• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابلیس کا پڑپوتا

شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49

محترم شاد بھائی۔ ۔
آپ کے لہجے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کی بات اتنی حتمی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ۔۔۔
اور آپ میری طرح عالم بھی نہیں ۔۔۔پھر اتنی سختی تو مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔
صفحات برباد کرنے کی کیا بات ہے ۔۔۔دو بھائی اوردوست کچھ طالب علمانہ سی گفتگو کر رہے ہیں ۔۔۔اور بس۔۔

اگرچہ مجھے کوئی اس مسئلہ پر اصرار نہیں ہے ۔۔۔یہ کوئی عقیدہ یا ضروریات دین کا مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔

لیکن آپ نے جو بات ذکر کی ہے اس پر پھر کچھ طالب علمانہ گزارشات ہیں ۔۔۔
ایسا احتمال میں نے بھی ذکر کیا ہے ۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے معارض بھی بہت کچھ ہے ۔ مثلاََ۔۔
شیطان کوئی الگ مخلوق نہیں ۔بلکہ جن ہیں ۔ابلیس بھی جن ہے ۔
اور ذریت کا معنی اگرچہ نسل یا اولاد ہے ۔۔۔لیکن اس سے ساری مراد لینے کا قرینہ کوئی نہیں ۔۔یہ اتنی حتمی بات نہیں ۔۔اس میں استثنا بھی ہوسکتا ہے
۔۔۔۔اور بعض مفسرین کے نزدیک اس میں ذریت سے مراد اس کے معاون شیاطین ہیں ۔۔۔۔۔اورعرف عام میں بھی ہمارے ہاں ذریت اس معنوں میں مستعمل ہے ۔۔۔
اور ایک دوسری جگہہ قرآن مجید میں ہے ۔۔۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الانعام۱۱۲)
اس میں اور سورۃالناس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔شیطان تو جن میں بھی ہوتے ہیں اور انسان میں بھی ۔۔۔اور وسوسہ اور دشمنی انسانی شیطان بھی کرتے ہیں ۔۔البتہ سارے انسان شیطان تو نہیں ہوتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر قرآن و حدیث سے ہر انسان کے ساتھ ایک قرین۔ہمنشین یا ساتھی۔۔ کا تذکرہ ملتا ہے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے ۔

ما منكم من أحدٍ إلا وقد وكِّل به قرينه من الجن ، قالوا : وإياك يا رسول الله ؟ قال : وإياي ، إلا أن الله أعانني عليه فأسلم فلا يأمرني إلا بخير .
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا جن ساتھی مقرر کیا گیا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا آپ کے ساتھ بھی اے اللہ کے رسول ﷺ۔۔
آپ ﷺنے فرمایا اور میرے ساتھ بھی مگر اللہ نے مجھے اس پر مدد فرمائی تو وہ مسلمان ہو گیا پس وہ مجھے نیکی ہی کا حکم کرتا ہے۔(مسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث مبارکہ میں ۔۔جن۔۔ ساتھی جو ہے ۔۔۔صحیح مسلم میں دوسرے مقام پر اسے شیطان کہا گیا ہے ۔۔۔
اور اس میں اگرچہ امام نوویؒ کے مطابق دو معنی کا احتمال ہے علماء کے نزدیک ۔۔۔۔
لیکن اس حدیث کے الفاظ کہ وہ نیکی کا ہی حکم کرتا ہے ۔۔۔سے اس کو ترجیح ہی ملتی ہے کہ وہ مسلمان ہی ہوگیا تھا۔
اب یہ شیطان یعنی جن مسلمان ہوگیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک اور رخ سے دیکھیں تو بات بالکل ہی اور طرف نکل جاتی ہے ۔ وہ یہ کہ۔۔۔۔
شیخ صالح المنجد ؒ فرماتے ہیں ۔۔۔

