخریج اور طرق جب اسلاف کے کلام میں آ جائے ۔اور مسئلہ اختلافی یا فروعی نہ ہو۔۔تو پھر میں اس کے رجال کو خود سے زیادہ نہیں دیکھتا ۔میرا نظریہ حافظ بیہقیؒ حافظ ابن حجرؒ اور حافظ سیوطیؒ کی عبارات سے حاصل شدہ نتیجہ ہے

حافظ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر کلام کیا اور اسکو موضوع تک کہ دیا تو مخرجہ عزیز کا کیا مطلب؟؟؟
آپ کہ رہے ہیں کہ حافظ رحمہ اللہ نے اسکے متن کے بارے میں کلام کیا ہے جیسا کہ آپ نے کہا:
پہلے مجھے لگا کہ یہ عام الفاظ ہیں ۔ لیکن میرا خیال ہے یہ ’’عزیز‘‘ اصول حدیث کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں ۔
عزیز۔اصول حدیث کی ایک اصطلاح ہے ۔جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ وہ حدیث جس کے ہر طبقہ میں کم از کم ۲ یا زیادہ راوی ضرور ہوں ۔ دو سے کم نہ ہوں ۔ کتب اصول میں ، مشہور ،عزیز ، غریب کا عموماََ تزکرہ ایک ساتھ ہوتا ہے ۔

روى عنهم رجلان وثلاثة واشتركوا في حديث سمي عزيزاً
العزيز: ما رواه اثنان فقط.
مثاله : قوله صلّى الله عليه وسلّم: "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين
" والغريب۔۔ما رواه واحد فقط. :.
مثاله : قوله صلّى الله عليه وسلّم: "إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى

حدیث کے راویوں کا صحیح یا ضعیف ہونا اصطلاح عزیز پر اگرچہ موقوف نہیں ۔ لیکن اگر روایت کے ہر طبقہ میں ۲ یا ۲ سے زیادہ راوی ہوں اور موضوع نہ ہو تو اس کو بہر حال کچھ تو تقویت ملے گی ہی ۔
اس کے لئے اصول حدیث میں ’’عزیز‘‘ کا مطلب بتانے کے لئے قرآن مجید سے استدلال جو کیا جاتا ہے ۔

’’ فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ ‘‘۔سورۃ یٰس ۔
اس سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔
اگرچہ آج کل بعض بھائیوں کی رائے اس طرف مائل نظر آتی ہے کہ ضعیف کو ضعیف سے کوئی تقویت نہیں ملتی ۔
لیکن ائمہ کے کلام میں ’’ يشد بعضه بعضا ‘‘ کے الفاظ اکثر ملتے ہیں ۔
بلکہ یہ الفاظ بھی ایک حدیث مبارکہ سے ماخوذ ہیں ۔
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا ثم شبك بين أصابعه . متفق عليه . ( متفق عليه )
" نبی کریمﷺ نے فرمایا۔۔ مسلمان، مسلمان کے لئے ایک مکان کے مانند ہے۔۔جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے یہ کہہ کر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔ (بخاری ومسلم)

بہرحال اس روایت کے چونکہ ہر طبقہ میں دو یا تین راوی ہیں ، اس لئے ابن کثیرؒ نے جزم سے موضوع نہیں کہا۔ ان کو تردد ہے ۔۔۔ اور بیہقیؒ کی روایت نقل کر کے پھر کوئی مزید تنقید بھی نہیں کی ۔ یعنی واضح نہیں کیا کہ اس میں کیا مسئلہ ہے ۔۔
لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ روایت بہت عجیب وغریب واقعہ پر مشتمل ہے ۔ جیسے ابن قیمؒ نے ’’ أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ مِمَّا تَقُومُ الشَّوَاهِدُ الصَّحِيحَةُ عَلَى بِطْلانِهِ ‘‘ کے باب میں اس روایت کو نقل کیا ہے ۔

مثال کے طور پہ اگر کہیں سے یہ ثابت ہو جائے کہ ۔۔جن۔۔ کی اتنی عمر نہیں ہو سکتی ۔۔۔یاخاص ابلیس کی اولاد میں کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ یہ میں ان کے کلام کی توجیح کے لئے باتیں فرضاََ کہہ رہا ہوں ۔۔۔ اس لئے شاید متن کا کوئی حصہ ہو جو ان کے نزدیک اصول سے ٹکراتا ہو ۔
لیکن محترم جب سند صحیح ہے تو حدیث کو موضوع ومنکر کہنا؟؟؟ بات سمجھ میں نہیں آئ.
اس روایت سے قطع نظر یہ بات کہ ۔۔۔۔سند صحیح یا ضعیف ہونا متن کے صحیح یا ضعیف ہونے کو مستلزم ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔علم حدیث کا دقیق پہلو ہے یہ وہ پہلو ہے جس میں علم حدیث کے ساتھ شب و روز مشغول رہنے والے محدثین ہی کلام کرتے ہیں جو اساتذہ حدیث کی صحبت میں بیٹھ کر ہی حاصل ہوتی ہے ۔ علم حدیث سے اشتغال کے بعد ہی محدث مزاج رسولﷺ سے آگاہ ہوجاتے ہیں کہ یہ الفاظ معصومﷺ کے الفاظ ہو بھی سکتے ہیں کہ نہیں ۔ اس کی بہت سی مثالیں ہوسکتی ہیں ۔لیکن اس روایت سے قطع نظر آپ مطلق اس بارے میں یہ سوال اپنے حدیث کے استاذ سے ہی پوچھیں ۔وہی آپ کو بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں ۔ اور اس بارے میں اپنا شیئر کیا ہوا بہت مفید مضمون بھی ذہن میں رکھیے گا۔ڈیجیٹل علماء والا۔
دور حاضر کے محققین کتب کی جہود سے انکار نہیں ۔ لیکن یہ چیز ائمہ سلف و خلف محدثین کو ممتازکرتی ہے ۔
ہم ان کے جملوں سے قواعد بناتے ہیں ۔ لیکن بعض جگہہ ہم دیکھتے ہیں وہ قواعد کی پابندی نہیں کرتے ۔ آج ہم صحیحین کے عنعنوں تک کے جواب دینے لگتے ہیں ۔ اگر یہ بات ہوتی تو پھر امام بخاریؒ وامام مسلمؒ کی ضرورت ہی کیا تھی۔
حالانکہ قاعدہ ہی اصل ہو تو محدث کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ آج کل تو سوفٹ ویر کا دور ہے کمپیوٹر میں قاعدہ فیڈ کردیں تو احادیث کے حکم سامنے آجائیں گے ۔
لیکن محدثین قواعد کی بھی پابندی کرتے ہیں لیکن ان کی نظر کئ پہلووں پر ہوتی ہے ۔ کئی پہلووں پر ان کی اجتہادی نگاہ ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم
 
Top