عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا
(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.
علامہ ابن اثیر رحمہ اسد الغابة میں اس روایت کو کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
وتركه أولى من إخراجه، وإنما أخرجناه اقتداء بهم، لئلا نترك ترجمة
یعنی اسکو ذکر کرنے سے بہتر اسکو ترک کر دینا بہتر ہے اور ہم نے اسکو باقی لوگوں کے ذکر کی وجہ سے اقتداءا اسکو ذکر کر دیا تاکہ اسکا ترجمہ نہ رہ جاۓ. انتہی.
ایک بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ کیسے پہونچ گۓ؟؟؟ حالانکہ وہ تو انصاری صحابی ہیں.
اس روایت کی سند میں تین مجہول الحال راوی ہیں:
(1) أبو العباس أحمد بن مُحَمَّد الرزاز
(2) أحمد بن الْحُسَيْن بن أحمد الْبَصْرِيّ
(3) الْحَسَن بن رضوان الشيباني
اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے. اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
إسناده غير ثابت ولا يرجع منه إلى صحة
(الضعفاء الكبير: 4/96)
امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روي بإسنادين كلاهما باطل
(ميزان الاعتدال: 3/599)
مزید لکھتے ہیں:
الحمل فيه على إسحاق بن بشر الكاهلي، لا بارك الله فيه
(ميزان الاعتدال: 1/186)
مزید امام ذہبی رحمہ اللہ ترتیب الموضوعات میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم
(ترتیب الموضوعات: 51)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري ضعيف جداً وقال العقيلي: ليس للحديث أصل
(لسان المیزان: 2/49)
مزید الاصابة میں لکھتے ہیں:
طريق أبي سلمة محمد بن عبد الله الأنصاري أحد الضعفاء
(الاصابة: 3/594)
ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے. (موضوعات ابن الجوزي: 1/333)
امام شوکانی اس روایت کو موضوع کہتے ہیں. (الفوائد المجموعة: 498)
اسکے علاوہ ابن کثیر، امام بیہقی، امام ابن قیم، ابن حبان، اور القاوقجی رحہم اللہ نے اس روایت پر کلام کیا ہے. کسی نے موضوع تو کسی نے منکر تو کسی نے کچھ اور کہا ہے.
خلاصہ کلام یہ ہیکہ یہ روایت جتنی بھی سندوں سے آئ ہے سب پر کلام ہے. لہذا اسکی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز اور درست نہیں چہ جائیکہ اس سے عقیدہ ثابت کیا جاۓ. کچھ لوگ اس حدیث سے عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب.
غلطی کی صورت میں نشاندہی کریں.
ربنا لا تؤاخذنا ان نسينا أو أخطأنا.
علامہ كمال الدين الدميري (المتوفى: 808هـ) اپنی کتاب حياة الحيوان الكبرى میں أسد الغابة کے حوالے سے لکھتے ہیں:
عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه قال: «كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خارجا من جبال مكة، إذ أقبل شيخ يتوكأ على عكازه فقال النبي صلى الله عليه وسلم مشية جني ونغمته، قال: أجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من أي الجن؟
قال أنا هامة بن الهيم أو ابن هيم بن لاقيس بن ابليس. فقال: لا أرى بينك وبينه إلا أبوين قال: أجل. قال كم أتى عليك؟ قال أكلت الدنيا إلا أقلها، كنت ليالي قتل قابيل هابيل غلاما ابن أعوام، فكنت أتشوف على الآكام وأورش بين الأنام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بئس العمل؟ فقال يا رسول الله دعني من العتب فإني ممن آمن بنوح وتبت على يديه وإني عاتبته في دعوته فبكى وأبكاني وقال: إني والله لمن النادمين وأعوذ بالله أن أكون من الجاهلين ولقيت هودا وآمنت به، ولقيت ابراهيم وكنت معه في النار إذ ألقي فيها، وكنت مع يوسف إذ ألقي في الجب، فسبقته إلى قعره ولقيت شعيبا وموسى، ولقيت عيسى بن مريم، فقال لي: إن لقيت محمدا فاقرئه مني السلام وقد بلغت رسالته، وآمنت بك فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على عيسى وعليك السلام، ما حاجتك يا هامة قال: إن موسى علمني التوراة، وعيسى علمني الإنجيل، فعلمني القرآن. فعلمه». وفي رواية أنه صلى الله عليه وسلم علمه عشر سور من القرآن وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينعه إلينا فلا نراه، والله أعلم، إلا حيا
(حیوۃ الحيوان، باب الجيم: الجن)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں مکہ مکرمہ کے پہاڑوں سے باہر (دور) نکلا۔ یکایک ایک بوڑھے شخص سے سامنا ہوا جس نے اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا رکھا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی چال ڈھال اور آواز جنوں کی سی ہے۔ اس نے کہا ہاں! (آپ کا اندازہ صحیح ہے). تو نبی اکرم صلی علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تم جنوں کے کس گروہ سے ہو. اس نے کہا: میرا نام ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتوں کا فاصلہ دیکھ رہا ہوں. اس نے کہا: ہاں! (آپ کی بات درست ہے). پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عمر دنیا کی عمر سے کچھ سال ہی کم ہوگی۔ جس رات قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا ان دنوں میری عمر چند برس کی تھی۔ میں پہاڑوں میں دوڑتا پھرتا تھا اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیا کرتا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو بہت برا عمل تھا۔ اس جن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ملامت نہ فرمائیے کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور انکے ہاتھوں توبہ کرلی تھی۔ اور دعوت (دین) کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ اس کے بعد وہ جن خود بھی رویا اور ہمیں بھی رلایا۔ اس جن نے کہا اللہ کی قسم میں بہت شرمندہ ہوں اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں۔ اور میں نے حضرت ہود علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لایا۔ اور (اسی طرح) میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی اور جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے اس کنویں میں پہنچ گیا تھا۔ (اسی طرح) میں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی تھی. اور (اسی طرح) میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات کی. اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہاری ملاقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ان کو میری طرف سے سلام کہنا۔ چنانچہ میں نے انکا پیغام پہنچا دیا اور میں آپ پر ایمان لایا.