وذهب كثير من أهل العلم إلى أن إبليس هو أبو الجن كلهم : مؤمنهم وكافرهم ، فهو أصلهم وهم ذريته : نُقل هذا القول عن ابن عباس ومجاهد وقتادة والحسن البصري وغيرهم .
انظر : "تفسير الطبري" (1/507) ، "الدر المنثور" (5/402)
یعنی اہل علم میں کثیر لوگوں کی ایک جماعت کا یہ خیال ہے کہ ۔۔ابلیس ہی ابو الجن ہے ۔مومن و کافر جنات اسی کی ذریت میں ہیں ۔۔
اور یہ ابن عباسؓ ، مجاہد ؒ ، قتادہؒ ، حسن بصریؒ وغیرھم سے نقل کیا گیا ہے ۔۔۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ۔۔۔فتاوی ۴۔۲۳۵۔۔۔میں فرماتے ہیں۔۔۔۔۔

فَإِبْلِيسُ الَّذِي هُوَ أَبُو الْجِنِّ
اسی طرح بقول شیخ صالح ۔۔۔حافظ ابن قیمؒ بھی یہی فرماتے ہیں ۔۔
حافظ ابن حجرؒ ۔۔۔۔فتح الباری ۶۔۳۶۹۔۔۔میں فرماتے ہیں۔۔

إِبْلِيسَ لِأَنَّهُ أَبُو الْجِنِّ
اور سلفی علماء میں سے ۔۔۔ شیخ ابن بازؒ ۔۔اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں ۔۔۔
والشيطان هو أبو الجن عند جمع من أهل العلم
شیخ ابن عثیمینؒ فرماتے ہیں ۔۔۔۔
لا شك أن إبليس هو أبو الجن۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اہل علم کے اتنے اکابرین کا یہ نظریہ ہے ۔۔۔تو۔۔۔۔جنوں میں مسلمان ہونے کا تو کوئی بھی انکا ر نہیں کر سکتا ۔۔۔
اگرچہ یہ ابوالجن والی رائے پر عقیدہ رکھنا یا مانناضروری نہیں۔۔کیونکہ یہ مسئلہ ضروریات دین کا مسئلہ نہیں ہے ۔۔
لیکن نبی کریمﷺ کے قرین کا مسلمان ہونا ۔۔اور اہل علم کی ایک جماعت کا یہ اوپر والا نظریہ ہے تو پھر ۔۔۔۔یہ حتمی نہیں کہ ابلیس کی ذریت بمعنی صلبی اولاد میں سارے ہی شیطان اور کافر جن ہی ہیں۔۔اور رہیں گے ۔۔
۔واللہ اعلم۔
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
محترم شاد بھائی۔ ۔
آپ کے لہجے سے محسوس ہورہا ہے کہ آپ کی بات اتنی حتمی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ۔۔۔
اور آپ میری طرح عالم بھی نہیں ۔۔۔پھر اتنی سختی تو مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔۔
بھائ جان. ھم سختی نہیں بلکہ نرمی رکھتے ھیں. لیکن ھم آپ دونوں حضرات سے ایک سوال کرتے ھیں کہ کیا آپ دونوں محدث ھیں یا عالم ھیں؟؟؟
علوم حدیث کی کتنی کتابیں آپ دونوں نے پڑھی ھیں؟؟؟
اصول التخریج پڑھی ھے؟؟؟
محدثین کرام کے اسلوب اور منہج کو پڑھا ھے؟؟؟
اگر ھاں تو کیوں مجھے ایسا لگتا ھے کہ آپ دونوں ھی علم حدیث سے اتنے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے؟؟؟
ھم نے اسی لۓ بولا کہ صفحات برباد نہ کریں.
ایسا احتمال میں نے بھی ذکر کیا ہے ۔۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے معارض بھی بہت کچھ ہے ۔ مثلاََ۔۔
شیطان کوئی الگ مخلوق نہیں ۔بلکہ جن ہیں ۔ابلیس بھی جن ہے ۔
یہ ھم کو بھی علم ھے کہ شیطان جنوں میں سے تھا. کان من الجن. لیکن آپ کی باتیں باؤنس جا رھی ھیں.
اور ذریت کا معنی اگرچہ نسل یا اولاد ہے ۔۔۔لیکن اس سے ساری مراد لینے کا قرینہ کوئی نہیں ۔۔یہ اتنی حتمی بات نہیں ۔۔اس میں استثنا بھی ہوسکتا ہے
۔۔۔۔اور بعض مف
ھم نے ایک سیدھی سادی آیت پیش کر دی ھے. اور اس سے ھم نے استدلال بھی بتا دیا. اب استثنا تو آپ ثابت کریں گے ھم نہیں.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
ھم خود علم حدیث کا زیادہ علم نہیں رکھتے اس لۓ ھم محدثین کے اقوال کو دیکھتے ھیں. تھوڑا بہت جو علم ھے اس کی روشنی میں جس کی بات ھمیں درست معلوم ھوتی ھے لے لیتے ھیں.
رھی بات اس حدیث کی تو ھماری نظر میں اس حدیث پر صحیح ھونے کا حکم لگانے والے کوئ بھی محدث موجود نہیں ھیں. اس لۓ یہ حدیث ضعیف ھے.
 
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
234
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
52
باقی ھم اگر اس حدیث کے متن پر اعتراض کریں گے تو ھمارا فہم ناقابل قبول قرار پاۓ گا جیسا کہ ابھی ھوا. اس لۓ ھم کچھ بھی عرض کرنے سے قاصر ھیں.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
معافی چاہتا ہوں. لیکن میں ان دنوں بیمار ہوں. اسلۓ اکثر فورم سے غائب رہتا ہوں.
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
بھائ جان. ھم سختی نہیں بلکہ نرمی رکھتے ھیں. لیکن ھم آپ دونوں حضرات سے ایک سوال کرتے ھیں کہ کیا آپ دونوں محدث ھیں یا عالم ھیں؟؟؟
علوم حدیث کی کتنی کتابیں آپ دونوں نے پڑھی ھیں؟؟؟
اصول التخریج پڑھی ھے؟؟؟
محدثین کرام کے اسلوب اور منہج کو پڑھا ھے؟؟؟
اگر ھاں تو کیوں مجھے ایسا لگتا ھے کہ آپ دونوں ھی علم حدیث سے اتنے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے؟؟؟
ھم نے اسی لۓ بولا کہ صفحات برباد نہ کریں.

یہ ھم کو بھی علم ھے کہ شیطان جنوں میں سے تھا. کان من الجن. لیکن آپ کی باتیں باؤنس جا رھی ھیں.