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام پر سلام ہو اور تجھ پر بھی سلام ہو۔ اے ہامہ تیری کیا حاجت ہے؟ اس جن نے عرض کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے تورات سکھائی تھی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مجھے انجیل سکھائی تھی۔ پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے قرآن سکھا دیجئے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قران مجید کی تعلیم دی.
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جن کو قرآن کی دس سورتیں سکھائی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ۔ لیکن (اس واقعہ کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہامہ کے بارے میں پھر کچھ نہیں فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں -واللہ اعلم- وہ زندہ ہے.
علامہ ابن اثیر رحمہ اسد الغابة میں اس روایت کو کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
وتركه أولى من إخراجه، وإنما أخرجناه اقتداء بهم، لئلا نترك ترجمة
یعنی اسکو ذکر کرنے سے بہتر اسکو ترک کر دینا بہتر ہے اور ہم نے اسکو باقی لوگوں کے ذکر کی وجہ سے اقتداءا اسکو ذکر کر دیا تاکہ اسکا ترجمہ نہ رہ جاۓ. انتہی.
ایک بات غور کرنے کی یہ ہے کہ آخر حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ کیسے پہونچ گۓ؟؟؟ حالانکہ وہ تو انصاری صحابی ہیں.
اس روایت کی سند میں تین مجہول الحال راوی ہیں:
(1) أبو العباس أحمد بن مُحَمَّد الرزاز
(2) أحمد بن الْحُسَيْن بن أحمد الْبَصْرِيّ
(3) الْحَسَن بن رضوان الشيباني
اس روایت کو امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الضعفاء الكبير میں ذکر کیا ہے. اور ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
إسناده غير ثابت ولا يرجع منه إلى صحة
(الضعفاء الكبير: 4/96)
امام ذہبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روي بإسنادين كلاهما باطل
(ميزان الاعتدال: 3/599)
مزید لکھتے ہیں:
الحمل فيه على إسحاق بن بشر الكاهلي، لا بارك الله فيه
(ميزان الاعتدال: 1/186)
مزید امام ذہبی رحمہ اللہ ترتیب الموضوعات میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري قال ابن حبان: يروي عن الثقات ما ليس من حديثهم
(ترتیب الموضوعات: 51)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لسان المیزان میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
[فيه] أبو سلمة الأنصاري ضعيف جداً وقال العقيلي: ليس للحديث أصل
(لسان المیزان: 2/49)
مزید الاصابة میں لکھتے ہیں:
طريق أبي سلمة محمد بن عبد الله الأنصاري أحد الضعفاء
(الاصابة: 3/594)
ابن الجوزي رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے. (موضوعات ابن الجوزي: 1/333)
امام شوکانی اس روایت کو موضوع کہتے ہیں. (الفوائد المجموعة: 498)
اسکے علاوہ ابن کثیر، امام بیہقی، امام ابن قیم، ابن حبان، اور القاوقجی رحہم اللہ نے اس روایت پر کلام کیا ہے. کسی نے موضوع تو کسی نے منکر تو کسی نے کچھ اور کہا ہے.
خلاصہ کلام یہ ہیکہ یہ روایت جتنی بھی سندوں سے آئ ہے سب پر کلام ہے. لہذا اسکی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز اور درست نہیں چہ جائیکہ اس سے عقیدہ ثابت کیا جاۓ. کچھ لوگ اس حدیث سے عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
واللہ اعلم بالصواب.
غلطی کی صورت میں نشاندہی کریں.
ربنا لا تؤاخذنا ان نسينا أو أخطأنا.