ھم نے ایک سیدھی سادی آیت پیش کر دی ھے. اور اس سے ھم نے استدلال بھی بتا دیا. اب استثنا تو آپ ثابت کریں گے ھم نہیں.
ارے بھائی ۔ پہلی بات تو یہ ہے مجھے اپنا بھائی اور دوست سمجھیں ۔
اور میں واقعی علم حدیث سے واقفیت نہیں رکھتا ۔ بالکل جاہل ہوں ۔۔۔اسی لئے اگر کہیں گفتگو میں حصہ لوں بھی تو محدثین اور علماءسے نقل ہی کوشش کرتا ہوں ۔۔اگرچہ اس میں بھی یہاں علماء دوست میری غلطیاں نکالتے رہتے ہیں ۔۔اللہ ان کو جزا دے۔۔
ابھی جیسا کہ آپ نے کہا کہ استثنا تو آپ ثابت کریں گے۔ہم نہیں ۔ ۔
میں نے اسی کے لئے یہ مضمون لکھا ۔۔لیکن آپ نے یہ کہا کہ یہ باتیں باؤنس چلی گئیں ۔۔کوئی بات نہیں ۔۔میں چونکہ واقعی میں جاہل ہوں اس لئے شاید بات اپنی سمجھا نہیں سکا ۔
اس لئے بس اب اتنی گزارش ہے حدیث کے چاہے ضعیف ہونے کا ہی نظریہ رکھیں ۔۔۔لیکن ابھی جو آپ نے آیت کا معنی بیان کیا ہے ۔۔۔اگر اسی فورم پہ آپ کو کسی عالم پہ بھروسا ہے یا جس پر بھی ہے ۔۔۔ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں ۔۔چونکہ جیساکہ آپ نے بھی فرمایا کہ آپ بھی عالم نہیں ۔۔تو اس کے معانی مطلب استثناء کسی عالم سے پوچھ لینا چاہییں ۔۔جزاکم اللہ خیرا۔
میں آپ کا بھائی بھی ہوں ۔اور دوست بھی ۔۔اس لئے کوئی بات دل میں نہ رکھئے گا۔۔۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
ارے بھائی مجھے جرح کیوں نہیں لگتی
پھر؟؟؟
ابن کثیرؒ اور ابن قیمؒ کے نزدیک یہ موضوع ہی ہوگی۔
میرے علم کے مطابق تو موضوع ہی ہے. واللہ اعلم بالصواب
لیکن ان کا کلام الگ ہے ۔۔
اورامام بیہقیؒ ، اور ابن حجرؒ ۔۔۔کا الگ۔۔
تو میں نے کب سب کا کلام ایک کر دیا؟
ابن کثیرؒ اور بیہقیؒ کو ایک ساتھ ذکر نہ کیجئے
میں نے الگ ہی ذکر کیا ہے.
ابن کثیرؒ کے کلام کا بیہقیؒ پر کوئی اثر نہیں ۔۔۔اگر آپ کو دونوں کے کلام میں فرق نظر نہیں آرہا تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں ۔
جناب عالی!
اتنے واضح الفاظ میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہ رہے ہیں کہ
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسکو ذکر کیا ہے. اور یہ حدیث سخت غریب بلکہ منکر یا موضوع ہے.
میری نظر میں یہ جرح ہے. اور وہ بھی امام بیہقی رحمہ اللہ والی حدیث پر.
ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اتنے واضح الفاظ آپ کو کیوں نہیں دکھ رہے؟ آپ کو یہ مبہم لگتے ہیں. مزید آپ کہتے ہیں کہ کچھ کے سامنے بیہقی والا طرق موجود نہیں تھا. فیا للعجب!
اگر کوئی سوال پوچھے کے بھئی ابن کثیرؒ نے اس کو موضوع تک کہا ۔تو انہوں نے کیوں کہا۔۔؟
اس کا ۔۔۔۔عمربھائی ۔۔میں کیا جواب دوں ۔۔کیونکہ انہوں نے خود نہیں دیا ؟
اسکا جواب انھوں نے خود دیا ھے وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا
اب آپ یہ نہ کہیۓ گا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے سامنے بھی بیہقی والا طرق نہ تھا.
حدیث پر حکم کے سلسلہ میں ائمہ پر اعتماد کا تو میں بہت بڑا حمایتی ہوں ۔۔ ۔لیکن اگر ائمہ میں اختلاف ہو تو پھر تو سوال کیا جاسکتا ہے
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جناب عالی میرے علم میں کوئ محدث ایسا نہیں ہے جس نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہے. اگر آپ کے علم میں ہو تو آپ بتائیں. لیکن آپ نے مجھے نہیں بتایا. اور اب کہ رہے ہیں کہ اختلاف ہے؟؟؟؟ فیا للعجب!
حضرت عمرؓ سے مروی روایت کا دارومدار۔۔۔بقول بیہقیؒ ، اور ابن حجرؒ ۔۔۔ابو معشرؒ پر ہے ۔۔۔
ہاں تو اسمیں اختلاف والی بات کیا ہے؟؟؟
اب ابو مشعرؒ ۔۔۔سے مغازی وغیرہ میں ۔۔۔ابن کثیرؒ ۔۔۔تفسیر ، اورالبدایہ میں کثرت سے نقل کرتے ہیں۔۔
تاریخ میں ایک راوی ہے. نام یاد نہیں آرہا. جس سے بھی لوگوں نے بکثرت روایات کی ہیں. تو کیا.....
میں مختلف مقامات سے دوسری قسم کی ابو معشرؒ کی مرویات سے متعلق ۔۔۔ابن کثیرؒ کا طرز عمل نقل کرتا ہوں۔

ایک جگہہ ایک روایت بیان کر کے ان کے بارے میں ۔۔تفسیر میں۔۔۔فرماتے ہیں۔۔


أَبُو مَعْشَرٍ هُوَ نَجِيحُ بْنُ عَبْدِ الرحمن المدني إمام الْمَغَازِي وَالسِّيَرِ، وَلَكِنْ فِيهِ ضَعْفٌ،
معلوم نہیں آپ اس بات سے کیا کہنا چاہتے ہیں. وضاحت کیجۓ گا تو حوالہ بھی دے دیجۓ گا.
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، قَالَ: كَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلّم
وَهَذَا مُرْسَلٌ، وَلَهُ شَوَاهِدُ مِنْ وُجُوهٍ أُخَرَ


ایک اور جگہہ ایک روایت کے سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں۔۔۔۔
معلوم نہیں آپ اس بات سے کیا کہنا چاہتے ہیں. وضاحت کیجۓ گا تو حوالہ بھی دے دیجۓ گا.
طَرِيقٌ أُخْرَى مُرْسَلَةٌ أَيْضًا قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَّ الْأَجَلَيْنِ قَضَى مُوسَى؟ قَالَ:
«أَوْفَاهُمَا وَأَتَمَّهُمَا»
فَهَذِهِ طُرُقٌ مُتَعَاضِدَةٌ،
ایضا
یہ بعد کی روایات مرسل ہیں ۔اب ایک تو مرسل اوپر سے راوی ابو معشر۔۔۔
لیکن پھر بھی وہ پہلی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کے دوسرے شواہد بھی ہیں ۔۔۔یہ جملہ حدیث کی تقویت کے لئے ہی بولا جاتا ہے ۔ اور موضوع کو شواہد سے کوئی تقویت نہیں ملتی نہ موضوع خود شاہد بن سکتی ہے ۔
اور دوسری جگہہ کی مرسل روایت میں انکی روایت کو ۔۔طرق متعاضدہ۔۔۔وہ جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں ۔۔۔میں سے بتاتے ہیں ۔۔
یہ بعینہ وہی بات ہے ۔۔یشد بعضہ بعضا۔۔۔والی۔۔
شاید آپ ان روایات کو ذکر کر کے یشد بعضہ بعضا والے اصول کے تحت زید بحث روایت کو بھی حسن قرار دینا چاہتے ہیں.
مجھے یقین جانۓ حد درجہ حیرت ہے آپ کے اس عمل پر. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول زیر بحث حدیث پر واضح ہے. لیکن پھر بھی آپ کا یہ عمل مجھے حیرت زدہ کر رہا ہے. اور حد ردرجہ افسوس بھی ہے.
اسی لئے اگر مجھے ابن کثیرؒ کا کلام مبہم نظر آ رہا ہے ۔۔یا اس کی یہ توجیہہ کر رہا ہوں کہ ان کو اس کا متن اوپرا لگ رہا ہے ۔ توپھر میں کہاں پہ کمی یا زیادتی کر رہا ہوں۔
اگر یہ بات تھی جیسا کہ آپ نے ذکر کیا (یشد... والا اصول) تو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ زیر بحث روایت پر بھی یہی قاعدہ لاگو کرتے.
اسی لۓ کہا تھا کہ اتنی واضح جرح کے باوجود آپ اسکو مبہم قرار دے رہے ہیں. یہ عجیب بات ہے.
مزید آپ امام بیہقی رحمہ اللہ کے اقوی منہ کہنے سے حسن لغیرہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں. حالانکہ مبہم تو انکا قول ہے. کیونکہ انھوں نے سند ہی نہیں ذکر کی بس اقوی منہ کہ دیا.
مزید بقول آپکے امام بیہقی رحمہ اللہ کے سامنے سند تھی (حالانکہ انھوں نے سند ہی نہیں ذکر کی) اس لۓ زیر بحث روایت تقویت پا کر حسن لغیرہ ہو جاتی ہے. لیکن میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی نظر میں حسن لغیرہ والا قاعدہ یقینا تھا تو انھوں نے کیونکر حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا.
محترم بھائ!
آپ واضح تصحیح نقل کر دیں. مبہم بات نہ کریں. میں یہی چاہتا ہوں بس.
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
عمر بھائی مجھے لگتا ہے ۔ کہ میں اپنی ہی پوسٹوں پہ ۔۔تکرار ۔۔۔کا ٹیگ ۔۔۔پریس کردوں ۔
لیکن اپنی بات آپ تک نہ پہنچ پانے کے لئے ۔۔بے علمی کا ہی عذر پیش کر سکتا ہوں ۔۔
ایک بار اور کوشش کرتا ہوں ۔صرف ایک بات عرض کرنے کی۔
بھائی آپ طالبعلم ہیں ۔ اس لئے آپ کے علم میں ہی ہوگا کہ ۔۔۔جرح مبہم ۔۔کہتے ہیں جس میں سبب بیان نہ کیا جائے کہ ۔۔جارح کی جرح کی وجہ اور سبب کیا ہے ۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلوم نہیں آپ میری تمام تحریریں پڑھی بھی ہیں یا نہیں ۔۔۔یا کچھ وقت زیادہ گزر گیا۔۔۔اس لئے دوبارہ پوسٹ سے نقل کرتا ہوں ۔۔کہ ابن جوزیؒ نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع لَا يشك فِيهِ.
یہ بالکل واضح الفاظ تو ہیں لیکن اس میں سبب اور وجہ کیا ہے ۔۔؟
وہ ابن جوزیؒ نے بتائی ہے ۔کہ اس میں ایک راوی ہے وہ کذاب ہے اور وہ حدیث وضع کرتا تھا۔۔
فَأَما طَرِيق ابْن عمر فالحمل فِيهِ عَلَيْهِ إِسْحَاق بن بشر كَذَلِك قَالَ الْعقيلِيّ،
وَقد اتَّفقُوا على أَنه
كَانَ كذابا يضع الحَدِيث
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ۔۔۔ابن کثیرؒ ۔۔نے بیہقیؒ کی حدیث کے بارے میں جو فرمایا ہے ۔۔۔
وقد أورد الحافظ أبو بكر البيهقي هاهنا حديثا غريبا جدا بل منكرا أو موضوعا
اور آپ جو اس کو اتنا واضح کہہ رہے ہیں ۔۔۔
اس میں۔۔ ولکن مخرجہ عزیز ۔۔کیا الفاظ ہیں ؟
اور ان کی جرح کے الفاظ کاسبب کیا ہے ۔؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
معلوم نہیں آپ میری تمام تحریریں پڑھی بھی ہیں یا نہیں
شکریہ جناب عالی!
کیا کروں. جاہل ہوں اس لۓ پڑھ نہ سکا ہوں.
بس ختم کرتا ہوں. میری پہلی پوسٹ میں اگر کوئ غلطی ہو تو بتائیں. باقی بحث سے میں معذور ہوں.
میری نظر میں ابن جوزی، امام ذہبی، امام عقیلی وغیرہم کا قول ہی راجح ہے. آپ شوق سے حسن لغیرہ قرار دیں.

والسلام
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
عمر بھائی ۔ یہ جملہ آپ کو برا لگا ہے تو اس کے لئے معزرت خواہ ہوں ۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میری پہلی تحریر میں ہی یہ بات ہے کہ ۔۔۔
’’بعض کے پیش نظر بیہقیؒ کی سند نہیں ہے ۔
البتہ حافظ ابن حجرؒ نے اس کا ذکر کیا ہے ۔
اورابن کثیرؒ کے پیش نظر بھی بیہقیؒ کا طریق ہے ‘‘
اور میں نے ایک ایک کر کے سب کو علیحدہ علیحدہ نام لے کر بتایا ہے کہ کس کس کے سامنے یہ طریق تھا اور کس کے سامنے نہیں تھا۔ اور اس کو ثابت بھی کیا ہے ۔
اس کے باوجود آپ دو بار کہتے ہیں ۔

ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی. حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اتنے واضح الفاظ آپ کو کیوں نہیں دکھ رہے؟ آپ کو یہ مبہم لگتے ہیں. مزید آپ کہتے ہیں کہ کچھ کے سامنے بیہقی والا طرق موجود نہیں تھا. فیا للعجب!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ یہ نہ کہیۓ گا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے سامنے بھی بیہقی والا طرق نہ تھا.
لیکن میں نے ساتھ ہی یہ بھی تو کہا ہے کہ چونکہ وقت زیادہ گزر گیا اس لئے شاید پچھلی پوسٹ کی ہر بات مستحضر نہ رہی ہو۔۔۔بیشک ایسا ہو جاتا ہے ۔پچھلی پوسٹ کو باربار کوئی نہیں پڑھتا۔۔
 
Top